خدارا باقیوں کو روک لو

وہ میرا دور پار کا رشتے دار ہے، کوئی بیس سال پہلے اس کے والد کا قتل ہوگیا جس کا بدلہ بھی اس نے لے لیا، کچھ ملزمان پکڑے گئے اور کچھ ملزمان کو اس نے خود اپنے ”دوستوں“ کی مدد سے دنیا سے رخصت کردیا۔ جن لوگوں سے دشمنی تھی انہوں نے بھی اس کا پیچھا نہ چھوڑا اور ایک وقت ایسا آیا کہ اس کو جان بچانے کے لئے پاکستان چھوڑنا پڑا، یہاں اس کی فیملی کی ایک چھوٹی سی انڈسٹری تھی، اس نے وہ راتوں رات بیچی اور پاکستان سے ہجرت کر گیا، یہ شائد 2003 کی بات تھی۔ کچھ عرصہ بعد یہ پتہ چلا کہ وہ ملائشیا میں شفٹ ہوچکا ہے اور وہاں اس نے وہی بزنس شروع کررکھا ہے جو یہاں تھا یعنی وہی انڈسٹری وہاں لگا لی ہے جس کا اس کو تجربہ تھا۔ بعد میں کچھ لوگوں کو بیچ میں ڈال کر اس نے ان لوگوں سے صلح کرلی جن سے دشمنی تھی، اب وہ ملائشیا میں اپنا کاروبار کررہا ہے اور بہت مطمئن بھی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ میں گیا تو جان بچانے کے لئے تھا لیکن اللہ نے میرا دانہ پانی ملائشیا میں لکھا ہوا تھا، اس کے بقول ملائشیا کے حالات پاکستان کی نسبت بہت اچھے ہیں،وہاں نہ صرف جان ، مال و آبرو کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے بلکہ سرمایہ کاری بھی محفوظ ہے، اس کے بڑے بچے وہیں زیر تعلیم ہیں جبکہ بیگم اور چھوٹے بچے پاکستان میں ہیں، اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ اس کی والدہ پاکستان سے جانے کو تیار نہیں ورنہ وہ پوری فیملی سمیت وہاں سیٹل ہونا چاہتا ہے۔

یہ کسی ایک پاکستانی کی کہانی نہیں ہے بلکہ اس وقت پاکستان کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کم از کم ہر دوسرا پاکستانی کہیں ”باہر“ جانے کی خواہش رکھتا ہے یہاں تک کہ لوگ اب روزگار کے لئے افغانستان تک کا رخ کررہے ہیں۔ یہ تمام لوگ اس پاکستان کے شہری ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہر نعمت سے بہرہ مند فرمایا ہے۔ معدنی ذخائر کی دولت سے مالا مال یہ وہ سرزمین ہے جہاں کے لوگ محنت و مشقت بھی کرتے ہیں، زمین کا سینہ چاک کرکے فصلوں کی صورت رزق تلاش کرتے ہیں لیکن جان بچانے کے لئے یہاں سے بھاگ رہے ہیں۔ کراچی کے سمندروں سے لے کر سیا چین کی برف پوش چوٹیوں تک اور سرحد کے مرغزاروں سے لے کر بلوچستان کے تیل اور گیس سے بھرپور ذخائر تک، پنجاب کے لہلہاتے کھیتوں سے لیکر گوادر کی قدرتی بندرگا ہ تک، کیا کچھ نہیں جو قدرت نے ہمیں ودیعت نہیں کیا لیکن اس کے باوجود اس ملک کے سرمایہ کار کبھی دبئی جاتے ہیں تو کبھی انگلینڈ اور کبھی ملائشیا، یہاں تک کہ وہ بھارت میں بھی سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہیں۔

