پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمة اللہ علیہ - سالانہ عرس

بدرالمشائخ حضرت پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمة اللہ علیہ اور بنائے سلسلہ اویسیہ

آپ کا 11واں سالانہ عرس مبارک 15رجب المرجب ۸۱ جو ن کو دربار عالیہ اویسیہ علی پور چٹھہ شریف ضلع گوجرانوالہ میں منعقد ہو گا۔

اللہ تعالیٰ کا ذکر باعثِ سکونِ قلب اور ذکرِ مصطفےٰ ﷺ ذریعہ راحت جاں ہے ۔احکاماتِ ربانی ومصطفوی ﷺ پر عمل نجات اخروی اور فلاحِ دنیاوی کا سبب ہے جبکہ قرآن و حدیث کے بعد بزرگوں کے اقوال و فرمودات ہمارے لئے مشعل راہ ہیں ۔کیونکہ ان فرمودات میں انہوں نے زندگی کا نچوڑ پیش کیا ہوتا ہے جو قومیں اَپنے بزرگوں کے فرمودات پر عمل پیرا ہوتی ہیں ہمیشہ سُرخرو رہتی ہیں ۔تاریخ گواہ ہے کہ جنِ لوگوں نے اپنے بزرگوں کے اقوال سے رُو گردانی کی اور اُن کے راستے کو چھوڑ دیا وہ ہمیشہ کے لئے تباہ و برباد ہو گئے ۔

ہمارے اسلاف کرام کی تعلیمات ہمارے لئے سرمایہ حیات ہیں اور ان کا ذکر باعث رحمت اور برکت ہے ۔بزرگوں کا کہنا ہے کہ صرف اولیاءاللہ کی باتیں اللہ تعالیٰ کے لشکروں میں سے ایک لشکر کی حیثیت رکھتی ہیں ۔اگر مرید کا دل مردہ ہو چکا ہو تو ان کی حکایتیں سُننے سے زندہ ہو جائیگا اور لشکر کی مدد اُسے مل جائیگی ۔

حدیث شریف میں ہے :ذِکرُ الاَنبِیَآئِ عِبَادَة وَ ذِکرُ الصَّالِحِینَ کَفَّارَة۔”انبیاءعلیہم السلام کا ذکر عبادت ہے اور اہل اللہ کا ذکر کفارہ گناہ ہے ۔“

حضرت امام یوسف ہمدانی سے لوگوں نے پوچھا کہ جب ایسا زمانہ آجائے کہ اولیاءاللہ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو جائیں تو ہمیں اپنے ایمان کی سلامتی کے لئے کیا کرنا چاہئے ۔تو آپ نے فرمایا کہ رو زآٹھ ورق ان کے ارشادات و ملفوظات کے پڑھا کرو۔حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمة اللہ علیہ نے عِندَ ذِکرُ الصَّالِحِینَ تَنَزَّلُ الرَّحمَةُ کو حدیث کا درجہ دے کر ان اقوال پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے ۔

اسی نظریہ کے سبب میں اپنے پیر کامل ،ماہتاب ولایت، بدرالمشائخ ،برھان الواصلین،حجة الکاملین ،پیکر شفقت و محبت ،منبع علم وحکمت،مرکز رشد و ہدایت ،عاشق صادق حضرت قبلہ الحاج پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمة اللہ علیہ وارث دربار عالیہ اویسیہ علی پور چٹھہ شریف کا تذکرہ بنائے سلسلہ اویسیہ کے پسِ منظر میں کرتا ہوں ۔لیکن ذکر بدرالمشائخ سے پہلے حضور خواجہ خواجگان ،عاشق رحمتِ عالمیان ﷺ،مقبول بارگاہ یزدان،امامِ عاشقان شہنشاہِ عشق و شہنشاہ درویشاں، منظور نظربارگاہ امام مرسلاں، محب محبوب کون و مکاں حضرت سیدنا خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے سلسلہ روحانیہ کا تعارف کرواتا چلوں جس سلسلہ عظیمہ کی بدولت حضور بدرالمشائخ کے اجالے چار دانگ عالم پھیل گئے۔

سلسلہ اویسیہ کا دارو مدار روحانی فیض پر ہے اور اس کا تعلق باطنی طور پر حضور نبی کریم ﷺ سے ہے ۔

مصنف کتاب ” لطائف نفیسیہ حضرت احمد بن محمود رحمة اللہ علیہ “ جس کا اردو ترجمہ جناب محمد اشفاق الاسحاق المحمود العلوی الرزاقی نے کیا ۔ کتاب کا نام ” نسیم یمن “ رکھا تحریر فرماتے ہیں :۔ کہ میں نے اپنے شیخ محمد فرید اویسی رحمة اللہ علیہسے خود سنا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے تمام احکام شرائع کلمہ طیبہ ،نماز ، روزہ،زکوٰة،حج،اپنے حبیب حضرت محمد ﷺ کو تعلیم فرمادیئے اور تمام حقائق دین و ملت آنحضرت ﷺ کو معلوم کرا دیئے تو آنحضرت ﷺ نے وہ تمام احکام اور شرائع اپنے یاروں کو سکھا دیئے ۔ اس کے بعد اراد ہ ازلیہ اور مشیت الہٰی نے چاہا کہ اپنے حبیب ﷺپر راہ طریقت باطنیہ اور ولایت غیبیہ ظاہر فرمائے اور آنحضرت ﷺ نے چاہا کہ یہ راہ طریقت اپنے یاروں کو سکھائیں۔ اس وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ضعیف اور بوڑھے تھے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ جوان تھے ۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ولایت مصاحبت تعلیم فرمائی ۔کیونکہ یہ رستہ محتاج ِمشقت و ریاضت و مجاہدہ کا نہ تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ولایت شاقہ جو موقوف بریاضت و محنت تھی تعلیم فرمائی ۔

پھر اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ اپنے حبیب ﷺ کو طریقہ پرورش غیبیہ و تربیت مخفیہ کا سکھائے اس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کسی کو باطن میں بلاقرب ظاہری اور بغیر مواجہت کے پرورش کریں اور ولایت کی نعمت عنایت فرمائیں ۔جب یہ نعمت جناب الہٰی سے ذات نبوت پر ظاہر ہوئی ۔تو اس کے انوار کی شعائیں از راہ غیب خیر التابعین،حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے باطن مبارک پر پڑیں اور آنحضرت ﷺ نے یہ نعمت مخفیہ اور ولایت غیبیہ حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کو تعلیم فرمائی اورحضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کو غیب میں ہی بلا واسطہ مصاحبت کے اپنے حجرہ نبوت میںپرورش فرمایا۔یہاںتک کہ آپ محبوب دل نشین آنحضرت ﷺ ہوئے اور یہی بات تھی کہ آنحضرت ﷺ بند پیراہن مبارک کھول کر رخ مبارک یمن کی طرف کرتے اور فرماتے :۔اِنِّی وَجَدَتُّ نَفسَ الرَّحمٰنِ مِن قَبلِ الیَمَنِ ط۔ یہ فیض ولایت غیبیہ اور پرورش باطنیہ آج تک جاری و ساری ہے اور بہت سے لوگ حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی برکت روحانیت سے اپنی منزل کو پہنچ گئے ہیں ۔

اسی لئے بہت سے بزرگوں کے اقوال سے یہ بات ثابت ہے کہ باطن میں بغیر صحبت ظاہری پرورش پانے والے کو اُویسی کہتے ہیں ۔

یہ خاصیت تربیت غیبیہ اب تک حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی روحانیت مبارک میں موجود ہے ۔ اگر طالب صادق بعجز ونیاز حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی روحانیت مقدسہ کی طرف متوجہ رہے تو ضرور حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے انوار روحانیت اس کے باطن پر ظاہر ہوں گے اور وہ اپنی مراد کو پہنچے گا۔

