عوام کے مسائل اور سیاستدانوں کے دعوے

شیخ سعدی ؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک درویش نے تنگ دستی کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایک دولت مند کے آگے بڑی لجاجت سے دست سوال دراز کیا سنگ دل اور بد مزاج دولت مند نے مدد کرنے کی بجائے اس غریب کو خوب جھڑکا سائل کا دل اس کی جھڑکیوں سے خون ہو گیا اور وہ بولا کہ صاحب مانا کہ اللہ نے آپ کو مال دیا ہے لیکن آپ اس قدر ترش رو کیوں ہیں ۔ شائد آپ نہیں جانتے کہ مانگنے میں طبیعت پر کس قدر جبر کرنا پڑتا ہے اور کیسا تلخ گھونٹ گلے سے اتارنا پڑتا ہے کوتاہ نظر امیر نے برافروختہ ہو کر اپنے ملازم کو حکم دیا کہ اس کو دھکے مار کر نکال دو ملازم نے اپنے آقا کے حکم کی تعمیل کی اور بےچارہ درویش اس ذلت و رسوائی پر خون کے آنسو بہا کر رہ گیا ۔ دولت ڈھلتی پھرتی چھاﺅں ہے زیادہ عرصہ نہ گزرا اور اس ناشکرے امیر کو یہ دولت دغا دے گئی اور وہ پیسے پیسے کا محتاج ہو گیا ۔ دولت نے کیا ساتھ چھوڑا نوکروں چاکروں نے بھی آنکھیں پھیر لیں جس ملازم نے اس امیر کے حکم سے غریب درویش کو دھکے مار کر نکالا تھا وہ بھی اس کا چھوڑ کر ایک دریا دل اور نیک طینت امیر کے ہاں چلا گیا۔ اس امیر کے دروازے سے کوئی مسکین خالی ہاتھ نہ جاتا تھا۔ ایک رات اس نیک امیر کے دروازے پر ایک فقیر نے صدا لگائی اس نے اس ملازم کو حکم دیا کہ اس درد ماندہ بھکاری کو راضی کر دو جب ملازم اس بھکاری کے پاس کھانا لیکر گیا تو اس کے منہ سے بے ساختہ چیخ نکل گئی مالک نے رونے کا سبب پوچھا تو کہنے لگا کہ میں جس بھکاری کو کھانا کھلا کر آیا ہوں وہ کچھ عرصہ پہلے لاکھوں روپے کی جائیداد ، مال و اسباب اور سونے چاندی کا مالک تھا میں اس کے پاس ملازم تھا آج اسے بھیک مانگتے دیکھ کر میرا دل لرز اٹھا ہے اور آنکھیں اشک بار ہو گئیں ہیں سخی امیر نے ہنس کر کہا کہ اے بیٹے اللہ بڑا عادل ہے وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا تمہیں یاد ہوگا جب یہ شخص امیر تھا تو اسکا دماغ آسمان پر تھا اور سائلوں کو دھکے دیکر اپنے دروازے سے نکال دیتا تھا میری طرف دیکھو اور پہچانو میں وہی سائل ہوں جس کو ایک دفعہ اس نے ذلیل کر کے اپنے گھر سے نکال دیا تھا۔ گردش زمانہ نے آج اسکا میری سابقہ حالت پر پہنچا دیا ہے اور جس مال و دولت پر اس کو ناز تھا وہ اللہ تعالیٰ سے اپنے فضل سے مجھے عطا فرمائی ہے ۔ شیخ سعدیؒ حکایت کے آخر میں یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ خدا اگر کسی مصلحت سے کوئی دروازہ بند کرتا ہے تو اپنے فضل و کرم سے دوسرا درواز ہ کھول دیتا ہے ۔ بہت سے بے سروسامان مفلس صاحب حیثیت بن گئے اور بہت سے مال دار تباہ حال ہو گئے ۔ ۔۔

