جمعہ کے دن چشم فلک کے اک عجیب منظر دیکھا جب سینٹ چیرمین
کے امیدار سابقہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پیپلزپارٹی کی شریں رحمان سمیت
دیگر افراد کے ہمراہ سینٹ کے موجودہ چیرمین صادق سنجرانی کے آفس میں پہنچے
اور سینیٹ میں 30 ارکان کی حمایت کے دستخط کے ساتھ اپوزیشن لیڈر کی تعیناتی
کی درخواست جمع کرائی۔بعدازاں پیپلز پارٹی کے سینیٹر یوسف رضا گیلانی سینیٹ
میں قائد حزب اختلاف مقرر کر دیئے گئے، سینیٹ سیکریٹریٹ نے ان معاملے میں
نوٹی فیکیشن جاری کردیا ہے۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینٹر شریں رحمان نے
30ارکارن کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہ کہ پیپلز پارٹی کے 21، آزاد سینٹرز 04،
فاٹا سے 02، اے این پی 02 اور جماعت اسلامی کے 01 رکن جنہوں نے سینیٹ میں
اپوزیشن لیڈر کے لیے یوسف رضا گیلانی کی حمایت میں دستخط کیے۔حیران کن بات
اس وقت سامنے آئی جب میڈیا کے افراد نے یوسف رضا گیلانی سے پوچھا کہ آپکو
کن کن سینٹرز سے سپورٹ کیا ہے تو یوسف رضا گیلانی کا جواب انتہائی حیران کن
تھا کہ انکو پتا نہیں ہے، شریں رحمان بتائیں گی کہ انکی حمایت کن افراد نے
کی ہے۔ ویسے پاکستانی سیاست کے نرالے رنگ ملاحظہ فرمائیں کہ سینٹ میں
اپوزیشن لیڈر ”حکومتی ووٹوں“ سے منتخب۔ چارسے پانچ حکومتی سینٹرز حضرات سے
چند گھنٹوں کے لئے اپنی سائیڈ بدل لی۔میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جسکے سبب
اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔شاید شاعر صدیوں پہلے ہی ہمارے حالات
کی پشین گوئی کرگئے۔پیپلز پارٹی کی جانب سے یوسف رضا گیلانی کو PDM کی دیگر
جماعتوں سے مشاورت کے بغیر سینٹ چیرمین کو اپوزیشن لیڈر کی تعیناتی کے لئے
دی گئی درخواست اور سینٹ سیکریٹریٹ کی جانب سے یوسف رضا گیلانی کے بطور
سینٹ اپوزیشن لیڈر نوٹیفیکشن کے بعد 10 سے زائد اپوزیشن جماعتوں کی تنظیم
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ بظاہر اپنی موت مر چکی ہے۔کیونکہ پی ڈی ایم بنانے
کے بنیادی مقاصد میں عمران خان کو اقتدار کی کرسی سے ہٹا کر منظرعام سے دور
کرنا تھا۔ پی ڈی ایم کی دو بڑی جماعتیں یعنی پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستا
پیپلز پارٹی حکومت کو ہٹاتے ہٹاتے آپس میں دست و گریبان ہوگیئں۔جس سے یہ
ثابت ہوا کہ حکومت کو شکست دینے کی بجائے پی ڈی ایم کی جماعتوں نے ایک
دوسرے کو شکست دینا شروع کردیا۔یوسف رضاگیلانی کی بطور ااپوزیشن لیڈر
تعیناتی کے بعد ردعمل میں پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما احسن اقبال نے
پاکستان پیپلز پارٹی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ جس چیئرمین سینیٹ کے الیکشن
کوعدالت میں چیلنج کیا، اسی کے پاس عرضی لے کر پہنچ گئے، کچھ مناسب نہیں
لگا۔احسن اقبال نے کہا کہ پی ڈی ایم جماعتوں کو اعتماد میں لئے بغیر فیصلہ
لیا گیا، اس سے اپوزیشن اتحاد کو دھچکا لگا ہے۔لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ
اگر پیپلز پارٹی کے لئے قائد حزب اختلاف کاعہدہ اتنا ہی ناگریز تھا تو وہ
اپنی مجبوری نواز شریف سے بیان کرتے، وہ یہ عہدہ خوشی سے پیپلزپارٹی کو دے
