آہ....نور احمد میرٹھی بھی رخصت
ہوئے
کوئی دوسال پہلے کی بات ہے جب جناب نور احمد میرٹھی صاحب سے ہمیں پہلی دفعہ
ملاقات کا موقع ملا،یہ ملاقات جہاں خوشگوار حیرت کا باعث تھی وہیں تکلیف
اور دکھ کا بھی سبب بنی،آپ حیران ہورہے ہوں گے کہ دونوں کیفیتیں ایک ساتھ
کیسے ،توعرض ہے کہ خوشگوار حیرت اس لیے کہ ہم جناب میرٹھی صاحب کو بچپن سے
کسی اور حیثیت سے جانتے تھے،ہمیں نہیں معلوم تھا کہ بچپن میں جس ڈاکٹر کے
کلینک سے ہم دوا لیتے رہے وہاں پر ڈاکٹر صاحب کے اسٹینٹ کے فرائض انجام
دینے والے کوئی عام آدمی نہیں بلند پایہ ادیب اور محقق بھی ہیں،اگر جناب
ندیم صدیقی صاحب روزنامہ اردو ٹائمز ممبئی نیٹ پر ہماری توجہ اس جانب مبذول
نہ کراتے تو شاید یہ راز ہم پر کبھی نہ کھلتا کہ جنھیں ہم بچپن سے کسی اور
حیثیت سے جانتے تھے،وہی دراصل دنیائے ادب کی عظیم شخصیت نور احمد میرٹھی
ہیں،ندیم صدیقی صاحب سے ہمارا تعلق دراصل ہماری کتاب ”تحریک تحفظ ختم نبوت
سیدنا صدیق اکبرتا علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی“کے حوالے سے محبت کے درجے
میں داخل ہوا تو نیٹ پر باتوں باتوں میں ایک دن انہوں نے ہمیں کراچی کے
علاقے کورنگی زمان ٹاؤن میں رہائش پزیر اپنے دوست جناب نور احمد میرٹھی
صاحب کا فون نمبردے کر اُن کی خیریت سے آگاہی اور سلام پہنچانے کی استدعا
کی ۔
چنانچہ ہم نے ندیم صدیقی صاحب کی معرفت جناب نور احمد میرٹھی صاحب کو فون
کرکے اُن کی خیریت معلوم کی اور انہیں ندیم صدیقی صاحب کاسلام پہنچایا،یہ
سلسلہ کئی ماہ تک چلتا رہا ،آخر ایک دن جناب نور احمد میرٹھی صاحب نے
فرمایا،احمد صاحب آپ اکثر فون کرکے خیریت معلوم کرتے ہیں،کسی دن تشریف لاکر
شرف ملاقات بخشیں،چنانچہ ہم جناب نور احمد میرٹھی صاحب کے آشیانے پر
پہنچے،چہرہ شناسا سا لگا،بات چیت اورمکمل تعارف میں یہ عقدہ کھلا کہ موصوف
ہمارے علاقے میں جاوید کلینک پر ڈاکٹر جاوید کی معاونت کے فرائض انجام دیتے
رہے ہیں،یہ ملاقات جہاں خوشگوار حیرت کا باعث تھی وہیں یہ دیکھ کر تکلیف
ہوئی کہ نور احمد میرٹھی صاحب سات ماہ سے ریڑھ کی ہڈی میں ٹی بی کی وجہ
چلنے پھرنے سے معذور ہیں،بستر پر ہونے کے باوجود وہ نہایت ہی محبت اور
خنداں پیشانی سے پیش آئے اور چلتے وقت اپنی دس بیش قیمت تحقیقی کتابیں
دوبارہ آنے کی تاکید کے ساتھ ہماری نذر کیں،یوں نور احمد میرٹھی صاحب سے
وقتاً فوقتاً ملاقاتوں کا ایک سلسلہ چل نکلا،ہم جب بھی جاتے وہ نہایت محبت
و شفقت سے پیش آتے اور مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ چھوڑتے،اکثر ملاقات
کیلئے آنے والوں سے ہمارا تعارف کراتے ہوئے کہتے ”احمد صاحب ہمارے حلقہ
