پنچایتی راج کی کھچڑی

جموں وکشمیر میں ایک جملہ کافی مشہور ہے’قول و فعل میں تضاد‘۔ اِس کا استعمال مختلف سیاسی جماعتوں، حریت نوازتنظیموں کے علاوہ عوامی حلقوں میں اکثر وبیشترہوتے آپ نے سُنا اور پڑھا ضرور ہوگا۔خاص طور سے برِ سراقتدار حکومتوں سے متعلق یہ جملہ زیادہ مستعمل ہوتا ہے جب یہ کہنا مطلوب ہو کہ جوکہاجاتا ہے، وہ ہوتا نہیں یا کیا نہیں جاتا۔خود مختیار ریاست سے دو حصوں میں تقسیم ہوکر دو مملکتوں کے زیرِ انتظام ہونے اور پھر 5اگست2019کے بعدریاست سے تنزلی کا شکار ہوکر مرکزی زیر انتظام یعنی یونین ٹیراٹری جموں وکشمیر کہلانے والے اِس خطہ کی عوام کے ساتھ 1947سے جموں وکشمیرسے یہ ہوتا رہا ہے کہ مسند ِ اقتدار نے جوکہا، وہ کیا نہیں۔اس وجہ سے یہاں پر عوام میں بد اعتمادی ہے، بھروسہ نہیں۔

اگر حکومتی سطح پر کوئی نیا اعلان یا فیصلہ لیاجاتا ہے تو ماضی کے تجربات کی روشنی میں فوری عوامی رد عمل یہ ہوتا ہے کہ اِس پر عمل نہیں ہوپائے گا ۔دفعہ370اور35-Aکے تحت آئین ِ ہند کے تحت جموں وکشمیر کو حاصل خصوصی مراعات کی تنسیخ کرنے پر کہاگیاکہ یہاں روایتی خاندانی سیاستدانوں نے عوام کا استحصال کیا اور اب یہاں پر ترقی ہوگی۔تین پہیہ یعنی تھری ٹائر پنچایتی راج نظام کی عمل آوری کے ذریعے یہاں پرعوامی حلقوں میں سیاسی لیڈران اور سیاسی جماعتوں کی قدرومنزلت کرنے کے ساتھ ساتھ مالی ،منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی کے اختیارات کو غیر مرکوز کرنے کا طلسماتی تصور پیش کیاگیا۔

چونکہ جموں وکشمیر ’سیاسی وانتظامی امور ‘کی تجربہ گا ہ رہاہے، لہٰذا یہاں تھری ٹائر کولاگو کرنے کے لئے بھی ڈی ڈی سی ممبران کے ڈائریکٹ الیکشن کرانے کا تجربہ کیاگیا۔مقاصد میں نئی لیڈرشپ کوپیدا کرنا اور اُن کے ذریعے پانچ اگست کے فیصلوں پر مہر ثبت کروانابھی تھا جس میں پالیسی ساز کافی حد تک کامیاب بھی رہے۔ پالیسی سازوں نے جو جواہداف ذہن میں رکھ کر یہ ’تھیوری پیپر‘‘ تیار کیا ہے، میں سے کچھ مقاصدپورے ہوئے اور بہت کچھ ہونا باقی بھی ہے ۔

بہر کیف ’پنچایتی را ج نظام ‘کے تینوں سطح کے انتخابات ہوئے۔ تیسری سطح یعنی ضلع ترقیاتی کونسل کو اختیارات ومراعات کی جب بھاری آئی تو اُس پر ایسی دلچسپ صورتحال پیدا کی گئی کہ پنچایت سے لیکر ڈی ڈی سی کونسل تک نمائندے آپس میں ہی ایکدوسرے کے خلاف ہوگئے۔’گھر کا بیدی لنکا ڈہائے ‘کے مترادف آپس میں ہی ایکدوسرے کو رسوا بھی کر رہے ہیں الزام تراشیاں بھی۔22دسمبر 2020کو انتخابی عمل مکمل ہوا اور 28کو حلف برداری ہوئی۔ ڈیڑھ ماہ انتظار کے بعد ضلع ترقیاتی کونسل چیئرپرسن اور چیئرمین کی تشکیل کے لئے نوٹیفکیشن جاری ہوئے۔درپردہ لین دین، جوڑ توڑ اور وفاداریوں کے بدلنے کے ایک دلچسپ مرحلہ کے بعد ڈی ڈی سی کونسل کی تشکیل مکمل ہوئی تو اب ضلع ترقیاتی کونسل ممبران ماہانہ مشاہیرہ،سرکاری مراعات(گاڑی، دفتر اور رہائشی کوارٹر)وغیرہ کے لئے بے صبری سے حکومتی آرڈر کا انتظار کا مرحلہ شروع ہوا۔

