کراچی میں گرمی شدت اختيار کرتے ہی کراچی کی سیاست میں
بھی گرما گرمی ۔ این اے 249 کی خالی نشست پر اپنا لوہا منوانے کے لیے ساری
سیاسی جماعتیں میدان میں۔ فیصل واڈا کے استعفیٰ کے بعد خالی ہونے والی
بلدیہ کی اس نشست پر ضمنی انتخابات 29 اپریل کو ہوں گے۔
شہرِ کراچی کے ضلع مغرب بلدیہ ٹاؤن کا یہ حلقہ جو کے 3 لاکھ سے زیادہ
رجسٹرد ووٹرز پر ہمیشہ سے ہی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ 1997ء کے عام انتخابات
کا جائزہ لیں تو اس وقت بھی قومی اسمبلی کے ماضی کے حلقے این اے 184 سے اہم
امیدواروں نے حصہ لیا تھا مگر مسلم لیگ (ن) کے میاں اعجاز احمد شفیع نے 35
ہزار 451 ووٹ لے کر فتح حاصل کی تھی جبکہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان
محض 2037 ووٹ حاصل کرسکے تھے۔
وزیراعظم عمران خان نے 1997ء میں کراچی میں چراغ کے انتخابی نشان سے عام
انتخابات میں حصہ لیا تھا، جن میں سے ایک حلقے کے بہت سے علاقے اب این اے
249 میں شامل ہیں۔ آج کے این اے 249 اور ماضی کے این اے 184 میں فرق صرف
اتنا ہے کہ بڑھتی آبادی کے تناظر میں حلقہ بندیوں کے بعد قومی اسمبلی کی
اس نشست کو بتدریج تقسیم کر دیا گیا.
الیکشن کا دن قریب آتے ہی تمام سیاسی جماعتوں کی تیاریوں نے زور و شور پکڑ
لیا ہے۔ این اے 249 کی اس دنگل میں تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے بڑے شکاری
میدان میں اتارے ہیں ۔ موجودہ حکمران جماعت تحریک انصاف کی جانب سے امجد
اقبال آفریدی کو موقع دیا گیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ ن سابق وزیر
خزانہ مفتاح اسماعیل کی جیت کے لیے پر امید۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے ن لیگ
حمایت کرنے سے انکار کرتے ہوئے قادر خان منڈوخیل کو ٹکٹ جاری کردیا۔
متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے تحریک انصاف کے امیدوار امجد آفریدی حمایت کی
درخوست کو مسترد کرتے ہوئے حافظ محمد مرسلین کو ٹکٹ دے دیا۔ حلقے کی مظبوط
اور نئ جماعت تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے مولانا احمد قادری کو ٹکٹ دیا
گیا ہے جب کے پاک سر زمین پارٹی کے سربراہ سید مصطفی کمال نے اس ایلکشن میں
خود اترنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے مقابلہ بہت دلچسپ ہوگیا ہے۔
اس حلقے کے بارے میں کوئی پیشن گوئی کرنا آسان نہیں ہوگی۔ اس سے قبل ہونے
والے الیکشن میں پی ٹی آئی کے فیصل واوڈا نے 35344 ووٹ حاصل کرے تھے ۔ جب
کے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف صرف 718 ووٹ پیشے رہ کر اس نشست کو
حاصل نہیں کر سکے تھے۔ تحریک لبیک پاکستان کے مفتی عابد مبارک حیران کن طور
پر 23981 ووٹ کے ساتھ تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ جب کے کرچی کی سب سے بڑی
طاقت ایم کیو ایم اور سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلزپارٹی بری طرح
ناکام ہوئے تھے ۔ اس الیکشن کی شفافیت پر بھی کئ سوالات اٹھے تھے۔ فیصل
واؤڈا کا اچانک شہباز شریف پر لیڈ حاصل کرنا اور شہباز شریف کا صرف 718
ووٹوں سے الیکشن ہار جانا بہت زیادہ حیران کن تھا.