احباب میں خوبصورت اضافہ ہیں“ نور احمد میرٹھی صاحب خوددار،پرعزم اور حوصلہ
مند انسان تھے،انہوں نے اپنی ہمت اور قوت ارادی کے بل پراپنی بیماری کو
شکست دینا شروع کردی تھی،ہم ان سے اپنی آخری ملاقات جو کہ برادرم معروف
کالم نگار اعظم عظیم اعظم کے ہمراہ ہوئی شاید کبھی بھول نہ پائیں،اس ملاقات
میں ہم نے انہیں بغیر سہارے کے چلتے ہوئے پایا،انہوں نے اپنے کچن میں خود
ہمارے لیے چائے بناکر پیش کی،دیر تک خوبصورت باتیں کرتے رہے،چلتے وقت
فرمایا ”احمد صاحب جلدی آئیے گا زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے“ واقعی زندگی
کا کوئی بھروسہ نہیں،18جون 2011ءکو ان کی رحلت کی دلگداز خبر سننے کو
ملی،دنیائے علم وادب یہ آفتاب اپنی محبت بھری یادیں چھوڑ کر ہمیشہ کیلئے
غروب ہوگیا ۔
میرٹھ کی سرزمین ہمیشہ سے باکمال لوگوں کا گہوارہ رہی ہے جہاں علم و دانش
کے کئی شگوفے پھوٹ کر قدآور درخت بنے،فکرو فہم اور علم و دانش کے اِن گلوں
نے مہک کر برصغیر کی فضا کو معطر اور دیدہ ودل کو منور کیا،اِسی گدازپارہ
صفت مٹی سے نور احمد میرٹھی کا وجود بھی نمو پایا،نور احمد میرٹھی کے والد
سید محمداحمد کا تعلق دہلی اور والدہ کا میرٹھ سے تھا،نور احمد میرٹھی نے
17جنوری 1948ءکو دہلی میں آنکھ کھولی اور اپنے نانا سید نورالٰہی کے زیر
سایہ میرٹھ میں پرورش پائی،فیض عام انٹر کالج میرٹھ سے تعلیم حاصل کی،موصوف
کے نانا کا حلقہ احباب وسیع اور ماحول خالص مشرقی تھا،اسی لیے علم و تہذیب
کی چھاؤں جو سونے کو کندن بنادے،میں اُن کا فکر و شعور پروان چڑھا،وہ اپنے
نانا سے بہت متاثر اور عملی ادبی کام میں اشرف علی زبیری کے ممنون
تھے،جنوری 1962ءمیں پاکستان منتقل ہوئے اور بقیہ تعلیم مکمل کرنے کے
بعدسماجی،ادبی اور صحافتی زندگی کا آغاز کیا ۔
برصغیر پاک و ہند میں غیر مسلموں کی حمدیہ،نعتیہ اور رثائی شاعری کے حوالے
سے تحقیقی کام کرنے نور احمد میرٹھی پہلے آدمی تھے،اُن کی ادبی خدمات کو
مشاہیر اور دانشور طبقہ نے سراہا اور وہ آج دنیائے علم و ادب کی ایک جانی
پہچانی شخصیت تھے،اُن کی ادبی خدمات پر انہیں قائد اعظم ادبی ایوارڈ اور
پاکستان نعت اکیڈمی کا سلور جوبلی ایوارڈ بھی ملا،نوراحمد میرٹھی کی دوررس
متلاشی نگاہیں ہمیشہ عجیب عجیب نکتے تلاش کرکے اپنی بو قلمی کے نادر شاہکار
تراشتی ہیں اور جدیدو منفرد اندازاُن کے محور فکر پر رقصاں رہی،جس کا عملی
اظہار ان کی وہ تصنیفات ہیں جو موجودہ اور آنے والی نسلوں کیلئے سرمایہ
افتخار ہیں،حقیقت یہ ہے کہ نوراحمد میرٹھی ایک مکمل سوچ،مجسم فکر ،سراپا
خلوص اور بے پایاں محبت کی وہ شبنم تھے جو ذہنوں کو طمانیت اور زندگی کو