بہت سے ایسے بزرگ ہیں کہ جنہیں حضور خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے وصال کے صدیوں بعد بھی فیض نصیب ہوا اور حضور خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ نے انہیں عالم بیداری میں فیض یاب فرمایا ۔ انہی فیض یافتہ میں سے ہمارے پیران پیر حضرت خواجہ حافظ عبدالخالق اویسی رحمة اللہ علیہ ہیں جن کا مزار شریف بخشن خان ضلع بہاولنگر میں ہے ۔

حضور خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد فیض یافتہ بزرگوں کے سلاسل آج تک جاری ہیں ۔

لیکن طوالت کے ڈر سے یہاں صرف حضرت خواجہ عبدالخالق اویسی رحمة اللہ علیہ سے جو سلسلہ اویسیہ چلا ہے اسی کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ کیونکہ یہ شجرہ حضرت خواجہ عبدالخالق اویسی رحمة اللہ علیہ سے منسو ب بزرگوں کا ہے ۔1:۔ حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ 2:۔ حضرت خواجہ عبد الخالق اویسی رحمة اللہ علیہ 3:۔ حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی اویسی رحمة اللہ علیہ 4:۔حضرت خواجہ سلطان بالا دین اویسی رحمة اللہ علیہ 5:۔ حضرت خواجہ شہاب الدین اویسی رحمة اللہ علیہ 6:۔ حضرت قاری غلام حسن اویسی رحمة اللہ علیہ 7 : ۔حضرت سائیں محمد ابراہیم اویسی رحمة اللہ علیہ 8:۔ حضرت سائیں فقیر اللہ اویسی رحمة اللہ علیہ ۔ 9:۔حضرت سائیں محمد اسلم اویسی رحمة اللہ علیہ ۔

یہی حضرت پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمة اللہ علیہ بدرالمشائخ کے مبارک لقب سے مشہور ہوئے ۔حضرت بدرالمشائخ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمة اللہ علیہ 1928ءکو کامونکی میں اپنے وقت کے درویش منش انسان حضرت غلام محمد رحمة اللہ علیہ کے ہاں پیدا ہوئے ۔آپ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے ۔ ابتدائی تعلیم والدہ ماجدہ سے حاصل کی جو اپنے وقت کی نیک سیرت پرہیز گار اور ولیہ کاملہ خاتون تھیں ۔حضرت بدرالمشائخ کا بچپن دوسرے بچوں جیسا نہ تھا بلکہ ہوش سنبھالتے ہی ذکر اللہ و ذکر رسول ﷺسے مضبوط ناطہ جوڑ لیا ۔لوگ عشا ءکی نماز پڑھ کر اپنے گھروں کو آجاتے مگر حضور بدرالمشائخ حضرت پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمة اللہ علیہ آبادی سے دور2-1/2 میل فاصلہ پرمسجد ہی میں ساری رات عبادت خدا میں مشغول رہتے ۔گھر میں مال و دولت کی فراوانی اور آسائش و آرام کی زندگی کا دور دورہ تھا مگر آپ ؒنے مالداری پر فقیری ،آسائش و آرام پر عبادت اور غفلت و نیند پر ذکر اللہ و ذکر مصطفےٰ ﷺکو ترجیح دی۔

جو ان ہوئے تو حلیہ مبارک و لباس بڑے بڑوں کو متاثر کر جاتا۔بدرالمشائخ رحمة اللہ علیہ کا قددراز ،خوبصورت سرخ و سفید چہرہ،داڑھی مبارک گھنی اور لمبی ،آنکھیں نہایت حسین اور آنکھوں میں سرخی اور ابرو کشادہ و دلکش تھے ۔آپ نے لباس میں ہمیشہ سفید قمیض ، سفید تہبند اور سر پر سفید دستاربمعہ ٹوپی کو پسند فرمایا اور اسی پر ساری زندگی قائم رہے ۔اس سادگی میں بھی آسمانِ ولایت پر تمام مشائخ میں وہ مقام رکھتے جیسے ستاروں میں چاند۔

1950ءمیں اپنی والدہ ماجدہ کے ہمراہ والی علی پور چٹھہ ،فنافی اللہ ،بقابا للہ حضرت سائیں فقیر اللہ اویسی رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت ہوئے اور پھر شیخِ کامل نے ایسا گرویدہ بنایا کہ 3سال کے قلیل عرصہ میں بدرالمشائخ رحمة اللہ علیہ کو کامونکے سے مستقل سکونت علی پور چٹھہ شریف اپنے پیر و مرشد کے قدموں میں لانے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہ آیا۔پھر کیا تھا پیر و مرید کے ظاہر و باطن میں فرق ختم ہوتے گئے ۔عبادت و ریاضت کے معمولات میں یکتائی ، گفتارو کردار میں مماثلت ،چال ڈھال ایک جیسی بلکہ انداز تبلیغ تک پیر و مرشد اور مرید صادق کا ایک جیسا ہو گیا اور عوام الناس شیخ کامل حضرت سائیں فقیر اللہ اویسی رحمة اللہ علیہ کے رنگ میں رنگنے کے سبب حضور بدرالمشائخ حضرت پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمة اللہ علیہ کو فنافی الشیخ جیسے عظیم لقب سے بھی یاد کرنے لگی ۔

حضرت بدرالمشائخ قبلہ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمة اللہ علیہ اپنے پیر و مرشد کے وصال ظاہری کے بعد مسند نشین ہوئے تو آپ کے معمولات میں محافل میلادِ مصطفےٰ ﷺ ،ذکر سیدنا خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ ،تذکرہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین و آل رسول ﷺ باقاعدگی سے رہے ۔تحریک ختم نبوت ہو یا تحریک نظام مصطفےٰﷺ ،تحریک دفاع اسلام ہو یا تحریک تحفظ ناموس رسالت حضرت بدرالمشائخ اپنے مریدین سمیت بھر پور شامل رہے ۔عقیدہ اہلسنت ،نظریات امام اہلسنت مولانا شاہ احمد رضا خاں بریلوی رحمة اللہ علیہ ،فقہ حنفی اور مشرب غوث اعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ پر سختی سے کار بند ہو نے کے سبب علماءو مشائخ میں ایک منفرد مقام کے حامل حضرت بدر المشائخ تصوف و روحانیت میں بھی اپنا ثانی نہ رکھتے تھے ۔

کتب تصوف میں سلسلہ عالیہ اویسیہ کے جملہ اذکار و ظائف آپ کی زندگی بھر کا معمول رہے ۔بالخصوص بنائے سلسلہ اویسیہ تو آپ کی سیرت کا حسین پہلو ہیں ۔
﴾بنائے سلسلہ اویسیہ﴿

معزز قارئین!میں آپ کے سامنے نظر بنائے سلسلہ اویسیہ کے پسِ منظر میں سیرتِ بدرالمشائخ کے پہلو عیاں کرتا ہوں۔

حضرت شیخ عبد الحق رحمة اللہ علیہ سیرنامہ میں تحریر فرماتے ہیں ۔کہ حضرت شاہ عبد اللہ معشوق رحمة اللہ علیہ سے لوگوں نے سوال کیا۔ کہ آپ کے طریقہ سلسلہ اُویسیہ کی بنیاد کِس پر ہے ۔فرمایا کہ سلسلہ اویسیہ کی بنیاد سات چیزوں پر ہے ۔فرمایا وہ سات اصول یہ ہیں:

1)اطاعتِ رسول ﷺ:جملہ اکابر اولیاءکرام اور صاحب تقویٰ کا اس پر مکمل اتفاق ہے کہ افتتاح ابواب سعادت یزدانی اور استقبال مقامات ربانی فیض الہٰی اور استعداد قبول درجات غیر متناہی سوائے اتباع سنت سید المرسلینﷺ کے حاصل نہیں ہوتے۔ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے :کہ قُل اِن کُنتُم تُحِبُّونَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُونِی یُحبِب کُمُ اللّٰہ ُط:شیخ عبد الحق دہلوی رحمة اللہ علیہ شرح فتوح الغیب میں اسی آیت کے تحت یوں تفسیر فرماتے ہیں :کہ ”کہہ دیجئے ! اے میرے محبوبﷺ ! اگر تم لوگ خدا کو دوست رکھتے ہو اور تم چاہتے ہو کہ واصل باللہ ہوجاﺅ اور اللہ کے خاص بندوں سے ہو جاﺅاور اللہ تعالیٰ تمہارا محبوب اور مطلوب اور مقصود ہو ۔تو تم کو چاہئے کہ پیروی کرو میری۔تاکہ تم خدا کے دوست ہو جاﺅ ۔“

اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرنے سے بندہ خدا کا محبوب ہو جاتاہے۔

مولانا عبد الکریم چشتی لاہوری رحمة اللہ علیہ اپنے رسالہ میں تحریر فرماتے ہیں ۔کہ :”نبی کریم ﷺ کے ساتھ محبت کرنے یا آپ کی پیروی کرنے کی تین اقسام ہیں ۔جیسا کہ حضور پر نور ﷺ نے فرمایاہے ۔(1)اَلشَّرِیعَةُ اَقوَالِی ط۔شریعت میرے اقوال ہیں۔ (2)وَالطَّرِیقَةُ اَفعَالِی ط۔ طریقت میرے افعال ہیں۔(3)وَالحَقِیقَةُ اَحوَالِی ط، اور حقیقت میرے احوال ہیں !

اور حکم قرآن و حدیث کی دو اقسام ہیں ۔بعض حکم اچھے ہوتے ہیں اور بعضے زیادہ اچھے ۔“
(1) پہلی قسم کو شریعت کہتے ہیں ۔ (2) دوسری قسم کو طریقت کہتے ہیں ۔
(3) شریعت و طریقت دونوں کا نتیجہ حقیقت کہلاتا ہے جب سالک شریعت و طریقت میں مکمل ہو جاتا ہے ۔تو حقیقت جو دلدار کا دیکھنا ہے ۔خود بخود اس پر منکشف ہو جاتی ہے ۔”مشاغل جلالی“ میں لکھا ہے ۔کہ حضرت شیوخ رضی اللہ عنہم کا طریقہ بھی پیروی رسول اللہ ﷺ کرنا ہی تھا اور تین اقسام پیروی رسول ﷺ کی بھی ہیں ۔
(1) ”آپ کے اعمال کی نہایت استعانت کے ساتھ اتباع کرنا اور یہ کام اعضاءکا ہے ۔“
(2) ”آپ کے اخلاق اور سیرت کی مطابعت کرے اور اس پر قائم رہے یہ کام دل کا ہے ۔“
(3) ”آپ کے احوال کی پیروی کرے اور یہ کام روح کا ہے ۔“

سلسلہ اویسیہ کے پہلے اصول پیروی رسول خدا ﷺ پر میرے حضور بدرالمشائخ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمة اللہ علیہ اس انداز سے کار بند تھے کہ آپ کی صورت سنتِ رسول ﷺ کے مطابق ، سیر ت سنت رسول ﷺ کے مطابق ،گفتگو اور مزاح سنت رسول ﷺ کے مطابق ،اصلاح و تربیت کا انداز سنتِ رسول ﷺ کے مطابق ، تبدیلی لباس کے ایام سنتِ رسول ﷺ کے مطابق ۔حضرت بدرالمشائخ رحمة اللہ علیہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ شریعت ِ محمد ﷺپر عمل کیے بغیر ولایت کا حصول ممکن نہیں ۔ایک سفر میں بندہ حقیر بھی اپنے مرشد کامل حضور بدرالمشائخ رحمة اللہ علیہ کے ہمراہ تھا۔ دوران سفر گاڑی میں قوالی لگائی گئی جس کا شعر کچھ اس طرح تھا=
پن تسبیح تے پھوکدے مصلیٰ اینویں نئیں تینوں یار لبھنا

حضرت بدرالمشائخ رحمة اللہ علیہ نے یہ قوالی بند کرواتے ہوئے فرمایا کہ رب کے یار ،امت کے غمخوار ساری کائنات کے دلدار حضرت محمد مصطفےٰﷺ کا ملنا اور خدا کے ملنے کا ذریعہ اسی تسبیح پر ذکر اور مصلّے پر سجد وں سے ہی ممکن ہے ۔تارک سنتِ مصطفےٰ ﷺ،معرفت و حقیقت سے نا آشنارہتا ہے ۔

حضرت بدرالمشائخ رحمة اللہ علیہ نے ساری زندگی جمعہ کا خطبہ اور نماز کی امامت کروائی جبکہ بچپن سے لے کر وصال مبارک تک آپ کی فرض نماز تو درکنار نمازِ تہجد بھی کبھی قضا نہ ہوئی تھی ۔فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزے کثرت سے رکھتے ۔نماز اشراق۔ چاشت۔اوابین پر دوام تھا ۔تلاوت قرآن حکیم اورادو وظائف میں ہمیشگی مگر سنتِ رسول ﷺ و پیروی رسول خدا ﷺمیں ۔

خلوت در انجمن:اس سے مراد ہے کہ بظاہر مخلوق کے ساتھ رہے اور باطن میں سب سے دور اور علیحدہ رہے۔’یعنی تن جلوت میں ہو اور دل خلوت میں ہو۔“حضرت شاہ جلال الدین محمد جعفری اُویسی رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب گلزار جلالی میں یہ حدیث بیان فرماتے ہیں :۔ یعنی ”لوگوں میں رہو جسموں تک اور دو ر رکھو اُن کو اپنے دل سے ۔“

”حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کا بھی اسی قول کی طرف اشارہ ہے ۔آپ فرماتے ہیں :۔ کہ اَسَّلَامَةُ فِی الوَحدَةِ ط۔”یعنی سلامتی تنہائی ہی میں ہے اور تنہا اس کو کہتے ہیں کہ جو وحدت میں فرد ہو اور وحدت اس کو کہتے ہیں ۔کہ اللہ تعالیٰ کے سواءکسی کا خیال دل میں نہ سما وے ۔کیونکہ اسی صورت میں سلامت رہ سکتا ہے ۔“

تنہائی سے مراد ظاہری تنہائی نہیں ہے ۔کیونکہ یہ درست نہیں ہے ”کیونکہ اکےلے کے ساتھ شیطان ہے “اور دو سے وہ دور بھاگتا ہے ۔“

مولانا علی ابن حسین واعظ کا شغی رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب ”رشحات“ میں لکھتے ہیں :کہ حضرت خواجہ بہاوالدین قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ ہمارے طریقےہ کی بنیاد خلوت در انجمن ہے ۔ّّ

جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : ”وہ لوگ ہیں کہ جن کو تجارت اور لین دین ذکر اللہ سے غافل نہیں کرتے ۔“

حضرت خواجہ اولیاءکبیر قدس سرہ نے فرمایا ۔خلوت درانجمن یہ ہے کہ ذاکر ذکر میں اس قدر مشغول ہو ۔کہ اگر بازار میں جائے تو اُسے کوئی آواز سنائی نہ دے ۔“