محکمہ دیہی ترقی وپنچایتی راج کی طرف سے کنونشن سینٹرجموں میں 9اور10مارچ 2021کو ڈی ڈی سی ممبران کے لئے دو روزہ تربیتی پروگرام رکھاگیا۔ اِس پروگرام کو بہت ہی سوچ سمجھ کر ایک منصوبہ بند طریقہ سے مرتب کیاگیا تاکہ ایک ہی جگہ جموں وکشمیر کے سبھی 20اضلاع کے 278ممبران جمع ہوں جس میں بھارتیہ جنتا پارٹی، نیشنل کانفرنس، کانگریس، پیپلزڈیموکریٹک پارٹی، پیپلز کانفرنس، اپنی پارٹی، جموں وکشمیر اپنی پارٹی، جموں وکشمیر پیپلز موؤمنٹ، پینتھرز پارٹی، سی پی آئی (ایم)، پیپلزڈیموکریٹک فرنٹ کی ٹکٹ پر فاتح اُمیدواروں کے ساتھ آزاد اُمیدواربھی شامل تھے۔جب بھی یقینی ہوہوگیاکہ بیشتر ممبران جموں پہنچ چکے ہیں تو 8مارچ2021کو حکومت نے ڈی ڈی سی ممبران کے ماہانہ مشاہیرہ اور سرکاری پروٹوکول (وارنٹ آف پریسڈنٹ)جاری کیا جوکہ سوشل میڈیا پر چندمنٹوں میں ہی حد درجہ وائرل ہوگیا اور چوں طرفہ حکومتی تنقید اور ڈی ڈی سی ممبران کو طعنوں کے تحائف ملنا شروع ہوگئے۔ 9مارچ2021کی صبح ڈی ڈی سی ممبران تربیتی پروگرام میں حصہ لینے کی بجائے دھرنے پر بیٹھ گئے جنہوں نے اِس آرڈر کو اپنی توہین قرار دیتے ہوئے پروٹوکول بھی زیادہ دینے اور مشاہیرہ بھی بڑھانے کا مطالبہ کیا۔ جموں وکشمیر میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا احتجاج تھا جس میں سبھی سیاسی جماعتوں کے منتخب نمائندگان ایکساتھ شامل بھی تھے اور یک زباں بھی۔ ملکی وبین الاقوامی میڈیا میں اِس کی زبردست تشہیر ہوئی۔عوامی حلقوں میں اِن کی یہ کہتے ہوئے سخت تنقید ہوئی کہ جموں وکشمیر کی سیاسی، اقتصادی صورتحال اور عوامی مسائل پرچپی سادھنے والے لیڈران کو جب اپنی ذات کی بھاری آئی تو یک زباں ہوگئے۔ اگر واقعی اِن میں سے عوامی اتحاد برائے گپکار الائنس میں شامل جماعتیں 5اگست2019کے فیصلوں سے نالاں تھیں، تو الیکشن کے بعدمنتخب ڈی ڈی سی ممبران احتجاج کرتے، کوئی بیان دیتے، مگر ایسا نہ کیا اور جب اپنی ذات کی بات آئی تو سب ایک ساتھ ہوگئے۔دو روزہ تربیتی پروگرام احتجاج پر لیفٹیننٹ گورنر کی معاملہ کی نسبت ملاقات کی یقین دہانی پر ختم ہوا۔12مارچ 2021کو راج بھون جموں میں ڈی ڈی سی ممبران کا وفد منوج سنہا سے ملاقی ہواجہاں راز ونیاز کی باتیں ہوئیں اور راج بھون ترجمان نے میڈیا میں یہ خبر دی کہ ممبران نے جومطالبات کئے، سب کو ہم نے مان لیا ہے ۔ اس پر روز سرپنچوں، پنچوں اور بی ڈی سی چیئرپرسنز نے بھی اخباری بیانات اور پریس کانفرنسوں کے ذریعے حکومت سے مطالبہ کر دیاکہ ڈی ڈی سی ممبران کے مشاہیرے اور پروٹوکول میں اضافہ کے وقت اُنہیں بھی ملحوظ نظر رکھاجائے، اگر ایسا نہ کیاگیا تو وہ احتجاج شروع کریں گے۔