تبدیلی کا سفر ابھی جاری ہے

پاکستان تحریک انصاف کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل اورمعروف کالم نگارمصدق گھمن جوہمارے دوست بھی ہیں وہ اپنے گزشتہ کالم میں لکھتے ہیں کہ بعض معاشرے اپنی اقدار کے بارے میں بڑے حساس ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارا شمار ان معاشروں میں نہیں ہے۔ رفتہ رفتہ وہ تمام معاشرتی برائیاں ہمارے لئے نان ایشو بنتی جا رہی ہیں جنہیں مہذب معاشروں میں انتہائی برا سمجھا جاتا ہے۔ جھوٹ' دھوکہ دہی' بدعنوانی ہمارے نزدیک کوئی بڑی برائی نہیں رہی ہے' بنیادی ہدف کامیابی ہے بھلے اس کیلئے جھوٹ'دھوکہ دہی' بدعنوانی سمیت کوئی بھی مذموم رویہ کیوں نہ اختیار کیا جائے۔ کیا اہل سیاست اور کیا عوام ہر طرف ایک جیسا ماحول ہے۔مصدق گھمن کے یہ جملے دراصل موجودہ حالات کی عکاسی کررہے ہیں پی ٹی آئی حکومت نے جھوٹ ،دھوکہ دہی ،بدعنوانی کی جونئے ریکارڈ قائم کیے اس کی مثال نہیں ملتی ،
ملکی سیاست کاہی جائزہ لیں توگزشتہ چندسالوں میں ہمارے ملک میں جوسیاسی انحطاط ہواہے شایدہی ماضی میں کبھی ہواہوسیاست اورسیاستدانوں کوگالی بنادیاگیاہے یہ واحدحکومت ہے کہ جواپنے ترجمانوں کومخالفین کوزچ کرنے کے لیے برانگیختہ کرتی ہے اورجوترجمان سیاسی مخالفوں کے خلاف جس حددرجے کی گری ہوئی زبان اورجملے استعمال کرتاہے اسے سونمبردیے جاتے ہیں بلکہ اس کے لیے سرکاری خزانے سے پوری ٹیم رکھی ہوئی ہے جومخالفین کوزچ کرنے کے لیے مواد اورویڈیوزتیارکرکے ترجمانوں کے حوالے کرتے ہیں اس کے جواب میں سیاسی مخالفین بھی اسی اندازمیں جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں اورپھریہ تماشاپوری قوم دیکھتی ہے۔

پی ٹی آئی نے اقتدارمیں آنے کے لیے ملک کی ساری سیاسی قیادت اورنظام کوکرپشن زدہ قراردیااوریہ باورکروایاکہ وہ مروجہ سیاستدانوں سے بالکل مختلف ہیں مگرجب پی ٹی آئی اقتدارمیں آئی توپتہ چلاکہ بہان متی کایہ جوقبیلہ جوڑاگیاہے اس نے توتمام سیاسی جماعتوں کومات دے دی ہے ، جھوٹ اورمذموم رویے کی بات کی جائے تویہ ورلڈکپ پی ٹی آئی اپنے نام کرچکی ۔ ،پہلے والے حکمران اگرجھوٹ بولتے تھے یاعوام کودھوکہ دیتے تھے توکم ازکم شرمندہ توہوتے تھے مگریہ جھوٹ بھی اس ڈھٹائی سے بولتے ہیں کہ چہرے پراس کے آثاربھی نہیں چھوڑتے ۔