حضرت داتا علی ہجویری رحمة اللہ علیہ کشف المحجوب میں تحریر فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص وحدت تنہارہنے کو سمجھے تو یہ غلط ہے کیونکہ اس کے دل کے ساتھ شیطان ہم نشین ہوتا ہے ۔اس کے سینہ میں نفس کی بادشاہت ہوتی ہے اور جب تک دنیا وعقبیٰ کا فکر اُس کے دامن گیر رہتا ہے ۔اس وقت تک وحدت کا حاصل ہونا محال ہے اگرچہ مخلوق سے الگ رہتا ہو ۔البتہ اگر کوئی حقیقتاً وحید ہو گا ۔تو مخلوق کو ملنے سے اُسے کوئی ضرر نہیں پہنچے گا اور ملنا اُس کا وحدت میں مزاحم نہ ہوگا ۔خلوت در انجمن اُس وقت حاصل ہو گی ۔جب آدمی صاحب دل ہو گیا اور خدا کے ذکر کے ساتھ مانوس ہو کر غیر اللہ کا خیال دل سے نکال دے ۔بظاہر مخلوق میں مشغول ہو اور باطن میں حق سے مصروف ہو۔“

حضرت داتا علی ہجویری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب خدا سے تعلق پیدا ہو جاتا ہے تو مخلوق سے خود بخود تعلق ختم ہو جاتا ہے اور لوگوں کی محبت اُن کے تعلقات میں حائل نہیں ہوتی ۔حدیث شریف میں ہے کہ :”دانائی سیکھو اور تنہائی اختیار کرو۔“

اس میں دل جمی کی طرف اشارہ ہے ۔کیونکہ جب دل یادحق سے مستحکم ہو جاتا ہے تو سالک کا درجہ بلند ہو جاتا ہے اور اس کا ظاہر و باطن یکساں ہو جاتا ہے ”ایسی حالت میں سالک کو کسی سے ملنے میں کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔“

دوسرے اصول کے مطابق حضرت بدرالمشائخ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمة اللہ علیہ کے سیرت کے پہلوﺅں پر نظر دوڑائےے ۔ آپ نے نہ افرادِ دنیا سے دل لگایا نہ مال دنیا سے ۔افراد آئے تو رجوع الی اللہ میں لگا دئےے اور مال آیا تو سبیل اللہ میں خرچ کر دیا ۔ دل کو یادِ الہٰی کا حجرہ بنائے رکھا۔
بقول سلطان باہو: اے تن رب سچے دا حجرہ وچ پا فقیرا جھاتی ہو

بدرالمشائخ رحمة اللہ علیہ مخلوق خدا اور افراد سے دوری و تنہائی کو راہبانہ طریقہ خیال فرماتے تھے ۔آپ نے اسلامی طرز ِعمل کے مطابق خلوت در انجمن پر ایسا دوام پایا کہ آپ کو کوئی تعلق دنیا رشتہ ، برادری یا معاملاتِ دنیا یادِ الہٰی سے ایک پل بھی غافل نہ کر سکے ۔آپ بقولِ سلطان باہو رحمة اللہ علیہ اسی نظریہ پر قائم رہے کہ
جو دم غافل سو دم کافر سانوں مرشد اے پڑھایا ہو

حضرت بدرالمشائخ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمة اللہ علیہ نے زندگی بھر ہر جمعرات بعد نماز عشاءمحفل ذکر کا اہتمام کیا ۔خلوت درانجمن کی بین دلیل پیش کرتے ہوئے قبلہ بدرالمشائخ ایسا وجدانی ذکر کرتے کہ ما سوائے اللہ تمام کا خیال جاتا رہتا ۔آپ اکثر فرماتے کہ اللہ تعالیٰ کے ملنے کا کوئی ایک خاص راستہ متعین نہیں ۔مگر جسے اور جیسے وہ اپنی معرفت اپنے بندے کو عطا کرے تو اُس کا اللہ کی ذات کے علاوہ جملہ مخلوق سے ظاہری و باطنی تعلق منقطع ہو نا یقینی ہو جاتا ہے۔حضرت بایزید بسطامی رحمة اللہ علیہ فرماتے تھے کہ اللہ اپنی قدرتوں سے نظر آتا ہے مگر اہل اللہ ہمارے اندر ہی رہتے ہیں چلتے پھرتے ہیں ۔معاملات زندگی چلاتے ہیں مگر اہل نظر پر ہی ان کی ذات آشکار ہوتی ہے ۔بظاہر مخلوق میں ہوتے ہیں حقیقت میں خالق ہی سے تعلق رکھتے ہیں ۔

خاموشی در سخن:اس کا مطلب یہ ہے کہ سالک اپنی زبان کو فضول گوئی سے بند رکھے اور دل کو بادشاہ دوجہان کی یاد میں رکھے ۔ جیسا کہ مولانا جامی رحمة اللہ علیہ نفخات الانس میں تحریر فرماتے ہیں : ترجمہ”جب زبان فضول گوئی سے خاموش ہو جاتی ہے تو دل ذکر حق میں گویا ہو جاتا ہے ۔“دوسرا مطلب یہ ہے کہ ” جب دل خواہشات نفسانی سے پاک ہو جاتا ہے تو دل یاد ِ الہٰی میں صتغرق ہو جاتا ہے ۔اگر چہ بظاہر لوگوں سے صحبت و ملاقات کے وقت باتیں کرتا ہے ۔“

مولانا جامی اسی کتاب میں خاموشی کی دو اقسام تحریر فرماتے ہیں :اول :(خاموشی زبان کی )گفتار سے پرہیز کرنا۔دوئم:(خاموشی دل کی) دل کا خطرات و خواہشات نفس سے خاموش رہنا۔جس کی زبان خاموش اور دل یادِ حق میں گویا ہو گا ۔اس کے گناہ ہلکے ہوں گے اور جس کی زبان اور دل غیر اللہ سے باز ہوں گے ۔اس پر اللہ تعالیٰ کی تجلیات وارد ہوں گی ۔لیکن جس کا دل و زبان دونوں مخلوقات سے گویا ہوں گے ۔وہ مغلوب اور مسخر شیطان ہوگا۔

سب سے اچھے لوگ وہی ہیں ۔جو بظاہر تو لوگوں سے باتیں کریں مگر باطن میں (یعنی باطنی زبان سے)ذکر حق میں مشغول رہیں ۔

لمعات میں لکھا ہے کہ حضرت جنید بغدادی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ تیس سال ہو گئے کہ میں حق سے باتیں کرتا ہوں ۔مگر لوگ سمجھتے ہیں کہ میں ان سے مخاطب ہوں۔

خاموشی در سخن میں بدرالمشائخ حضرت سائیں محمد اسلم اویسی رحمة اللہ علیہ کی ذات ایک ضرب المثل کی حیثیت رکھتی تھی ۔ آپ فضول گوئی سے کوسوں دور تھے ۔مجلس ہو تو زبان سے سیرتِ رسول ﷺ کے تذکر ے جاری رہتے اور تنہائی ہوتی تو زبان ذکر اللہ سے تر رہتی ۔گفتگو بھی موقعہ محل کے مطابق حضور بدرالمشائخ رحمة اللہ علیہ کی گفتار میں بھی حسن تھا اور خاموشی میں بھی وقار ۔یقینا جو زبان قرآن و حدیث کے بیان ، تلاوت و ذکر کی حلاوت اور تبلیغ و تقریر کی چاشنی سے لبریز ہو پر اثر ہوتی ہے ۔اسی لئے میرے حضور بدرالمشائخ جب کوئی جملہ زبان سے نکالتے دلوں میں اتر تا جاتا اور جب خاموشی کی چادر اوڑھالیتے تو افرادِ محفل کے دلوں کی دھڑکن تھم جاتی ۔آپ اکثر فرماتے یہ زبان فضولیات کے لئے نہیں ذکر خدا و مصطفےٰ ﷺکے لئے عطا کی گئی ہے ۔جملہ مخلوقات اپنی زبانیں اُسی خالق کی تسبیح سے تر رکھتی ہےں مگر انسان غفلت میں زبان سے یاوہ گوئی کرتا رہتا ہے ۔اگر ذکر نہیں تو زبان کو خاموش رکھ کر آخرت کا فکر مند رہ یہ بھی نجات کا سامان بن جائے گا۔

