عمران خان نے وزیر خزانہ حفیظ شیخ کو ہٹا کر حماد اظہر کو
وزیر خزانہ تعینات کردیا،یوں حماد اظہر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے
ابتدائی 30 ماہ کے اندر بننے والے تیسرے وزیر خزانہ ہیں۔ویسے حیران اور
پریشان کن بات یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے حفیظ شیخ کو وزرات خزانہ سے ہٹانے
کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ مہنگائی قرار دیا جارہا ہے، لیکن ابھی 3 مارچ
سینٹ الیکشن کے دن تک تمام حکومتی وزیرحفیظ شیخ کے نام کی غزلیں گا رہے
تھے، فردوس عاشق اعوان نے اپنے ٹویٹ میں کہا تھا کہ حفیظ شیخ نے تباہ حال
ملکی معیشت کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں حفیظ شیخ نے اہم کردار
ادا کیا ہے۔اور سینٹ الیکشن ہارنے کے باوجود عمران خان نے حفیظ شیخ کو
وزرات خزانہ کو سنبھالے رکھنے کے لئے اپنے اعتماد کا اظہار بھی کیا تھا،
پھر ٹھیک 26 دن بعد حکومت وقت کو پاکستا ن میں مہنگائی کی تمام ذمہ داری
حفیظ شیخ پر ڈالنے کا خیال نہ جانے کس کو آگیا۔کیونکہ 29 مارچ سے پہلے تک
وزیر، مشیر پاکستان میں ہونے والی مہنگائی کی تمام ذمہ داری موجودہ اپوزیشن
پر ڈالتے رہے ہیں۔عمران خان کی زیر قیادت پاکستان تحریک انصاف کی حکومتی
کابینہ میں یہ پہلی ردوبدل نہیں ہے اک طویل فہرست بنتی ہے۔ابھی حال ہی میں
وزارت پٹرولیم سے ندیم بابر کو ہٹا دیا گیا۔ سال 2020 میں پٹرولیم بحران کی
ذمہ داری ندیم بابر پر ڈالی گئی لیکن ساتھ یہ بھی کہ دیا گیا کہ انکو وزارت
سے ہٹانے کا مطلب یہ نہیں کہ ندیم بابر نے کچھ غلط کیا ہے۔اس سے پہلے غلام
سرور خان کو وزارت پٹرولیم سے ہٹا کر شہر ی ہوابازی کی وزارت دے دی گئی اور
موصوف نے جو حال پی آئی اے کیساتھ کیا ہے اسکو نشر مقرر کے طور پر یہاں
بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اپریل 2019 وزیراعظم عمران خان نے وزیر خزانہ
اسد عمر کو عہدے سے ہٹا دیا تھا اور اسکا اعلان خود اس وقت کے وزیر خزانہ
اسد عمر نے سوشل میڈیا پر اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ کے ذریعہ سے کیا تھا،اسی طرح
فواد چوہدری کو عہدہ سے ہٹا کر پاکستان پیپلز پارٹی کی سابقہ وزیر اطلاعات
فردوس عاشق اعوان کو وزارت اطلاعات کی وزارت سونپ دی گئی، پھر کچھ عرصہ بعد
ایک مرتبہ پھر وزارت اطلاعات سے فردوس عاشق اعوان کو ہٹا کر وزرات اطلاعات
شبلی فراز اور عاصم باجوہ کے حوالے کردی گئی۔ یاد رہے جس فواد چوہدری سے
وزارت چھیننے والی فردوس عاشق اعوان کو جب وزارت اطلاعات سے فارغ کرکے شبلی
فراز کو لایا گیا تو وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے
کہا تھا کہ 'فردوس عاشق اعوان میں اہلیت نہیں تھی کہ وہ وزارت اطلاعات
سنبھال سکتیں۔'’انہوں نے لابنگ کے ذریعے وزارت تو لے لی لیکن عہدہ لینا ہی
نہیں ہوتا بلکہ خود کو ثابت بھی کرنا ہوتا ہے۔ وہ (فردوس عاشق اعوان) کبھی
بھی اس اہل نہیں تھیں کہ اس وزارت کو چلا سکتیں، فواد چوہدری نے مزید کہا
