ایران میں مردہ خاتون ملزمہ کو تختہ دار پر لٹکایا گیا۰۰۰

اﷲ رب العزت کی قدرت کاملہ کے آگے کوئی بھی کسی کو بھی زندگی اور موت عطا نہیں کرسکتا جب تک کہ اﷲ تعالیٰ کا فیصلہ صادر نہ ہوجائے۔ دنیانے کئی مرتبہ دیکھا کہ جابراور ظالم حکمرانوں کے سامنے میں بھی کئی لوگ موت کی آغوش میں پہنچنے کے قریب ہوکر بھی زندہ رہنے میں کامیاب ہوگئے کیونکہ اﷲ رب العزت کی جانب سے ابھی انکی موت کا وقت نہیں آیا تھا۔ اور جب مرنے کا وقت قریب آجاتا ہے تو دنیا کے قاضیٔ وقت (جج)کی جانب سے اسکی موت کا وقت و جگہ کا اعلان کردیا جاتا ہے اور تمام تر تیاریاں بھی مکمل کردی جاتی ہیں ، ابھی چند سکنڈ یا منٹوں میں ملزم یا مجرم کو موت کی آغوش میں پہنچانا باقی رہتاہے کہ اسی اثناء میں اﷲ کا فرشتہ حکمِ الٰہی سے اس ملزم یا مجرم کی روح قبض کرلیتاہے تو دنیا حیرت زدہ ہوجاتی ہے اور تختہ دار پر لٹکانے والے دم بخود ہوجاتے ہیں کہ یہ کیا ہوگیا؟ ایسا ہی ایک واقعہ ایران میں پیش آیا۔ ایران کی ایک خاتون زہرہ اسماعیلی جسے دیگر 16افراد کے ساتھ تختہ دار پر لٹکانے کیلئے پھانسی گھاٹ لایا گیا تھا اور وہ اپنی باری کی منتظر تھی کہ اچانک اسکا انتقال ہوگیا۔ قاضی وقت کا فیصلہ اس زندہ خاتون کو سزائے موت دینے کا تھا لیکن یہاں سزا کے ذریعہ نہیں بلکہ اصلی موت پانے والی مردہ خاتون کو تختہ دار پر لٹکایا گیا ۔ جس کے بعد عالمی سطح پر ایران کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق بتایا جاتا ہیکہ زہرہ اسماعیلی نامی خاتون سزائے موت کے ملزمان کو پھانسی چڑھتا دیکھ کر برداشت نہ کرسکی اور اسی مقام پر دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے انتقال کرگئی۔زہرہ کے وکیل عمید مرادی کے مطابق خاتون کو اپنے شوہر علی رضا زمانی کے قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی ، زہرہ کا مقتول شوہر ایران کے انٹیلی جنس ادارے کا ملازم تھا ۔ بتایا جاتا ہیکہ علی رضا زمانی اپنی بیوی زہرہ کو تشدد کا نشانہ بنانے میں ملوث تھا۔ قتل کا واقعہ پیش آنے سے قبل بھی وہ اپنی اہلیہ یعنی زہرہ کو تشدد کا نشانہ بنارہا تھا ، اس دوران زہرہ نے اپنے دفاع کیلئے انتہائی اقدام اٹھایا جس کے نتیجے میں اس کا شوہر علی رضا زمانی ہلاک ہوگیا تھا، تاہم اس کے باوجود زہرہ کو ایرانی عدلیہ کی جانب سے پھانسی کی سزا سنادی گئی تھی۔اور جب دیگر 16افراد کے ساتھ زہرہ کو پھانسی دی جانی تھی وہ دیگر افراد کو دی جانے والی پھانسی کی سزا کودیکھ کر برداشت نہ کرسکی اور دل کا دورہ پڑنے سے اچانک انتقال کرگئی اس کے باوجود قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے اس بات کی کوئی پرواہ نہ کی اور زہرہ کو مردہ حالت میں ہی تختہ دار پر لٹکایا گیا اور اس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ مقتول علی رضا زمانی کے اہل خانہ خصوصاً اسکی والدہ ،زہرہ کی کرسی کو لات مارکر اس کی پھانسی کا عمل مکمل ہوتا دیکھ سکیں۔مردہ زہرہ کو پھانسی دیئے جانے کے بعد انسانی حقوق کے کارکنوں اور تجزیہ کاروں نے بدنام زمانہ رجائے شہر کی جیل میں پھانسی کی مذمت کی ہے ۔ اب دیکھنا ہیکہ ایرانی حکومت اس سزا پر کس قسم کے ردّعمل کا اظہار کرتی ہے کیونکہ عالمی سطح پرایرانی حکومت اور ایرانی نظامِ عدلیہ پر شدید تنقید کی جارہی ہے۔

اسرائیل اور فلسطین کے مستقبل کیلئے دوریاستی حل ضروری
