فائشل ٹاسک فورس(ایف اے ٹی ایف) نے پیرس اجلاس میں
پاکستان میں گرے لسٹ کو جون تک ایک بار پھر شامل رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس
بار بھارت کے ساتھ فرانس نے بھی پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کی سخت
مخالفت کی ۔ بھارت کی تو دیرینہ خواہش رہی کہ وہ پاکستا ن کو بلیک لسٹ میں
شامل کرادے ، اس کے لئے لابنگ ، جھوٹ ،منفی پروپیگنڈے اور عالمی اداروں کو
گمراہ کرنے کی سازشیں کسی سے پوشیدہ نہیں ۔تاہم اس بار ’بیگانے کی شادی میں
عبداﷲ دیوانے کا کردار‘ فرانس نے ادا کیا ، بھارت کی پاکستان سے ازلی دشمنی
کی وجہ سمجھ میں آتی ہے ، لیکن فرانس نے جس طرح بڑھ چڑھ کر پاکستان کی گرے
لسٹ سے اخراج کو اپنی اَنا کا مسئلہ بنایا ، وہ اس گمان کو تقویت میں بدل
چکا کہ عالمی ادارے اپنے فروعی مفاد کے لئیفیٹف جیسے اداروں کو بھی اپنے
مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
فرانس کے خلاف خاتم النبین حضرت محمد مصطفی ﷺ کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت
اور سرکاری سرپرستی کرنے پر مسلم امہ نے سخت غم و غصے کا اظہار کیا تھا
۔ترکی نے تو ایسا احتجاج کیا کہ صدر میخواں کو خلافت عثمانیہ کی یاد آگئی
ہوگی ۔ دنیا بھر میں مسلم امہ و پاکستانی عوام نے احتجاجی مظاہرے کئے جب کہ
مسلم اکثریتی ممالک میں بھی فرانسیسی مصنوعات کی بائیکاٹ مہم چلائی گئی ،
اسلام فوبیا کے شکار فرانس کے معتصبانہ مسلم مخالف رویئے کے خلاف پاکستانی
عوام نے فرانس کے سفیر کی ملک بدری و سفارتی اور تجارتی تعلقات ختم کرنے کا
مطالبہ بھی کیا ۔تحریک لیبک کا حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ بھی ہوا ، جس پر
سابق وزیر داخلہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ،وفاقی وزیر مذہبی امور
نورالحق قادری اور تحریک لیبک کے چند رہنماؤں نے دستخط کئے۔اس معاہدے کے
چند نکات میں سب سے پہلا فرانس میں شائع ہونے والے گستاخانہ خاکوں کے نتیجے
میں پاکستان میں مقیم فرانسیسی سفیر کو دو سے تین ماہ کے عرصے میں پارلیمنٹ
سے فیصلہ سازی کے ذریعے ملک بدر کرنے کے بارے میں ہے۔معاہدے کے
مطابق17فروری کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی ، تاہم حکومت نے تحریک لیبک سے مزید
مہلت مانگ لی اور یقین دہانی کرائی کی، کہ20اپریل کو پارلیمنٹ اجلاس میں
معاہدہ پیش کرکے قانون سازی کی جائے گی۔ اس بار معاہدے پر وفاقی وزیر داخلہ
اور وفاقی وزیر مذہبی امور نے دستخط کئے۔
فرانس نے مذہبی بنیادوں پر نئی قانون سازی کی ،جس پرصدر پاکستان عارف علوی
نے تحفظات کا اظہار کیا تو فرانسیسی سفارت خانے نے پاکستانی سفارتی افسر کو
دفتر خارجہ طلب کرکے شدید احتجاج کیا ۔ صدر پاکستان نے ایک مذہبی کانفرنس
سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ ایک خطرناک مثال ہے کہ اکثریت کی حمایت
میں قانون تبدیل کر کے اقلیت کو تنہائی کا شکار کیا جائے۔‘فرانس کی
معتصبانہ سوچ ڈھکی چھپی نہیں ، تاہم اس کے علاوہ ہندو انتہا پسند مودی
سرکار کے ساتھ بد نام زمانہ رافیل طیارہ( خریداری کرپشن سکینڈل کے باوجود)
مزید فروخت کرنے کی لالچ نے صدر میخواں کو اندھا کردیا اور صرف تین نکات پر
جزوی عمل درآمد کئے جانے کے باوجود پاکستان کی شدید مخالفت کی ۔
فیٹف عالمی طاقتوں کا حاشیہ بردار بن کر اُن کے ایجنڈے پر عمل درآمد کرنے
والا ادارہ بن چکا ، چین سمیت کئی ممالک نے اس کے جانب دارنہ کردار پر سوال