مگر حالات اب پہلے سے زیادہ بہت مختلف ہیں۔ فیصل واؤڈا کی جانب سے الیکشن
سے قبل کئے جانے والے تمام وعدے اور دعوے فقط دعوے اور وعدے ہی رہے۔ عوام
فیصل واؤڈا اور پی ٹی آئی کی کارکردگی سے سخت مایوس اور شدید غصہ ہیں ۔
دوسری جانب کراچی کی بڑی طاقت ایم کیو ایم کو اپنے بانی سے علیحدگی کے بعد
عوام نے بری طرح مسترد کیا ہے۔ ان حالات میں پی ایس پی کے سربراہ سید مصطفی
کمال کے لیے میدان بنتا نظر آریا ہے اور کیوں نہ بنے مصطفی کمال ہی وہ شخص
تھا جس نے سٹی ناظم کی حیثیت سے اس حلقے میں ریکارڈ توڑ کام کروایا تھا۔ نئ
سڑکیں ، اسٹریٹ لایٹز ، نکاسی آب کا بہترین نظام اور بلدیہ کے لوگوں کیلئے
60 لاکھ گیلن پانی کی لائن مصطفی کمال کا ہی کارنامہ تھا۔ مگر نہ تو اب
بلدیہ میں پانی ہے نہ ہی سڑک۔ گلی گلی واٹر ہایڈرنٹ قائم ہیں ۔ خصتا حال
اسٹریٹ لایٹز تو موجود ہیں مگر حلقے میں بجلی ہی نہیں ہے۔ 5 لاکھ سے زاید
آبادی والا یہ حلقہ جو کہ شہر میں فیکٹریوں کا حب ہے ایک طویل عرصے سے
تنزلی کا شکار ہے اور عوام کے لیے زندگی اجیرن ہو گئی ہے. ان مصیبتوں اور
مشکلات میں عوام کے لئے سید مصطفی کمال کسی پیاسے کے لیے کنواں کے مانند
ہیں ۔
مصطفی کمال کے لیے موقع تو ہے سنہرا پر سفر کافی مشکل ہے۔ سابق ایم این اے،
سینیٹر اور سٹی ناظم مصطفی کمال جب کبھی بھی سرخرہ ہوئے جب وہ پتنگ کے نشان
سے یعنی ایم کیم ایم سے الیکشن میں حصہ لیتے ریے۔ 2013 میں ایم کیو ایم سے
اپنی راہیں جدا کرکے کمال دبئی روانہ ہوگئے تھے اور 2016 میں واپس آکر اپنی
خود کی جماعت پی ایس پی کو تشکیل دیا جو کے بری طرح ناکام ہوئی ۔2018 کے
انتخابات میں کمال کی پاک سے زمین پارٹی ایک بھی سیٹ حاصل کرنے میں ناکام
ہوئی ۔ جب کے مصطفی کمال خود قومی اسمبلی کے حلقہ این اے253 اور سندھ
اسمبلی کے حلقے پی ایس124 اور پی ایس127 سے میدان میں اترے تھے اور بری
طریقے سے نکام ہوئے تھے۔
کراچی کی عوام کا مصطفی کمال سے ایم کیم ایم چھوڑ کر اپنی خود کی جماعت
بنانے پر شدید اختلاف تو اپنی جگہ پر قائم ہے مگر بلدیہ کی عوام اپنی قسمت
بدلنے کے اس سنہرے موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔ دوسری جانب کمال بھی
یہ نشست جیت کر بلدیاتی انتخابات سے قبل اپنی پارٹی کی گرفت مضبوط کرنے بے
تاب ہیں ۔ اب یہ فیصلہ تو 29 اپریل کو ہی ہوگا کے بلدیہ کی عوام مصطفی کمال
کے نشان ڈولفن پر مہر لگاتی ہے یا ڈولفن ایک بار پھر کراچی میں ڈوب جائے گی
۔
|