دیتے۔پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کی تنقید کے بعد سابق وزیراعظم اور
سینیٹ میں قائد حزب اختلاف یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ہمیں سرکاری
اپوزیشن کہنا مناسب نہیں ہوگا۔یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ اپوزیشن اتحاد (پی
ڈی ایم) نے ہمارے مشورے پر ضمنی اور سینیٹ الیکشن میں حصہ لیا۔انہوں نے کہا
کہ سینیٹ الیکشن میں بلاول بھٹو کا مشورہ تھا کہ استعفوں کو آخری آپشن کے
طور پر دیکھیں گے۔ اس ساری کشمکش میں پاکستان پیپلز پارٹی جیت چکی ہے مگر
پی ڈی ایم کو شکست ہوگئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے 180 ڈگری کا یوٹرن
اُس وقت سامنے آیا جب پی ڈی ایم کے 26 مارچ کے لانگ مارچ کے لئے بلائے گئے
اجلاس میں معاملات کو حتمی شکل دی جانی تھی، اُس وقت آصف علی زرداری نے اک
نیا پینترا بدلا اور لانگ مارچ کو میاں نواز شریف کی وطن واپسی سے مشروط
کردیا۔پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کے لئے یہ انتہائی پریشان کن صورتحال کا
باعث بن گیا۔ کیونکہ اپوزیشن اتحاد کی تمام جماعتیں عمران خان کی حکومت کے
خلاف آخری صف بندیوں میں مصروف عمل نظر آرہی تھی، عین اُسی وقت آصف علی
زرداری کی پی ڈی ایم سربراہی اجلاس میں کی جانی والی تقریر نے اجلاس کے
ماحول کو ناخوشگوار کردیا اور اجلاس میں حکومت مخالف معاملات کو فائنل کرنے
کی بجائے پی ڈی ایم کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان منہ ماری والی کیفیت بن
گئی، بالآخر پی ڈی ایم سربراہی اجلاس نتیجہ خیز ہوئے بغیر ہی ختم ہوگیا،
اور پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان پریس کانفرس میں لانگ مارچ کو
ملتوی کرنے کے اعلان کے بعد ادھورا چھوڑ کرچلے گئے۔1990 کی دہائی میں
ماردھاڑ، الزامات اور پکڑ دھکڑ کی سیاست کرنے والی دو بڑی سیاسی پارٹیوں
پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کو مشرف نے اقتدار سنبھالنے کے
بعد پاکستان کے سیاسی منظر نامے سے بظاہر نکال باہر کردیا تھا، مگر ان
دونوں جماعتوں کی لیڈرشپ محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ اور میاں نواز شریف نے
باہمی لڑائی جھگڑے کی سیاست کو خیر باد کہ نیا سفر شروع کیا اور جسکو اک
دستاویزی شکل بھی دی جسکو میثاق جمہوریت کہا جاتا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو
کی زندگی نے ان سے وفا نہ کی اور انکو مشرف کے بعد پاکستان کے سیاست منظر
نامہ سے دور ہونا پڑا، مگر میاں نواز شریف نے میثاق جمہوریت پر عمل درآمد
کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کا ریاستی امور میں بھرپور ساتھ دیا، 1990کی
دہائی کی حریف جماعتوں نے اکٹھی حکومت بنائی اور بہت سی اہم آئینی ترامیم
منظور کروانے میں ایک دوسرے کا ساتھ بھی دیا۔مگر کچھ بڑے معاملات پر ان
دونوں جماعتوں میں پھر ٹھن گئی،آصف علی زرداری نے مری معاہدہ کو پس پشت
ڈالتے ہوئے افتخار چوہدری کی بحالی کے معاملہ کو لٹکائے رکھا، اور سپریم
کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے معاملہ پر پاکستان پیپلز پارٹی
اور پاکستان مسلم لیگ ن میں شدید اختلافات کی بناء پر پاکستان مسلم لیگ ن
کو افتخار چوہدری کی عہدہ پر بحالی کے لئے اک بھرپور لانگ مارچ کا انعقاد
