۲۶اپریل 1945 کو مسلم لیگ کے رہنما محمد علی جناح کو ایک
بچے کا خط ملا۔ لکھا تھا ڈئیر سر! ہمیں آپ پر فخر ہے کہ آپ نے ہمیں جدوجھد
عطا کی پاکستان ہمارے دلوں کا ارمان ہےاور دنیا کی کوئی طاقت ہمیں اس ارمان
سے کو پورا کرنےسے نہیں روک سکتی۔ بحیثیت طالب علم میں کوئی عملی کردار تو
ادا نہیں کر سکتا لیکن ایک دن میں اس پاکستان کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے
سے گریز نہیں کرونگا۔
تحریک پاکستان اپنے جوبن پر تھی اور اس کے مرکزی صدر کی مصروفیت انتہا پر
پہنچی ہوئی تھی۔ پھر بھی اس طالب علم کا ولولہ دیکھ کرجوابی خط لکھا۔
میرے بچے خوشی ہوئی تمھاری سیاسی جلسوں میں شرکت کا سن کر ،مگر میری نصیحت
ہے اگر تم سیاست میں آنا چاہتے ہو تو خوب پڑھو اپنی تعلیم کو نظرانداز نہ
کرو اور پھر وقت نے ثابت کیا کہ اس رہنما نے ڈھائی سال بعد اس خواب کو
شرمندہ تعبیر کیا اور پاکستان معرض وجود میں آیا اور اس بچے کو بھی قدرت نے
اپنے عظیم کاموں کے لئے منتخب کیا۔ یہ بچا ذوالفقار علی بھٹو قائد جمہوریت
بنا ۔اس نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے پڑھا اور بیرسٹر بن کر سیاست میں قدم رکھا۔
پہلے وزیر خارجہ بنا اور اپنی زیرک او قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے صدر کا
خاص وزیر بنا۔ وزیر خارجہ بن کر چین کو اقوام متحدہ میں شامل کروانے اور
امریکہ سے مصالحت کروانے میں نمایاں کردار ادا کیا اور اقوام متحدہ کے
سیکیورٹی کونسل میں جار حانہ اور مردانہ وار خطاب کر کے نکل پڑے۔ یہ تاریخ
میں پہلی بار ہوا کہ ایک کمزور ملک کا وزیر خارجہ یوں آنکھیں دکھا کر
پرچیاں پھاڑتا ہوا ہیرو کی طرح نکل آیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی وزارت عظمیٰ
کا الیکشن لڑا۔ جمہوریت اور پاکستان کی بقا کی جنگ لڑی۔ قائد عوام بن کر
ابھرا۔
ذولفقار علی بھٹو نے قائد اعظم کے بنائے ہوئے پاکستان کو صحیح معنوں میں
جمہوری اور آئینی سمت دی۔ 1973 کا آئین بنا کر اپنا وہ وعدہ پورا کر لیا جو
حلف اٹھاتے ہوئے کیا تھا۔ we are here to rebuild confidence and rebuild
hope for future
ایٹمی پروگرام شروع کیا تاکہ اس ملک کی دفاع کو ناقابل تسخیر بنا سکے۔ یہ
الفاظ کہ ہم مٹی کھا لینگے لیکن ایٹم بم ضرور بنائینگے ان کی اول العزمی کا
منہ بولتا ثبوت ہیں۔ پھر عسکری دنیا کا نقشہ بدل ڈالا کہ بڑے بڑے ممالک
انگشت بدنداں ہو کر رہ گئے۔
یہی نہیں قائد عوام ، بانیء آئین، جیالہ جمہوریت اصل میں غلام شاہ خاتم
النبیین کے درجے پر پہنچا۔
اس نے سید العالمین، شافع محشر خاتم الرسل کی وہ خدمت کی جو کسی اور بادشاہ
کے نصیب میں نہیں آئی۔
اس نے مسلمان کی آئینی تعریف کر کہ ہمیشہ کے لئے قادیانیت اور کذابیت کے
آگے بند باندھ دیا اور ختم نبوت کی شقوں کی بل پر سائن کرتے ہوئے فرمایا کہ
آج میں اپنی موت کے پروانے پر دستخط کر رہا ہوں۔
اس بھٹو کو ہمیشہ سوشلزم اور سیکولرزم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے مگر میں
راقم الحروف ہمیشہ اس کو ایک دانشور مسلم رہنما کی طرح دیکھتی ہوں جس نے
اتحاد امت کے لئے او آئی سی کا
انعقاد کیا اور اس قبلہ اسلام مملکت خداداد کو اس کی رہبری کے قابل بنایا۔
اللہ اس کی تربت مبارک پر کروڑوں سلامیاں دے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا
کرے۔ آمین
|