اسرائیل کبھی یہ نہ چاہے گا کہ فلسطینی عوام سکون و راحت کی سانس لیں۔ اسرائیل فلسطینی علاقوں کو جس طرح قبضہ کرتے ہوئے ایک بڑے حصہ پر قابض ہو گیا ہے اور بیت المقدس میں مسلمانوں پر آئے دن کسی نہ کسی بہانے حملے کئے جاتے ہیں۔ یہودیوں کی بستیاں بسانے کیلئے اسرائیلی حکومت اور فوج جس طرح معصوم نہتے فلسطینیوں پر ظلم و زیادتی کرکے انکے املاک ہڑپ لیتے ہیں اسے ساری دنیا جانتی ہے اس کے باوجود عالمی سطح پر بعض ممالک کی جانب سے سوائے چند بیان بازی کے جملوں کے اسرائیل کے خلاف کوئی ٹھسوس اقدامات نہیں کئے جاتے۔ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان دو ریاستی حل کی بات تو ہوتی رہی ہے اور موجودہ امریکی صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ بھی یہی چاہتی ہے۔ اس سلسلہ میں گذشتہ دنوں امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے اپنے اسرائیلی ہم منصب سے کہاہیکہ اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے پر دو ریاستی حل اسرائیل کے مسقبل کیلئے بہترین ہوگا۔سعودی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی دفتر خارجہ کی جانب سے 22؍ فبروری کو جاری کئے گئے بیان کے مطابق وزیر خارجہ نے اسرائیلیوں ، فسلطینیوں اور مشرقِ وسطیٰ کے بہتر مسقبل کے لئے امریکی نقطہ نظر بیان کیا۔ امریکی وزارت خارجہ کے مطابق اسرائیل کے وزیر خارجہ گابی آشکنازی اور امریکی وزیر خارجہ کے درمیان ٹیلیفونک بات چیت ہوئی جس میں بتایا گیاکہ ’’بائیڈن انتظامیہ سمجھتی ہے کہ دو ریاستی حل ہی اسرائیل کے ایک یہودی اور جمہوری ریاست کو یقینی بنانے اور ایک جمہوری فلسطینی ریاست کے ساتھ پُر امن طریقے سے رہنے کا حل ہے۔ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے خطے میں سکیوریٹی چیالنجز اور ان مسائل کے حل کیلئے تعاون جاری رکھنے پر بات کی۔ آشکنازی اور بلنکن نے اسرائیل اور امریکہ کے درمیان مستقل شراکت داری کو سراہا اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ دونوں ممالک آنے والے چیالنجز سے مل کر نمٹیں گے۔ واضح رہے کہ جوبائیڈن انتظامیہ نے جنوری میں فلسطینیوں کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور فلسطینی پناہ گزینوں کیلئے امداد کی تجدید کا اعلان کیا تھا۔اقوام متحدہ میں قائم مقام امریکی سفیر رچرڈ ملر نے سلامتی کونسل میں کہا تھا کہ ’ امریکی صدر جوبائیڈن کی مشرقِ وسطیٰ پالیسی باہمی اتفاق سے دو ریاستی حل کی حمایت کرے گی جس میں اسرائیل امن اور سلامتی کے ساتھ رہے اور ایک قابل وجود فلسطینی ریاست بھی پہلو بہ پہلو موجود رہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ فلسطینیوں کی امداد کی بحالی اور ٹرمپ انتظامیہ نے جو سفارتی مشن بند کردیئے تھے انہیں دوبارہ کھولنے کے لئے اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔اب دیکھنا ہیکہ اسرائیل امریکہ کو کس قسم کا جواب دیتا ہے ، کیونکہ ماضی میں اسرائیل دو ریاستی حل سے انحراف کرتا رہا ہے ۰۰۰

افغانستان میں طالبان تحریک کی دوبارہ مضبوطی کئی خدشات کو جنم دے رہی ہے؟
کیا افغانستان میں طالبان دوبارہ مضبوط ہوچکے ہیں؟کیا افغانستان میں طالبان پھر سے حکومت سنبھال لیں گے ؟طالبان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے عالمی سطح پر کئی خدشات جنم لے رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں صدر افغان اشرف غنی نے بی بی سی کو دیئے گئے ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ ان کے دورِ اقتدار کی میعاد کا مکمل ہونا، ملک میں امن قائم کرنے سے کم اہمیت کا حامل ہے ، تاہم افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ میز کے پیچھے بیٹھ کر کوئی خواب دیکھنے والا نہیں بلکہ عوام کریں گے۔ اشرف غنی نے طالبان کی کامیابی کے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ ویتنام نہیں، حکومت نہیں گررہی ہے‘‘۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ جنگ سے متاثرہ افغانستان میں ابھی بھی دس ہزار نیٹو اتحادی فوجی موجود ہیں۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پائے معاہدے کے مطابق ان فوجیوں کو تقریباً 20برس بعد اس سال مئی تک افغانستان سے نکال لیا جائے گا لیکن یہ خدشات موجود ہیں کہ اس سے طالبان کی پُر تشدد کارروائیوں میں شدت آسکتی ہے۔افغانستان میں امریکہ کی حالیہ موجودگی سنہ 2001میں 9/11کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد سامنے آئی جب فوجیوں نے طالبان کو اقتدار سے ہٹانے کیلئے حملہ کیا تھا، ملا محمد عمر کی حکومت نے القاعدہ کے رہنماء اسامہ بن لا دین کو جنہیں امریکہ نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پرحملہ کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ملامحمد عمر کی حکومت سے اسامہ بن لا دین کو امریکہ کے حوالے کرنے کیلئے کہا تھا جس پر طالبان حکومت نے اپنے پناہ دیئے گئے مہمان کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکارکردیا تھا جس کے بعد امریکہ نے طالبان حکومت کے خاتمہ کیلئے افغانستان پر خطرناک حملے کرکے ملک کو تباہ و برباد کردیا تھا اور ملا محمد عمر کی حکومت بھی ختم ہوگئی تھی ۔طالبان حکومت کے خاتمہ کے بعد افغانستان جن حالات سے گزرا یہ ایک تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ فائرنگ کے واقعات، بم دھماکے، خودکش حملے اور پھر امریکہ کی قیادت میں نیٹو افواج کے حملے ہوتے رہے آج بھی افغانستان میں شہری سکون کی زندگی گزارنے کیلئے ترستے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق طالبان تحریک ملک کے بیشتر حصے میں دوبارہ منظم ہوچکی ہے۔ بتایا جاتا ہیکہ منتخب حکومت کو دھمکی دیتے ہوئے ملک کے دوتہائی سے زیادہ حصے میں سرگرم عمل ہے۔واضح رہے کہ ان دنوں افغان صدر کو طالبان کو اقتدار میں لانے کے لئے ایک عبوری حکومت لانے کے مطالبے کا سامنا کرنا پڑرہا ہے تاکہ ملک میں انتشار اور ممکنہ خانہ جنگی سے بچاجاسکے۔ اشرف غنی کا کہنا ہے کہ وہ سانحات سے بچنے کیلئے اتفاق رائے کی طاقت کی طرف ہی دیکھ رہے ہیں، تاہم انہوں نے یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ دونوں فریق جنگ کی تیاری کررہے ہیں کہا کہ ’خانہ جنگی شروع ہونے کے بارے میں بہت سے خدشات ہیں‘۔ انکا کہنا ہیکہ ’’ہماری طرف عجلت کا ایک احساس ہے، ہم سخت فیصلے کرنے پر راضی ہیں اور سخت فیصلوں کی ضرورت ہوگی، اس ملک میں چالیس سال کا تشدد کافی ہے۔ افغان صدر نے ماضی میں بھی ملک میں امن و سلامتی کے لئے طالبان سے جنگ بندی کیلئے بات چیت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا لیکن طالبان نے انکی ماضی کی حکومت کو امریکی کٹھ پتلی حکومت سے تعبیر انکی حکومت کے نمائندوں سے کسی بھی قسم کی بات چیت کو خارج کردیا تھا۔ یہی وجہ ہیکہ ماضی میں کئی مرتبہ طالبان امریکہ کے ساتھ بات چیت کرنے کو ترجیح دیتے رہے ہیں۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ امریکی صدر جوبائیڈن سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں طے پانے والے اس معاہدے کا جائزہ لے رہے ہیں ، اگرچہ افغانستان میں موجود زیادہ تر غیر ملکی فوجی امریکی نہیں ہیں تاہم امریکی حمایت نہ ملنے پر نیٹو آپریشن کو جاری رکھنا مشکل ہوسکتا ہے ۔ اشرف غنی جو امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پائے اس معاہدے کا حصہ نہیں تھے ،انکا کہنا ہیکہ وہ نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ اپنے تعلقات اور افغانستان کے مستقبل کے بارے میں عالمی برادری کے نقطہ نظر میں ایک نئی ہم آہنگی پر خوش ہیں۔طالبان کی بڑھتی ہوئی طاقت ملک کے حالات کو بگاڑ سکتی ہے اور اس کا ڈر صدر افغان اشرف غنی کو پہلے ہی سے ہے، جس کا اظہار وہ خود کرچکے ہیں۰۰۰

