امام جلال الدین رومی ؒ ایک
حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت لقمان ؑ ایک اچھے غلام تھے اور دن رات
اپنے آقا کی خدمت محبت و خلوص سے کرتے تھے خواجہ بھی انہیں دل و جان سے
چاہتا تھا اور ان کی خوبیوں کا قائل تھا دراصل لقمان ؑ خواجہ تھے اور ان کا
خواجہ ان کا غلام تھاجو اللہ کے بھید سے واقف ہو گا محلوں کے بھید اس کے
سامنے کیا ہوں گے اس خواجہ کا یہ طریقہ تھا کہ جب وہ کسی اجنبی مقام پر
جاتا تو لقمان ؑ کو اپنی خلعت اور جامہ پہناتا اور خود غلام کے کپڑے پہن کر
ساتھ ہو جاتا حضرت لقمان ؑ کو صدر مقام پر بٹھاتا ، آپ کا حکم بجا لاتا اور
کہتا کہ میں نے تیرے ذمہ خدمت نہ کرنے کا حکم لگا یا ہے اور میں نے مسافرات
میں تدبیر کا بیج بویا ہے ۔ حضرت لقمان ؑ خواجہ کے راز کو چھپانے والے تھے
غیر سے راز چھپانا تو کوئی عجب بات نہیں ، عجب یہ ہے کہ اپنے آپ سے راز
چھپایا جب خواجہ نے لقمان ؑ کے اسرار پا لئے تو ان کا غلام بن گیا وہ کوئی
شے اس وقت تک نہ کھاتا جب تک حضرت لقمان ؑ نہ کھاتے ایک دفعہ خواجہ کے پاس
خربوزوں کا ہدیہ آیا تو اس نے لقمان ؑ کو بلایا اور خود خربوزے کاٹ کاٹ کر
ان کو دئے وہ ان کو شہد اور شکر کی طرح کھائے جا رہے تھے ۔ کھلاتے کھلاتے
خواجہ نے بھی خربوزے کھانے شروع کیے اور ایک قاش ہی کھائی تھی کہ خربوزے کی
تلخی سے حلق جل گیا اور زبان پر آبلہ پڑ گیا اس نے حضرت لقمان ؑ سے دریافت
کیا کہ وہ یہ زہر جیسے تلخ خربوزے کس طرح کھا گئے اور ٹالنے کی کوشش کیوں
نہ کی ۔
حضرت لقمان ؑ نے جواب دیا کہ میں نے اپنے ہاتھ سے کتنے ہی شیریں میوے اور
حلوے کھائے ہیں مجھے شرم آ رہی تھی کہ میں آپ کے ہاتھ سے یہ تلخ پھل کھانے
سے انکار کروں یا بہانے کروں تو کیسے کروں۔۔۔؟
قارئین! مسئلہ کشمیر عالمی منظر نامے پر ایک داغ کی طرح گزشتہ کئی دہائیوں
سے نمایاں ہے اور کشمیری قوم ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہی ہے کشمیر کی
آزادی کےلئے کشمیری نوجوانوں نے متعدد مرتبہ قبرستان کے قبرستان آباد کر
دئے لیکن بوجوہ آزادی کی یہ تحریک ابھی تک منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکی اس
میں قصور جہاں بیگانوں کا ہے وہاں کئی اپنوں کی غلطیاں بھی ایک کروڑ سے
زائد کشمیریوں کو غلامی کے جال میں پھنسانے کا باعث ہیں اگر ان تاریخی
غلطیوں کو شمار کیا جائے تو ان کا آغاز 1947ءمیں قیام پاکستان کے بعد جب
تحریک آزادی کشمیر کی مسلح جدوجہد شروع ہوئی اس موقع پر ہمارے بعض قائدین
کی جانب سے اقتدار کی لالچ اور کریڈٹ کی گیم نے کیا اپنے سر کامیابی کا
سہرا باندھنے کی خواہش 1947ءمیں بھی بعض لوگوں کے دل میں تھی اور 1965ءکی
پاک بھارت جنگ کے دوران بھی اس سے ملتی جلتی غلطیاں کی گئیں ۔ یہاں پر
بھارت چین جنگ کے دوران چین کی جانب سے پاکستان کو واضح اشارے دینے کے
باوجود کشمیر کو بھارت سے آزاد کرانے کےلئے بروقت فیصلہ نہ کرنا بھی ایک
فاش غلطی تھی ۔ ان غلطیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ سابق ڈکٹیٹر جنرل
پرویز مشرف کے دور تک اس نقطہ عروج پر جا پہنچا کہ کشمیر کیس کو ایک ”بریف
کیس “ میں ڈال کر سرد خانے کی نذر کر دیا گیا اور یہ بات بھارت نے بڑی
