اگر میں کالم نگار ہونے کے ناتے یہ کہوں کہ ہم سا
ہو(جمااعت اسلامی) تو سامنے آئے تو نامناست نہیں ہوگا؟ اسکی تفصیل آخر میں
پہلے موجودہ سیاسی کشمکش پر تبصرہ۔ آف شور کمپنیوں میں نواز شریف صاحب کے
خاندان کے نام نکلنے سے شروع ہوا۔ نوازگھبرا گئے۔ پہلے دو دفعہ الیکٹرونک
میڈیا میں ، پھر پارلیمنٹ میں نامکمل صفائی’’ یہ ہیں ثبوت جناب اسپیکر‘‘
پیش کئے ۔جو اپوزیشن نے نہیں مانے۔نواز شریف نے سپریم کورٹ سے درخواست کی
کہ وہ مقدمہ سن کر پانی کا پانی دودھ کا دودھ کرے ۔سپریم کورٹ کے پانچ ججوں
نے مقدمہ سن کر،تین ججوں نے نواز شریف کو سیاست سے تاحیات نا اہل ہونے کا
اور دو ججوں نے مذید تحقیق کرنے کا فیصلے سنایا۔ نون لیگ نے اپنے کارکنوں
کواندھرے میں رکھنے کے لیے کہا کہ دیکھوں دوججوں نے نواز شریف کے حق میں
فیصلہ دیا ہے خوب مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ جب کہ دو ججوں نے بھی صرف اتنا
کہا تھا کہ مذید تحقیق کر لی جائے۔سپریم کورٹ نے مذید تحقیق کے لیے جے آئی
ٹی بنائی۔ اسے مقررہ وقت کے اندر اپنا کام مکمل کرنے کا حکم بھی جاری کیا۔
جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی۔ سپریم کورٹ کے فل بینچ نے
نواز شریف کو تاحیات سیاست سے نا اہل کا فیصلہ برقرار رکھا۔ پھر کیا
تھانواز شریف نے فوج اور عدلیہ کے خلاف ملک گیر محاذ کھول دیا گیا۔ شہروں
شہر جلسے اور ریلیاں کر کے عوام اورنون لیگ کے لاکھوں کارکنوں کو غلط رہ پر
ڈال دیا ۔ کہا کہ فوج پارلیمنٹ توڑکر ملک پر قبضہ کر نے جا رہی ہے۔مگر نواز
شریف کی تاحیات نا اہلی کے بعد نون لیگ کے ہی ایک کارکن شاہد خاقان عباسی
نے پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لے نون لیگ کے وزیراعظم پاکستان بن گئے۔ کہا
سینیٹ کا انتخاب نہیں ہونے دیا جائے گا ۔ سینیٹ کا انتخاب بھی وقت پر ہو
گیا۔ دیکھا جائے یہ تو وہ ہی فوج ے کہ جس کی نرسری میں پل کر نواز شریف نے
سیاست میں قدم رکھا تھا۔ یہ وہی عدلیہ ہے جو ہمشیہ نواز شریف کے حق میں
فیصلے کرتی رہی ہے۔’حوالہ اعتزازحسن رہنما پی پی ) اس کے دوران بھی عدلیہ
نے نواز شریف کے حق میں فیصلے دیا۔یعنی جب تک فوج اور عدلیہ نواز شریف کی
مدد کرے تو میٹھاہپ ہپ اور جب مخالفت میں فیصلہ آئے تو کڑوا تھو تھو۔ نواز
شریف نے اس ملک پر ۳۵ سال حکمرانی کی دو دفعہ پنجاب کے وزیر اعلی تین دفعہ
مرکز میں وزیر اعظم بنے۔ عمران خان نے الزام لگایا کہ ایک اتفاق فیکٹری سے
گیارہ ب ملیں کیسے بنیں۔ نواز شریف نے اقتدار سے نکل جانے کے بعد ملک کے