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان سری لنکامیں۰۰۰
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان دو روزہ دورے پر سری لنکا پہنچے جہاں انکا سری لنکن وزیر اعظم مہندرا راجا پکسے نے شاندار استقبال کیا۔ کولمبو میں وزیر اعظم عمران خان نے سری لنکن صدر گوٹا بھایا راج پکسے اور سری لنکن وزیر اعظم مہندرا راجا پکسے سے ملاقات کی ۔ دونوں وزرائے اعظم کے درمیان مشترکہ پریس کانفرنس منعقد کی گئی ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق پاک ۔سری لنکا کے درمیان باہمی تعلقات کے فروغ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ دونوں ممالک کے اعلی سطحی وفود کے درمیان تبادلوں ، تجارت، دفاعی تعاون ، سرمایہ کاری، سائنس و ٹکنالوجی ، ثقافت اور سیاحت کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔ صدر سری لنکا اور وزیراعظم پاکستان نے جنوبی ایشیا میں امن و استحکام اور معاشی خوشحالی کے مشترکہ مقاصد کو آگے بڑھانے کیلئے پاکستان اور سری لنکا کے مابین وسیع البنیاد اور پائیدار شراکت کو تقویت دینے پر توجہ دینے کے لئے تبادلہ خیال کیا ۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے دورہ سری لنکا سے ہندوستان پر کس قسم کے اثرات مرتب ہونگے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستانی وزیر اعظم عمران کو ہندوستانی فضائی حدود کے استعمال کی اجازت دی گئی تھی ، پاکستانی خاتون صحافی شفاء یوسف زئی نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں دعوی کیا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے جنوبی ایشیائی ملک سری لنکا جانے کیلئے بھارت کی فضائی حدود استعمال نہیں کی۔بتایا جاتا ہیکہ اسلام آباد نے چند دن قبل ہندوستان کو مطلع کیا تھا کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان سری لنکا پہنچنے کیلئے انڈیا کی فضائی حدود استعمال کریں گے، جس پر 22؍ فبروری پیر کو ہندوستان نے اپنے فیصلے سے پاکستان کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ عمران خان کے طیارے کو ہندوستانی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ وزیر اعظم عمران خان 23؍ فبروری منگل کو سری لنکا کے دو روزہ دورے کیلئے اسلام آباد سے کولمبو کیلئے روانہ ہوئے ۔ خبروں کے مطابق بتایا جارہا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کا خصوصی طیارہ انڈیا کی فضائی حدود استعمال کرکے سری لنکا پہنچا ہے لیکن پاکستانی صحافی شفاء یوسف زئی کا دعویٰ ہیکہ وزیر اعظم پاکستان کے خصوصی طیارے نے انڈیا کی فضائی حدود استعمال نہیں کی۔ اس حوالے سے سرکاری سطح پر کوئی تردید یا تصدیقی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ ہندوستان اور سری لنکا کے درمیان تعلقات بہتر ہیں ۔ عمران خان کے دورہ سری لنکا سے قبل بتایا جارہا تھا کے عمران خان سری لنکا پارلیمنٹ میں خطاب کریں گے لیکن انکے دورے سے قبل یہ بات سامنے آئی کے عمران خان کا سری لنکا پارلیمنٹ سے خطاب منسوخ کردیا گیا ہے ، سمجھا جارہا تھا کہ عمران خان سری لنکا پارلیمنٹ میں کشمیر کا مسئلہ اٹھاسکتے ہیں جس سے انڈین حکومت ناراض ہوسکتی ہے اور اسکے علاوہ سری لنکا کے مسلمانوں کے حقوق کے بارے میں بھی عمران خان بات کرسکتے تھے۔ یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ سری لنکا پارلیمنٹ سے عمران خان کا خطاب منسوخ کردیا گیا۰۰۰
***
 

Dr M A Rasheed Junaid
About the Author: Dr M A Rasheed Junaid Read More Articles by Dr M A Rasheed Junaid: 358 Articles with 255819 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.