نظر بر قدم:نظر بر قدم کے معنی یہ ہیں کہ :”خدا کو ہر جگہ ،ہر حال اور باطن میں حاضر و ناطر جانے اس کی دید سے آنکھ اُٹھانے میں خسارے ہیں اُس کی رضا سے پھرنے میں نقصان ہے ۔بندہ حق کے مشاہدہ میں اس طرح مستغرق رہے ۔کہ اُس کی نظر یں متواضع اور با اَدب شخص کی طرح اپنے پاﺅں کی طرف جھکی رہیں۔ اِدھر اُدھر دائیں بائیں نہ دیکھے اور غیروں کی طرف التفات نہ کرے۔“

یہاں قدم سے مراد قدم ظاہر کے ہیں ۔لیکن طریقت کے راستہ میں باطن کے قدم کی نگہداشت اور حفاظت کرنے کو کہتے ہیں اسلئے سالک کا معاملہ اور اُس کے سلوک کا قدم ”صراط مستقیم“ کی حد سے لڑکھڑا کر باہر نہ آجائے ۔

نظر بر قدم کے ایک معنی یہ بھی ہےں کہ سالک جب کسی راستہ میں قدم رکھے تو نظر قدم پر رکھے ۔اور چشم باطن سے ذرہ بھر بھی غیر کی طرف نہ دیکھے کیونکہ اگر کسی غیر سے کچھ بھی تعلق ہو گیا تو اُس کا سلوُک رہ جائے گا۔ خواہ اُسے دونوں جہان کی کرامتیں اور مقامات حاصل ہوں ۔سب اُس کے راستہ میں حجاب ہو جائیں گے ۔“

”شرح تصرف “ میں لکھا ہے کہ اس راستہ کے بہت سے اٹکاوے ہیں ان اٹکاووں میں ایک اٹکاﺅ کرامت بھی ہے ۔“

شیخ الاسلام کا قول ہے کہ حق کی حضور ی میں رہتے ہوئے غیر حق کو دیکھنا شرک ہے ۔جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ سے فرماتا ہے :مَا ذَاغَ ال ±بَصَرُ وَمَا طَغیٰ ط۔یعنی نظر رسول اللہ ﷺ نے دوسری طرف نگاہ بھی نہ کی ۔دائیں بائیں نہ دیکھا اور جو حد دیکھنے کے واسطے مقرر کردی تھی ۔اُس سے نظر آگے نہ بڑھائی ۔

نظر بر قدم سے یہ بھی مفہوم لیا جاتا ہے کہ سالک اپنے شیخ کے نقش قدم پر چلے اور اُس کی پیروی و متابعت کرے اور پھر اس بات میں کوئی کسر نہ چھوڑے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے : ترجمہ”پہلے پیغمبر وہ ہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو راستہ دکھایا پس اُن کی ہدایت کی پیروی کرو۔“اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مرید کو اپنے شیخ کی پیروی کرنے سے چارہ نہیں بلکہ اس کے لئے اپنے پیر و مرشد کے نقش قدم پر چلنا ضروری اور لازمی ہے ۔“

صاحب تفسیر ویلمی نے بھی اس آیت شریفہ کی تفسیر یہی بیان فرمائی ہے کہ سالک کا راہ سلوک میں مطمع نظر اپنے شیخ کے قدم بہ قدم چلنا اور اس کے ظاہری وباطنی اقوال و افعال کی پیروی کرنا ہونا چاہئے ۔کیونکہ ایسا کرنے سے اپنے شیخ کے مرتبہ کو پہنچے گا۔“

اصحاب کہف کا قصہ قرآن مجید میں موجود ہے اور بہت ہی مشہور ہے کہ اُن کے ساتھ ایک کتا بھی ہو لیا تھا ۔چونکہ اصحاب کہف اولیاءاللہ میں سے تھے ۔کُتے کو بھی مرتبہ اعلیٰ ملا اور اُس کا حشر بھی اُن ہی حضرات کے ساتھ ہو گا۔

حضور بدرالمشائخ حضرت پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمة اللہ علیہ نے نظر بر قدم کے اصول کو اپنی زندگی کا مشن بنایا ۔ جب چلتے تو تیز چلتے مگر نظر ہمیشہ قدم پر ہوتی ۔غرور ،تکبر نام کی کوئی چیز آپ کی چال ڈھال سے نظر نہ آتی ۔پر وقار قدم اُٹھاتے ۔اصطلاح صوفیاءکے مطابق نظر بر قدم کا معنیٰ جو اپنے شیخ کے نقش قدم پر چلنا ہے اس پر بھی حضور بدرالمشائخ رحمة اللہ علیہ زبر دست عامل تھے ۔جہاں آپ کے پیر و مرشد حضرت سائیں فقیر اللہ اویسی رحمة اللہ علیہ بیٹھتے وہاں ہی آپ بیٹھتے ۔جیسے شیخ کا چلنا ویسا مرید کا چلنا ،پیرکامل ترجمہ و تفسیر پڑھاتے دنیا سے رخصت ہو گئے تو حضرت بدرالمشائخ بھی اسی عمل پر زندگی بسر کر گئے ۔جمعة المبارک کے خطبات میں جو موضوعات شیخ کامل کے ہوتے وہی موضوعات سخن مرید صادق کے رہے ۔گویا حضور بدرالمشائخ نے نظر بر قدم کے ظاہری و باطنی حق کو کمال بخشا۔
ہوش دَر دم:عمل ہفت گانہ بنائے سلسلہ اویسیہ میں پانچواں عمل ہوش در دم ہے ۔اس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی دم یادِ خدا سے غافل نہ ہو۔

دم (سانس) کی حفاظت کرنے کا نام ہوش در دم ہے ۔ سالک کو چاہئےے کہ ہر گھڑی اُٹھتے بیٹھتے ،چلتے پھرتے،کھاتے پیتے، سنتے بولتے اور سوتے جاگتے ذکر الہٰی میں مشغول رہے اور اس سے کسی حال میں غافل نہ ہوتا کہ وقت بیکار نہ جائے اور نفس پر پورا پورا قابو ہو جائے ۔

کتاب گلزار جلالی اور مقصود الطالبین میں لکھا ہے کہ خدا کو یاد کرنا دائمی فرض ہے ۔جو نص قرآن و حدیث سے ثابت ہے لیکن یہ فرض اُس وقت تک ادا نہیں ہو سکتا ۔ کہ جب تک سانسوں کی نگہداشت نہ کی جائے اور پھر نفس کی پاسداری کے بغیر ذکر پردوام حاصل نہیں ہوتا اور اس میں حکمت یہ ہے کہ سانس اندر باہر آنے میں تمام عضاءکی سیر کرتا ہے اور جب ذکر حق کی حالت میں سانس سب اعضاءکی سیر کرتا ہے ۔تو ذکر کی برکت اور فیض سے دل اور جمیع اعضاءمیں اثر حیات پیدا ہو جاتا ہے ۔اس وقت طالب کا دل زندہ ہو جاتا ہے اور انوار ربانی کی واردات قبول کرنے لگتا ہے اور موت کی بلا سے رہائی پا جاتا ہے ۔کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ ”جو سانس بغیر یادِ الہٰی کے آتا ہے۔وہ مُردہ ہے ۔“

