ناصرکاظمی کا نام شعر و ادب کی دنیا میں بڑے احترام سے
لیا جاتا ہے ۔وہ بیسویں صدی کے بہترین شاعروں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔وہ
یکم دسمبر 1923ء کو محلہ قاضی واڑہ شہر انبالہ میں پیدا ہوئے ۔آپ کے والد
کا نام محمد سلطان کاظمی تھا۔ناصر کاظمی نے تعلیم کا آغاز نوشہرہ سے کیا ۔
بعد ازاں نیشنل ہائی سکول پشاور میں حصول تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ جبکہ
میٹرک کا امتحان انبالہ مسلم ہائی سکول انبالہ سے پاس کیا۔بعد ازاں
لاہورآکر گورنمنٹ اسلامیہ کالج لاہور میں ایڈمیشن لے لیا۔ناصر کاظمی نے
اپنی تخلیقی زندگی کا آغاز 13سال کی عمر میں کیا ۔انہیں بطور شاعر مقبولیت
اس وقت حاصل ہوئی جب وہ ایف اے کے طالب علم تھے۔ناصر 1939ء میں لاہور ریڈیو
کے ساتھ بطور سکرپٹ رائٹر منسلک ہوگئے ۔یہ ملازمت انہیں 16 برس کی عمر میں
حفیظ ہوشیارپوری اسٹیشن ڈائریکٹر کے توسط سے ملی تھی ۔ریڈیو پر ناصر کاظمی
کا پروگرام "سفینہ غزل"بہت مقبول ہوا ۔اس پروگرام کا سکرپٹ وہ خود لکھتے
تھے ۔مختلف شعراء کا کلام منتخب کرکے بڑے گلوکاروں کی آواز میں پیش کیا
جاتا تھا۔ادب،آرٹ،موسیقی اور فلسفہ سے ان کی خصوصی دلچسپی کا اظہار تخلیقی
اعتبار سے ریڈیو پر ہی ہوا۔وہ مختلف ادبی جریدوں "اوراق نو"،اور "خیال " کے
ایڈیٹر بھی رہے ۔وہ1964ء تادم آخر ریڈیو پاکستان کے سٹاف آرٹسٹ بھی رہے۔
پروفیسر احمد عقیل روبی ،ناصرکاظمی کے حوالے سے اپنی کتاب "مجھے تو وہ
حیران کرگیا"میں ایک واقعے کا کچھ اس طرح ذکرکرتے ہیں -: سردیو ں کی ایک
رات مجھے ہاسٹل کے چوکیدار نے آکر بتایا آپ کو ناصر کاظمی بلارہے ہیں۔میں
نیچے اترا تو ناصر کاظمی کو لان میں ٹہل رہے تھے۔مجھے دیکھ کربولے کیا
کررہے تھے ،میں نے کہا میں پڑھ رہا تھا ؒ۔تم پڑھ رہے تھے رات کا قافلہ
روانہ ہونے کوہے۔ میں ان کی بات سمجھ گیا ۔میں اپنے کمرے میں گیا میرا روم
میٹ دانش رضا سورہاتھا میں نے چپکے سے اس کا اوورکوٹ اٹھایا جو اس نے پچھلی
شام ہی لنڈے سے خریدا تھااو ناصر کاظمی کے ساتھ ہو لیا۔پیدل ہی چلتے ہوئے
ہم کرشن نگر میں داخل ہوئے ۔رات کے تین بج چکے تھے ۔کتے بوکھلائے ہوئے پھر
رہے تھے ۔کتوں کے معاملے میں، میں ناصر سے بھی زیادہ ڈرپوک تھا۔مگر میں نے
کبھی اس کا اظہار نہیں کیا۔ہم کتوں سے بچتے بچاتے ناصرکاظمی کے گھرتک پہنچ
گئے۔انہوں نے دستک دی ۔دروازہ کھلا وہ اندر داخل ہوئے ۔مجھے خدا حافظ کہا
اور دروازہ بند کرلیا۔میں واپسی کے لیے پلٹا تو دس کتوں کا ایک دستہ میرے