رازوں کو فاش کیا۔ بین الاقوامی اور بھارتی نام نہاد پروپیگنڈے میں ہاں میں
ہاں ملاتے ہوئے اپنے حلف کی بھی پروا نہیں کی اورفوج پر الزام لگایاکہ فوج
انتہا پسندوں کی مدد گار ہے۔فوج نے ثبوت مانگے تو کئی دفعہ اپنے لوگوں کو
قربانی بکرابنایا۔ کیا فوج کو بھی پنجاب کی گلو بٹ جیسی پولیس بنانے چاہتے
تھے جو فوج کو نامنظور تھا؟؟نیب عدالت سے کرپشن میں قید کی سزا پائی۔موت کی
بھیک مانگ کر لندن اپنے فلٹس اور بیٹوں کے پاس گئے۔ واپس آ کر قانون کا
سامنا کرنے کے بجائے اور زیادہ زورشور سے فوج عدلیہ کے خلاف مہم جاری کیے
ہوئے ہے۔پیپلز پارٹی کے بانی تو ڈکٹیٹر ایوب خان کو ڈیڈی کہتے تھے۔ تاریخ
میں پہلی بار سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔
زرداری صاحب پوری دنیا میں کرپشن کے بادشاہ مسٹر ٹین پرسینٹ مشہور ہوئے۔
ملک کی کتنی بڑی بدنامی ہے کہ زرداری دور میں امداد دینے والے ملکوں نے کہا
تھا کہ اس حکومت کے دوران حکومت کو امداد دینے کے بجائے این جی اوئز کی مدد
کریں گے۔فرانس کی اگستا سمرین میں کرپشن کے حوالے سے مشہور ہوئے۔ اب دونوں
کہتے ہیں عوام ہمیں ووٹ دیں حالات درست کر دیں گے۔ ۳۵ سال میں حالات درست
نہیں کیے تو اب کیا خاک درست کریں گے۔اب یہ مداری پن عوام نہیں چلنے
دیں۔مولانا فضل الرحمان صاحب نے ڈکٹیٹر مشرف کا ساتھ دیا ۔ ایم ایم اے نے
مطالبہ کیا تھا کہ خیبر پختون خواہ کی صوبائی اسمبلی توڑدیں تاکہ ڈکٹیٹر
صدر نہ بن سکے ۔ مگر فضل الرحمان نے ایسا کرنے سے انکار کیا اور ڈکٹیٹر کا
ساتھ دیا۔ فضل الرحمان صاحب جب پہلی بار اقتدار میں نہیں ہیں ۔ کہا اس
اسمبلی کو چلنے نہیں دوں گا۔ اسمبلی میں کوئی بھی ممبر نہ جائے اور کوئی
بھی حلف نہ اٹھائے۔سب استعفے دیں۔ فضل الرحمان کی کسی نہ سنی۔ سب اسمبلی
گئے حلف اٹھایا ۔ مزے کرتے رہے۔ جب خیبر پختون خواہ میں عمران خان نے حکومت
بنائی اس کی ناک میں دم کیا۔جب سے عمران خان سیاست میں آئے ہیں اسے یہودی
ایجنٹ کہتے ہیں۔ عمران خان بدلے میں کہتے ہیں فضل الرحمان کے ہوتے ہوئے کسی
یہودی ایجنٹ کی ضرورت نہیں۔کیا کسی عالم دین کو ایسی سیاست کرنا درست ہے۔
فضل الرحمان نے شہروں شہر عمران خان حکومت مخالف مہم چلائی۔ سارے پاکستان
سے کارکنوں کو اسلام آباد میں جمع کیا۔کہا حکومت گرائے بغیر نہیں جاؤں
گا۔مگر خالی ہاتھ لوٹ گئے۔پھر گیارہ جماعتوں نے حکومت مخالف اتحاد کیا۔
حکومت کے خلاف مہم میں تیزی لائے۔ کہافلاں تاریخ کو استعفے دیں گے۔ ابھی تک
نہیں دیے۔ فلاں تاریخ کو لانگ مارچ ہو گا۔ ابھی تک نہیں ہوا۔ جلسوں میں