تھاکہ 'فردوس عاشق اعوان کے وزارت اطلاعات کے عہدے پر رہنے سے حکومت اور
وزیراعظم آفس کو شدید نقصان پہنچا ہے۔نئے پاکستان کے سب سے متحرک اور پرانے
سیاستدان شیخ رشید کے پاس پاکستان ریلوے کی وزارت تھی، جنکی وزارت کے دور
میں ریلوے کی تاریخ کے سب سے زیادہ حادثات واقعہ ہوئے، انکو وزارت سے ہٹا
کر ریاست پاکستان کی سب سے اہم ترین وزارت یعنی وزارت داخلہ سونپ دی
گئی۔اپریل 2020 میں گندم، چینی بحران کے موقع پر وفاقی وزیرخسروپرویز کی
وزارت سے ہٹا کرخسرو بختیار کو وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور تعینات کیا
گیا۔سائنس کے وفاقی وزیراعظم سواتی کو اک سکینڈل آنے کے بعد وزارت سے ہٹا
دیا گیا، لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد انکو ریلوے کی وزارت سونپ دی گئی۔خالد
مقبول صدیقی کی جگہ امین الحق کو وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی
(آئی ٹی) بنا دیا گیا ہے۔ جب کہ حماد اظہر کو وفاقی وزیر صنعت و پیداوار
بنا دیا گیا۔اعظم سواتی کو وفاقی وزیر برائے انسداد منشیات جب کہ بابر
اعوان کو مشیر برائے پارلیمانی امور تعینات کیا گیا ہے۔وزیراعظم نے اپنے
مشیر شہزاد ارباب کو عہدے سے ہٹا دیا ہے جب کہ جہانگیر ترین کو بھی چیئرمین
ٹاسک فورس برائے زراعت کے عہدے سے ہٹانے کی تصدیق کی گئی۔صحت کے وزیرعامر
کیانی کو ادویات اسکینڈل کے بعد عہدہ سے ہٹا کر پارٹی میں بڑے عہدہ پر فٹ
کروادیا گیا۔ وزارت داخلہ اور انسداد منشیات سے وفاقی وزیر شہریار آفریدی
کو ہٹا کر انکو دوسری وزارت میں فٹ کروادیا گیا۔موضوع کے حوالہ سے یہ چند
مثالیں ہے جنکو یہا ں تحریر کیا گیا ہے۔درج بالا سطور لکھتے ہوئے ہوئے بندہ
ناچیر کا تو سر چکرانا شروع ہوگیاہے، امید ہے معزز قارئین جب ان سطور کا
مطالعہ کریں گے تو انکے بھی سردرد شروع ہوجائے گا۔بحثیت کپتان، وزیراعظم کا
یہ حق ہے کہ وہ اپنی ٹیم یعنی کابینہ کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کرے اور
اگر کوئی وزیر مشیراچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرپا رہا تو اسکی نا صرف
سرزنش کرے بلکہ اسکو مناسب وزارت میں ٹرانسفر کردے یا پھر اسکو وزارت سے
ہٹا دے۔ لیکن اگر کابینہ میں ردوبدل صرف وزارتیں تبدیل کرنے کا نام ہے
تواسطرح سے وزراء اور مشیران سے بہتر کارکردگی کی امید لگانا بے وقوفی کے
سوا کچھ نہیں۔ اچھی اور دیرپا کارکردگی کے لئے سب سے پہلے تو Right Man for
Right Jobاور اسکے بعد ٹیم کو مکمل اعتماد دینا اشد ضروری ہوتا ہے۔نئے
پاکستان میں ابھی تک جتنے بھی مالی اور نااہلی کے اسکینڈلز منظر عام پر آئے
ہیں، اسکو پاکستانی عوام کی بدقسمتی کہ لیں کہ ابھی تک کسی مشیر، وزیر کے
خلاف کوئی تادیبی کاروائی عمل میں نہیں آئی۔ندیم بابر کو دیکھ لیں کہ ایک
طرف ہمیں کہا جارہا ہے کہ اربوں روپے کا آئل سکینڈل ہوا یا دوسرے لفظوں میں
پٹرولیم بحران کی شکل میں اربوں روپے عوام کی جیبوں سے نکال لیے گئے لیکن