بھی کرنا پڑا جس کی قیادت میاں محمد نواز شریف نے کی۔ حال ہی میں پاکستان
پیپلز پارٹی کی طرف سے پی ڈی ایم کی موجودگی میں اُٹھائے جانے والے یکطرفہ
اقدامات نے دس سے زائد اپوزیشن اتحاد کو شدید ٹھیس پہنچائی ہے۔جس سے ظاہر
ہوتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے سیاسی استحکام اور جمہوری عمل
کے لئے کئے جانے والے اقدامات کو ٹھیس پہنچانے کی روایت کوئی نئی نہیں ہے۔
پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر جب یہ معاملات واضح طور پر طے شدہ تھے کہ یوسف
رضا گیلانی کو سب سے پہلے اسلام آباد کی سیٹ سے الیکشن جتوایا جائے گا (اور
واضح طور پر پاکستان مسلم لیگ ن کے 83 ووٹوں کی وجہ سے یوسف رضا گیلانی کی
جیت یقینی ہوئی)، اور اسکے بعد یوسف رضا گیلانی کو چیرمین سینٹ منتخب
کروایا جائے اور ڈپٹی چیرمین سینٹ کے لئے جمعیت علما ء اسلام کے عبدالغفور
حیدری کو کامیاب کروایا جائے گا، اور سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کے لئے پاکستان
مسلم لیگ ن کے سنیٹر کو بنایا جائے گا، لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے
180 ڈگری کا یوٹرن مارنا سمجھ سے بالا تر ہے۔ کہاں پر پاکستان پیپلز پارٹی
کے امیدار کو سینٹ کا چیرمین بنایا جانا جسکے لئے پی ڈی ایم کی تمام
جماعتوں کی اپنی بھرپور کوشش بھی کی مگر بدقسمی سے ٹیکنیکل بنیادوں پر یوسف
رضا گیلانی الیکشن جیت نہ سکے، چیرمین سینٹ کے انتخاب کا معاملہ بھی اسلام
آباد ہائی کورٹ تک لیجایا گیا۔ لیکن آنا فانا سینٹ چیرمین کی سیٹ کی چھوڑ
کا سینٹ میں اپوزیشن لیڈر بننے لئے پی ڈی ایم کے فورم کو بائی پاس کرنا
ناصرف حیران کن ہے بلکہ یقینی طور پر پی ڈی ایم کے خاتمہ کا سبب بھی بن چکا
ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پی ڈی ایم کے فورم ہی سے موجودہ چیرمین سینٹ
کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جاتی اور یوسف رضا گیلانی کو چیرمین سینٹ
منتخب کروایا جاتا مگریکدم اپوزیشن لیڈر بننے ہی میں غنیمت جانی
گئی۔پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاست آصف علی زرداری کی قلابازیوں کی وجہ پہلے
ہی پاکستان کے چاروں صوبوں سے نکل کر صرف صوبہ سندھ تک محدود ہوچکی ہے۔
مستقبل میں شاید صوبہ سندھ بھی پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے نکل جائے۔آصف علی
زرداری کی زیرقیادت پاکستان پیپلز پارٹی 2008 کے الیکشن میں مسلم لیگ ”ق“
کو قاتل لیگ کہاکرتی تھی مگر اپنی حکومت کے خلاف خطرات محسوس کرتے ہوئے
ا‘سی قاتل لیگ کے قاتل سربراہ کو اپنا ڈپٹی وزیراعظم بھی بنا لیا تھا۔ آصف
علی زرداری کی زیر قیادت پیپلز پارٹی جو کچھ کررہی ہے، پیپلز پارٹی کے
سنجیدہ لوگوں کو اب سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا کہ انکی جماعت کدھر جارہی ہے،
ایسا لگ رہا ہے کہ زرداری نے ”باپ پارٹی“ کو بالآخر مان لیا ہے یا شاید باپ
پارٹی کے مائی باپ کو بھی مان لیا ہے۔یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے
کہاستعفوں، لانگ مارچ اور سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کے معاملہ کے بعد پی ڈی
ایم کی موت واقع ہوچکی ہے،بس جنازہ کا اعلان ہونا باقی رہ گیاہے۔ |