امریکی عوام کے لئے بائیڈن انتظامیہ کی نئی خارجہ پالیسی

امریکا میں بائیڈن انتظامیہ داخلی و خارجی معاملات سے نپٹنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن ، عالمی تناظر میں امریکا کی پوزیشن، سابق صدر ٹرمپ سے قبل والی لانا چاہتے ہیں۔ امریکی کی داخلی و خارجہ پالیسیاں پوری دنیا کو متاثر کرتی ہیں ، گذشتہ دنوں امریکی وزیر خارجہ اٹونی جے بلنکن نے امریکی عوام کے لئے بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے خارجہ پالیسی کو تفصیل بیان کیا اور بائیڈن انتظامیہ کی ترجیحات کے حوالے سے عوام کو اعتماد میں لیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’صدر بائیڈن کی ہدایت پر امریکی عوام کی زندگیوں کو مزید محفوظ بنانا ، خاندان کے لئے مواقع پیدا کرنے اور عالمگیر بحرانوں سے نمٹنے کی جامع حکمت عملی بنانے کی ذمے داری انہیں تقویض کی گئی ، انہوں نے بحیثیت وزیر خارجہ اپنے پہلی تقریر میں امریکی عوام کے لئے خار پالیسیوں کے لئے 8نکاتی ترجیحاتی حکمت عملی کے خدوخال نمایا ں کئے کہ امریکی سفارت کاری میں امریکا کی حکمت عملی کس طور قابل عمل ہوسکتی ہیں ۔

صدر بائیڈن انتظامیہ میں زیادہ تر وہی پالیسی ساز ہیں جو جو2009تا 2017کی اوباما انتظامیہ میں کام کرچکے ہیں ، لہذا صدر نے اپنی ترجیحات میں اوبامہ دورکے بعد تبدیل شدہ معاملات کو ازسر نو لانے اور اس سے آگے کی حکمت عملی کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔بائیڈن انتظامیہ نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے و عالمی ماحولیاتی معاہدے پر زیادہ توجہ مرکوز کی اور پہلے مرحلے ہی میں پیرس معاہدے میں شمولیت اختیار کرلی اور ایران کے ساتھ دوبارہ معاہدے و ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے روک تھام کے لئے حکمت عملی کا آغاز کیا ۔امریکا یہ سمجھتا ہے کہ عالمی برداری کو ان کی ضرورت ہے ، ان کے نزدیک یہ سوچ بھی کارفرما ہے کہ اگر امریکا ، دنیا میں اپنا کردار محدود کردے تو اس سے کوئی دوسری طاقت آگے بڑھنے کی کوشش میں دنیا کا توازن کو بگاڑ سکتی ہے ۔سابق صدر ٹرمپ نے جہاں سیاست میں واپسی سمیت اگلے انتخابات کے لئے دوبارہ حصہ لینے کا اعلان کیا،تو اس سے ڈیمو کرٹیس میں بھی تشویش کی لہر دوڑ چکی ہے کہ امریکا کے جمہوری نظام کو لاحق خطرات ختم نہیں ہوئے ، بلکہ افرا تفری سیاسی خلفشار میں اضافہ ہوسکتا ہے، اس کا مظاہرہ ایک بارپھر دیکھنے میں آیا کہ کیپٹل ہلز پر ایک بار پھر ری پبلکن و نسل پرستوں کی حملے کی اطلاعات نے سیکورٹی انتظامات کو مزید سخت کردیا گیا۔

امریکا داخلی طور پر خود کو مضبوط بھی رکھنا چاہتا ہے ، اور اپنی جدید ٹیکنالوجی والی فوج کی طاقت کو سفارت کے لئے اہم جزو سمجھتا ہے ، بائیڈن اپنی پالیسیوں میں قلیل و طویل المدتی پالیسیوں کی نئی تعمیر نو کے نعرے کے ساتھ امریکی عوام کو نئے چیلنجز سے بچانے کی خواہش رکھتے ہیں، جس کے لئے ابتدائی تیاریوں میں انہیں سب سے پہلے کوڈ 19پر قابو پا کر امریکی عوام کو مزید ہلاکتوں سے بچانا ہے ، صحت عامہ کی اس گھمبیر صورتحال میں ، جہاں لاکھوں امریکی پہلے ہلاک ہوچکے ہوں ، اور گزشتہ 14مہینوں میں وبا نے امریکی عوام و معیشت کو جس طرح نقصان پہنچایا ، اس کے تدارک کے لئے امریکا چاہتا ہے کہ عالمی برداری ، ادارے اور مختلف برادریاں ہم آہنگ یک جہتی کا مظاہرہ کریں، تاکہ سب سے پہلے اس تباہ کن بحران سے نکلا جاسکے ۔درحقیقت سابق صد کرونا کے خلاف زمینی حقائق کے مطابق سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے تو اتنی تباہی واقع نہ ہوتی ، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے چین سے مخاصمت اور حد سے زیادہ خود اعتماد ی و مضحکہ خیزکردار نے جہاں کرونا سے نمٹنے میں تاخیر ہوئی تو دوسری جانب لاکھوں امریکی بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔سابق صدر عالمی ادارہ صحت سے علیحدگی سمیت خود ساختہ علاج کے گمراہ کن بیانات کی وجہ سے امریکی عوام کو کافی نقصان پہنچا چکے ۔ بائیڈن انتظامیہ نفسیاتی طور پر فرسٹریشن عوام کو موجودہ صورتحال سے باہر نکالنے چاہتی ہے ، جس کے لئے انہیں عالمی برداری و صحت عامہ کے اداروں کے ساتھ عوام کی تعاون کی ضرورت ہوگی۔