کامیابی کے ساتھ پوری عالمی برادری کو باور کروائی کہ پاکستان کشمیر کے
اندر دہشت گردوں کو مجاہدین کے روپ میں داخل کر رہا ہے اور کشمیر کی تحریک
آزادی ”اندرونی تحریک“ نہیں بلکہ اس کے پیچھے افواج پاکستان ، آئی ایس آئی
اور ان کی پروردہ مختلف جہادی تنظیمیں ہیں جو طالبان اور القاعدہ کا حصہ
ہیں ۔ اسی پراپیگنڈے کا اثر اس حد تک عالمی رائے عامہ پر ہوا کہ پچاس سال
سے زائد عرصہ سے ”مسئلہ کشمیر“ جو اقوام متحدہ کے حل طلب مسائل میں ”فرنٹ
پیج“ پر تھا اس کا وجود ہی ختم ہو گیا اس دوران ایک سازش کے تحت پاکستان کو
”دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ“ میں الجھا کر افواج پاکستان اور سیکیورٹی
ایجنسیز کو افغانستان سے ملنے والے قبائلی علاقہ جات میں پھنسا دیا گیا اور
ایک ایسی لاحاصل قتل و غارت شروع ہو گئی جو 2011ءآنے تک روز بروز بڑھتی جا
رہی ہے اور ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ۔
قارئین ! اس سب پس منظر کو بیان کرنے کا مقصد ہمارے آج کے کالم کے موضوع کے
ساتھ ہے مسئلہ کشمیر جسے ہمارے پالیسی ساز اداروں اور محکمہ خارجہ نے
فراموش کر دیا تھا اسے اگر کسی نے عالمی منظر نامے پر زندہ رکھا تو وہ
کشمیری شہداءکی جدوجہد ، مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی خاطر جبر و استبداد
برداشت کرنے والے کشمیری بہن بھائیوں بچوں کے ساتھ ساتھ دو شخصیات ہیں اور
کسی کو چاہے کوئی بھی اعتراض ہو ہمیں غیر جانبداری کے ساتھ یہ لکھنے میں
کوئی عار محسوس نہیں ہوتا کہ وہ دو شخصیات سابق وزیراعظم آزاد کشمیر بیرسٹر
سلطان محمود چوہدری اور برطانوی ہاﺅس آف لارڈز کے پہلے مسلمان رکن لارڈ
نذیر احمد ہیں یہ دو شخصیات اتفاق آزاد کشمیر کے معاشی دل میرپور سے تعلق
رکھتی ہیں یہاں قارئین کی دلچسپی کےلئے ہم یہ بتاتے چلیں کہ میرپور آزاد
کشمیر کا وہ علاقہ ہے کہ جو چند عشروں قبل غربت ، بد حالی ، بے روزگاری اور
کسمپرسی کی منہ بولتی تصویر تھا ۔ یہاں کے لوگ غربت کے ہاتھ تنگ آکر محنت
مزدوری کی غرض سے 1947ءسے بھی قبل کراچی جا کر روزگار کماتے تھے اور اسی
دوران کچھ لوگ بحری جہازوں پر ملازم بھرتی ہوئے اور مختلف بندرگاہوں پر
ہوتے ہوئے کچھ لوگ برطانیہ جا اترے ۔ وہاں محنت مزدوری کی ، انگریز نے بھی
جب دیانتدار ، جفا کش اور سادہ لوح مزدور دیکھے توا ن کی حوصلہ افزائی کی
یہ غریب لوگ ان پڑھ ضرور تھے لیکن اپنی مٹی اور اپنے خاندانوں کے ساتھ ایک
انتہائی مضبوط لڑی کے ساتھ وابستہ تھے ان لوگوں نے اچھی آمدن دیکھ کر اپنے
قریبی رشتہ دار ، بہن ، بھائی اور حتٰی کہ گاﺅں کے گاﺅں برطانیہ بلوالئے اس
سلسلہ کو اس وقت تیزی ملی کہ جب 1964ءمیں پاکستان کی پانی اور بجلی کی
ضروریات پوری کرنے کےلئے میرپور میں منگلا ڈیم بنایا گیا جب ہزاروں خاندان
ہجرت کے کرب سے گزر رہے تھے تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان مظلوموں کا ساتھ
دیا اور ہزاروں لوگ ایک مرتبہ پھر برطانیہ سے لیکریورپ اور پوری دنیا میں
ہجرت اختیار کر گئے ۔
قارئین ! اس نئے پس منظر کا تعلق بھی ہمارے آج کے موضوع کے ساتھ ہے آج