اٹھاتے ہوئے عالمی برداری کو باور کرایا کہ فیٹف کا قیام اس لئے نہیں آیا
تھا کہ وہ کسی ملک پر ، عالمی طاقت کی ایما پر پابندی عاید کرے ، جس سے اُس
مملکت کے معاشی معاملات عالمی مالیاتی اداروں میں پریشانی کا سبب بنے ۔
خیال رہے فیٹف نے2018میں جب پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیا تو 40نکات پر
عمل درآمد کرنے کا کہا تھا ، جس کے بعدفیٹف نے 30نکات پر عمل درآمد نہ ہونے
کا بہانہ تراشا ، پاکستان نے تمام تر مشکلات و کرونا وبا کے باوجود 30نکات
کے مطالبات کو بھی پورا کیاتو اکتوبر میں ایک مرتبہ پھر 6نکات پر جزوی عمل
درآمد کا اعتراض اٹھا دیا ، اب جب کہ چھ نکات میں سے 3نکات پر بھی مکمل عمل
درآمد کردیا گیا اور صرف 3ایسے نکات باقی بچے جن پر عمل درآمد شروع ہوچکا
ہے تو فیفٹ کو اخلاقی وقانونی پاسداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا اور
پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کے لئے عالمی طاقتوں کی خوشنودی کا وتیرہ
اپنانے سے گریز کی راہ اختیار کرنی تھی۔
جن خدشات کا اظہار گذشتہ برس سے کیا جارہا تھا کہ عالمی قوتیں پاکستان کو
دباؤ میں رکھ کر بھارتی ایجنڈے کو کامیاب بنانے کے لئے مفادات کا طوق گلے
میں ڈال چکی ہیں تو حالیہ اجلاس میں یہی ہوا ۔ فرانس نے اپنا بغض فیٹف میں
پاکستان کی شدید مخالفت کرکے نکالا ۔ بھارت و فرانس جس طرح مسلم امہ کی دل
آزاری کا موجب بن کر اخلاقی اقدار کو بھی خاطر میں نہیں لاتے ، بھارت کی
منی لانڈرنگ و ریاستی دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ناقابل تردید گواہی خود
عالمی ذرائع ابلاغ دیتا ہے ، لیکن اس کے باوجود ہندو انتہا پسند ریاست کے
خلاف فیٹف کا کوئی کاروائی نہ کئے جانا ، اس ادارے کی غیر جانبداری پر
سوالیہ نشان ہے۔ واضح رہے کہ رواں برس مئی کے اوئل میں افغان طالبان اور
امریکا کے درمیان دوحہ معاہدے کی رو سے افغانستان سے امریکی فوج کی مکمل
بیدخلی ہونی ہے ، نیٹو ترجمان نے تو اعلان کردیا ہے کہ وہ ابھی ٹائم فریم
نہیں دے رہے ، امریکی انتظامیہ تبدیلی کے بعد معاہدے پر نظر ثانی کئے جانے
کے امکانات اور بین الافغان مذاکرات دوبارہ شروع ہونے کے باوجود کسی منطقی
انجام تک پہنچتے نظر نہیں آرہے ۔
قیاس یہی ہے کہ امریکا نے بھی پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کے لئے اپنا
اثر رسوخ ، وعدے کے باوجود استعمال نہیں کیا ، چونکہ دوحہ معاہدہ جرمن
فارمیٹ کے تحت ہوا اور افغان انٹرا ڈائیلاگ عالمی قوتوں کی منشا کے مطابق
نہیں ہورہے ، اس بنا پر پاکستان کی تمام ترمثبت کوششوں کے باوجود ،
مزیددباؤ بڑھانے کے لئے فیٹف کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جارہا
ہے۔پاکستا ن کو واچ لسٹ میں رکھنے کی وجوہ عالمی طاقتوں کے فروعی مفادات
ہیں ، جو خطے کے اہم ترین جغرافیائی اہمیت کے حامل ملک کو دباؤ میں رکھ کر
حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، عالمی سیاسی ایجنڈوں میں امریکا ، جرمنی،
فرانس اور بھارت سمیت چند مسلم اکثریتی ممالک کا مالیاتی لالچ کا ایجنڈا
پاکستان کی معیشت کو کمزور تر کمزور کرنا چاہتا ہے تاکہ مملکت ان کے ڈو مور
مطالبات کو ماننے پر مجبور ہوتی رہے ۔فیٹف کو فریق بننا سے گریز کرنا ہوگا
۔نیز ریاست کو مور خارجہ میں مغربی ممالک پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
|