کمزور ہوتی معیشت اور کرونا وبا کی وجہ سے لاکھوں امریکی عوام کے بے روزگار ہونے کے سدباب کے لئے انہیں یقین دہانی کرا رہی ہے نیز وزیر خارجہ نے اپنی پالیسی میں وضاحت بھی کی ’ ’آزادنہ تجارتی پالیسی کے مقابلے میں اب ہمارا طرز عمل مختلف ہوگا۔ ہم ہر ایک امریکی ملازمت اور تمام امریکی کارکنوں کے حقوق، تحفظات اور مفادات کے لیے لڑیں گے۔ ہم دوسرے ممالک کو اپنی املاک دانش چوری کرنے یا غیرمنصفانہ فوائد حاصل کرنے کے لیے اپنی کرنسیوں میں ردوبدل کرنے سے روکنے کے لیے تمام وسائل استعمال کریں گے۔ ہم بدعنوانی کا مقابلہ کریں گے جو ہماری راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتی ہے اور ہمیں نقصان پہنچاتی ہے۔ اور ہماری تجارتی پالیسیوں کو واضح طور پر ان باتوں کا جواب دینے کی ضرورت ہو گی کہ وہ امریکہ کے متوسط طبقے کو کس طرح ترقی دیں گیں، نئی اور بہتر ملازمتیں پیدا کریں گے، اور نہ صرف اُن کو فائدہ پہنچائیں گے جن کے حق میں معیشت پہلے ہی کام کر رہی ہے بلکہ تمام امریکیوں کو فائدہ پہنچائیں گے‘‘۔صدر بائیڈن اعتراف کرچکے ہیں کہ امریکا میں جمہوریت کمزور ہو رہی ہے ، جس طرح ا تخابات کے بعد ری پبلکن و نسل پرستوں کا ردعمل سامنے آیا ، اسے دنیا بھر تشویش کی نظروں سے بھی دیکھا گیا ، امریکا اپنی پالیسیوں کی وجہ سے مخالف و حلیف ممالک میں پس پردہ پراکسی وار کا اہم کردار ادا کرتا ہے، بائیڈن انتظامیہ نے اعادہ کیا ہے اب تحفظ کے نام ایسی آمرانہ مداخلتوں اور مہنگی فوجی مہمات کو۔ جمہوریت کی بحالی کے نام پر امریکی عوام کا اعتماد کھونے سے گریز کیا جائے گا ۔تاکہ جمہوریت کے فروغ کے نام پر امریکا مزید بدنام نہ ہو، تاہم یہ وقت ثابت کرے گا کہ بائیڈن کی مشرق وسطیٰ و ایشیائی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کس نوعیت کے استوار ہوتے ہیں ۔

