ہمیں ہمارے برے دن واپس کر دیئے جائیں ․․․!

اب عوام کھلے الفاظ میں کہہ رہے ہے کہ ہم ایسی تبدیلی سے بازآئے،ہمیں ہمارے برے دن واپس کر دیئے جائیں ․․․ایسی سوچ کیوں پیدا ہوئی ؟اسے سمجھنے کے لئے کوئی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ۔عوام کوامید پر دھوکا دیا گیا،جس کی پاداش میں آج موت بھی مہنگی ترین ہو کر رہ گئی ہے۔اس لئے وہ نہ مر سکتے ہیں اور جینا مرنے سے بد تر ہو چکا ہے ۔اب سے چالیس برس قبل جو صورت حال تھی کہ لوگ گھروں میں لکڑی جلا کر کھانا بنا لیتے تھے،اب تو لکڑی سے کھانا بنانا بھی مشکل ہو چکا ہے،لیکن ہمارے سیاسی لیڈران ابھی تک اپنی ہوس اقتدار کی آگ بجھا نہیں پا رہے۔سیاست دان ایک دوسرے کو عوام کے سامنے ’’گندا‘‘ کرنے میں اتنا آگے نکل چکے کہ اب یہ انسانیت اور آدمیت سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔حیوانیت اور درندگی ان کی پہچان بن گئی ہے،یہاں تک گر چکے ہیں کہ انسانوں کی صف میں شمار کئے جانے کے لائق نہیں رہے ۔یہ اپنی درندگی اور حیوانیت کو پردے میں چھپانے کی کوشش میں ہیں،مگر اب ان کی اصلیت دنیا کے سامنے ظاہر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی ۔

سیاست سے وابستہ کوئی بھی آدمی نہیں چاہتا کہ کسی بھی اسکینڈل کی ایمانداری سے جانچ ہو اور قصورواروں کو سزا ملے ، کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ اپنی مخالف پارٹی کی بدعنوانی کے معاملوں کو عوام کے درمیان اچھال کر زیادہ سے زیادہ عوامی رائے کو اپنے حق میں کر سکتا ہے۔آج پاکستان تحریک انصاف ’’کرپشن مکاؤ‘‘ کی چیمپئن پارٹی کو پوچھنا ہو گا کہ اپنے سیاسی مخالفین کے معاملات جن کے ثبوت نہیں کے برابر ہیں اس پر تو آپ کا جوشیلا پن دیدنی ہے،لیکن اپنے اوراپنی حکومت کے خلاف اسکینڈلز میں ہزاروں ثبوت موجود ہیں ،اس پر چشم پوشی اور خاموشی کیوں ہے؟عوام صرف اس بات کو سمجھ لے تو موجودہ حکمرانوں کی بدعنوانی پر شور مچانے کی حقیقت خود بخود معلوم ہو جائے گی ۔
کوئی پارٹی ہو یا حکومت،سبھی بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا دعویٰ کرتی رہی ہیں۔ماضی کے تمام حکمران چاہے وہ جمہوری ہوں یا ڈکٹیٹرز اپنے اپنے دور میں بدعنوانی کے خاتمے کے لئے پابند عہد رہے ہیں ۔بدعنوانی کے معاملے میں کچھ دلچسپ حقائق کو دھیان میں رکھنا ضروری ہے کہ یہ اسکینڈلز صرف الیکشن سے پہلے ہی اچھالے جاتے رہے ہیں،مگر پی ٹی آئی کو حکومت ملنے کے پہلے دن سے ’’اِن ایکشن ‘‘رہنا پڑا ہے ۔2013ء کے الیکشن سے شروع ہونے والا سلسلہ انتشار ،احتجاج،دھرنے اور عوام کو حکومت مخالف اکسانے کی ہر تدبیر آزمانے کے بعد ایمپائر کی انگلی کے سہارے اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے کا موقع حاصل کر لیا،لیکن الیکشن کے دوران عوامی جلسوں اور دھرنوں میں جوشیلی تقریروں کے دوران اپنے حریفوں پر سخت حملے کئے،لیکن انہوں نے پھر بھی اپنی حکومت کی مدّت پوری کی۔انتقال اقتدار ہوا،یہاں یہ طوفان بدتمیزی تھم جانا چاہیے تھا اور اتفاق رائے کا راستہ ہنوار کرنے کی ضرورت تھی،مگر ناعاقبت اندیش حکمران عوام کی محرومیوں کو پسِ پشت ڈال کر اپنی اَنا ،بغض اور ہوس اقتدار کو اہمیت دی ۔حالاں کہ لوگ تو مان چکے کہ سیاست بدعنوانی کا مترادف ہے ۔خود عمران خان بدعنوانی کو روکنے میں لاچار نظر آتے ہیں۔