سامنے کھڑا تھا میں نے ڈرتے ڈرتے قدم بڑھایا تو وہ بھونکنے لگے۔میں
دوڑاتووہ میرے پیچھے دوڑپڑے۔انہوں نے مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا ۔ناصر
کاظمی کا گھر چند قدموں کے فاصلے پر تھا ۔مجھے اور توکچھ نہ سوجھا، میں نے
اوورکوٹ اتارکرچاروں طرف لہرایاتوکتے اور شیر ہوگئے ۔اپنے اس دفاعی قدم پر
میں ذرا تیزی دکھائی تو کوٹ میرے ہاتھ سے چھوٹ کر ایک کتے پر جا گرااور گرا
بھی اس طرح کہ اوورکوٹ کے بازو میں اس کتے کا سر پھنس گیا وہ اس آفت
ناگہانی سے گبھرا گیا اوورکوٹ کے بازو سے سرنکالنے کے لیے چاروں طرف گھومنے
لگا ۔کتے کو اپنے سر کی پریشانی تھی اور مجھے اوورکوٹ کی پریشانی تھی ۔کتے
کے چاروں طرف چکر لگانے سے سب کتے اوورکوٹ کو اک بلا سمجھ کر بھاگ گئے ۔میں
کتے سے کوٹ چھیننے کی تگ ودوکرنے لگا۔کتا آگے اور میں کتے کے پیچھے بھاگنے
لگا ۔آخرکتے نے زور لگا کر اپنا سر کوٹ کے بازو سے نکالا تو کوٹ اچھل کر
دور جا گرا ۔کتے کے چہرے پر بلاکا خوف تھا ۔اس نے چند لمحے کوٹ کے بے ترتیب
بکھرے بازووں کو دیکھا اور بھونکنے کی بجائے ایک خوفناک چیخ مار کر بھاگ
گیا۔میں نے جا کر کوٹ اٹھایا تو ناصرکاظمی نے اپنی کھڑکی سے جھانک کر کہا
۔یارکتے سے بچنے کا یہ تو بہت آسان طریقہ ہے ۔گڈ میں تو یوں ہی ڈرتا رہا
۔کل میں بھی ایک اوور کوٹ خریدووں گا اور کھڑکی بند کرلی ۔
ناصر کاظمی نے نثر بھی لکھی ، روزنامچے تحریر کیے ۔پرندوں ،درختوں ،ستاروں
،آبشاروں ،دریاؤں ،ندیوں ،پہاڑوں ،کبوتروں ،چڑیوں اور فطرت کے ایک ایک رنگ
کو اپنا ہمراز بنایااور موسیقی ،شطرنج ، پتنگ ،گھڑ سواری ،سیر سپاٹے اور
شکار سے بھی اپنا دل بہلایا۔ناصرکاظمی کا پہلا شعری مجموعہ "برگ نے " کے
نام سے منظر عام پرآیاجو 1952ء میں شائع ہوا۔دیوان (غزلیں ) 1972، پہلی
بارش (نظمیں) 1975،نشاط خواب(نظمیں )1977ء ، سرکی چھایا( منظوم ڈرامہ )
1981ء ، خشک چشمے کے کنارے (نثری تحریریں )1990ء۔ان کے میر،نظیر،ولی اور
انشاء کا منتخب کلام بھی شائع ہوکر ادبی حلقوں سے داد وصول کرچکا
ہے۔ناصرکاظمی ایسے شاعر ہیں جنہوں نے اقبال کے بعد غزل کو نہ صرف نیا پراہن
عطا کیا بلکہ اسے استحکام بھی عطا کیا ۔اردو شاعری میں ان کا نام ہمیشہ
چمکتا دمکتا دکھائی دے گا۔عمر کے آخری حصے میں معدے کے کینسر نے انہیں بے
حال کردیا یہی مرض 2مارچ 1972ء کو انہیں موت کی دہلیز پر لے گیا۔ ان کی
آخری آرام گا مومن پورہ قبرستان میکلوڈ روڈ لاہور میں ہے۔ |