قارئین! پاکستان و آزاد کشمیر عوام الناس کا یہ حال ہے کہ موجودہ جمہوری حکومت کے دور اقتدار میں غریب طبقہ اور مڈل کلاس تو اپنے کچن کے اخراجات اور سفید چادر کا بھرم قائم رکھنے سے قاصر ہونے کے ساتھ ساتھ اب غربت کی نچلی سطح پر جا کر درویشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا جا رہا ہے اور حکمران طبقہ اور ایک اشرافیہ کلاس جس کی تعداد انتہائی تھوڑی ہے وہ امیر سے امیر تر ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ ظلم اور ناانصافی کی چکی میں پسنے والے تمام لوگ اس وقت آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ قدرت کیا فیصلہ کرتی ہے غیر ملکی حکمرانوں اور بین الاقوامی استعمار کی کٹھ پتلیاں بننے والے ہمارے سیاستدان بجٹ سے پہلے اور بجٹ کے بعد جو بھی دعوے کریں زمینی حقیقتیں جھٹلائی نہیں جا سکتیں اور زمینی حقیقتیں یہ کہتی ہیں کہ موجودہ جمہوری دور حکومت ایک استبدادی دور ثابت ہوا ہے جس نے 18کروڑ سے زائد عوام کا ناطقہ بند کر رکھا ہے یہ ایک عجیب بات ہے کہ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی جماعت اس وقت غریب عوام کو یہ تین بنیادی سہولتیں مہیا کرنے میں نا صرف ناکام ثابت ہوئی ہے بلکہ عوام کی اکثریت اس دور حکومت کی وجہ سے جمہوریت ہی سے بےزار ہوتی چلی جا رہی ہے ۔ فرینڈلی اپوزیشن کی موجودگی میں کسی بھی حکومت پر درست تنقید کرنا اور اسے راہ راست پر لانا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے خدا جانے یہ کون سی مجبوریاں ہیں کہ جن کی وجہ سے ہمارے سیاستدان عوام کے حقوق کےلئے درست معنوں میں کوئی بھی کردار ادا نہیں کر رہے یہی وجہ ہے کہ ملک میں سب سے زیادہ عقل و فہم اور وسائل رکھنے والے لوگ یہ ملک چھوڑ چھوڑ کر دیار غیر کا رخ کر رہے ہیں اور برین ڈرین کا رجحان اس خوفناک حد تک بڑھ چکا ہے کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران پانچ ہزار سے زائد ڈاکٹرز سعودی عرب ، مڈل ایسٹ ، امریکہ ، یورپ اور دیگر ممالک جا چکے ہیں اور اگلے ایک سال کے دوران بیس ہزار سے زائد ڈاکٹرز یہ ملک چھوڑ کر دیگر ممالک میں آباد ہو جائیں گے ۔ ترک سکونت کا یہ رجحان ہمارے حکمرانوں ، سیاستدانوں اور اشرافیہ کے منہ پر ایک بہت بڑا طمانچہ ہے ۔ ہم اس تمام صورت حال سے پھر بھی مایوس نہیں ہیں اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ابتری کی اس شدت سے کوئی بہت بڑی بہتری جنم لے گی آج بھی پاکستان اور آزاد کشمیر کے عوام کی اکثریت کلمہ کی بنیاد پر بننے والے اس نظریاتی ملک سے محبت رکھتی ہے اور پرانی نسلوں کے برعکس نئی نسل منافقت سے عاری ہے یہ نئی نسل گزشتہ غلطیوں کا ازالہ کریگی لیکن شرط یہ ہے کہ ہم اپنی اپنی انفرادی سطح پر اصلاح احوال کی کوشش جاری رکھیں ۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
ایک مالک مکان سے کرایہ دار نے درخواست کی ۔
”جناب مہربانی کر کے گھر میں کھڑکیوں کے پٹ لگوا دیں کیونکہ جب تیز ہوا آتی ہے تو میرے بال بکھر جاتے ہیں “
مالک مکان نے انتہائی سنجیدگی سے جیب میں ہاتھ ڈالا اور بولے ۔
”بھائی یہ لیں دس روپے اور جا کر بال کٹوا لیں۔“

ہمارے سیاستدان بھی مسائل کی کھڑکیوں کو بند کرنے کی بجائے عوام کی حجامت کر رہے ہیں۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 339018 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More