قوم آخر کب بیدار ہو گی؟

 پاکستان کی خود مختاری اس وقت ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے۔شمالی ،جنوبی وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرونز حملوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے اور ان کی شدت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ، ڈرونز طیارے درندگی کا مظاہرہ کر تے ہوئے پاکستانی شہریوںپر قہر بن کر ٹوٹ رہے ہیں ،یہ ظالم ڈرونز جہاں چاہتے ہیں قبائلی راسخ العقیدہ مسلمانوں کو خاک ، خون اور آگ میں تڑپا دیتے ہیں۔ اب اس میں کوئی شک اور شائبہ نہیں رہا کہ ان حملوں سے ہمارا قومی وقار ، استحکام ،خودمختاری ، عزت ،توقیر اور غیرت سب کچھ خاک میں مل کر رہ گئے ہیں۔ پارلیمنٹ اور سیاسی و مذہبی قیادت کے ہونٹوں پر قفل پڑ چکے ہیں اور صحیح معنوں میں کوئی ایک بھی رکن ان حملوں کے خلاف سراپا احتجاج نہیں دکھائی دیتا۔ریاست کے بے حمیت ، بے ضمیر اور بزدل حکمران مسلسل اس دھرتی کے ساتھ خطرناک قسم کا ”کھلواڑ “کرتے جا رہے ہیں اور انہوں نے مملکت کو پوری دنیا کے سامنے ایک تماشہ سا بنا دیا ہے ۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور پاکستان ایر فورس کے سربراہ راﺅ قمر سلیمان کہتے ہیں کہ پاکستان ان ڈرونز کو گرا سکتا ہے بس اس کا فیصلہ جمہوری حکومت نے کرنا ہے ، امریکہ میں مقیم ایک پاکستانی جرنلسٹ نے اس پر بڑ ازبردست اور مختصر سا تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے پاس واقعی ڈرونز گرانے کی صلاحیت موجود ہے مگر” جرات“ کا فقدان ہے ۔وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور ان کے ہمنوا ہر ڈرون حملے کے بعد ایک گھڑا گھڑایا اخباری بیان داغ دیتے ہیں کہ ان حملوں کی روک تھام کے لیے امریکہ کو” سفارتی سطح “پر قائل کیا جا رہا ہے تاہم یہ بات تو اب نوشتہ دیوار بن چکی ہے کہ پاکستان کبھی بھی گفت و شنید کے ذریعے سے یہ ڈرونز حملے نہیں رکوا سکے گا کیونکہ ا مریکہ نے ڈرونز حملوں کے خلاف حکمرانوں کے احتجاج کو کبھی بھی در خور ِ اعتناء نہیں سمجھا اور وہ اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے ان حملوں کو انتہائی ضروری قرار دے رہا ہے ۔ حکومتی حلقے تو ایک طرف اس وقت سا رے سیاسی دھڑے اور مذہبی حلقے ان حملوں پر چپ سادھے بیٹھے ہیں ۔ لے دے کر وہی عمران خان اور جماعت اسلامی کے سید منور حسن ہیں جو مسلسل ان حملوں کے خلاف سڑکوں ، شاہراہوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں اگر ملک کی دیگر مذہبی و سیاسی جماعتوں اور عوام کی یہی حالت بر قرار رہی تو میرا وجدا ن کہتا ہے کہ یہ دو حضرات بھی با لآخر ایک نہ ایک دن تھک ہار کر بیٹھ جائیں گے کیونکہ بشری تقاضا ہے کہ جب انسان کو اس کی مخلصانہ کوششوں کا صلہ نہ ملے تو وہ آخر کار مایوس ہو ہی جاتا ہے دوسری طرف ان حملوں کے خلاف ایک اور توانا آواز بھی ابھری ہے دیکھتے ہیں اب اس میں کہاں تک سچائی ، حقیقت اور بلندی ہمتی کا عنصر پایا جاتا ہے؟جے یو آئی کے رہنماءاور قائد حزب اختلاف مولانا عبدالغفور حیدری نے گزشتہ روز شدید احتجاج ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا ہے کہ ڈرون حملے بند نہ ہونا پارلیمنٹ کے لیے سراسر باعث شرم ہے اور ڈرونز حملوں کی کھلی چھوٹ دے کر قبائلی علاقوں کو امریکہ اور نیٹو فورسز کے رحم وکرم پر چھوڑدیا گیا ہے ۔مولانا کے اس احتجاج کو قوم یقیناً قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے مگر کیا ہم ان سے فقط یہ بات پوچھنے کی جسارت کر سکتے ہیں کہ قبائلی علاقوں کو نیٹوفورسز کے حوالے کرتے وقت تاریخ کے بد ترین آمر پرویز مشرف نے ان کی جماعت اور ایم ایم اے کی بیساکھیوں کا سہارا کیوں لیا تھا؟ خیبر پختونخواہ کے عوام نے تو ایم ایم اے کو محض اسلام سے محبت کی روشنی میں ووٹ کاسٹ دیااور اسے ایک پورے صوبے کے اقتدار کی زمام کار سونپ دی تھی لیکن پھر کیا دنیا نے ایسی بد ترین ستم ظریفی بچشم خود نہیں دیکھی کہ اسی ایم ایم اے کے دورِ حکومت میں قبائلی عوام کو دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا اورا ن پر کیا کیا ظلم ستم نہ ڈھائے گئے؟ اور ڈرونز حملوں کی بنیاد رکھ کر قبائلیوں کی ہنستی مسکراتی زندگیوں میں زہر گھول دیا گیا، بلاشبہ ڈرونز حملوں کا سہرا بھی اسی ایم ایم اے کے سر ہی جاتا ہے جس پر آج مولانا حیدری احتجاج کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔سیانے کہتے ہیں کہ صبح کا بھولا شام کو واپس آجائے تو اسے بھولا یا بھٹکا ہوا نہیں کہا جا سکتا ، خداکرے کہ یہ مقولہ مولانا عبد الغفور حیدری صاحب کا اس احتجاج پر صادق آجائے اور وہ ان حملوں کی روک تھام کے لیے ممدو معاون ثابت ہو سکیں۔

یاد رہے کہ اس پرائی جنگ میں اب تک پینتیس ہزار کے قریب پاکستانی لقمہ اجل بن چکے ہیں جن میں پانچ ہزار سیکیورٹی فورسز کے جوان اور پندرہ ہزار کے قریب وہ افراد شامل ہیں جو ان ڈرونز حملوں میں زندگی کی بازی ہا ر بیٹھے ہیں ، انفراسٹرکچر کی بربادی اوردیگر نقصانات کا تخمینہ تقریبا ً پینسٹھ ارب ڈالر لگایا جا رہا ہے ، انہی سطور میں ہم بارہا پوری شد ومد سے مذمت کر چکے ہیں کہ یہ حملے ملکی سلامتی ، خود مختاری اور استحکام کے سراسر خلا ف ہیں اور کسی بھی غیرت مند قوم کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ یوں بے بس ہو کر اپنے آپ کو غیروں کے ہاتھ فروخت کر دے ۔ میرے ایک چاہنے والے کو مجھ سے گلہ ہے کہ میں ہر ڈرون حملے کے خلاف ایک آدھ کالم لکھ دیتا ہوں ، میرے اس خیر خواہ نے مجھے ایک بہت ہی مفید مشورے سے نوازا ہے کہ جناب آپ کی اس قلمی سعی ، جان کھپائی اور ”پتہ ماری“ سے بھلا ڈرون حملے کہاں رک سکتے ہیں ؟میر ے خیال سے میرے اس عزیز کے اس سوال کا جواب دوسرے قارئین زیادہ بہتر انداز میں دے سکتے ہیں ۔

قارئین ! قبائلی علاقوں کے دوست ڈرون حملوں کے متعلق جن حقائق سے پردہ اٹھاتے ہیں بندہ حیرت اور استعجاب کے سمندر میں ڈوبتا چلا جا تاہے ، شمالی اور جنوبی وزیرستا ن میں عام طور پر کئی کئی ڈرونز طیارے محو پرواز رہتے ہیں ،،مقامی لوگوں کے مطابق ڈرونز طیارے آٹھ آٹھ اور دس دس کی ٹولیوں میں بلا خوف و خطر منڈلاتے دکھائی دیتے ہیں جن کے خوف و دہشت سے لوگوں کی بڑی تعداد نفسیاتی امراض میں گھر چکی ہے جس سے یہ اندازہ لگانا قطعاًمشکل نہیں کہ یہ حملے پاکستان کے حکمرانوں کی صاف بد نیتی، وطن فروشی اور ملی بھگت سے کیے جار ہے ہیں ،کیو ں کہ یہ بات بالکل ناممکن اور بعید از قیاس ہے کہ مسلسل دس دس گھنٹے ڈرونز پاکستان کی فضا میں اڑتے پھریں اور حکمرانوں کو کانوں کان ان کی خبر تک نہ ہو ۔ ہمارا حکمرانوں کو یہ مفید مشور ہ ہے کہ اگر ملکی سرحدوں کو تار تار کر کے وطن عزیز کے باسیوں کو خون میں نہلانے کا کوئی معاہدہ انہوں نے اپنے ”لے پالک دوست“امریکہ سے کر رکھا ہے تو تو کم از کم اسے ببانگ ِ دہل منظر عام پر تو لایا جا نا چاہیے ۔ ایک عالمی میڈیا گروپ فارس نیوز نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ان حملوں میں ایک زہریلا کیمیائی مواد منشنز کیمیکل استعمال کیا جا رہا ہے جس سے لوگوں کی بہت بڑی تعداد مفلوج ہو رہی ہے ، اس ادارے نے پاکستانی ڈاکٹروں کے حوالے سے بتایا کہ ان حملوں میں جو لوگ زخمی ہو رہے ہیں وہ پھر تندرست کبھی بھی نہیں ہو سکتے اورجلد کے مہلک امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

