پاکستان میں سینٹ الیکشنز کو لے کر بہت چرچا ہو رہا ہے
۔ کئی سیاسی کلا کار اپنے سیاسی سٹنٹس دکھا رہے ہیں۔ میڈیا نے رہی سہی کثر
بھی ختم کردی ہے ۔ نت نئے تجزیوں، تبصروں سے عوام کو شعوری طور پر اداروں
سے متنفر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ لوگ کچھ کی محبت میں ملک کے ساتھ
غداری کے متحمل ہو جاتے ہیں۔لیکن ان سب کے درمیان حکومت کرنے والے اورملکی
سلامتی کے اداروں کی پالیسیاں اہم ہوا کرتی ہیں۔ ایک طرف پاکستان کے سر پر
ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹک رہی ہے تو دوسری جانب پراپیگنڈوں اور فتنوں کی
بھرمار ہے۔ذاتی مفادات کیلئے سوچنے والے کرپٹ لوگ ایسے مواقعوں سے مفاد
اٹھاتے ہیں۔ میری رائے میں کرپشن کرنے والے سب بڑے غدار ہیں جو ملک کی جڑوں
کو کھوکھلا اور ستونوں کو غیر متوازن کرتے ہیں۔ ایسے عناصر کی وجہ سے ہی
ملکی ادارے بدنام ہیں اور عام لوگ ان پر بھروسہ کرنا چھوڑ چکے ہیں۔عجب ہی
نفسا نفسی کا عالم ہے۔ ایسا اسوقت ہوتا ہے جب کسی ملک میں ایک سے زیادہ
حاکم ہوں ۔ اور جس کسی معاشرے میں مرجعیت نہیں ہوتی وہ معاشرہ بکھر جاتا ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عمران خان نے جو اور جس قدر وعدے کئے تھے ان کو
پورا کرتے یا ان کے بارے میں عوام کو اعتماد میں لیتے۔ لیکن ہمیں یہ بھی
واضح نظر آ رہا ہے کہ ان وعدوں کو عملی جامہ تو تب پہنایا جاتا جب پچھلی
حکومتیں جو دکھاوا کر رہی تھیں وہی حقیقت میں پاکستان کے اثاثوں میں موجود
ہوتا۔اس طرح سے نو منتخب حکومت کو سب سے پہلے ان اہداف کا سامنا کرنا پڑا
جو مصنوعی طور پر پیدا کئے گئے تھے۔ یہ اہداف اس لئے پیدا کئے گئے تاکہ
وڈیرہ شاہی، مغلیہ دربار اور نام نہاد مذہبی خلافت کو دائمت مل جائے اور
دوبارہ کوئی بھی ان کے خلاف قدم اٹھانے کی جسارت نہ کرے۔گو کہ عمران خان نے
ایسے بہت سے اقدامات لئے ہیں جنہیں تھوک کر چاٹنا کہتے ہیں ، مگر ایسے ہی
اقدامات تمام اپوزیشن جماعتوں کی بھی مجبوری بن گئے۔ جیسے عمران خان کے
بارے میں کہا گیا کہ وہ یوٹرن ماسٹر ہیں ، اپنی کہی باتوں اور وعدوں سے پھر
جاتے ہیں مگر اپوزیشن والوں کو تو اس سے بھی زیادہ ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔
جو ایک دوسرے کی جان کے در پے تھے، طلباء کی سطح پر ایک دوسرے کے لہو کے
پیاسے تھے ، انہیں ایک دوسرے کے ساتھ ایک ہی تھالی میں کھانا پڑ گیا اور
عسکر ی تھنک ٹینکس کا عشروں پہلے دیا ہوا تجزیہ درست ثابت ہوا کہ یہ سب ایک
ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔ اور شاید طلباء کیلئے بھی یہ ایک بڑا سبق ہوگا جو
ان سیاسیوں کیلئے جانے انجابے پراپیگنڈوں کو حصہ بن جاتے ہیں اور اپنے
مستقبل سمیت آنے والی نسلوں کا مستقبل بھی تاریک بنا دیتے ہیں۔ ہمارے
معاشروں میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جو بعد میں معاشرے میں ذلت و رسوائی
کا نشان بن جاتے ہیں۔ایک سچ تھا اور ہے ، وہ یہ کہ پاکستان کا دانشور اور
زیرک طبقہ صرف ایک ہی جگہ پایا جاتا ہے اور وہ ہے قومی سلامتی کے ادارے۔ملک
کے دیگر دانشور، مذہبی و سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور ان کے پالیسی میکر