بعض عارفوں کا خیال ہے ۔کہ جب کسی کو حضوری قلب کی دولت نصیب ہو جاتی ہے اور ذکر الہٰی اس کے دل میں قرار پا جاتا ہے تو باوجود اس کے کہ سالک کو موت کے وقت سختی اور شدت درد اور بیتابی دل کی وجہ سے اس کی حضوری میں کچھ خلل واقع ہو جاتا ہے لیکن روح کے بدن سے جدا ہو جانے کے بعد وہی حال پھر اس پر وارد ہو جاتا ہے ۔اس لئے حضوری قلب میں ملکہ پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔(منقول از شرح مشکوٰة مصنفہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ )

حضرت پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمة اللہ علیہ نے اپنے ایک ایک سانس کو یاد الہٰی سے صیقل فرمایا ۔ایک مرتبہ بندہ ناچیز نے عرض کیا حضور یہ قلب کا جاری ہونا کیا ہے ۔فرمایا آج جو بظاہر قلب کے جاری کرنے پر زور دیا جاتا ہے محض دکھاوا ہے ۔اصل تویہ ہے کہ بندے کا رَوم رَوم ذکر میں مشغول ہو اور یہ اس طرح ممکن ہے کہ کوئی لمحہ یا دالہٰی سے غافل نہ ہو۔بندہ دنیا میں اگر ذکر کی عادت بنالے گا اور جسم کو ذکر کی حلاوت سے مسخر کر لے گا تو بعد از موت بھی جسم زندہ ہو گا۔ اس بات کی سمجھ ہمیں اُس وقت آئی جب حضور بدرالمشائخ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمة اللہ علیہ کا وصال مبارک ہوا ۔ڈاکٹر نے کہہ دیا کہ حضرت بدرالمشائخ کا انتقال ہو گیا ہے مگر آپ کے لب ، دل اور جسم کے بال حرکت میں تھے ۔یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اللہ کے ذاکر نے ذکر الہٰی سے اپنے جسم کو دنیا میں مسخر کیا آج بعد از وصال بھی جاری ہو رہا ہے ۔

حضرت بدرالمشائخ کو قبل از وصال جب احباب مدہوشی میں تلقین کلمہ کرنے کی غرض سے بآواز بلند کلمہ طیبہ کا ورد کرنے لگے تو آپ چار پائی سے اُٹھ کر بیٹھ گئے اور جلالی نظر سے دیکھتے ہوئے فرمایا مجھے تلقین کلمہ اور ذکر سناتے ہو ۔دیکھو میرا بال بال ذکر کر رہا ہے ۔میں نے دنیاوی زندگی میں فقط ذکرِ الہٰی ہی سے محبت و شغف رکھا جس نے آج میری لجپالی فرمائی ہے ۔میں نے دنیا میں غفلت سے کام نہیں لیا بلکہ ہوش در دم سے زندگی سجائی ہے ۔آپ کا یہ فرمانا تھا کہ حاضرین پر کیفیت گزر گئی اور وجد طاری ہو گیا۔
زہر نوشی:مصیبتوں اور دشواریوں میں صبر کرنا بلا جفاءکو سہنا اور راضی برضاءالہٰی رہنے کا نام زہر نوشی ہے ۔

امام غزالی رحمة اللہ علیہ منہاج العابدین میں تحریر فرماتے ہیں ۔کہ صبر ایک تلخ دوائی ہے ۔جو نفس کے لئے مکروہ شربت ہے ۔ اہل دانشِ اس کو پینے سے پرہیز نہیں کرتے ۔کیونکہ اس کے بہت ہی فائدے ہیں اور اس سے مضر تیں دور ہو جاتی ہیں ۔آپ نے صبر کی چار اقسام بیان فرمائی ہیں :(1)اطاعت پر صبر(2)دنیا کی فضولیات سے صبر۔(3)محنت کے کاموں پر صبر۔(4)مصیبتوں پر صبر۔

پھر ان اقسام کو بیان کر کے آپ فرماتے ہیں ،کہ طالب ان چاروں سے صبر کی تلخیاں برداشت کرتا ہوا گزر جاتا ہے تو اس کو عبادت میں استقامت اور بے شمار ثواب حاصل ہو جاتا ہے وہ گناہوں ،دنیا کی بلاﺅں اور آخرت کے عذاب سے بچ جاتا ہے ۔

جامع العلوم میں بقول حضرت جہانیاں رحمة اللہ علیہ صبر کی تین اقسام لکھی ہیں ۔(1)صبر عام :یعنی ایسی چیز وں سے نفس کو روکنا ۔کہ جن کا روکنا عام طور پر دشوار معلوم ہوتا ہے ۔صبر عام کہلاتا ہے ۔(2)صبر خاص:تلخیوں کو پی جانا ۔لیکن اس لئے نہیں کہ منہ کڑوا ہو گاصبر خاص کہلاتا ہے ۔ (3)صبر اخص الخاص:بلاﺅں سے خوش ہوا اور تکلیفوں سے آرام پانا مثلِ حضرت ایوب علیہ السلام کے کہ جب اُن کے بدن سے کیڑے زمین پر گر پڑتے تھے ۔تو پھر اُن کو چن کر اپنے بدن میں رکھ لیا کرتے تھے اور ان کو اس تکلیف میں بھی راحت اور لذت حاصل ہوتی ہے ۔زہر نوشی سے مراد وہی صبر خاص ہے کہ جو رضا و رغبت سے ہو اور صبر کرنے میں لطف آتا ہو اور دل پر ذرا بھی تکلیف کا احساس تک نہ ہو۔زہر نوشی سے ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ غصہ کو پئے۔ نادانوں اور ناواقفوں سے جو جو رنج پہنچے ۔اس کو برداشت کرے ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ترجمہ”بدی کا نیکی سے مقابلہ کرنے کی خصلت اس کو دی جا تی ہے جو سختیوں پر صبر کرے اور یہ صفت اسی کے حصہ میں آتی ہے جس میں ایمان کا یا اخلاق حسنہ کا بہت بڑا حصہ ہو۔نیز ایسے لوگوں کو جو بروں کے ساتھ نیکیاں کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا محبوب فرمایا ہے ۔جیسا کہ قرآ ن مجید میں ارشاد ہوتا ہے ۔ ترجمہ”اور غصہ پی جانے والا اور لوگوں کے گناہوں سے درگزرکرنے والا اور اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔

حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص اپنے غصہ کو دور کر دیتا ہے ۔اللہ تعالیٰ اس سے اپنے عذاب کو دور کر دیتا ہے ۔نیز یہ بھی آیا ہے کہ بردبار کو روزہ دار اور قائم اللیل کا درجہ حاصل ہو تا ہے ۔

حضور بدرالمشائخ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمة اللہ علیہ صبر و رضا میں اسلاف کی یاد گار تھے ۔کبھی مصائب میں دلبر داشتہ نہ ہوئے۔ حصول نعمت پر شکر اور نزول بلا پر صبر آپ کی زندگی کا حسین پہلو ہے ۔آپ نے بچپن سے مشکلات و مشقت کو اپنا ساتھی بنالیا ۔ اسائش کو چھوڑ کر فقر و فاقہ اور درویشی کو اختیار فرمایا اور پھر زندگی بھر اسی پر شکر کے کلمات ادا کرتے رہے ۔