منتخبہ سرپنچوں وپنچوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی تنظیم ’آل جموں اینڈ کشمیر پنچایت کانفرنس (AJKPC)‘جس کی نمائندگی کا دعویٰ دو دھڑے الگ الگ کر رہے ہیں، نے پریس کانفرنسیں کر کے حکومت کو ریاست گیر احتجاج کا انتباہ بھی جاری کرتے ہوئے کہاکہ اگر سرپنچوں وپنچوں اور بی ڈی سی چیئرپرسنز کے مشاہرے اور اختیارات پر نظرثانی نہ تو وہ سڑکوں پر آئیں گے۔ خیال رہے کہ شفیق میر اور انیل شرما دونوں پنچایت کانفرنس کے سربراہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ شفیق میر اپنی پارٹی سے وابستہ ہیں جبکہ انیل شرما بھارتیہ جنتا پارٹی ۔ دونوں اپنی اپنی جماعتوں میں پنچایتی سیل کے انچارج بھی ہیں۔شفیق میر کی پریس کانفرنس کے بعد انیل شرما نے بھی پریس کانفرنس جس میں میر کو خود ساختہ لیڈ ر قرار دیتے ہوئے الزام لگایاکہ وہ آل جموں و کشمیر پنچایت کانفرنس کے ممبر نہیں رہے ہیں اور وہ اِس پلیٹ فارم کا اپنے سیاسی ایجنڈہ کی حصولی کے لئے استعمال کر رہے ہیں جبکہ میر کا کہنا ہے کہ انیل شرما جوکہ بی جے پی کے ترجمان بھی ہیں اور بھاجپا سیل کے انچارج بھی، اُن کا اِس تنظیم سے کچھ لینا دینا نہیں۔خیرکون سچ ، کون جھوٹ یہ اُن کا اپنا معاملہ ہے، ہمارا اصل موضوع نہیں، البتہ اِس کا یہاں تذکرہ کرنے کا مقصد یہ تھاکہ وہ ’پنچایتی راج نظام ‘ جس کو ایک بہترین نظام کے طور پیش کیاگیاتھا اور دعویٰ کیاگیاکہ اِس سے لوگوں کی تقدیر بدل جائے گی۔ لوگوں کو فیصلہ سازی ومنصوبہ مندی اور ترقی کے اختیارات ملیں گے، اُس کی ہوا نکلتی نظر آرہی ہے۔ایسی دلچسپ صورتحال پیدا کر دی گئی کہ تھری ٹائر پنچایتی نظام نمائندایکدوسرے کے خلاف ہوگئے ۔سرد جنگ کا یہ عمل جاری ہے۔کیاصحیح معنوں میں پنچایتی راج نظام جموں وکشمیر میں قائم ہوگا ،یہ ایک ملین ڈالر سوال ہے ، مگرپالیسی ساز جس مہارت سے اپنے اہداف کی حصولی کے لئے کام کر رہے ہیں، وہ باکمال ہے اور قابلِ ستائش بھی۔ جن کو دہلی نے پلکوں پر بٹھانے کے دعوے کئے تھے، اُن کی جگ ہنسائی اور رسوائی بھی اِس انداز سے کرائی کہ ’’سانب بھی مرگیا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹی‘‘۔ پچھلے چند ہفتوں سے مراعات واختیارات کی جاری اِس لڑائی میں فی الحال عوامی وترقیاتی مسائل ٹھنڈے بستے میں ہی ہیں اور عوام کی حکومتی وعدوں پر اعتماد بحالی ممکن ہوتی د کھائی نہیں دے رہی اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا …………(غالبؔ)

 

Altaf Hussain Janjua
About the Author: Altaf Hussain Janjua Read More Articles by Altaf Hussain Janjua: 3 Articles with 1848 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.