امام جلال الدین رومیؒایک
حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک بادشاہ نے دو غلام خریدے ان میں سے ایک
حسین و جمیل اور خوبصورت تھا جبکہ دوسرا بدصورت اور سیاہ رنگ ۔بادشاہ نے
حسین وجمیل غلام کو اپنے پاس بلایا اس نے بادشاہ سے نہایت عمدہ گفتگو کی
زبان انسان کے اندر کا پتہ دینے والا موثر زریعہ ہے بادشاہ کو اس کی شکل
وصورت گفتگو اور انداز پسند آیا اور اس نے اسے حمام پر بھیج دیا کہ
نہادھوکر آجائے بادشاہ نے دوسرے غلام کو اپنے پاس بلایا جو بظاہر شکل وصورت
میں معمولی اور سیاہ رنگ کا تھا بادشاہ نے اس سے گفتگوکی تو اسے معمولی عقل
وخرد کا انسان لگا اور اس نے ارادہ کیا کہ اس غلام کو اپنے دربار میں ذرا
دوری کا مقام دے بادشاہ نے اسے مزید جانچنے کیلئے کہا کہ دوسرے غلام نے اس
کے بارے میں بہت برائی کی ہے اور کہا ہے کہ تو چور ،بدچلن ،بدصحبت ،کم ہمت
اور نامرد ہے دوسرے غلام نے کہا کہ وہ ہمیشہ سے سچا ہے اور اس جیسا صادق
میں نے آج تک نہیں دیکھا ،سیدھ ،نیک خصلت ،باشرم ،بردباری ،احسان اور سخاوت
اس کا معمول ہے میں اس نیک خیال کو غلط نہیں کہتا اپنے آپ کو الزام دیتا
ہوں کہ اس نے میرے اندر واقعی یہ اوصاف بد دیکھے ہوں گے اس غلام نے غرض ایک
پرازحکمت گفتگو بادشاہ کے ساتھ کی تھوڑی دیر کے بعد پہلا حسین وجمیل غلام
واپس آیا بادشاہ نے دوسرے غلام کو کسی کام سے روانہ کردیا اور پہلے غلام کے
ساتھ ہم کلام ہوا بادشاہ نے اسے بتایا کہ دوسرے غلام نے اس کی غیبت کی ہے
اور اسے برا بھلا کہا ہے اس پر حسین وجمیل غلام غصے سے لال پیلا ہوگیا اور
دوسرے غلام کی شدید مذمت کی بادشاہ نے اس کی باتیں سن کر اسے خاموش رہنے کو
کہا اور بھانپ لیا کہ یہ حسین وجمیل غلام ظاہراً حسین ہے مگر اس کی روح
گندی ہے جبکہ وہ بظاہر بدصورت اور ساہ روغلام ظاہراً اچھا نہ ہے لیکن اس کی
روح خوبصورت ہے لہٰذا بادشاہ نے فیصلہ کیا کہ وہ دوسرا غلام عزت کے قابل ہے
اور اسے حاکم بنانا درست ہے جبکہ یہ پہلا غلام محکوم بننے کے قابل ہے ۔۔۔
قارئین آزادکشمیر میں الیکشن 2011ءسر پر آن پہنچے ہیں اور اس موقع پر ایسی
ایسی الزام تراشیاں ،جملے بازیاں ،کردار کشی ،ہرزہ سرائیاں اور ناجانے کیا
کیا دیکھنے اور سننے کو مل رہا ہے کسی نے یہ بات کہی تھی کہ اگر آپ اپنے
آباواجداد اورحسب نسب کے متعلق جاننا چاہتے ہیں تو اس کے آسان طریقہ ہے کہ
آپ انتخابات میں کھڑے ہوجائیں آپ کے مخالفین آپ کے آباء واجداداور نسلوں کی
غلطیوں کو بھی ڈھونڈ کرلے آئیں گے اور یقین جانیے کہ ایسا ہی ہورہا ہے حلقہ
ایل اے ون سے لے کر ایل اے 41تک جتنی بھی نشستیں قانون سازاسمبلی میں موجود
ہیں ہر حلقے میں اس وقت ایک دوسرے پر کیچڑاچھالنے کا کام عروج پر ہے یہ بات
سوفیصد درست ہے کہ وہ لوگ قسمت والے ہوتے ہیں کہ جنہیں اعلیٰ ظرف دشمن ملتا
ہے تاریخ کے صفحات میں یہ بینظیر واقعہ رقم ہے کہ صلیبی جنگوں کے دوران ایک
جنگ کے موقع پر عیسائیوں کی فوج کا کمانڈر رچرڈ شیر دل بیمار ہوگیا تو عظیم
سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس کے علاج کے لیے اپنا خصوصی طبیب روانہ کیا
اور تب تک جنگ بندی کا اعلان کیا کہ جب تک دشمنوں کی فوج کاکمانڈر صحت یاب
نہ ہوجائے یہ تھے وہ لوگ کہ جن کے کردار اور عظمت کی کہانیاں ہر مذہب اور
ملت کے لوگ کئی صدیاں گزرجانے کے باوجو دآج بھی ایک حوالے کے طور پر پیش
کرتے ہیں ۔
قارئین آج کے کالم میں ہم سردار عتیق احمد خان اور مسلم کانفرنس کی خوش
قسمتی کو سراہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اس وقت پاکستان پیپلزپارٹی کو قدرت
اور ”حالات ومعاملات“نے یہ سنہرا موقعہ دیا تھا کہ وہ باآسانی تخت کشمیر پر
براجمان ہوسکتی تھی لیکن ناجانے کس کی نظر لگی یا خدا جانے کس کی سازشیں
کام آئیں کہ یہ جماعت اس وقت پارہ پارہ ہوکر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہی
ہے ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد صدر جماعت چوہدری عبدالمجید کی قیادت میں نظریاتی
کارکن اس وقت شدید اضطراب کا شکارہیں اور پروگریسو گروپ ،فارورڈ بلاک سے لے
کر ”مسلم کانفرنس میں واپسی “کے حالات بھی پیداہوچکے ہیںوہ تما م بڑی
شخصیات جنہیں چوہدری عبدالمجید ایک طویل جدوجہد کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی
میں لانے میں کامیاب ہوئے تھے ان سے کیے گئے ”وعدہ فردا یعنی ٹکٹ “نہ ملنے
کی وجہ سے وہ تمام شخصیات انتہائی بددلی کا شکار ہیں اور اس کا براہ راست
فائدہ مسلم کانفرنس اُٹھا سکتی ہے اسی طریقے سے یہی کام نوزائیدہ جماعت
پاکستان مسلم لیگ ن میں ٹکٹوں کی تقسیم کے موقع پر دیکھنے میں آیا ”راجہ
لیگ “کہنے کا ایک رجحان ماضی میں موجود تھا اور سیاسی مخالفین کا یہ کہنا
تھا کہ پاکستان مسلم لیگ ن ،مسلم لیگ کم او رراجہ لیگ زیادہ ہے اتفاق سے
ٹکٹوں کی تقسیم کے موقع پر یہی بات سامنے آئی ہوسکتا ہے کہ جتنے بھی فیصلے
ٹکٹوں کے حوالے سے کئے گئے وہ میرٹ پر ہوں اور اس میں کسی قسم کی قبیلائی
عصبیت موجو دنہ ہو اور جس بھی امیدوار کو ٹکٹ دیا گیا ہو وہ موزوں ترین ہو
لیکن ا سکا کیا کیجئے کہ وہ راجپوت برادری سے تعلق رکھتا ہے اور ”لیلائے
ٹکٹ “کے متمنی عشاق جو ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے دل شکستگی کا شکار ہیں وہ بھی
اس پراپیگنڈے میں شامل ہوچکے ہیں اور دیکھا جائے تو اس کا فائدہ بھی مسلم
کانفرنس اور سردار عتیق احمد خان کو ہوسکتا ہے ۔ایک ریڈیو سٹیشن پر انٹرویو
کے دوران سابق صدر ووزیر اعظم آزادکشمیر سالارجمہوریت سردار سکند رحیات خان
نے اپنے ساتھیوں کی طرف سے جماعت اسلامی اور جموں کشمیر پیپلزپارٹی سے
اتحاد پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا اور یہاں تک مایوسی ظاہر کردی کہ
بعض غلط فیصلوں کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ ن میں جس تیزی کے ساتھ کشمیری
نوجوان شامل ہورہے تھے وہ عمل رک چکا ہے دیکھنے والوں کیلئے اس سب عمل میں