ملائشیا نے 2002 ءمیں ”مائی سیکنڈ ہوم پروگرام“ کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا تھا جس کے تحت 50سال سے کم عمر کے افراد کیلئے 3 لاکھ ڈالر ملائیشیا منتقل کرنے یا بینک اکاؤنٹ میں رکھنے پر 10 سال تک ملائیشیا میں رہائش کے ساتھ دیگر سہولتیں دینے کی پیشکش کی گئی تھی، اس پروگرام کا رسپانس بہت اچھا رہا، پاکستان دنیا کے ان پہلے 10 ممالک میں شامل ہے جنہوں نے اس پروگرام میں دلچسپی لی ہے اور اب تک تقریباً 700پاکستانی پروگرام کا حصہ بن چکے ہیں۔ اس پروگرام کے تحت ملائشیا میں سرمایہ کرنے والے پاکستانیوں کی اکثریت کا تعلق کراچی سے ہے جبکہ ملک کے طول و عرض سے بھی لوگ شامل ہیں۔ ان سات سو پاکستانیوں نے 2002ءسے اب تک ایک کھرب 80 ارب روپے ملائشیا منتقل کئے ہیں۔

یہ وہ 700 پاکستانی ہیں جو وہاں یا تو انڈسٹری لگا چکے ہیں یا دوسرے کاروبار کررہے ، خود بھی کما رہے ہیں اور ملائشیا کو بھی کما کر دے رہے ہیں، یہ وہ سات سو پاکستانی ہیں جو یہاں بھی ، اپنے ملک میں بھی یہ سب کچھ کرسکتے تھے اور ان سات سو پاکستانیوں کی اکثریت کا تعلق کراچی سے ہے، کراچی وہ شہر ہے جو ان سات سو پاکستانیوں کے بغیر بھی اس وقت ملک کو سب سے زیادہ ریونیو دے رہا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو اگر اس ملک میں رہ پاتے تو یقیناً وہ ہزاروں دوسرے لوگوں کے روزگار کی وجہ بنتے اور اس عرصہ میں کروڑوں روپے حکومت کو ٹیکس بھی دیتے، یہ کراچی شہر کے وہ لوگ ہیں جن کو آئے روز کسی نہ کسی تنظیم اور کسی نہ کسی بھتہ خور کمپنی سے دھمکیاں وصول ہوتی تھیں، یہ وہ لوگ جو اپنے بچوں کو سکول بھیجتے ہوئے ڈرتے تھے، جو خود اپنے دفتر یا کاروبار کی جگہ جاتے ہوئے خوف کا شکار رہتے تھے، جو اپنے آپ کو نہ تو گھر میں محفوظ خیال کرتے تھے اور نہ ہی کسی اور جگہ! یہ وہ سرمایہ دار پاکستانی ہیں جو پیسے سے پیسہ بنانے کے فن سے آشنا ہیں اور ملائشیا میں رہ کر دن رات اپنی جھولیاں سیم و زر سے بھر رہے ہیں۔

ان لوگوں نے ملائشیا ہجرت کیوں کی؟ اپنے ماں باپ اور عزیز و اقارب کو چھوڑ کر وہاں کیوں منتقل ہوگئے؟ اپنی دوستیاں اور محبتیں کیوں چھوڑ گئے؟ اپنا سرمایہ وہاں کیوں لے گئے، گھر سے بے گھر کیوں ہوگئے؟ ان سوالوں کے جواب تلاش کرنا اتنا مشکل بھی نہیں۔ پاکستان میں حکومت تو ہے لیکن نہ تو اس کی عملداری ہے اور نہ کسی قسم کی گورننس، گڈ اور بیڈ کی بات تو بعد کی ہے۔ جب دن دیہاڑے لوگوں کو تاوان کے لئے اغواء کرلیا جاتا ہو، کراچی جیسے بڑے شہر میں لوگ امن و امان کا نام ہی بھول چکے ہوں، جہاں ٹارگٹ کلنگ ایک معمول بن جائے ، جہاں سیاسی جماعتیں بھتہ خوروں کی شکل اختیار کرلیں، جہاں شہر پر قبضے کی جنگ جاری ہو اور جہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی نہتے لوگوں کو سرعام گولیوں سے بھوننا شروع کردیں، وہاں پر کوئی سرمایہ کار چاہے وہ کتنا ہی محب وطن کیوں نہ، چاہے اس کی جڑیں اس دھرتی سے کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہوں، وہ سرمایہ کاری نہیں کرسکتا، جان بچانے کی سوچ انسانی جبلت ہے، قدرت کا قانون ہے، کیونکہ اگر جان ہے تو جہان ہے کا فارمولا یونیورسل اہمیت کا حامل ہے، اور جب کسی کے بچوں کی جان کو خطرہ ہو تو تو اسے کوئی حب الوطنی اور دھرتی کی پکار نہیں روک سکتی۔ جو لوگ اپنی جان بچانے کے لئے جنم دینے والی ماں کو چھوڑ سکتے ہوں وہ دھرتی ماں کو کیوں نہیں چھوڑ سکتے۔ جہاں حکومت اپنے اللوں تللوں کو قائم ، دائم اور جاری رکھنے کے لئے عوام اور سرمایہ کاروں سے صرف”لینا“ جانتی ہو ، جہاں ان سرمایہ کاروں کو جنگل کے قانون اور بھیڑیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہو وہاں وہ لوگ کیسے گزر بسر کرسکتے ہیں۔ وہ لوگ اس سوچ میں حق بجانب ہیں کہ اگر وہ یہاں محفوظ نہیں، ان کے بچے محفوظ نہیں، ان کی سرمایہ کاری محفوظ نہیں، وہان سے جان بچا کر نکل جانے میں ہی عافیت ہے، اور کوئی بزنس مین کسی کے ساتھ ”جنگ“ افورڈ نہیں کرسکتا کجا یہ کہ بھتہ خور اور لینڈ مافیا سمیت جرائم پیشہ لوگ حکومتی سرپرستی میں ان کے پیچھے پڑ جائیں، ان لوگوں کے ساتھ درمیانے درجے کے بزنس مین کیسے متھا لگا سکتے ہیں۔