حرارت بخشتی ہے ۔
جن لوگوں نے علم و ادب کو مقصد حیات بناکر مولانا اسمعٰیل میرٹھی کی نظم
”پن چکی“کی طرح دُھن اور لگن سے کام کیا،اُن میں نوراحمد میرٹھی کا نام
نمایاں و ممتاز مقام رکھتاہے،اُن کی درجن بھر چھوٹی بڑی کئی کتابیں شائع
ہوچکی ہیں،جن میں ”اذکارو افکار،نورسخن،گلبانگ وحدت،بوستان
عقیدت،انتخاب،اشاریہ،صابربراری کی تخلیقات،تذکرہ شعرائے میرٹھ،مشاہیر
میرٹھ،شخصیات میرٹھ اور بہرزماں بہرزباں جیسی نادر ونایات اور اچھوتی
کتابیں شامل ہیں،اس کے علاوہ مہروماہ،فراز خودی،جام طہور،چشم شوق،تاریخ
رفتگاں،پانی پہ نقوش،ہوا چراغ آئینہ،خواب سے بیداری تک،دکھ موسم اور
خواب،اعتبار کا موسم اور کتابوں پر تاریخی قطعات بھی آپ کی مرتبہ کتب میں
شامل ہیں،جناب نوراحمد میرٹھی کی تمام کتابیں بین الاقوامی ادبی معیار کے
مطابق چھاپی گئی ہیں ۔
آپ 26،27سال اسی کام میں لگے رہے کہ میرٹھ کے لوگوں نے علم وادب اور زندگی
کے مختلف شعبوں میں علمی وتخلیقی سطح پر جو خدمات انجام دی ہیں،انہیں بصورت
تذکرہ یکجا و مرتب کرکے دنیا کے سامنے پیش کیا جائے،میرٹھ سے تعلق رکھنے
والی قومی و ملی تاریخ کی اِن عظیم شخصیات کے ذکر کے بغیر ہماری تاریخ مکمل
نہیں ہوسکتی،اِن سب شخصیات کو سمیٹ کر تذکرے کی صورت میں یکجا کرنا کوئی
آسان کام نہیں تھا،اِن کاموں کیلئے ادارے بنائے جاتے ہیں،جہاں بہت سے لوگ
مل کر کام کرتے ہیں اور پھر کوئی نتیجہ برآمد ہوتا ہے،لیکن نوراحمد میرٹھی
نے یہ کام تن تنہا کرکے ایک ایسا کارنامہ انجام دیا جس پر نہ صرف نوراحمد
میرٹھی بلکہ ہم سب بجا طور پر فخر کرسکتے ہیں ۔
ڈاکٹر جمیل جالبی سچ کہتے ہیں کہ ”نوراحمد میرٹھی صاحب صاحب دل انسان
ہیں،خلوص و محبت کا پیکر ہیں،دھن کے پورے،کام کے پکے....علم و ادب اُن کا
اوڑھنا بچھونا،دن رات اِسی کام میں لگے رہے اور گذشتہ پندرہ بیس سال کے
عرصے میں کئی کتابیں مرتب کرکے شائع کرچکے ہیں جو سب کی سب اپنے موضوع پر
اچھوتی اور اُن کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہیں،آپ لکھتے ہیں” بہر زمان بہر
زبان کو ملاکر اُن کا یہ کام”تذکرہ شعرائے میرٹھ“،”مشاہیر میرٹھ،شخصیات
میرٹھ“اتنا اہم ہوجاتا ہے کہ کسی بھی یونیورسٹی کو انہیں ڈی لٹ کی اعزازی
ڈگری دینی چاہیے۔“
نوراحمد میرٹھی ادارہ فکر نو کراچی کے بانی،بزم اتحاد ادب،بزم شعر و
سخن،ادارہ فوق الادب سے وابستہ اور آرٹس کونسل کراچی کے رکن بھی تھے،بیماری
کی حالت میں بھی آپ تصنیف و تالیف کے کام میں تندہی سے مصروف رہے،اپنے
انتقال سے قبل 1991ءسے 2010ءتک چھپنے والے شعری مجموعوں اور نعتیہ کلام پر
”انتخاب“ کے عنوان سے جبکہ ”گلستان عقیدت“ کے نام سے غیر مسلموں کی منقبتی
