سوئز نہر میں پھنسے دیو ہیکل بحری جہاز ایور گرین کے تمام
بھارتی عملے کو مصری کنال اتھارٹی نے گرفتار کر لیا ہے۔ گرفتار بھارتی عملے
کے تمام 25 ارکان کے لیپ ٹاپ اور موبائل فون کو مصری حکومت نے ضبط کر لیا۔
بھارت، اسرائیل اور امریکا کی مدد سے مصری صدر جنرل سیسی پر دباؤڈال رہے
ہیں کہ وہ بھارتیوں کو فوری اور کلین چٹ دے کررہا کریں لیکن عالمی اخبارات
کی اطلاعات کے مطابق مصری حکومت کو پتا چل گیا ہے ’ایور گرین کو نہر ِ سوئز
بند کرنے کے لیے اسرائیل کے منصوبے کے تحت جہاز پر موجود عملے کی مدد سے
پھنسایا گیا تھا۔ جی ہاں 26مارچ کو نہر سوئز میں ’ایور گرین‘ نامی مال
بردار بحری جہاز کے پھنسنے میں بھارت اور اسرائیل کا کردار اہم رہا ہے،
بھارت اور اسرائیل کی مشترکہ سازش کے تحت دنیا کو یومیہ نو اعشاریہ چھ ارب
ڈالر کے تجارتی مال کی ترسیل میں رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس جہاز
کا پورا عملہ بھارتی اور اس کے پھنسنے میں اسرائیل کا ہاتھ ہے اور اسرائیل
اور بھارت کی مشترکہ سازش ہے۔ اسرائیل نے ’ایور گرین‘ نامی مال بردار بحری
جہاز کے نہر ِ سوئز میں پھنسنے کے فوری بعد اعلان کیا کہ نہر سوئز میں ایک
ماہ تک جہازوں کی نقل وحمل نا ممکن ہو جائے گی اس کے ساتھ ہی بین الاقوامی
جہاز رانی چیمبر کے سیکرٹری جنرل گائے پلیٹن نے بی بی سی کے ’’ٹوڈے
پروگرام‘‘ میں بتایا کہ ایسی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ بین الاقوامی
جہاز راں کمپنیوں نے اپنے مال بردار جہازوں کو افریقا کی طرف موڑنا شروع کر
دیا ہے اور وہ جنوبی افریقا کے ساحل کیپ آف گڈ ہوپ کا چکر کاٹ کر یورپ
پہنچیں گے جس سے ان کے سفر میں ساڑھے تین ہزار کلومیٹر کا اضافہ ہو جائے
گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ ’ایور گرین‘ ٹھوس زمین پر پھنس گیا
ہے اور نہر سوئز میں پھنسے جہاز کو نکالنے کے لیے کی جانے والی انتہائی
کوششوں کے باوجود اسے نکالنے میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔ پلیٹن نے کہا کہ اس
حادثے کا مال کی ترسیل کے نظام پر شدید اثر پڑے گا اور اس کی قیمت صارفین
کو برداشت کرنی پڑے گی۔
ابھی یہ ہنگامہ جاری تھا کہ اسرائیل نے روس سے در پردہ مذاکرات میں ایک
منصوبہ پیش کیا ہے جس میں دنیا کو بتایا گیا ہے کہ نہر ِ سوئز میں اس طرح
کی صورتحال کبھی بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ اس لیے نہرسوئز کے ساتھ اسرائیل کے
اندر سے ایک نہر نکالی جائے جس کا انتظام اسرائیل کر ے گا اور جس نہر سے
مصر کو سالانہ 6سے 8ارب ڈالرز کی آمدنی ہوتی ہے کو بند کر دیا جائے۔ بین
الاقوامی ادارہ جہاز رانی کے اعداد و شمار کے مطابق مشرق اور مغرب کے
درمیان اس اہم آبی تجارتی گزر گاہ پر سفر کرنے والے تجارتی ساز وسامان کی
مالیت فی گھنٹہ چالیس کروڑ ڈالر بنتی ہے۔ تجارتی جہاز رانی کے اعداد وشمار
رکھنے والے ادارے لائڈلسٹ کے مطابق اس کینال سے مغربی ممالک کی طرف روزانہ
پانچ اعشاریہ ایک ارب اور مشرقی ممالک کے لیے چار اعشاریہ پانچ ارب ڈالر کا
سامان جاتا ہے۔
’ایور گرین‘ کے مالک کا تعلق جاپان سے لیکن ’ایور گرین‘ نامی کمپنی کی
ملکیت تائیوان میں ہے ’ایور گرین‘ کی لمبائی فٹبال کے چار میدانوں کے برابر
ہے اور اس کا شمار دنیا کے سب سے بڑے کنٹینر بردار جہازوں میں ہوتا ہے۔ دو
لاکھ ٹن وزنی اس مال بردار جہاز پر 20 ہزار کنٹینر لادے جا سکتے ہیں۔
اسرائیل نے اس دوران خوب پروپیگنڈا کیا کہ نہر سوئز کے بلاک ہونے سے یہاں