ساتھ یہ بھی مسلسل کہا جارہا ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ندیم بابر پر
کوئی الزامات ہیں۔ حکومت کا ندیم بابر کو وزارت سے ہٹاکر بھی یہی کہنا ہے
ندیم بابر پاک صاف اور شفاف ہیں۔ جناب والا اگرصاف اور شفاف ہیں تو پھر ان
اربوں روپے کے سکینڈلز کا ذمہ دار کون ہے جن کا انکوائری رپورٹ میں ذکر ہے؟
عوام کی جیب سے یہ اربوں کون نکال لے گیا؟ اگر ندیم بابر اس کے ذمہ دار
نہیں تو پھر کون ہے؟شائد یہ وہ باریک لائن ہے جسکی ہم جیسے کم عقل لوگوں کو
سمجھ نہیں آتی۔ عوام بھی خوش ہیں کہ جس کی وجہ سے ان کے اربوں روپے جیب سے
نکل گئے وہ اب کرسی پر نہیں رہا‘ حکومت خوش ہے کہ کوئی اس سے نہیں پوچھ رہا
کہ اگر ندیم بابر کو پٹرولیم بحران کا ذمہ وار سمجھ کر نہیں نکالا تو پھر
انکو نکالنے کی وجہ آخر کیا ہے؟چلیں مان لیا ندیم بابر ذمہ دار نہیں ہیں تو
پھر جو ذمہ دار ہیں انکے خلاف کس قسم کے قانونی اقدامات اٹھائے گئے ہیں یا
شائد پٹرولیم بحران کے ذمہ دار خود عوام الناس ہی ہے جو پٹرول پمپس پر
مہنگا پٹرول خریدنے گئے تھے۔وطن عزیز میں اس سے پہلے چینی اور گندم کے شدید
بحران آئے مگر ہوا کیا کچھ بھی نہیں، متعلقہ وزاراء کی وزارتوں کو تبدیل
کردیا گیا۔ اگر غیرجانبدرانہ تجزیہ کیا جائے تو ایسا محسوس ہورہا کہ شائد
کہ حکومت کے پاس پلاننگ نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے، جسکے خلاف اسکینڈل آئے
اسکو ہٹا کر دوسرے کو وزیر مشیر بنا دیا جائے۔حکومت وقت کے ابتدائی 30 ماہ
میں FBR کے قریبا 05 چیرمین تبدیل ہوچکے ہیں۔شنید ہے کہ مستقبل قریب میں
شوکت ترین ہی کو وزیرخزانہ بنا دیا جائیگا۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ تحریک
انصاف کے وہ 200 قریب کے ماہرین کہاں چلے گئے، جنکا دعوی ہر جلسے میں کیا
جاتا تھا، آجا کر وہی زرداری اور مشرف دور کے وزراء کو دوبارہ اپنی کابینہ
میں جگہ دی جارہی ہے۔ عمران خان پاکستانی کرکٹ کی تاریخ کے کامیاب ترین
کپتان رہے ہیں، مگر حکومتی معاملات چلاتے ہوئے ایسا کیوں محسوس ہورہا ہے کہ
باؤلنگ کرنے والے کھلاڑی کو بیٹنگ کروا رہے ہیں اور بیٹسمین سے باؤلنگ
کروارہے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ عمران خان حکومت مطلوبہ نتائج حاصل نہیں
کرپارہی۔جسطرح سے وزیرں ومشیروں کی ادلی بدلی کروائی جارہی ہے ایسا تو بچپن
میں میوزیکل چیئر کے کھیل میں دیکھنے کو ملتا تھا۔بہرحال وزیراعظم عمران
خان کو حکومت کی بقیہ مدت کے لئے مستقل اور ٹھوس بنیادوں پرا قدامات
اُٹھانے کے اشد ضرورت ہے، کیونکہ شنید یہی ہے کہ مستقبل قریب میں ایک مرتبہ
پھر پوری کابینہ میں اکھاڑ بچھاڑ ہونے جارہی ہے۔ عوام الناس کی اکثریت پہلے
ہی مہنگائی کی چکی میں پس کر دن رات حکومت کو بددعائیں دیتی ہوئی نظر آرہی
ہے، اسلئے حکومت وقت کو اپنی تمام تر توانائیاں صرف اور صرف عوام الناس کی
فلاح و بہبود کیلئے صرف کرنی چاہئے۔
|