اچھا کر دکھانا ہے

کہتے ہیں کہ قطرے قطرے سے سمندر بنتاہے اور تنکے تنکے سے پہاڑ بنتاہے،لیکن ہم عام طو رپر ان تنکوں کو حقیر سمجھتے ہیںاور اس کی کوئی پرواہ ہی نہیں کرتے۔بالکل اسی طرح سے آج اُؐمت مسلمہ کی حالت ہے۔اُمت مسلمہ یہ سوچ مضبوط ہوتی جارہی ہے کہ اگر ہمیں کچھ کام کرناہے تو وہ بڑے پیمانے پر ہی انجام دیناہے،چھوٹے کاموں کیلئے توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔بات چاہے سیاسی وہویا ملّی،کام چاہے اجتماعی ہویا پھر تنظیموں کی تشکیل،ہر کام کو ہم جڑ سےسر تک لے جانانہیں چاہتے،بلکہ سرسے پھیلنے کی کوشش کرتے ہیں جوکہ قدرت کے نظام کے خلاف ہے۔آج ہم اپنے درمیان نظریں دوڑائیں تو اس بات کااحساس ہوگاکہ اُمت مسلمہ کا ایک بڑا طبقہ صرف بڑے کی تلاش میں دوڑ لگا رہاہے،چھوٹاہوکر بڑا ہوناہی نہیں چاہتا۔مثال کے طور پرتعلیم یافتہ نوجوانوں کو لیںکہ یہ کس طرح سے یہ نوجوان چھوٹے کام کو انجام دینے کے بعد بڑے کام کو حاصل کرنا نہیں چاہتے۔سب کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ انہیں بہت بڑا کام ملے اور وہ ہر مہینہ لاکھوں روپئے کمائیں۔انہیں لاکھوں کے چکرمیں ان کی زندگی کا بڑاحصہ بیکاری بے روزگاری میں گذر جاتاہے اور آخر میں انہیں جو ملاوہی روکھی سوکھی جاکر اکتفاء کرنے کیلئے تیارہوجاتے ہیں۔اگر یہ نوجوان بڑے کام کو حاصل کرنے کیلئے چھوٹے کام سے شروعات کرتے تو نہ انکی زندگی کے ایام بیکار ہوتے اور نہ ہی وہ تجربہ حاصل کرنے سے محروم ہوجاتے۔ان کے چھوٹے کام میں جو تجربہ انہیں حاصل ہوتاوہ ان کیلئے بڑے کاموں کو انجام دینے کیلئےمفید ثابت ہوسکتا۔اسی طرح سےسیاسی معاملات کو لے لیجئے،جب بھی نوجوانوں کو قیادت کیلئے کہاجاتاہے تو یہ لوگ سیدھے سیدھے کائونسلر،کارپوریٹر اور ایم ایل اے بننے کی چاہ میں نکل جاتے ہیں،جبکہ حالت یہ ہوتی ہے کہ الیکشن میں انہیں ان کے اپنے گھروالوں کے علاوہ پڑوسی بھی ووٹ دینے کیلئے تیارنہیں ہوتے۔کیونکہ ہمارے معاملات وحالات اس قدر بدترہیں کہ مسلمان محض نام کے مسلمان رہ گئے ہیں۔سیدھے طور پرسیاسی مقابلہ آرائی کےبجائے پہلے سماجی معاملات کو درست کرنے کی ضرورت ہے،ہمارا لین دین،ہمارا اٹھنا بیٹھنا،ہماری بات چیت اور ہمارے سماجی تعلقات کو بہتر بنائیں اور لوگوں کو اس بات پر آمادہ کریں کہ ہاں واقعی مسلمان قابلِ اعتبارہیں۔ہماری قوم مسلم کو اس وقت بڑے برگد کے پیڑکی ضرورت نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے سایہ دار درختوں کی ضرورت ہے،کیونکہ برگد کا پیڑ سایہ دار ہونے تک کافی وقت لگ سکتا ہے،اس لئےچھوٹے درختوں کو اُگایاجائے۔مطلب یہ ہے کہ بڑی تنظیموں کوتشکیل دینےکیلئے نہ دوڑیں بلکہ اپنی گلی محلے وشہرکے سطح پر کمیٹیوں کی تشکیل دیں،تنظیموں کی تشکیل دیں،نوجوانوں کو بہتر ماحول فراہم کریں،کھیل کود،تفریح،مقابلہ آرائی اوراخلاقیات پر مبنی سرگرمیوں میں مصروف کریں تو یقیناً یہ کام نوجوانوںکی اصلاح کیلئے بہت ہی مفید ثابت ہوسکتاہے۔آج ملک میں قومی سطح پر کام کرنے کیلئے جو تنظیمیں پہلے مرکز بعدمیں جو گلیوںمیں پھیل رہی ہیںیہ سب اپنے کچھ خاص ومحدوداغراض ومقاصدکو سامنے رکھ کر کام کررہی ہیں۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اور آپ مقامی و علاقائی سطح پر تنظیموںکی تشکیل دیں،کمیٹیوں کی تشکیل کریںاور نوجوانوں میں اصلاح کا کام کریں۔جب اُمت میں چھوٹے بڑے کی تمیز آجائیگی تواُن میں سیاسی،ملّی وسماجی معاملات کی تمیز بھی آجائیگی۔جب تک ذہن سازی نہ ہواُس وقت تک نہ علم کارآمدہوگانہ ہی عمل میں مستقل مزاجی رہے گی۔یہی وقت کی ضرورت ہے۔زندگی میںاچھا کہنے سے بہتر اچھا کردکھاناہے،یہی زندگی کا فلسفہ ہے۔
 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197636 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.