جانے والے تو چلے گئے لیکن کیا ہم باقی لوگوں کو روک سکتے ہیں جو ہر روز ایک نئے عذاب سے دوچار ہونے کے بعد اس ملک سے بھاگنے کا خیال مزید پختہ کرلیتے ہیں۔ جو چپکے چپکے کبھی کینیڈا کی شہریت حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہیں تو کبھی انگلینڈ کی، کبھی وہ امریکہ جانے کا سوچتے ہیں تو کبھی ملائشیا جانے کا، جبکہ انہیں وہاں کی حکومتوں کی طرف سے دی جانے والی مراعات اور آسائشیں بھی حاصل ہونے کا پورا یقین ہو اور اپنے سرمائے اور جان کے تحفظ کی یقین دہانی بھی۔ میری اپنی حکومت اور تمام اداروں سے خصوصاً عدلیہ سے گذارش ہے کہ ایسے فوری اقدامات کئے جائیں جن سے یہاں سے جانے کی سوچ رکھنے والوں کے ذہن بدلے جاسکیں، انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی جاسکے، انہیں بھرپور تحفظ کی یقین دہانی کرائی جاسکے، لگتا ہے کہ یہ کام بھی بالآخر عدلیہ کو ہی کرنا پڑے گا، ایسے قوانین وضع کرنے کے لئے حکومت اور مقننہ پر زور دینا پڑے گا جس سے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے اپنے تحفظ کی طرف سے بے نیاز ہوجائیں۔ سات سو لوگ ملائشیا چلے گئے، سات سو سرمایہ کار پاکستان سے روٹھ گئے، خدارا باقی ہزاروں لوگوں کو یہاں روک لیں تاکہ یہاں روزگار چلتا رہے، یہاں نوکریاں ملتی رہیں، یہاں فیکٹریاں چلتی رہیں، اس کے لئے ضروری ہے کہ یہاں انصاف کا بول بالا ہو، سرمایہ کاروں کو اپنے تحفظ کا یقین ہو، اس کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان کے بڑے بڑے سیاستدان جنہوں نے اپنی جائیدادیں اور کاروبار بیرون ملک رکھے ہوئے ہیں وہ اپنا سرمایہ یہاں علی الاعلان لے کر آئیں تاکہ باقی لوگوں کی بھی تسلی ہوجائے، اگر صرف پاکستانی اپنے کاروبار اور سرمایہ پاکستان میں لے آئیں تو ہمیں ایشین ٹائیگر بننے سے کوئی نہیں روک سکتا اور نہ کسی بیرونی سرمایہ کاری اور آئی ایم ایف کی ضرورت رہے گی، ہم اپنے پاﺅں پر کھڑے ہوسکیں گے اور امریکی غلامی سے بھی نکل سکیں گے، خدارا باقیوں کو روک لو....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222540 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.