امریکی عوام کے لئے روزگار کی کمی میں دنیا بھر سے آنے والے ہنر مند افراد کا اہم کردار بھی ہے ، کیونکہ باصلاحیت اور ہنر مند افرادی قوت کے کم مشاہرے میں کام کرنے کے رجحان میں کمی واقع نہیں ہوئی ، سابق صدر ٹرمپ نے امیگریشن کے حوالے سے تارکین وطن کو امریکا داخلے سے روکنے کے لئے سخت گیر پالیسی اختیار کی تھی ، جن بعض ایسی احکامات بھی تھے ، جس پرسخت تنقید پر کی گئی ۔ صدر بائیڈن نے تارکین وطن کے مسائل پر قابو پانے کے لئے ان ممالک میں روزگار کے مواقع بڑھانے کی حکمت عملی بنائی ہے تاکہ ایک اچھے مستقبل کے لئے انہیں اپنی جان جوکھم میں ڈال کر امریکا میں غیر قانونی طریقے سے آنا نہ پڑے ، بائیڈن نے اپنی کابینہ میں زیادہ تر ایسی شخصیات کو بھی شامل کیا ہے ، جنہوں نے امریکا میں رہ کر ، امریکی شہری بن کراپنی پہچان بنائی ، ان کا ماننا ہے کہ ۔’’ہماری قومی شناخت کا ایک اہم ترین جزو یہ ہے کہ ہم تارکین وطن کا ملک ہیں۔ ہم اس حقیقت سے مضبوط سے مضبوط تر ہوتے ہیں کہ محنتی لوگ یہاں تعلیم حاصل کرنے، کاروبار شروع کرنے اور ہماری کمیونٹیوں کو مالا مال کرنے آتے ہیں۔ ہم گزشتہ چند برسوں سے اس راہ سے ہٹ چکے ہیں۔ ہمیں اس طرف واپس جانا ہوگا‘‘۔
ٹرمپ سخت گیر پالیسیوں نے جہاں اپنے حریفوں کومزید ناراض کیا تو ان کی وجہ سے حلیف ممالک اور اتحادیوں سے تعلقات بھی خراب ہوئے ، جس کے اثرات براہ راست امریکی عوام پر اثر انداز ہوتے اور انہیں بار بار حکومتی ہدایات میں سفری پابندیوں و احتیاط کرنے کی ہدایات نے خوف کا شکار کیا اور آزادنہ نقل و حرکت میں امریکا مخالف عناصر کی جانب سے حملوں کا سامنا صرف امریکا میں نہیں بلکہ دنیا بھر رہتا ہے ، اس کے سدباب کے لئے بائیڈن انتظامیہ خواہاں ہے کہ اتحادیوں سے بہتر تعلقات کو دوبارہ استوار کیا جائے تاکہ امریکی عوام کو انجانے خوف و ہراس سے نجات مل سکے۔ اتحادیوں اور شراکت داروں سے تعلقات کی بحالی میں بائیڈن انتظامیہ کی پالیسیاں اہم کردار ادا کریں گے کہ امریکا ، زمینی حقائق کے مطابق حلیف و حریف فریقوں کے مسائل کو غیر جانبداری سے دور کرنے کی کوشش کرے ، تاکہ امریکی عوام کو ایسا ماحول میسر آسکے ، جس کی وجہ سے انہیں ہر تیسرا فرد اپنا دشمن و تباہی کا ذمے دار نہ سمجھے۔بائیڈن انتظامیہ ماحولیات و سبز توانائی پر متحرک و پائدار حکمت عملی پر کاربند ہونے کا عزم بھی ظاہر کررہی ہے ، امریکہ دنیا کی 15 فیصد کاربن آلودگی پیدا کرتا ہے۔ امریکی انتظامیہ نے اپنی پالیسی میں مصنوعی ذہانت اور کوانٹم کمپیوٹنگ جیسی ایسی نئی ٹکنالوجیاں تیار کرنے اور اُنہیں استعمال کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ امریکی عوام نئی ٹیکنالوجیاں آپ کی رازداری کا تحفظ کریں، دنیا کو زیادہ محفوظ اور زیادہ صحت مند بنائیں، اور جمہوریت کو مزید مضبوط بنائیں۔ امریکی حکومت نیٹ ورکوں کے بڑے ہیک یعنی سولر ونڈز کو دیکھنے کی ضرورت کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ امریکی نئی داخلہ پالیسی میں اپنے سب سے بڑے معاشی حریف چین کے ساتھ تعلقات کو نمایاں طور پر مثبت لیا گیا ہے کہ’’ معاشی، سفارتی، فوجی اور تکنیکی طاقت کا حامل چین، مستحکم اور کھلے بین الاقوامی نظام کو سنجیدگی سے چیلنج کرنے والا واحد ملک ہے – یعنی اُن تمام قواعد، اقدار اور تعلقات کو چیلنج کرنے والا جو دنیا کو اس طرح چلاتے ہیں جس طرح کہ ہم چاہتے ہیں کیونکہ انجام کار یہ امریکی عوام کے مفادات پورے کرتے ہیں اُن کی اقدار کی عکاسی کرتے ہیں۔چین کے ساتھ ہمارے تعلقات مسابقانہ ہوں گے جب ایسے ہونے چاہیئیں، باہمی تعاون والے ہوں گے جب یہ ہو سکتے ہوں، اور مخالفانہ ہوں گے جب ایسا ہونا اشد ضروری ہوگا۔ چین کے ساتھ طاقت کی پوزیشن سے معاملات طے کرنے کی ضرورت پر متفق ہیں۔‘‘
۔




 

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744819 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.