شیخ سعدی ؒ ایک حکایت میں تحریر
کرتے ہیں کہ ایک شخص بازار میں گھوم پھر کر گنڈیریاں بیچ رہا تھا اُس نے
بازار کے کونے میں ایک درویش کودیکھا جو اُس کا شناسا تھا گنڈیری والے نے
اُس درویش سے کہا کہ بھائی تو بھی گنڈیریاں لے لے پیسوں کی فکر نہ کر کہ جب
تیرے پاس ہوں دے دینا درویش نہایت قناعت پسند اور سمجھ دارتھا اس نے جواب
دیا نہیں شکریہ شاید تو پیسوں کی وصولی کیلئے زیادہ صبر نہ کرسکے لیکن میں
گنڈیریوں سے صبر کرسکتاہوں اُس گنے کی شکر مٹھاس نہیں رکھتی جس کے پیچھے
تلخ تقاضا ہو۔۔۔
قارئین ”دہشت گردی کے خلاف جنگ “کانعرہ لگا کر پانچ آزادیوں کے علمبردار
انکل سام نے افغانستان پر ہلہ بولا اور پاکستان کو فرنٹ لائن سٹیٹ ڈکلیر
کرکے لاجسٹک سپورٹ طلب کی اور جنرل مشرف نے ایک بلینک چیک لکھ کر امریکہ کے
حوالے کردیا وہ دن ہے اور آج کا دن کہ پاکستان کی سرحدوں پر امریکی ڈرون
طیارے آئے روز پروازیں کرتے ہوئے میزائلوں پر میزائل داغ رہے ہیں ،ہزاروں
قبائلی مسلمان پاکستانی بھائیوں کو شہید کررہے ہیں ،ملکی غیرت اورحمیت کی
دھجیاں اڑ ارہے ہیں اور ہماری ”طبلے والی سرکار“سے لے کر ”جمہوریت ہی سب سے
بڑا انتقام ہے “کے کانوں پر نہ تو پہلے کبھی جوں رینگی تھی اور نہ ہی آج
رینگ رہی ہے ۔۔۔
18کروڑ پاکستانیوں اور کشمیریوں کو ناکردہ گناہوں کی سزادی جارہی ہے 63سالہ
دورآزادی کا سب سے بڑا تحفہ غیر ملکی قرضوں کا وہ بھاری بھر کم بوجھ ہے جو
پوری قوم کو اغیار کے ہاتھوں گروی کروا چکا ہے یہ تمام قرضے ہمارے حکمرانوں
نے ہماری رضامندی کے بغیر اپنی ذاتی عیاشیوں، اللّو تللّوں اور اپنا اپنا
کمیشن کھرا کرنے کیلئے حاصل کیے اور ناکردہ گناہوں کا وہ عذاب قوم کی پشت
پر لاد دیا کہ آج مملکت خداداد پاکستان میں جنم لینے والا ہر بچہ تیس ہزار
روپے سے زائد رقم کا پیدائشی مقروض ہوتا ہے ۔۔۔
قارئین یہ بات یا درکھنے والی ہے کہ مقروض انسان ہویا کوئی ملک نہ تو اس کی
کوئی عزت نفس ہوتی ہے اور نہ وہ اپنے فیصلے کرنے کا اختیار رکھتا ہے امریکہ
،برطانیہ ،یورپ اور دیگر تمام ممالک جن سے ہمارے حکمرانوں نے اپنی عیاشیوں
کیلئے قوم کو گروی رکھ کر قرضے لیے آج ہماری خارجہ وداخلہ پالیسیز یہی
ممالک بناتے ہیں اور اسی کا شاخسانہ ڈرون حملوں کی شکل میں پوری دنیا کے
سامنے ہے اگر ہمارے حکمرانوں کی یہ بودی دلیل زراسی بھی وقعت رکھتی کہ آج
کے دور میں کوئی بھی ملک بین الاقوامی تعلقات کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا
اور جو بھی قرضے حاصل کیے گئے ہیں وہ ترقیاتی منصوبوں اور ملک وقوم کو
خوشحال کرنے والی ”پانچ سالہ سکیمز “اور ”دس سالہ سکیمز “پر صرف کیے گئے
ہیں تو آج ملک میں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہوتیں ،شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ
سے پانی پی رہے ہوتے اور ماہرین معاشیات کی مشکل زبان کے مطابق ہمارا جی ڈی
پی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے قریب ہوتا لیکن