مصدق گھمن کادکھ پوری قوم کادکھ ہے موجودہ رجیم نے اقداروروایات کاجنازہ نکال دیاہے ایساسیاسی کلچرمتعارف کروایاہے کہ شرفاء کانوں کوہاتھ لگارہے ہیں پگڑیاں اچھالنا،الزام لگانا،بہتان تراشی ان کاوطیرہ ہے اخلاقی زوال آخری حدوں کوچھورہاہے معاشرتی برائیوں کو واقعی برائی نہیں سمجھاجارہاجب قوم کاحاکم سرعام جھوٹ بولے قوم سے کیے گئے وعدوں سے انحراف (یوٹرن )کرے تواس قوم کی اخلاقیات کی کیاحالت ہوگی ؟جب ایسااقتدارہی مقصود ہوجس میں اختیارنہ ہواوریہ اقتدارحاصل کرنے کے لیے بھی مذموم رویے اختیارکیے گئے ہوں توپھرایسے حکمرانوں سے کیاتوقع رکھی جائے گی کہ وہ مہذب معاشرہ تشکیل دینے میں کوئی کرداراداکریں گے ؟

گھمن صاحب اگلی مرتبہ یہ ضرورلکھیں گے کہ قوم کے ساتھ دھوکہ کیاگیاتبدیلی کے نام پرجوسہانے خواب دکھائے گئے تھے وہ فریب تھا آج ملک کی جوحالت ہے اس کی ذمے داری سابقہ حکمرانوں پرڈال کرپی ٹی آئی بری الذمہ نہیں ہوسکتی ،بے روزگاری اورمہنگائی کی وجہ سے عوام خودکشیوں پرمجبورہیں ایک رپورٹ کے مطابق خط غربت سے نیچے جانے والوں کی تعداد میں 30فیصد اضافہ ہوا ہے اور بیروزگاری میں اضافے کی شرح 50 بتائی جا رہی ہے،ڈالرکی اڑانیں رک نہیں پارہی ہیں ،چینی اورآٹے کی قیمتیں غریب کی پہنچ سے دورہیں گردشی قرضے کئی گنابڑھ گئے ہیں ،مہنگائی کاریکارڈعمران خان قائم کرچکے ہیں مگرحیرت ہے کہ پی ٹی آئی حکومت اوران کے ترجمان آئے روزیہ بتاتے ہیں کہ مہنگائی کم ہورہی ہے ،پٹرولیم مصنوعات میں دس روپے اضافے کی سمری پروزیراعظم اس قوم پراحسان کرتے ہوئے تین روپے فی لٹراضافہ کرتے ہیں تاکہ غریب آدمی ایک دم پہاڑتلے نہ آئے آہستہ آہستہ اس کے بدن سے روح کھینچی جائے ،

موجودہ حکومت کے دورمیں ملکی سطح سے لے کر عالمی سطح تک کون سی رسوائی ہے جوہمارے مقدرمیں نہیں آئی ،حکومت کاایک ہی وطیرہے کہ کرپشن اورلوٹ مارکی داستانیں سناسناکرقوم کوگمراہ کیاجائے اورحکومت نے اس آڑمیں کرپشن اورلوٹ مارکے ایسے ریکارڈقائم کیے کہ ہم دوسالوں میں کرپشن میں ترقی کرتے ہوئے 117ویں نمبرسے 124ویں نمبرپہنچ چکے ہیں اورپھربھی انصافی حکومت کادعوی ہے کہ انہوں نے کرپشن ختم کردی ہے ،پی ٹی آئی کے دور حکومت میں کرپشن کا مرض چھوت کی طرح معاشرے میں پھیل رہاہے ، بدعنوانی اور نااہلی حکومت کاٹریڈ مارک بن گیاہے ۔ وزارت سے کرپشن کے الزامات کی وجہ سے فارغ ہونے والے کوپارٹی سیکرٹری جنرل کاعہدہ دے کرکرپشن ختم کرنے کی نئی مثال قائم کردی گئی ۔

