سینٹ چیر مین کا انتخاب‘ اپوزیش کو شکست‘ حکومت فتح مند

سینٹ چیر مین کا انتخاب‘ اپوزیش کو شکست‘ حکومت فتح مند
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
سینٹ کے انتخابات کا حال سب کے سامنے ہے۔ ایک گروپ کو ڈاکٹر حفیظ شیخ کی فکر تھی دوسرے کو یوسف رضا گیلانی کی۔ دیگر کی کوئی فکر، نہ جدوجہد، نہ لینا نہ دینا۔ جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ اسلا م آباد کی دو سیٹوں پر حکومت کا فیورٹ امیدوار شکست کھا گیا اور پی ڈی ایم کے فیورٹ کے گلے میں پڑے ہار۔ انہیں کہ ساتھ حکومت کی امیدوار خاتون کے گلے میں پڑے ہار اور پی ڈی ایم کی خاتون امیدوار کے نصیب میں آئی شکست۔ یوسف رضا گیلانے پاکستان پیپلز پارٹ کے امیدوار تھے جب کہ خاتون نون لیگ کی امیدوار تھیں۔ پیپلز پارٹ نے یوسف رضاگیلانی کے لیے سر دھڑ کی بازی لگادی، نون لیگ کی امیدوار کو گھانس نہیں ڈالی۔ اسی طرح حکومت نے تمام طاقت ڈاکٹر حفیظ شیخ کے لیے لگائی پھر بھی وہ شکست کھا گئے البتہ ان کی خاتون امیدوار کامیاب قرار پائیں۔ سیاست اسی جوڑ توڑ کا نام ہے۔یہ بات تو تھی سینٹ اراکین کے انتخاب کی اب آتے ہیں سینٹ چیرئمین اور ڈپٹی چیر ئ مین کے انتخاب کی۔یہ مرحلہ بھی اختتام کو پہنچا۔ پی ڈی ایف کے امیدوار یوسف رضا گیلانی جب کہ مولانا عبدالغفور حیدری ڈپٹی چیر ئ مین تھے۔ حکومتی اتحاد کی جانب سے صادق سنجرانی چیر ئ مین اور مرزا محمد آفریدی ڈپٹی چیر ئ مین کے امیدوار تھے۔ دونوں امیدوار وں کے حمایتی ایک دوسرے پر لفظوں کی گولا باری کرتے رہے۔جوڑ توڑ، خرید و فروخت، اثر و رسوخ، تعلقات، دوستیاں، علاقہ، زبان، الغرض ہر وہ عمل جس سے ایک دوسرے کو نیچا دکھایا جاسکتا تھا وہ عمل کیا گیا،ڈاکٹر سید جعفر احمد نے اپنے تجزیے میں بہت درست لکھا کہ
”سیاسی اخلاقیات کا زوال ہے۔ اس رجحان کے آگے بند کس طرح باندھا جائے“۔سیاست کی اقدار اس قدر زمین بوس ہوچکی ہیں کہ ان کے راہ راست پر آنے کے تمام دروازے کم از کم سیاست دانوں کی جانب سے بند دکھائی دے رہے ہیں۔ منتخب ایوانوں کے اراکین جب قیمت وصول کر کے آئیں گے اور قیمت اداکرنے والوں کو کتے نے کاٹا کہ وہ کروڑوں دے کر کسی کورکن بنائیں اور بعد میں وہ انہی کے توسط سے سو گناوصول نہ کریں، یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے، ماضی میں یہی کچھ ہوتا رہا ہے۔خاص طور پر سینٹ میں تو پیسہ چلتا رہا ہے۔ عمران خان نے شور مچایا تو اس جانب توجہ دکھائی دے رہی ہے۔ ورنہ سینیٹر ہمیشہ وہی ہوا کرتا تھا جس کے پاس دولت ہوتی یا دولت مند اس کے لیے اپنا پیشہ استعمال کیا کرتے تھے۔