سے گزرنے والے بحری جہازوں کی ایک طویل قطار لگ گئی ہے۔ یہ آبی گزر گاہ
افریقا اور مشرق وسطیٰ کے ملکوں کے درمیان ہے اور دنیا کے مصروف ترین آبی
راستے میں شامل ہے جہاں سے عالمی تجارت کی 12 فی صد آمد ورفت ہوتی ہے۔
لائڈلسٹ کے مطابق 160 سے زائد بحری جہاز نہر کی دونوں جانب اس کو عبور کرنے
کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ ان میں 41 بڑے مال بردار جہاز اور 24 خام تیل لے
جانے والے ٹینکر شامل تھے۔ خام تیل کے علاوہ ان جہازوں پر روز مرہ استعمال
میں آنے والی اشیا جن میں کپڑے، فرنیچر اور صنعتی اور گاڑیوں کے پرزہ جات
شامل ہیں لدے ہوئے تھے۔
بھارتی میڈیا کہہ رہا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں عالمی تجارت میں اضافے کے
ساتھ کنٹینر لے جانے والے بحری جہازوں کا حجم بھی بڑھنے لگا ہے اور بڑے بڑے
جہاز بنائے جانے لگے ہیں جس کی بنا پر ان کے پھنس جانے کی صورت میں ان کو
نکالنے کا کام بھی مشکل ہو گیا ہے۔ بی بی سی کا کہنا تھا کہ تین دن کی
تاخیر کو پورا کرنے کے لیے چھ دن درکار ہوتے ہیں لیکن ان کا یہ فارمولا
درست نہیں اور اس وقت میں اضافہ ہو گا۔ اس کے علاوہ روز مرہ کے استعمال کی
اشیا سے لدے ہزاروں کنٹینروں کی ترسیل میں تاخیر کے علاوہ پھنسے ہوئے بحری
جہاز کی وجہ سے تجارت اور برآمدات کے لیے درکار خالی کنٹینروں کی دستیابی
میں بھی خلل پڑ رہا ہے۔ مصر کی نہر سوئز کی اتھارٹی کی کوشش سے جہاز کو
دوبارہ گہرے پانی میں لے جایا جا چکا ہے اور اس کے لیے جہازوں کو کھینچنے
والی کشتیاں، ڈریجرز اور بھاری مشینری کا استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن اس بات
میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ بھارت اور اسرائیل نے مل کر اس نہر کو بند کر
نے کا منصوبہ تیار کر لیا ہے۔
1869ء میں نہر کی تعمیر سے قبل اس علاقے سے بحری جہاز ایک جانب سامان
اُتارتے تھے اور بحیرہ قلزم تک اِسے بذریعہ سڑک لے جایا جاتا تھا۔ 1869 میں
اس نہر کے کْھل جانے سے انگلینڈ سے بھارت کا بحری فاصلہ 4000 میل کم ہو
گیا۔ 150 سال کے طویل عرصے میں اس نہر میں کو ئی بڑا یا چھوٹا جہاز نہیں
پھنسا۔ اس آبی گزر گاہ سے سالانہ 19ہزار جہاز گزرتے ہیں لیکن جہاز وہی
پھنسا جس کا پورا عملہ بھارتی تھا تاکہ یہ ثابت کیا جائے کہ نہر ِ سوئز میں
جہازوں کی آمد ورفت خطرے اور سرمایہ کاروں کے نقصان سے خالی نہیں ہے۔ تل
ابیب اور ماسکو سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق دونوں ممالک 1960ء سے
اسرائیل کنال کی تیاری پر کام کر رہے ہیں اور سعودی عرب بھی اس پلان میں
شامل ہے۔ اسرائیل کنال کی تیاری کے بعد سوئز کنال کو کسی نہ کسی صورت میں
بند کرانے کی کوشش کی جائے گی ۔لگتا ہے گاؤموتری اور گوبر لڈوکھانے والے
نسلی دہشت گرد اپنا گندا کردار ادا کرتے رہے گے۔جیسا کے مثال مشہور ہے
اناڑی کا کھیلنا ۔۔کھیل کا ستیاناس آپ میری بات سمجھ رہے ہو نا۔۔ اس کے لیے
عسکری حربہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس موقع کے لیے آج سے برسوں پہلے
ہٹلر کا کہنا تھا دنیا میں ہر برائی اور دنیاوی آفت کے پیچھے کسی نہ کسی
مقام پر یہودی اس کارروائی کو کمانڈ کرتا نظر آئے گا۔ لیکن اگر دوسری جنگ
ِ عظیم کے بعد قیام بھارت اور اسرائیل کے وقت ہٹلر زندہ ہوتے تو وہ اس جملے
کو اس طرح ادا کرتے کہ دنیا میں ہر برائی اور گندگی اور دنیاوی آفت کے
پیچھے کسی نہ کسی مقام پر بھارت اور اسرائیل اس کارروائی کو کمانڈ کرتے نظر
آئیں گے ۔
|