قومی زبان اُردو، پاکستان بنانے والوں اور فوج پر پاکستان مخالف قوم پرستوں
سے حملے کرائے۔کہا، لاہور جلسے کے بعد اِدھر یا اُ دھر ہو گا۔نہ اِدھر ہوا
نہ اُدھر ہوا۔ ویسا کا ویسا ہی چلتا رہا۔فضل الرحمان نے حد سے بڑھ کر فوج
کو کہا جیسے افغانستان میں امریکا کو ذلیل کرکے نکالا ہے تمھیں بھی ایسا ہی
نکالیں گے۔ انہیں شاید یاد نہیں رہا کہ افغان طالبان کا تعلق جمعیت علمائے
اسلام سمیع الحق گروپ سے ہے جو فضل الرحمان کا مخالف گروپ ہے۔ سمیع الحق کو
دشمنوں نے راولپنڈی میں شہید کر دیا۔
اب سینیٹ کے انتخا بی سرکس کی طرف آتے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کو کرپشن کے
بادشاد زرداری نے اسلام ٓباد میں بیٹھ کر اپنے پیسے کے زور پر جتوا دیا۔
مریم صفدر سے ڈس انفارمینشن پیدا کرنے کے لیے کہا کہو کہ نون لیگ کے ٹکٹوں
کے وجہ سے عمران کے ممبران کا خریدا ۔کوئی بے وقوف ہو گا جو برسوں بعد کے
وعدہ پر ووٹ دے گا۔ زرداری کی نقدی چلی۔ اصل میں زرداری کے پیسے کا کمال
ہے۔یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کی وڈیو سامنے آئی کے ووٹ کو اس طرح ضائع کرو۔
سندھ کے وزیر اطلاہات کی آواز میں پیسے اور فنڈ دینے کی بات آئی۔ اس سے
پہلے عمران خان نے کہا سینیٹ میں کروڑوں کی کرپشن چل رہی ہے۔ الیکشن کمیشن
نے کسی بات کا بھی نوٹس نہیں۔ عمران خان نے قومی اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ
لے لیا۔ پی ڈیم ایم نے کہا ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اقتدار سے استعفیٰ
دینا چاہیے تھا۔ اب سینٹ میں جیسے گیلانی کے الیکشن میں سات ووٹ ضائع ہوئے
،اب بھی سات ووٹ ضائع ہوئے اور سنجرانی صا حب دوبارہ چیئرمین سینٹ منتخب ہو
گئے۔ غفوردحیدری صاحب کے مد مقابل سابق فاٹا کے مرزا محمد آفریدی صاحب
۱۰؍ووٹ زیادہ لے کر ڈپٹی چیئرمین منتخب ہو گئے۔پی ڈی ایم نے بری طرح شکست
کھائی۔ نون لیگ، پیپلز پارٹی اور فضل الرحمان نے تو۲۰۱۸ء کے الیکشن کے
ریزلٹ کو نہیں مانا۔ الزام اپنی فوج پر لگا دیا جو مکمل طور پر سچ
نہیں۔اپوزیش پر کرپشن کے مقدمے پرانے دور سے چل رہے ہیں۔ وہ ان پر بوجھ بنے
ہوئے ہیں۔ان کی ساری تحریک میں عوام کے مسائل پر بات نہیں ۔حکومت گرانے
عدلیہ اور فوج پر عوام کو اُکسایا جاتا ہے۔ جس فوج کو بدنام کر رہے ہیں۔
اندرون خانہ اسی فوج سے مدد مانگے جاتے ہیں۔ اپوزیشن پر منی لانڈرنگ کے
مقدمے قائم ہیں۔ عمران خان جو کرپشن فری پاکستان کے منشور پر جیت کر آیا ہے
۔ وہ کہتا ہے اپوزیشن والے این آر اومانگتے ہیں۔اس لحاظ سے عمران خان صحیح