الزام کس کو دیا جائے، سیاست دانوں کویا نظام کو۔ نظام اگر درست ہوتا، قانون موجود ہو، قانون پر عمل درآمد بلا تفریق کیا جائے تو اس سیاسی زوال کو بچایا جاسکتا ہے۔ سیاست داں اپنی روش نہیں بدلیں گے۔ اس لیے ہر سیاست داں اپنے آپ کو نیک پارسا اور دوسروں کو اس قابل ہی نہیں سمجھتے کہ وہ انسان بھی ہیں، سیاست داں سمجھنا تو دور کی بات ہے۔ جس کسی بھی درجہ دوم کے لیڈر کو سنیں افلاطان اور ارسطو بنا ہوا ہے۔ میڈیا نے رہی سہی کثر پوری کردی۔ بس کوئی منفی عمل کا حامل دوسرے یا تیسرے درجے کا سیاسی کارکن مل جائے اسے چینل پر بیٹھا کر ارسطو اورافلاطان بنا دیتے ہیں۔ اسلام آباد کی سینٹ پر جو کچھ ہوا، وہ بھی قوم نے دیکھا، ڈسکہ میں جو کچھ ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔چیرئ مین و ڈپٹی چیرئمین کے لیے جو کچھ ہوا وہ بھی قوم نے دیکھا،سنجرانی صاحب کے سابقہ انتخابات کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہورہا تھا کہ اس بار بھی اپوزیشن کے 14اراکین ادھر سے ادھر ہوجائیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ چاہے کسی کے بھی آدمی ہوں لیکن وہ ایک سنجیدہ، پڑھا لکا، نیک انسان ہے، اس نے اپنے انتخابات میں وہ جدوجہد نہیں کی جو اسلم سنجرانی نے کی۔ سنجرانی نے محنت کی، اس کے پیچھے حکومت اور اس کے اتحادی بھی تھے۔ باوجود اس کے کہ سینٹ کے ووٹوں کی تعدادکے اعتبار سے پی ڈی ایم کے اراکین کی تعداد کچھ زیادہ تھی لیکن اس طرح تو یوسف رضا گیلانی صاحب کے مقابلے میں ڈاکٹر شیخ کے اراکین کی تعداد زیادہ تھی لیکن جیتا کون، جب یوسف رضا گیلانی کم ووٹوں ہونے کے باوجود فتح مند ہوسکتے ہیں تو سنجرانی صاحب یوسف رضا گیلانی کو شکست کیوں نہیں دے سکتے اور ایسا ہوا۔ وہ ایک چھوٹے صوبے سے تعلق رکھتے ہیں، وہ آصف علی زرداری صاحب کا انتخاب تھے، کیا معلوم پرانا تعلق قائم ہو۔ اس لیے سیاست میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہوتی۔یوسف رضاگیلانی اور مولانا عبد الغفور حیدری کی شکست کے بعد حکومت اور حکومتی اتحادیوں کا مارل ہائی ہوجائے گا۔ ادھر مولانا صاحب کا امیدوار ایک کم معروف سینیٹر سے واضح شکست کھا گیا اسی طرح جیسے سینٹ کے انتخاب میں نون لیگ کی خاتون امیدوار کو شکست ہوئی۔ پی ڈی ایم کی جماعتوں میں آپس میں معاملات صاف ستھرے نہیں۔ غفور حیدری کا اعلان مولانا نے اس وقت کیا جب حکومت کی جانب سے پرویز خٹک نے غفور حیدری کو ڈپٹی چیرئ مین کی پیش کش کی۔ وہ در اصل سیاست تھی، پرویز خٹک کا اپنا فیصلہ تھا، پارٹی یا عمران خان کا نہیں تھا۔ اس کا اثر فوری یہ ہوا کہ پی ڈی ایم نے عبد الغفور حیدری کو ڈپٹی چیرئ مین نامذد کردیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے پوری قوت یوسف رضا کے سینٹ کے انتخاب اور اسی کے چیر ئ مین بنائے جانے پر لگائی اس نے دیگر امیدواروں پر توجہ ہی نہیں دی، نون لیگ پنجاب میں افہام و تفہیم کے نتیجے میں حصہ بقدر جسا لے کر زبانی جمع خرچ کرتی رہی، اس نے بھی اپنی خاتون رکن کے یے کوئی خاص محنت نہیں کی اور نہ عبد الغفور حیدری کے لیے جان کھپائی۔ جس کا نتیجہ سامنے آچکا۔کل ووٹ 98تھے۔ چیرئ مین کے انتخاب میں صادق سنجرانی کو 48جب کہ یوسف رضا گیلانی کو 42ووٹ ملے، 8 ووٹ کینسل ہوئے۔ ان آٹھ میں سے 7اپوزیشن کا موقف ہے کہ یہ ان کے ہیں اور غلط طریقے سے کینسل کئے گئے ہیں۔ ڈپٹی چیر ئ مین کے انتخاب میں حکومتی امیدوار مرزا محمد آفریدی کو 54جب کے عبد الغفور حیدری کو 44ووٹ ملے۔ یہاں وہی کچھ ہوا جو سینٹ کی اسلام آباد والی سیٹ پر ہوا تھا۔یہی جمہوریت ہے، جمہوری نظام میں ووٹ گنے جاتے ہیں اور سینٹ میں ووٹ گنے گئے۔ علامہ اقبال نے سچ کہا ؎
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کر تے ہیں تولا نہیں کرتے
عمران خان تو مسلسل یہ کہتا رہا کہ الیکشن پر قانون سازی کرلواور سیکریٹ کے بجائے اوپن بیلٹ کے ذریعہ انتخاب کر لو لیکن کیوں کہ عمران خان کہہ رہا تھا اس لیے اس کی بات تو کیسی بھی ہو اس عمل کیسے کیا جاسکتا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ اگر میری بات نہ مانی تو آنسوؤں سے رو گے اور چیر ئ مین اور ڈپٹی چیر ئ مین کے الیکشن کے بعد یہی کچھ صورت حال اپوزیشن کی دکھائی دے رہی تھی۔ ووٹ مسترد کرنے کی حکمت عملی یوسف رضا گیلانی کے بیٹے صاحب نے اپنے والد بزرگوار کو جتوانے کے لیے جو ترکیب مخالف سینیٹرز کو سکھائی تھی وہی ترکیب آج انہیں کے خلاف استعمال ہوگئی۔ ٹی وی اینکر دنیا نیوز کامران خان کے ٹیوٹ کے مطابق ”ووٹ کیسے مسترد کروایا جاتا ہے یوسف گیلانی کے بیٹے کلاس لیتے تھے لگتا ہے شاندار سبق اپنے ووٹرز کو پڑھایا ابو کو ہی فارغ کروادیا جیسی کرنی ویسی بھرنی“۔ کامران خان اپنے ٹوئیٹ میں مزید لکھتے ہیں کہ ”سب سے اہم خبر یہ ہے کہ سینٹ میں دراصل اکثریت ہی پی ٹی آئی اتحاد کی ہے اپوزیشن کے سات اراکین حکومتی اتحاد میں شامل ہوشکے ہیں انہیں سات اراکین نے غفور حیدری کے بجائے مرزا آمریدی کو ووٹ دئے سینٹ۔ اب سینٹ میں حکومت ظ54اپویشن44کا تناسب ہے“۔اب پی ڈی ایم کی حکمت عملی کیا ہوگی؟ لانگ مارچ، استعفے۔ اس مسئلہ پر پی ڈی ایم اندر سے تقسیم ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی شروع ہی سے ضمنی انتخابات، سینٹ الیکشن میں حصہ لینے کی خواہش مند جب کہ نون لیگ اور مولانا اس کے مخالف۔اب مرحلہ لانگ مارچ کا ہے پی پی اب بھی لانگ مارچ میں حصہ لے سکتی ہے لیکن اگر مارچ اسلام آباد میں ہوا، کہیں پنڈی کی بات ہوئی تو پی پی کسی بھی طرح اپنے آپ کو الگ کرنے کی کوشش کرے گی، اسی طرح پی پی استعفے دینے کے حق میں بالکل ہی نہیں ہوگی۔ دیکھتے ہیں اخلاقیات سے گری ہوئی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ اللہ پاکستان کے لیے بہتر کرے۔ (13مارچ2021ء)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437660 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More