صحافت کی متانت اٹھ گئی

آج کے اخبار میں جب دو اہل علم کی وفات کی خبر دیکھا تو دل میں ایک عجیب سی غم کی لہر دوڑ گئی پروفیسر شکیل الرحمن فاروقی صاحب کی ایک دن پہلے تدفین ہوئی جبکہ انتہائی شفیق استاد اور سینئر پروفیسر جناب متین الرحمن مرتضیٰ کی تدفین منگل 16مارچ بعد نماز ظہر ہوئی ہماری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان دونوں مرحومین کی قبروں کو اپنے نور سے بھر دے اور جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنادے ۔آمین

یہ 1973-74کی بات ہوگی ہم اپنے ایک بزرگ کارکن کے ساتھ بس میں بیٹھے ناظم آباد سے ٹاور کی طرف کسی کام سے جارہے تھے ہماری بس جب گلبہار چورنگی سے لسبیلہ کی طرف جارہی تھی تو میں نے اپنے ساتھی بزرگ کارکن سے کہا کہ یہ گلبہار کا علاقہ ہے اور یہیں کہیں جسارت کے ایڈیٹر صلاح الدین صاحب رہتے ہیں انھوں نے کہا ایسی اہم شخصیات کو جن کی جان ہر وقت خطرے میں ہو انھیں تو شہر سے کہیں دور گلشن اقبال ،گلستان جوہر یا یونیورسٹی کی طرف رہنا چاہیے ۔بھٹو صاحب کی حکومت میں روزنامہ جسارت حزب اختلاف کا رول ادا کررہا تھا بالخصوص اس اخبار کے اداریے جو جناب صلاح الدین صاحب لکھتے تھے ،عوام میں زبردست پذیرائی حاصل کررہے تھے ۔سچی بات تو یہ ہے کہ میں چونکہ بچپن سے ہی اخبار کا قاری ہوں اس لئے اپنے مشاہدے کی بنیاد پر یہ بات کہہ رہا ہوں کہ پہلے زمانے میں اخبار ات کے ادارتی صفحہ کو ہم ملک کے پڑھے لکھے ،دانشور اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کا صفحہ سمجھتے تھے جس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن جسارت کے اداریوں کی کاٹ دار تحریروں نے ادارتی صفحے کو عوامی صفحہ بنادیا ۔

ایک دفعہ پروفیسر عبدالغفور صاحب نے بتایا کہ میں نماز فجر کے بعد جب مطالعے میں مصروف ہوتا ہوں اور اگر اسی دوران جسارت آجائے تو پہلے سے جاری مطالعے کے دوران یہ دل چاہتا ہے کہ اخبار کی مین ہیڈنگ دیکھ لیں ،مین ھیڈنگ دیکھ کر پھر سابقہ مطالعے کی طرف آجاتا ہوں پھر خیال آتا ہلے کوئی خاص خبریں ایک نظر میں دیکھ لیں پھر یہ کہ آج کے اداریے کا عنوان ہی دیکھ لیں اسی ادھیڑ بن میں سابقہ مطالعہ چھوڑ کر جسارت کو پڑھنے لگتا ہوں ۔کم وبیش یہی کیفیت میری ہوتی کہ میں نماز کے بعد تفہیم القران کو باواز بلند والدہ کو سنانے کے لیے پڑھتا تھا لیکن جب اسی دوران جسارت آجاتا تو وہی کیفیت ہوتی جو غفور صاحب نے بیان کی تھی پھر میں تفہیم کا مطالعہ مختصر کر کے جسارت کا مطالعہ باواز بلند کرنے لگتا اس لیے کہ والد ہ بھی اخبار سنتی تھیں ۔

بھٹو دور میں آئے دن جسارت بند ہوتا رہتا تھا اور پھر عدلیہ کے فیصلے پر بحال ہوجاتا ،جس وقت ایڈیٹر صلاح الدین ،پبلشر سید ذاکر علی اور پرنٹر قاسم نورانی گرفتار ہوتے تو جناب حکیم اقبال حسین قائم مقام ایڈیٹر ہوجاتے لیکن ہمیں اس وقت بڑی حیرانی ہوتی کہ صلاح الدین صاحب کے جیل میں ہونے کے باوجود اداریوں کے لہجے کی سختی میں کوئی کمی نہیں محسوس ہوتی کیا حکیم اقبال حسین صاحب بھی صلاح الدین صاحب کی طرح لکھتے ہیں یا پھر صلاح الدین صاحب جیل سے اداریہ لکھ کر بھیجتے ہو ں گے ۔اکتوبر 1977میں جب میں نے جسارت کے شعبہ حسابات میں جوائن کیا تو اس وقت معلوم ہوا کہ جسارت کا اداریہ تو کراچی یونیورسٹی سے ڈرائیور لے کر آتا ہے وہاں کوئی پروفیسر صاحب یہ اداریہ لکھتے ہیں پھر معلوم ہوا کہ یہ جناب پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ صاحب ہیں جن کی خوبصورت تحریروں کے ذریعے روز بروز قارئین جسارت کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا ۔

1973سے 1977تک بھٹو صاحب کی حکومت رہی جو ایک طرح سے ظلم کی حکومت تھی پاکستان کے عوام سانحہ مشرقی پاکستان کے ذمہ داروں میں بھٹو صاحب کو بھی ذمہ دار سمجھتے تھے ،اور وہ سمجھتے تھے کہ اپنے اقتدار کی خاطر ملک کے دو ٹکڑے کر دیے ۔بھٹو صاحب کے دور حکومت میں جتنی بھی تحریکیں چلیں ان میں جسارت نے لیڈنگ رول ادا کیا تحریک ختم نبوت میں جسارت نے بڑی زبردست تحریریں لکھیں صلاح الدین صاحب بھی تجزیاتی تحریریں لکھتے تھے لیکن متین صاحب کے قلم سے نکلے ہوئے اداریے کے الفاظ اپنے اندر بڑی جان رکھتے تھے ۔

جسارت کے بعد جب صلاح الدین صاحب نے ہفت روزہ تکبیر نکالا تو متین صاحب تکبیر میں چلے گئے آج کے اخبار میں ان کے بارے میں رحلت کی خبر دیکھ کر بس ہمیں تو وہ پرانا دور یاد آگیا جب متین صاحب دفتر جسارت آتے تھے تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ان کے سرپر کسی چیز کا بوجھ ہے اور وہ تھکے تھکے سے لگ رہے ہیں لیکن جب وہ اداریہ لکھ چکتے تو وہ بالکل ہشاش بشاش اور ترو تازہ نظر آتے جسارت کے تمام ساتھیوں سے بہت شفقت سے پیش آتے وہ انتہائی خلیق اور ملنسار فرد تھے ہماری دعا ہے کہ انھوں نے جو زندگی بھر مقلمی جہاد کیا ہے اﷲ تعالیٰان کے اس قلمی جہاد کو قبول فرمائے اور انھیں اجر عظیم سے نوازے آمینآج ملک کے ہر اخبار اور چینل میں ان کے شاگرد موجود ہیں ۔
 

Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 50052 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.