کیلئے مجھے افسوس ہے کہ وہ پاکستان کے مستقبل کے بارے نہ تو کبھی سوچ پائے
ہیں اور نہ ہی کبھی ایسا تجزیہ پیش کر پائے کہ وہ حکومتوں سے ان پر عملد ر
آمد کروانے میں ان کا دل راضی کر سکتے۔ ہاں ! مگر اس کے بر عکس انہوں نے
سیاستدانوں ، مافیاز کی خوشامد شروع کر رکھی ہے اور غیر ضروری لا شعوری
تجزیوں و تبصروں سے عوام کو ذہنی طور پر مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ ان کیلئے
ایک پیغام میں ضرور دینا چاہوں گا کہ خواہ عمران خان بھی انہی سیاستدانوں
کی طرح ہوں گے مگر ان میں ایک قدر یکسر مختلف ہے اور وہ یہ کہ وہ اپنی
اصلاح کی خاطر ہر بات پر غور کرتے ہیں اور ڈٹ جانے والوں میں سے ہیں۔ انہوں
نے وہ کر کے دکھایا ہے جو پہلے کی حکومتیں صرف بیانات میں کیا کرتی تھیں۔
شہباز شریف، زرداری کو لاہور اور لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں
کرتے تھے تو کبھی زرداری ،نواز شریف اور شہباز شریف کو لاہور کی سڑکوں پر
بھگانے کے دعوے کرتے تھے۔اور فضل الرحمٰن سب سے بڑے بلیک میلر جو ان دونوں
کو بلیک میل رکھتے اور پورا پورا مفاد حاصل کرتے۔مگر عمران خان نے ان سب
پارٹیوں کو پاکستان بھر کی سڑکوں پر ذلیل کیا ہے۔ یہاں یہ بات تو عیاں ہے
کہ جس عمران خان کو گھور سیاستدان کرکٹ کھیلنے اور سیاست سے دور رہنے کے
مشورے دیتے تھے انہیں سیاسی طور پر عمران خان نے تگنی کا ناچ نچا دیا ہے۔
چاہے عمران خان کو سیاست آتی تھی یا سکھلائی گئی مگر ایک بات طے ہے کہ
انہوں نے 2018 کا ضمنی الیکشن بھی جیتا، سابقہ سینٹ الیکشن جب ان کی کوئی
اکثریت نہیں تھی میں بھی اپنا چئیرمین منتخب کروایا اور کہیں بھی مافیاز کے
سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے۔قومی اور بین الاقوامی میڈیا نے پاکستان کے حالیہ
سینٹ الیکشن کو لے کر واویلا مچا رکھا ہے۔ ابھی تک فاٹا کے خہبر پختونخواہ
میں انضمام کے بعد اس کی نشستوں کی تقسیم کا آئینی سوال بھی باقی ہے۔اس سال
سینٹ سے 52 سینیٹرز ریٹائر ہو جائیں گے جن میں مسلم لیگ ن کے 15، پیپلز
پارٹی کے 7، تحریک انصاف کے 7 اور 5 آزاد سینیٹرز شامل ہیں ۔ جنرل نشستوں
پر 33، ٹیکنو کریٹ کی نشست پر 8 ، اور غیر مسلم کی دو نسشتیں خالی ہو رہی
ہیں۔ صوبائی سطح پر پنجاب میں پہلے ہی پی ٹی آئی کے سینیٹرز بلا مقابلہ
منتخب ہو چکے ہیں۔ باقی صوبوں کے نتائج ابھی باقی ہیں۔ وفاقی حکومت نے اس
بار ایک صدارتی آرڈینینس پیش کیا ہے کہ سینیٹ میں انتخاب کا عمل ہینڈ شو کے
ذریعے ہونا چاہئے۔ مگر اس بار اپوزیشن جماعتیں اس کو تسلیم کرنے سے انکاری
ہیں مگر اپنے حکومتی ادوار میں یہی جماعتیں اس کے مشورے دیا کرتی تھیں۔ان
سینٹ الیکشنز کے بارے میں جہاں تک میری رائے ہے تو اپوزیشن حواس باختہ ہونے
کی وجہ سے حکومتی جماعت کو پلس پوائنٹ مل رہا ہے اور وہ سینٹ میں تناسب سے
زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ بس یہاں کرنے کا کام یہ ہے
کہ پاکستا ن میں شرپسندوں سے جو عوام کو پراپیگنڈوں کے ذریعے ذہنی طور پر
منتشر کرر ہے ہیں ان سے خبر دار رہنے کی اشد ضرور ت ہے۔
|