برطانیہ میں میرپور سے تعلق رکھنے والے دس لاکھ سے زائد لوگ آباد ہیں اور
یہ کشمیری قومیت رکھنے والے برطانوی شہری دنیا کی ساتویں بڑی معاشی قوت
انگلینڈ کی تعمیر و ترقی کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں ۔ آج یہ لاکھوں تارکین
وطن جہاں وطن عزیز پاکستان کو کروڑوں پاﺅنڈ ز زرمبادلہ ہر سال ارسال کرتے
ہیں وہیں پر ان لوگوں کی ایک سیاسی اہمیت بھی ہے اور اس سیاسی اہمیت کو
بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور لارڈ نذیر احمد نے”کشمیر کیس“ کو پوری دنیا
میں سامنے اجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا یہ دونوں رہنماءبرطانیہ ،
یورپ، سکنڈے نیوین ممالک ، مشرق وسطیٰ اور امریکہ سے لیکر پوری دنیا میں
جہاں جہاں کشمیری تارکین وطن آباد ہیں جا کر کشمیر کی آزادی کے لئے آواز
بلند کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ باوجود تاریخی غلطیوں کے مسئلہ کشمیر آج
بھی عالمی منظر نامے پر ایک رستے ہوئے زخم کی صورت میں زندہ ہے ۔
بقول اقبال ؒ۔
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
کرتے ہیں خطاب آخر ، اٹھتے ہیں حجاب آخر
احوال محبت میں کچھ فرق نہیں ایسا
سوز و تب و تاب اول ، سوز وتب و تاب آخر
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول ، طاﺅس و رباب آخر
خلوت کی گھڑی گزری ، جلوت کی گھڑی آئی
چھٹنے کو ہے بجلی سے آغوش ِسحاب آخر
قارئین ! آزاد کشمیر میں 26جون کو انتخابات ہونے جا رہے ہیں ان انتخابات کے
نتیجہ میں جو بھی اسمبلی سامنے آئیگی ا س میں سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان
محمود چوہدری کی حیثیت ایک کلیدی کردار رکھتی ہے اگر وہ منتخب ہو گئے تو
اپنے ساتھی لارڈ نذیر احمد کے ہمراہ وہ مسئلہ کشمیر حل کرنے کےلئے ایک اہم
کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ ان کی حیثیت ایک رکن اسمبلی سے کہیں بڑھ کر ہے اور
اس حیثیت کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر کےلئے ان کی وہ کوششیں ہیں جو آج تک
انہوں نے دنیا کے مختلف ممالک میں جا کر کیں ہیں یہی صورتحال لارڈ نذیر
احمد کے معاملہ میں سامنے آتی ہے کہ انہوں نے گزشتہ 20سالوں کے دوران
برطانیہ سے لیکر امریکہ تک اور عرب ممالک سے لیکر پوری دنیا کے کونے کونے
میں کشمیر کیس کو اجاگر کیا ہے اب دیکھتے ہیں کہ آنے والے دور کے حالات کیا
رخ اختیار کرتے ہیں ۔ ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہداءکی قربانیوں سے سجے
قبرستان آج بھی آواز دے رہے ہیں کہ اقوام عالم کا ضمیرکب جاگے گا اور کشمیر
کو کب آزادی ملے گی ۔۔۔؟
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
ایک قرض خواہ نے کئی سالوں سے قرض ادا نہ کرنے والے مقروض کو فون کیا اور
پوچھا ۔
”کیا آپ ہماراقرضہ ادا کریں گے یا نہیں ۔؟“
مقروض نے ڈھٹائی کے ساتھ وہی پرانا جواب دیا ۔
”جناب تھوڑا عرصہ انتظار کریں ۔“
قرض خواہ نے کہا
”اگر آپ نے اب بھی قرضہ ادا نہ کیا تو ہم آپ کے تمام قرض خواہوں کو بتا دیں
گے آپ نے ہمارا قرضہ ادا کر دیا ہے ۔“
قارئین! کچھ بھی ہو بھارت کے ذمے کشمیریوں کا بہت سا قرض باقی ہے اور وہ
قرض اسے ادا کرنا ہو گا۔ |