جمہوریت کے تین ستون ہیں ،تمام اس بری طرح بدعنوانی کے کینسر سے متاثر ہیں کہ کسی کو راستہ دکھائی نہیں دیتا۔پی ٹی آئی پر فارن فنڈننگ کیس سے شروع ہو کر سلسلہ وار اسکینڈلز کی بھر مار ہے،لیکن کسی ایک کی تحقیق یا سزا نہیں دی گئی۔وزیراپنی وزارت کے اندر اپنے بیٹے کو ڈیم کا ٹھیکہ دے دیتا ہے،چینی،آٹاا سکینڈل کا شور مچایا جاتا ہے،رپورٹ پبلش کرنے کا حکومت کریڈٹ لیتی ہے،مگر پھر وہی ’’مک مکا‘‘کر لیا جاتا ہے۔عدالتیں خاموش،انتظامیہ خاموش۔90 کمپنیوں کا اسکینڈل آتا ہے،کیوں کہ وہ ریٹائرجنرل ہیں ،اس لئے مقدس ہیں،ان کا سب کچھ درست،عدالت خاموش،انتظامیہ خاموش۔عوام لٹ رہی ہوتی ہے،لیکن ہر ادارہ خاموش ہے۔عوام کے خون پسینے سے چلنے والے ادارے لوگوں کو لٹتے ہوئے خاموشی سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ہر ادارے کی منشا ہوتی ہے کہ صرف سیاست دانوں کے بدعنوانی کے معاملات کو عوام کے درمیان اچھال کر انہیں زیادہ سے زیادہ بدنام کیا جائے ۔آج اخلاقیات ،عوامی خدمت پر شور مچانے والوں سے پوچھا جائے کہ پارلیمنٹ کو کمزور کرنے میں کس کس کا ہاتھ ہے ۔ملکی بڑے اداروں نے اپنے مفادات کے لئے پارلیمنٹ کو کمزور کرنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا ہے ۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ بے بسی کی تصویر بن کر رہ گئی ہے ۔حالاں کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت ہے،لیکن یہاں ادارے طاقت ور اور پارلیمنٹ کمزور ہے ۔اس نہج پر پہنچنے کی تمام تر ذمہ داری سیاست دانوں پر نہیں ڈالنی چاہیے ۔آج بھی بہت سے سیاست دان ایسے ہیں جو ملک و عوام کی فلاح کے خیر خواہ ہیں ۔انہوں نے اپنی زندگیاں اس دشت میں گزار دیں۔قربانیاں بھی دیں اور تکالیف سے بھی دوچار ہوئے ،کیوں کہ مادہ پرستی کو فروغ دیا گیا،رشوت لینے سے ڈر نہیں رہا کیوں کہ پکڑے جانے پر رشوت دے کر چھوٹ جانے کے کلچر کو پنپنے دیا گیا۔اس میں سیاست دان اور تمام ادارے برابر کے شریک رہے ہیں ۔جہاں یہ سوچ پروان چڑھ چکی ہو کہ بڑا دولت مند بننے کے لئے بینکوں کے بڑے قرض مارنا اور بڑی مقدار میں ٹیکس چوری کر نا ضروری ہے ،پھر ایسے دولت مند لوگ پیسہ لگا کر سیاست میں قدم رکھتے ہیں،دوسرے دولت مند لوگ بھی ایسے لوگوں کو سپورٹ کرتے ہیں کیوں کہ ان کے مفاد میں وہ لوگ اہم عہدوں کے حق دار ہیں جو بدعنوان ہوں ۔

اب سینیٹ کا الیکشن ہے،اس پر بھی لین دین ہورہا ہے۔کوئی ایک سیاسی پارٹی نہیں چاہتی کہ صاف شفاف الیکشن ہو،لین دین کرنے والے کر چکے ہیں ۔وہی نتائج سامنے آئیں گے جس کا اندازہ لگایا جاچکا ہے ۔اگر دیکھنے والے زرا سا غور کریں تو اندازہ ہو گا کہ الیکشن والے دن سینیٹ میں تمام پارٹی کے لوگ مطمئن نظر آئیں گے،کیوں کہ ظالموں کے عروج کا وقت ہے ،یہ عذابِ الٰہی نہیں تو کیا ہے؟یہ سب ایک ہی طرز کے چھلاوے ہیں ۔بس یہ عوام کو بیوقوف بنا کر ان کے ذہنوں پر قبضہ کرنے کے فن سے آشنائی حاصل کرتے ہیں۔حکمران عوام کو بھوک ،افلاس اورمعاشی بحران میں ایسا جھنجھوڑتے ہیں کہ وہ سوچنے ،سمجھنے اور بحث کرنے کی طاقت سے محروم ہو کر رہ جاتے ہیں،اسی لئے کوئی کسی ظلم کے خلاف آواز بلند نہیں کرتا،کوئی حکمرانوں سے سوال نہیں پوچھتا۔

یہ حکومت کیوں کہ ہٹلر کی سوچ رکھتی ہے اور ہٹلر نے کہا تھا کہ اگر آپ ملک پر طویل عرصہ تک حکومت کرنا چاہتے ہیں تو پہلے عوام کے ذہن پر قبضہ کر لیں ۔وہ عوام کے سوال کرنے سے ڈرتا تھا۔ہمارے حکمران بھی ایسے ہی ہیں ۔یہ آج بھی اس خوش فہمی میں ہیں کہ عوام ان سے خوش ہیں کیوں کہ عوام ان کی حکومت کے خلاف احتجاج کے لئے سڑکوں پر نہیں آ رہی،حالاں کہ عوام کو روزی روٹی میں ایسا جکڑ دیا ہے کہ وہ پیٹ کی آگ کو بجھانے سے فارغ نہیں ہوتے،لیکن عوام کو اپنا ملک ،آئندہ نسلوں کو بچانے کے لئے سوال کرنے پڑیں گے ،احتجاج کے لئے سڑکوں پر آنا پڑے گا اور آئندہ آنے والوں کو بھی باور کروانا پڑے گا کہ ماضی کی کرپشن زدہ حکمرانی کے وطیرے کو تبدیل کر لیں،پھر ہی انہیں دوبارہ موقع ملے گا۔


 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 109489 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.