عدالت عالیہ کی جانب سے بلدیاتی اداروں کی بحالی کے فیصلہ
کو بڑی خوشی کے ساتھ سنا گیا ہے راولپنڈی سمیت پنجاب بھر میں بلدیاتی
سربراہوں اور ممبرز میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے بعض پر جوش چیرمین تو اپنی
یونین کونسلز میں بھی پہنچ گئے لیکنجن کسی نوٹیفیکیشن کے بغیر وہاں جا کر
مایوسی کے ساتھ واپس لوٹ آنے پر مجبور ہو گئے کیوں کہ ابھی تک اس حوالے سے
کوئی خاص تفصیلات سامنے نہیں آ سکی ہیں جس وجہ سے تمام معاملات لٹک کر رہ
گئے ہیں ادھر حکومت بھی عدلات عالیہ کے تفصیلی فیصلے کا انتطار کر رہی ہے
عدالت کا یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب 2016میں منتخب ہونے والے
بلدیاتی نمائندوں کی مدت میں صرف 9ماہ باقی تھے یہ حکم بھی ان کو صرف زبانی
طور پر ہی ملا ہے بعض بلدیاتی تو اپنے سیٹوں پر بیٹھنے کو بے چین دکھائی دے
رہے ہیں لیکن متعدد بلدیاتی نمائندے اپنی سیاسی شہادت کو قائم رکھنے پر
راضی ہیں کیوں کہ ان کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ حکومت ان کو ترقیاتی
فنڈز کسی بھی صورت جاری نہیں کرے گی اور اس طرح وہ عوام میں اپنی مقبولیت
کھو بیٹھیں گئے بحالی کے بغیر ان کو بغیر کچھ کیئے سیاسی شہادت حاصل ہو گئی
تھی جس کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ عوام کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہو گئے
تھے کہ ان کو کام ہی نہیں کرنے دیا گیا ہے اور اسی وجہ سے متعدد پرانے
بلدیاتی نمائندے دوبارہ سے الیکشن میں حصہ لینے کا سوچ رہے تھے اس سیاسی
شہادت کے بغیر وہ دوبارہ الیکشن لڑنے کیلیئے ان کے پاس کوئی خاص آپشن نہیں
تھا اب اگر پنجاب حکومت ان کو بھال بھی کر دیتی ہے تو یہ ایک نیا تماشا
ثابت ہو گا وفاقی اور صوبہ پنجاب میں حکومت پاکستان تحریک انصاف کی ہے وہ
اپنے مخالف بلدیاتی نمائندوں کو کیسے ترقیاتی فنڈز دے گی جن کو استمعال میں
لا کر بلدیاتی نمائندے پی ٹی آئی کو نہیں بلکہ ن لیگ کو پروموٹ کریں گئے
حکومت کو بھی اس بات پر خصوصی دھیان دینا چاہیئے تھا کہ وہ نئے بلدیاتی
الیکشن کروانے میں ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے پرانے اداروں کو بھال بھی
نہیں کر رہی ہے تو عدالت تو ضرور کوئی نہ کوئی فیصلہ سنائے گی اب جن عدالت
عالیہ نے اپنا فیصلہ سنا ہی دیا ہے تو پنجاب حکومت کی یہ زمہداری بنتی ہے
کہ وہ عدالت کے حکم کے سامنے سر خم کرے اور بلدیاتی اداروں کو مکمل بھال
کرتے ہوئے ان کو اختیارات بھی دے تا کہ عوام کو نچلی سطح پر درپیش مسائل حل
ہو سکیں جن میں خانگی مسائل سر فہرست ہیں جن کو بلدیاتی نمائندوں کے سوا
کوئی ایم این اے یا ایم پی اے حل نہیں کروا سکتا ہے چھوٹی سطح کے مسائل بہت
زیادہ تعداد میں پائے جاتے ہیں بلدیاتی اداروں کے غیر فعال ہونے کی وجہ سے
پچھلے 3سالوں میں ان میں کافی اضافہ ہوا ہے ان کا خاتمہ صرف بلدیاتی اداروں
کی بحالی ہی سے ممکن ہو سکتا ہے
دوسری طرف وفاقی حکومت نے ایک بہت اہم کارنامہ سر انجام دیا ہے گورنمنٹ نے
ایک آرڈینینس پاس کروایا ہے جس کے مندرجات کے مطابق قومی و صوبائیکا کوئی
بھی ایسا منتخب ممبر جو اپنے انتخاب کے بعد 60دن کے اندر اپنے عہدے کا حلف
نہیں اٹھائے گا اس کی اسمبلی رکنیت خود بخود ختم ہو جائے گی اور وہ قومی یا
صوبائی اسمبلی کا رکن نہیں رہے گا یہ آرڈینینس صدر مملکت کے دستخطوں کے بعد
فوری طور پر نافز العمل ہو چکا ہے حکومت کے اس فیصلے سے اور کوئی خوش ہو یا
نہ ہو پنجاب کے صوبائی اسمبلی حلقہ پی پی 10کے عوام ضرور مسرت کا اظہار کر
رہے ہیں 2018کے جنرل الیکشن کے نتیجہ میں سابق وفاقی وزیر داخلہ چوھدری
نثار علی خان ایم پی اے منتخب ہوئے تھے کوئی خاص قانون موجود نہ ہونے کی
وجہ سے 3سال گزرنے کے باوجود انہوں نے ابھی تک حلف نہیں اٹھایا ہے حلقہ کے
دو قانون دانوں نے اس ھوالے سے ان کی خلاف آئینی رٹس بھی دائر کی ہیں لیکن
وہ محض یہ جواز بنا کر خارج کر دی گئی ہیں کہ اس حوالے سے کوئی بھی قانوں
ہی موجود نہیں ہے جو اسمبلی رکن کو حلف نہ لینے کی صورت میں نا اہل ہونے پر
مجبور کرتا ہو حلقہ پی پی 10کے عوام میں سخت مایوسی چھائی ہوئی ہے کہ ان کا
ایم پی اے کون ہے ایم پی اے ایک نہایت ہی اہم نمائندہ تصور کیا جاتا ہے
صوبائی سطح کے تمام معاملات اسی کی دسترس میں ہوتے ہیں جن کو حل کرنا بھی
ایم پی اے کی ہی زمہ داری ہوتی ہے چوھدری نثار علی خان مسلسل 3سال سے حلف
نہ لینے کی ضد پر قائم ہیں جس وجہ سے پی پی10کے عوام کو ترقیاتی و دیگر
کاموں کے حوالے سے کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اب اگر حکومت
اپنے جاری کردہ آرڈینینس پر عملدآمد کروانے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور
چوھدری نثار علی خان اس قانون کی زد میں آ کر نا اہل ہو جاتے ہیں تو پی پی
10 کے عوام اپنا کوئی نیا ایم پی اے منتخب کر سکیں گئے جو ان کے مسائل میں
کوئی تھوڑی بہت کمی ممکن کر سکے گا چوھدری نثار علی خان کے پاس اب بھی وقت
ہے کہ وہ اگر اپنے حلف نہ اٹھانے کی ضد پر اب بھی قائم ہیں تو وہ عوام حلقہ
کا مزید 60دن نقصان کیئے بغیر اپنے عہدے سے استعفی دے دیں تا کہ عوام جلدی
اپنے کسی نمائندے کو منتخب کر سکیں
|