مافیازکوسرکاری چادرمیں چھپادیاگیاہے چھپایاہی نہیں گیابلکہ سینٹ ٹکٹ بھی دیے گئے ہیں جن سرمایہ داروں کویہ ٹکٹ دیئے گئے ہیں ان کاپی ٹی آئی سے کیاتعلق ہے ؟اورقوم کوخفیہ ووٹنگ کی بجائے اوپن ہینڈکالولی پاپ دیاجارہاہے جوجماعت مصدق گھمن جیسے ورکروں کوٹکٹ دینے کی بجائے سرمایہ داروں کونوازتی ہے،جوپارٹی ٹکٹ دینے میں انصاف سے کام نہیں لیتی وہ سینٹ الیکشن میں اوپن ہینڈکامطالبہ کررہی ہے یہ قوم کے ساتھ عجیب مذاق نہیں ؟کیااس دھاندلی کے خلاف عمران خان کوئی آرڈیننس پاس کریں گے ؟

حکومت کی یہ پالیسیاں برقراررہیں توہمیں بے روزگاری کے عفریت کاسامناکرناپڑے گا ایک خبرکے مطابق وفاقی وزارتوں اور ڈویژنز میں گریڈ ایک تا 16 کی 70 ہزار خالی آسامیاں ختم کرنے کی تیاری کر لی گئی ہے۔ اس کے علاوہ وفاقی حکومت کے 117 ادارے ختم اور ضم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔نئے پاکستان میں پچاس لاکھ گھراورایک کروڑنوکریاں دینے کااعلان بھی عوام کے لیے خوفناک ثابت ہواتجاوزات اورسیاسی انتقام میں لوگوں کوبے گھرکردیاگیا البتہ بنی گالہ کاایک گھرکوریگورلائزکردیاگیااورایک کروڑنوکریوں میں سے وافرحصہ ایسے کرائے کے ترجمانوں کودے دیاگیاہے جوملکی شہری بھی نہیں ہیں،

حکومت نے آزادی اظہار رائے سے لے کر عدلیہ کی آزادی، آئینی وفاقی نظام، پارلیمانی نظام کی حاکمیت اور شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کو سلب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ نیب کا اپوزیشن کو ہراساں کرنے اور دبانے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال جاری رکھا ہوا ہے۔ اعلی عدلیہ کے متعدد فیصلوں، یورپی یونین کی آبزرویشن اور ہیومن رائٹس واچ کے اعلامیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان کی حکومت احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین سے بدلہ لے رہی ہے اور ان پر ظلم ڈھا رہی ہے ۔قانون سازی کے مرحلے میں پارلیمنٹ اور اس کی متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو کئی بار نظر انداز کیاگیا۔ مخصوص مقاصد کے لیے میڈیا کو معاشی نقصان پہنچانا جاری رکھا ہوا ہے اور اپوزیشن رہنماؤں کے انٹرویوز تک سینسر کرائے جاتے ہیں۔ میڈیا کے اداروں کو مجبور کیا گیا کہ وہ صحافیوں کو ملازمتوں سے برطرف کریں۔

کشمیرکی تقسیم سے لے کرمعیشت تباہ تک ،فارن فنڈنگ کیس سے براڈشیٹ معاملے تک ،چینی آٹے بحران سے بجلی اورپٹرول کی قیمتوں میں آئے روزاضافے تک عام آدمی بھی سمجھتا ہے حکمران صرف نااہل ہی نہیں بلکہ احساس سے بھی خالی ہیں لوٹ مار، کرپشن ،جھوٹ ،دھوکہ دہی ،بدعنوانی اور مہنگائی کی وجہ سے عام آدمی کے لئے دو وقت کی روٹی بھی مشکل ہو چکی ہے ، مگر وزیر اعظم سے لیکر ترجمانوں تک جھوٹ کا طوفان بپا ہے جو عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے ، ڈھٹائی کی حد یہ ہے کہ ہر ناکامی کی ذمہ داری سابق حکومتوں پر ڈال دی جاتی ہے ، سوال تو یہ ہے کہ اڑھائی سال بعد بھی اگر حکومتی پالیسیوں کی ذمہ دار سابق حکومتیں ہی ہیں تو یہ کیا کر رہے ہیں ؟ ۔

 

Umer Farooq
About the Author: Umer Farooq Read More Articles by Umer Farooq: 129 Articles with 81685 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.