شاعری،تذکرہ شعرائے طنزو مزاح،شعرائے طنزو مزاح کی نعتیہ شاعری اور تذکرہ
شاعرات پاکستان “پرکام کررہے تھے،نوراحمد امیرٹھی کی علمی و ادبی خدمات کا
اعتراف بہت سے اہل علم و دانشوروں نے کیا ہے،علامہ شاہ احمد نورانی فرماتے
تھے ”وہ کام جو مختلف حضرات مل کرکرتے انہوں نے تنہا کردکھایا۔“
ڈاکٹر فرمان فتحپوری کہتے ہیں”نوراحمد میرٹھی کی نگاہ جستجو اور اشہب خیال
نے بے بحرظلمات میں عواضی کا فریضہ اداکیا،اُن موتیوں کو تہہ آب سے باہر
نکلااور نئی آب و تاب کے ساتھ منظر عام پر لے آئے کہ عاشقان رسول کے دیدہ
ودل منور ہوگئے۔“ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کہتے ہیں”جناب نور احمد میرٹھی نے
انتخاب اور ترتیب و تدوین کے فن کی تمام نزاکتوں کو خوب سمجھا اور بڑے
سلیقے سے اپنے ادبی کاموں میں اِن کا اظہار کیا،یہ تذکرے اپنے حسن ترتیب
اور حسن صورت کی بناءپر ہماری ادبی تاریخ میں یاد رکھے جائیں گے۔“محترم
ضیاءالحق قاسمی کہتے ہیں کہ ”اللہ تعالیٰ اُن کی خدمت کو شرف قبولیت
بخشے۔“جناب زیڈ اے نظامی کہتے ہیں کہ ”قدرت نے نوراحمد میرٹھی کو اِس خدمت
کیلئے منتخب کرلیا،اُن کی تگ و دو اِس امر کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ پورے
انہماک اور خداداد صلاحتیوں کے ساتھ محو سفر ہیں ....کہ اُن کی یہ کاوشیں
تاریخ ادب کا حصہ بنیں گی۔“
پروفیسر معین الدین عقیل کہتے ہیں کہ ”ہمارا ادب اُن کے اِن کارناموں کو
کبھی فراموش اور نظر انداز نہیں کرسکے گا۔“جناب حکیم محمد سعید مرحوم لکھتے
ہیں کہ ”محنت اور لگن سے قطع نظر نعتیہ کلام کے انتخاب میں بھی اعلیٰ ذوق
کا ثبوت دیا گیا ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ صرف ایسا کلام منتخب کیا جائے جس
میں جذبہ کی صداقت اور نئی خوبی کا پہلو ضرور ہو۔“ڈاکٹر غلام مصطفی خان
کہتے ہیں ”زعشق مصطفےٰ دل ریش دارم...رفاقت باخدائے خویش دارم...آپ کو یہ
رفاقت حاصل ہو۔“
حقیقت یہ ہے کہ جناب نوراحمد میرٹھی کی زندگی محنت اور ایمانداری سے عبارت
ہے،خود داری،قناعت اور غنا اُن کی زندگی کا خاصہ اور وجہ شناخت ہے،انہوں نے
زندگی بھر اپنے ربّ پر توکل کے ساتھ بہادری سے حالات کا مقابلہ کیا اور
ہمیشہ اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھا،کبھی حرف سوال زبان پر نہ لائے اور
کبھی ایسی مدد کے طلبگار نہیں ہوئے،جو اُن کی طبیعت،مزاج اور زندگی بھر کے
اثاثہ خود داری کے خلاف ہو،آج وہ ہم میں نہیں مگر اُن کی تحریریں ہمیشہ
ہمیں اُن کی یاد اور اُن کے وجود کا احساس دلاتی رہیں گی ۔
میرے حروف روشنی بانٹیں گے حشر تک
دنیا کرے گی یاد مجھے زندگی کے بعد |