مگریہ ہونہ سکا اور اب یہ عالم ہے ۔۔۔
قارئین یہ انہی سنگین غلطیوں کا شاخسانہ ہے کہ آج پاکستان کے راستے
افغانستان پر قابض امریکی افواج کی سربراہی میں نیٹو فورسز کو تیل ،اسلحہ
،فوڈاور دیگر تمام سہولیات بھیجی جارہی ہیں اور اسلام کے نام پر بننے والی
دنیا کی سب سے بڑی نظریاتی مملکت کے پالیسی سازوںسے لے کر حکمرانوں تک سب
بے غیرتی کی خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں لیکن اس سب سیاہیوں بھری خاموشی کے
اندر اگر کسی نے حق کی شمع جلائی ہے اور امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال
کر بات کی ہے تو وہ پاکستان کو کرکٹ ورلڈکپ دلوانے والا عظیم ہیرو عمران
خان ہے تحریک انصاف کی قیادت کرتے ہوئے عمران خان نے پشاور میں نیٹو فورسز
کی سپلائی بندکروانے کیلئے دھرنا دیا اس دھرنے میں ہزاروں پاکستانیوں نے
صوبہ خیبر پختونخواہ ،سندھ ،پنجاب ،بلوچستان اور کشمیر سمیت دوردراز علاقوں
سے شرکت کی اور تازہ ترین اطلاعات کے مطابق نیٹو کو سامان سپلائی کرنے والے
سینکڑوں ٹرک اس وقت سڑکوں پر کھڑے ہیں اور نیٹو فورسز کیلئے سامان کی قلت
کے حالات پیداہورہے ہیں عمران خان پوری قوم آپ کے ساتھ ہے جس طرح بنی
اسرائیل کی پوری قوم فرعون اور اسکے چند گماشتوں کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی
تھی آج اسی طرح پوری پاکستانی قوم چند بدعنوان سیاستدانوں کے ہاتھوں یرغمال
بنی ہوئی ہے عمران خان نے قومی غیرت کاثبوت دیتے ہوئے حق کی آواز بلندکی ہے
اور پوری قوم کے جذبات کی ترجمانی کی ہے ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ
اگر نیٹو افواج کو پاکستان کے راستے اسلحہ ،تیل اور دیگر سہولیات کی سپلائی
بند کردی جائے تو پاکستان میں ہونے والے خود کش دھماکے فورا ً رک سکتے ہیں
عمران خان نے حکومت کو ایک ماہ کی ڈیڈلائن دی ہے کہ وہ نیٹو افواج پاکستان
کے راستے دی جانے والی سپلائی بندکرے عمران خان کی یہ آواز پوری قوم کے دل
کی آواز ہے بقول اقبال
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پاہوجائے گی !
پھر دلوں کو یاد آجائے گا پیغامِ سجود
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہوجائے گی !
نالئہ صیّاد سے ہوں گے نواساماں طیور
خونِ گلچیں سے کلی رنگیں قبا ہوجائے گی !
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے ،لب پہ آسکتا نہیں
محوِحیرت ہوں کہ دنیا کیاسے کیا ہوجائے گی !
آخر میں حسب روایت حسب حال لطیفہ پیش خدمت ہے کہ
دو پاگل ایک درخت کے نیچے بیٹھے گفتگو کر رہے تھے ۔ ایک پاگل نے دوسرے سے
کہا
”اگر ایک ہاتھی درخت پر چڑھا ہوا ہے اور نیچے اترنا چاہتا ہے تو اسے کیا
کرنا چاہیے۔؟“
دوسرے پاگل نے کچھ دیر سوچنے کے بعد جواب دیا ۔
”اسے چاہیے کہ کسی پتے پر بیٹھ کر خزاں کا انتظار کر ے“
امریکہ بہادر اپنی پانچ آزادیوں سمیت سمجھ لے کہ خزاں کا موسم آچکا ہے اور
درخت پر سے اترنے کا وقت قریب ہے۔۔۔ |