دنیاوی زندگی کے آخری سالوں میں جب آپ کا ایکسیڈنٹ میں دایاں بازو شہید ہو گیا تو حضور بدرالمشائخ اپنے اور غیروں بلکہ صوفی ازم کے حامیوں اور مخالفوں کے لئے بلند مثال اور متاثر کن صبر کی تصویر بن گئے ۔ہسپتال میں آپریشن بے ہوشی کے بغیر کروایا ۔ڈاکٹر کو فرمایا تم آپریشن کرو اور میں ذکر اللہ کرتا ہوں ۔ ڈاکٹر اور ہسپتال کا سارا عملہ حیران تھے کہ ہڈی کا کاٹنا ۔گوشت کا ٹانکنا اور مختلف سخت سے سخت ادویات کا استعمال کرتے ہوئے حضرت بدرالمشائخ کے چہرہ مبارک پر ایک مرتبہ بھی تکلیف کا اثر نمودار نہ ہوا۔ایک اولیاءمخالف مولوی صاحب نے تمام معاملہ دیکھ کر اور صبر و رضا کے پیکر سے متاثر ہو کر کہا کہ آج میں مان گیا ہوں کہ روحانی طاقت بھی ہوتی ہے اورروحانیت کا تعلق حقیقت سے ہے ۔حضرت بدرالمشائخ جب یرقان جیسے مہلک مرض میں مبتلا ہو گئے ۔یاد رہے کہ بیماریاں اولیاءاللہ کے درجات کی بلندی اور صبر و رضا کے امتحان کے لئے آتی ہیں ۔دوران بیماری جس کسی نے بھی حضور بدرالمشائخ سے حال پوچھا شدت ِ بیماری میں بھی فرمایا اللہ تعالیٰ کا شکر ہے اور صبر و رضا کا مظاہرہ کرتے ہوئے اکثر یہ شعر زبان پر جاری رہتا ۔
میں گڈی ہتھ ڈور سجن دے اوہ جیویں رکھے اویں رہنا
واجب نئیں وچہ شریعت مندا خصم نوں کہنا

پردہ پوشی :پردہ پوشی اس کو کہتے ہیں ۔کہ لوگوں کے عیوب سے آنکھ بچا ئے گناہگاروں کو ظاہرنہ کرے بلکہ اُن کے عیبوں کی پردہ پوشی کرے ۔پردہ پوشی کی تین اقسام ہیں : (1)کسی کی عیب جوئی نہ کرنا۔(2)کسی کے عیب کو جانتے ہوئے اس کو ظاہر نہ کرنا۔(3)کسی کا عیب ظاہر ہوجانے پر اس کو ڈھانپنا اور کوشش کرنا کہ یہ عیب اس سے جاتا رہے اور لوگ اس کو اس عیب سے پاک سمجھیں اور یہ قسم پہلی دونوں اقسام سے افضل ہے ۔اولیاءاللہ کا ہمیشہ یہی وطیرہ رہا ہے کہ خود تکلیفیں اُٹھا کر بھی لوگوں کے عیب و قصور ظاہر نہ کئے۔

پردہ پوشی کی خصلت ایسی عمدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرمایا ہے :ترجمہ ”اللہ تعالیٰ کے بندے ایسے ہوتے ہیں کہ جب کسی برے اور ناپسند یدہ راستہ سے گزرتے ہیں تو نہایت ہی بردباری سے گزرجاتے ہیں اور جو شخص لوگوں کی خطاﺅں اور قصوروں پر درگزر کرتا ہے اور ان کے عیب وخطا سے چشم پوشی کرتا ہے تو وہ شخص صفات ستاری ،غفاری،رحیمی اور غفوری سے متصف ہوجاتا ہے ۔

پردہ پوشی بنائے سلسلہ اویسیہ میں ساتواں اور آخری درجہ رکھتی ہے ۔حضور بدرالمشائخ حضرت پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمة اللہ علیہ نے اس اصول کو مضبوطی سے اپنائے رکھا ۔آپ نہ خود کسی کی عیب جوئی فرماتے اور نہ کسی کو عیب گوئی کرنے دیتے بلکہ فرماتے بندے کو اللہ تعالیٰ کی صفت ستار کا مظہر ہونا چاہےے ۔ آپ اگر کسی کا عیب دیکھتے تو اُس کی بغیر نام لئے اصلاح کی کوشش فرماتے ۔

ایک مرتبہ دربار شریف حاضری کے موقعہ پر بندہ ناچیز نے رات قیام کیا ۔رات تاخیر سے سونے کے سبب نماز فجر کی جماعت رہ گئی۔ حضور بدرالمشائخ رحمة اللہ علیہ کا معمول شریف تھا کہ روزانہ بعد نماز فجر درود شریف شماروں پر پڑھتے اور احباب بھی شامل ہوتے ۔ شماروں پر درود شریف پڑھا جا رہا تھا کہ میں نے نماز ادا کی اور ساتھ شامل ہو گیا ۔دعائے خیر کے بعد فرمانے لگے ۔بیٹا علماءکو عابد بھی ہونا چاہیے جو عالم ہونے کے ساتھ ساتھ عابد بھی ہو اُس جیسا ولی کوئی نہیں ہوتا۔یہ ہے پردہ پوشی اور اصلاح و تربیت کا طریقہ جس میں سنتِ مصطفےٰ ﷺ کی جھلک نمایاں ہے ۔

حضرت بدرالمشائخ نے کبھی خادمین و عقیدت مندوں کو غلطی پر ڈانٹ ڈپٹ نہ فرمائی بلکہ پیکر شفقت و محبت بن کر اُن کی غلطی کی اصلاح فرماتے رہے۔ کسی کے عیب کا پتہ چلنا یا آپ کے سامنے کسی شخص نے دوسرے کی عیب جوئی کرنی تو آپ نے اُس شخص کی خوبیوں کا تذکرہ فرمانا شروع کر دنیا جس سے موجود افراد نے حضرت بدرالمشائخ کی صفت پردہ پوشی سے متاثر ہو کر آئندہ عیب جوئی سے توبہ کرلینی ۔آپ فرمایا کرتے کہ اپنے مسلمان بھائی کی نیکیوں کو یاد کرو تاکہ فرشتے اُسے نیک شمار کریں ۔

سلسلہ اویسیہ کے اعمال ہفت گانہ مختصر طور پر درج کئے ہیں مولا کریم اپنے حبیب علیہ السلام کے صدقہ سے ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ سب مخلصان و معتقدین سلسلہ اویسیہ کو چاہئےے کہ ان اعمال ہفت گانہ پر مکمل طور پر عمل کریں ۔تاکہ صحیح معنوں میں اُویسی کہلانے کے مستحق ہوں۔جبکہ انہیں اعمال ہفت گانہ یعنی سبعہ بنائے سلسلہ اویسیہ کے پس منظر میں بندہ حقیر نے ماہتاب ولایت حضرت بدرالمشائخ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمة اللہ علیہ کی زندگی کے چند پہلو آپ کے سامنے پیش کئے جبکہ حضرت بدرالمشائخ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمة اللہ علیہ نے احیائے تصوف اور غلبہ اسلام اور تعلیمات نبوی کی ترویج و اشاعت کے لئے بنائے سلسلہ اویسیہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے گرانقدر خدمات سر انجام دیں بلکہ آپ نے اپنی زندگی ترویج و اشاعت دین کے لئے وقف کر رکھی تھی ۔پاکستان کے مختلف شہروں اور دیہات میں مساجد کی تعمیر کروائی ۔علم دین و قرآن و حدیث کی تعلیمات کے فروغ کے لئے بڑے بڑے دینی مدارس کھلوائے۔ نارووال میں جامعہ اویسیہ کنز الایمان محلہ رسول نگر کے قیام کے لئے ایک خطیر رقم بندہ کو عنایت فرمائی اور فرمایا اس سے کام شروع کرو اللہ تعالیٰ تکمیل کے لئے خود اسباب بنادے گا ۔والٹن قادری کالونی لاہور میں جامعہ اویسیہ ،کامونکی میں جامعہ اویسیہ سیرانیہ ،ٹوبہ ٹیک سنگھ کوہاڑکا میں جامعہ اویسیہ اسلم العلوم ،منڈی بہاﺅ الدین میں جامعہ اویسیہ ، کلاس گورایہ میں اویسیہ پبلک سکول اور آستانہ عالیہ اویسیہ علی پو ر چٹھہ شریف میں مرکز ی دارالعلوم جامعہ اویسیہ آج بھی حضور بدرالمشائخ رحمة اللہ علیہ کی علم دوستی کا ثبوت فراہم کر رہے ہیں ۔آپ کو ذاتی مکانات کی تزئین و آرائش کے مقابلہ میں مساجد و مدارس کی خوبصورتی پر زیادہ یقین تھا ۔