بہت بڑی عبرت کے سبق پوشیدہ ہیں جو غلطیاں سردار عتیق احمد خان نے کیں تھیں
انہوں نے اس کا پورا خمیازہ بھگتا ،اس حد تک کہ سیاسی پیشگوئیاں کرنے والے
لوگوں نے مسلم کانفرنس کو ماضی کا ایک باب قرار دے دیا اور یہاں تک کہاگیا
کہ مسلم کانفرنس اس وقت مغلیہ سلطنت کے آخری ادوار کی تصویر پیش کررہی ہے
آج پاکستان پیپلزپارٹی کی اندورنی تقسیم اور وزارت عظمیٰ کیلئے قبل ازوقت
لگائے جانے والی دوڑ کی وجہ سے مسلم کانفرنس کو دوبارہ سانس لینے کاموقع مل
سکتا ہے جبکہ دوسری جانب مسلم لیگ ن جسے قدرت نے ایک انتہائی سنہری موقعہ
دیا تھا کہ میاں محمد نوازشریف کی اصولی سیاست کا فائدہ براہ راست وہ
آزادکشمیر میں اٹھائیں ،ٹکٹوں کی متنازعہ تقسیم کی وجہ سے یہ تنظیم وقت سے
پہلے بہت سے سوالیہ نشانوں کے سپیڈ بریکرز سے گزر رہی ہے اور قارئین ان
سپیڈبریکرز کی وجہ سے مسلم لیگ ن کسی بھی مشکل صورتحال سے دوچار ہوسکتی ہے
کیونکہ سیاست میں ٹائمنگ اور بروقت ودرست فیصلے ہی کامیابی کے ضامن ہوتے
ہیں ۔ بقول غالب
دائم پڑا ہواترے درپر نہیں ہوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں
کیوں گردشِ مدام سے گھبرانہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ وساغر نہیں ہوں میں
حد چاہیے سزامیں عقوبت کے واسطے
آخر گناہ گار ہوں کافر نہیں ہوں میں
قارئین یہی وہ حالات ہیں کہ جن میں کئی جانے والے دوبارہ آنے کا فیصلہ بھی
کرسکتے ہیں اور کئی آنے والے دوبارہ جانے کا فیصلہ بھی کرسکتے ہیں اس وقت
بلاشبہ پاکستان پیپلزپارٹی بیرسٹر سلطان محمود چوہدری ،چوہدری عبدالمجید
،سردار قمر الزمان ،چوہدری یسین اور سردار یعقوب کی قیاد ت میں دوتہائی
اکثریت حاصل کرسکتی ہے لیکن یہ نتائج اندورنی اتحادکے متقاضی ہیں اور اس کے
ساتھ ساتھ پاکستان پیپلزپارٹی کے نظریاتی کارکنوں کی دل جوئی بھی اہمیت
رکھتی ہے آنے والے چند دن انتہائی اہمیت کے حامل ہیں دیکھئے کون پندونصائح
پر عمل کرتاہے اور کون درس ِ عبرت بن کر ایک تماشہ کی صورت اختیار کرلیتا
ہے کچھ بھی ہو ،کوئی بھی جیتے ،وزارت عظمیٰ کا تاج کسی کے سر پر سجے عوام
اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں اور یہ مسائل بے روزگاری ،مہنگائی ،اشیاءضرورت
کی قلت سے لے کر ماضی میں تمام جماعتوں کے سلوگن کا پہلا نکتہ”کشمیر کی
آزادی “ہے دیکھئے کہ سیاست دان اور سیاسی جماعتیں پہلے اپنے مسئلے حل کرتی
ہیں یا عوام کے ۔۔۔؟
آخر میں حسبِ روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
کہتے ہیں کہ مشہورڈرامہ نگار برنارڈ شا اور برطانوی وزیر اعظم چرچل میں
اکثر نوک جھونک رہتی تھی ایک بار برنارڈشا نے چرچل کو اپنے ڈرامے کو دو پاس
بھیجے اور لکھا کہ آپ اپنا ایک دوست بھی ساتھ لاسکتے ہیں ،اگر ہے تو ۔۔
چرچل پاس بھیجنے پر شکریہ اد اکرتے ہوئے لکھا
میں ڈرامے کا دوسرا شو دیکھنے آﺅں گا ،اگر وہ دوسرا شو ہوا تو ۔۔۔
قارئین الیکشن 2011ءکا ایک شو جاری ہے دیکھئے 26جون کو یہی شو جاری رہتا ہے
یا کوئی دوسرا شو ہوگا ۔۔۔؟ |