کہتا ہے۔ اگر اس وقت سیاست سے کرپشن ختم نہ کی گئی اور کسی قسم کی بھی چھوٹ
دی گئی تو پاکستان کے غریب عوام سے دشمنی ہو گی۔
صاحبو!اگر ایمانداری اور غیرجانبداری سے موجودہ سیاسی حالات کا تجزیہ کیا
جائے تو کیا پاکستانیوں کو معلوم نہیں کہ سیاستدانوں نے سیاست کو عبادت کی
بجائے انڈسٹری بنا یا ہوا ہے۔ کروڑ لگاؤ الیکشن جیت کر عربوں کماؤ۔ اسی
کرپشن کے پیسے سے سیاسی پارٹیاں چلاؤ۔ذاتی پسند اورر ناپسند پر اہم پوسٹوں
پر اپنے بندوں لگاؤ جو کرپشن کے ریکارڈ تک غائب کر دیں۔ اور نیب یہ کہ کر
میگا کرپشن کے مقدمے داخل دفتر کر دے کہ فوٹو اسٹیٹ پر مقدمے نہیں چلا
سکتے؟ گو کہ عمران خان خود تو کرپٹ نہیں لیکن مدینہ کی اسلامی ریاست کے لیے
کوئی ٹھوس کام نہیں کیا۔ وہی انگریزی نظام عدل،سودی نظام، لارڈ میکالے کا
نظام تعلیم ۔حتہ اب بھی نصاب تعلیم سے اسلامی دفعات نکالی جا رہی ہیں۔مگر
عمران خان کو یہ سب کچھ نظر نہیں آرہا۔سراج الحق امیر جماعت اسلامی کے
مطابق پیپلز پارٹی ،نواز شریف اور عمران خان ایک جیسے ہی ہیں۔جماعت اسلامی
کے امیر اور سینٹر بھی قومی اسمبلی میں ہار گئے۔ مگر فضل الرحمان کی طرح
واویلہ نہیں کیا۔ اعتراض کے باوجود موجودہ حکومت کو پانچ سال پورے کی بات
کی تھی۔ اچھے کاموں کی تحریف اور غلط کاموں پر تنقید کی بات کیا۔ اس وقت
بھی جماعت اسلامی اس سینیٹ کی سرکس، جس میں ووٹوں کی خرید فروخت میں کر
وڑوں کی کرپشن،نون لیگ کے ٹکٹ نے کام دکھایا،اعلانیہ ووٹ ضائع کرنے کی وڈیو
وغیرہ سامنے آئیں ۔ جماعت اسلامی کے ممبران کو بھی اس سے قبل سینیٹ کے
الیکشن میں کروڑوں کی آفریں کی گئی مگر انہیں نے ٹھکرا دیں۔ جب سے جماعت
اسلامی کے کارکن بلدیاتی، صوبائی، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں منتخب ہو کر
گئے ۔ الحمد اﷲ آج تک کسی پر کرپشن کا الزام نہیں لگا۔جماعت اسلامی کے
ممبران سیاست کو عبادت سمجھتے ہیں۔امین و صادق ہیں۔ اب تو سپریم کورٹ نے
ریماکس پاس کیے ہیں کہ اگر پاکستان کے آئین کی دفعہ ۶۲۔۶۳ پر سیاست دانوں
کو جانچا جائے تو جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے سوا کوئی بھی پورا
نہیں اترے گا۔ پھر کیا ہمارا ماننا کہ ہم سا(جماعت اسلامی) ہو سامنے آئے
درست نہیں؟اﷲ میرے پیارے ملک، مثل مدینہ اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کو ان
کرپٹ سیاست دانوں سے بچائے۔ عوام اپنے ووٹو ں سے کرپشن فری جماعت اسلامی کو
اقتدار میں لائیں تاکہ ملک کی گاڑی صحیح سمت چلے آمین۔
|