حضرت بدرالمشائخ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمة اللہ علیہ جہاں عظیم صوفی ،پایہ کے ولی ،علم دوست ،مخلص عابد و زاہد اور عظیم مبلغ و راہنما تھے وہاں عوام کی پریشانیوں سے نجات کے لئے بھی کوشاں رہتے ۔دکھی انسانیت کی خدمت اور اُن کے دکھوں کا مداوا کرنا اپنا فرض منصبی خیال فرماتے تھے ۔روزانہ صبح نماز چاشت کے بعد اپنے حجرہ میں تشریف فرماہوتے تو پریشان اور مصائب و آلام کے گھر ے لوگ حاضر خدمت ہوتے ۔آپ ہر شخص کے دل کی سنتے اور اپنی میٹھی میٹھی مگر پرُ تاثیر باتوں سے ان کے دلوں کے زخموں پر مرحم رکھتے ۔کسی کی داستان غم سننے سے نہ اکتاتے نہ بات کاٹتے ۔کسی کو دعا۔
کسی کو دم و پھونک اور کسی کو تعویز عطا فرماتے ۔ہر شخص کو اس کے حسب حال پندو نصائح سے نوازتے اور ذکر الہٰی کی ترغیب فرماتے ۔ کتنا ہی آزردہ خاطر انسان حاضر خدمت ہوتا چند لمحے آپ کی صحبت فیض میں گزارنے کے بعد یوں محسوس کرتا کہ گویا افکار و آلام کے پہاڑ اس کے سر سے اتر گئے ہیں اور وہ خوش و خرم اپنے گھر لوٹتا۔

حضور بدرالمشائخ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمة للہ علیہ کی ایک خاص صفت بھوکوں کو کھانا کھلانا تھی ۔آستانہ پاک پر کوئی بھی آتا لنگر اویسیہ ہر خاص و عام پر کھلا رہتا۔ مخلوق خدا کو کھانا کھلا کر خوش ہوتے ۔عرس مبارک کے موقعہ پر ہزاروں عقیدت مند جمع ہوتے مگر لنگر شریف ختم ہونے کا نام نہ لیتا ۔

حضرت بدرالمشائخ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمة اللہ علیہ کے مشن کی تکمیل آپ کی سیرت و تعلیمات سے عوام کو روشناس کروانے کے لئے امام العاشقین خیر التابعین حضرت سیدنا خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے نام سے منسوب ماہانہ بنیادوں پر عرصہ سات سال سے ایک دینی و تحقیقی ،علمی و فکری مجلہ ماہنامہ ”تاجداریمن “ بھی مرکز اویسیاں نارووال سے باقاعدگی سے شائع ہو رہا ہے تاکہ یادگار اسلاف اولیاءاللہ کی سیرت و کردار سے نئی نسل کو آگاہ کرتے ہوئے محب وطن ،پر امن ،مذہبی و عاشق رسول ﷺ افراد کی ایسی جماعت تیار کی جائے جو استحکام پاکستان کے لئے سود مند ہو ۔

انہی افکار کے پیش نظر احیائے تصوف اور فروغ عشق و محبت کے لئے حضرت بدرالمشائخ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمة اللہ علیہ نے ملک میں تحریک اویسیہ پاکستان کی بنیاد رکھی ۔تحریک اویسیہ کا مقصد نفرت مٹا کر محبت و رواداری کے چراغ روشن کرنا ہے،تحریک اویسیہ کا مرکز ی دفتر آستانہ عالیہ اویسیہ علی پور چٹھہ شریف ضلع گوجرانوالہ جبکہ لاہور چوک یتیم خانہ کے قریب اور نارووال مرکز اویسیاں میں رابطہ دفاتر ہیں ۔اس کی شاخیں پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں موجود ہیں ۔

حضرت بدرالمشائخ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمة اللہ علیہ جہاں ایک عالمِ با عمل صوفی باصفا ،مرید با وفا ،عاشق مصطفےٰ اور مہر سلسلہ اویسیہ تھے وہاں منجھے ہوئے مدبر و مفکر اور صاحب بصیرت و روشن ضمیر راہنما بھی تھے ۔ملکی سیاست پر گہری نظر رکھتے، اکثر مسلم لیگ کی اور قائد اہلسنت مولانا الشاہ احمد نورانی رحمة اللہ علیہ سے سیاست میں متاثر ہونے کی باتیں ارشاد فرماتے۔اتحاد اہلسنت کے زبر دست علمبردار اور فرقہ واریت کے پرُزور مخالف تھے ۔وہ اکثر عشق رسول ﷺ کے نقطہ عظیمہ پر ملت اسلامیہ کو اتحاد کا پیغام دیتے تھے ۔حضرت بدرالمشائخ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمة اللہ علیہ نے خانقاہ کو مرکز تجارت و نفع بخش کاروبار نہ بنایا بلکہ خانقاہ کو دکھی انسانیت کے لئے پناہ گاہ بنایا۔اصلاح و تربیت کا مرکز گردانا ۔آپ روایتی پیری و مریدی کو مناسب خیال نہ فرماتے تھے بلکہ قرآن و سنت کے احیاءکے لئے پیری مریدی کا عمل فرماتے رہے ۔لیکن انسان لاکھوں کام کرے ۔اصلاح نفس کے ساتھ ساتھ اصلاح و فلاح انسانیت کا فریضہ بھی سر انجام دے ،تصوف و راہبانیت میں فرق اور ولایت کی درست تصویر بھی عوام کے سامنے لائے مگرپھر بھی اُسے ایک دن اس دنیا سے جانا ہے ۔جس سے کسی کو انکار نہیں ۔بڑے بڑے نامور افراد دنیا میں آئے لیکن ایک دن انہیں بھی کوچ کرنا پڑا۔روز مرہ کے روحانی ،مذہبی ،سماجی اور فکر و اصلاحی فرائض سر انجام دیتے ہوئے آخر کُلُّ نَفسٍ ذَآئِقَةُ المَوت کے تحت ہمارے پیر و مرشد مرکز محبتاں ،سلسلہ اویسیہ کے نیر تاباں رہبر عاشقاں ،اولیاءجن پر قرباں ،صوفیاءجن پہ نازاں ،طریقہ اصلاح و تربیت جن سے درخشاں حضرت بدرالمشائخ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمة اللہ علیہ یکم رمضان المبارک 1421ھ بمطابق28نومبر 2000ءکو شہر خاموشاں کی طرف رختِ سفر باندھ گئے ۔آپ کا جنازہ علی پور چٹھہ کی تاریخ میں ایک بڑا جنازہ تھا ۔ نماز جنازہ میں ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں نے شرکت کر کے اس مرد حق شناس کو خراج تحسین پیش کیا۔ آپ کو اپنے شیخ کامل کے پہلو میں دفن کیا گیا۔آپ کا سالانہ عرس مبارک 15رجب المرجب کو ہر سال دربار عالیہ اویسیہ علی پور چٹھہ شریف ضلع گوجرانوالہ میں عالمی مبلغ اسلام علامہ پیر غلام رسول اویسی سجادہ نشین دربار عالیہ اویسیہ علی پور چٹھہ شریف کی زیر صدارت انتہائی ادب و احترام سے منایا جاتا ہے ۔
Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi
About the Author: Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi Read More Articles by Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi: 198 Articles with 616441 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.