ان ڈرونز کے متعلق اگر پاکستان میں مغرب کی پروردہ انسانی حقوق کی این جی اوز اورسول سوسائٹی کی آنکھیں نہ کھلیں تو الگ بات ہے اور اس پرماتم ہی کیا جا سکتا ہے لیکن دوسری طرف تو خود ایک مغربی ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہہ دیا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ایک عسکریت پسند کو مارنے کے لیے ڈرون حملوں کے ذریعے ستر عام افراد کو مارا جا رہا ہے ، گویا عام افراد اور شدت پسندوں کی ہلاکت کا تناسب اس حساب سے ایک اور سترکا ٹھہرا ۔ سمجھنے کی اور سادہ سی بات ہے کہ جو لوگ ان حملوں میں مارے جا رہے ہیں وہ آئینی طور پر پاکستان کے شہری ہیں اور انہیں بھی وہ تمام حقوق اور آئینی تحفظ حاصل ہے جو لاہور اور اسلام آبادکے شہریوں کو ہے ، اس وطن کا قانون ان قبائل کو بھی ان کے جان ، مال اور عزت کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے ، کس قدر رنج ، الم ،کرب اور انتہائی تکلیف دہ بات ہے کہ آج امریکہ کے غلام اور بقول عمران خان کے امریکیوں کے بوٹ پالش کرنے والے یہ حکمران ان قبائلی محب وطن عوام کو عملی طورپر اس دھرتی کا شہری تسلیم کرنے کوتیار نہیں اور انہیں اسلام اور وطن سے محبت کرنے کی پاداش میں گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے ۔ کیا میرے ان قبائلی بھائیوں اور راسخ العقیدہ مسلمانوں کا قصور صرف یہی تھا کہ انہوں نے سرخ ریچھ کے بڑھتے ہوئے خونی سیلاب کے آگے بند باندھا اور اس مملکت کے دفاع کی جنگ لڑی تھی ؟کیا ان اجڈ اور گنوار قبائلیوں نے یہی غلطی کی کہ وہ ہمیشہ اس ملک کے مفادات کے تحفظ کی خاطر پاکستانی فوج کے پشتی بان بنے اور مغربی سرحدوں کو محفوظ بنانے میں کردار ادا کیا ۔ سوچتا ہوں کہ اس وطن کے کروڑوں عوام آخر کب بیدار ہوں گے اور ان لٹیروں کے چنگل سے نکل کر اپنے بازوﺅں پر بھروسہ کرنا سیکھیں گے؟اس طرح کی تیزی سے بگڑتی صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستان کے عوام کو چاہیے کہ وہ تنگ آمد ، بجنگ آمد کے مصداق خود سڑکوں پر آئے اور حکمرانوں کو یہ پیغام دیاجائے کہ اب ہم اس امریکی امداد پر لعنت بھیجتے ہیں ، ہم آئی ایم ایف کے بجائے خود انحصاری کی جانب سفر شروع کرتے ہیں ، اب ہم سے قبائلی بھائیوں کے کٹے پھٹے اور سر بریدہ لاشے اور خود کش بمباروں کی قیامت خیز کارروائیاں مزید برداشت نہیں ہوتیں ، فوجی جوانوں کی خوبصورت جوانیوں کو لہور نگ ہو نے کا دکھ اب ہم سے مزید نہیں دیکھا جاتا ، ہم اب آپ کے اس منافقانہ طرزِ حکومت سے تنگ آچکے ہیں۔ جو قوم اپنی تقدیر اور حالات بدلنے کی خاطر صرف اتنی سی کوشش بھی نہیں کر سکتی کہ منافق اور غدار حکمرانوں کو مسندِ اقتدار سے کھینچ کر نشان ِ عبرت بنادے پھر ایسی ملت سے اپنی بہتری کے لیے بھلا کس طرح کی تگ و تاز اور کوشش کی امید رکھی جا سکتی ہے ؟ اس انتہاء درجے کی گھمبیر صورتحال پر قوم آخر کب تک صبر کیے بیٹھے رہے گی۔۔۔؟ حالات کو صحیح نہج پر لانے کے لیے بس ایک ہی کا ر گر نسخہ ہے کہ عوام کو ایسے غداروں ، امریکہ کے نام لیواﺅں کو دیس نکالا دینا ہوگا ۔
Abdul Sattar Awan
About the Author: Abdul Sattar Awan Read More Articles by Abdul Sattar Awan: 37 Articles with 37004 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.