میں نا مانو ہار

کسی کے شکستہ تجربے کو اپناناعقل مندی نہیں این ایے 249 کے حالیہ انتخابات کے نتائج کے بعد تین تنظیمات اپنے آپ کو کامیاب قرار دے رہی ہیں

ہماری ویب کے قارئین آج تک ہمارے ملک میں انتخابات ایک امید کی کرن ہوتے ہیں اور امید بھی وہ جس سے نسلوں کا مستقبل روشن ہونا مقصود ہوتا ہے لیکن یہ عجیب ستم ہے کہ ہمارے وطن میں انتخابات کے بعد دھاندلی کی ایسی خوف ناک صدائیں سننے کو ملتی ہیں کہ روشنی کی نوید ماند پڑجاتی ہے میری یہ تحریر درحقیقت میری سابقہ تحریر "عقل ہم کو کیوں نہیں آتی" کا تسلسل ہےجودراصل الیکشن کمیشن آف پاکستان کے لئے ہے میری سابقہ تحریرجس میں ووٹر حضرات کی خامیاں بیان کی گئیں تھیں اوراپنی اصلاح کی کوشیش کیجانب توجہ دلائی گئی تھی کہ ووٹ دیتے ہوئے اگر فہم و فراست سے کام لیا جائے اورایسی قیادت کو منتخب کیا جائے جو ملک اور قوم کے لئے بہتر کام سر انجام دینا چاہتی ہو اور اپنے حلقے کے مسائل ایوان میں مصلحت کی نظر نا کرئے اور صرف توجہ اپنی جیبیں بھرنے کی بجائے ملکی خزانہ بھرنے کی طرف کرئے تو ہم اپنا فرض ادا کر رہے ہیں بصورت دیگر انجام وہی ہے جو آج تک ہوتا رہا ہے اب بات اُس ادارے کی جسکوتقریبا 70 سال سے زیادہ ہو گئےہیں کہ پاکستان کے آئین کی روح سے ایک آزاد خودمختار ادارے کی حثیت سے کام کرتے ہوئے اور اس ادارئے کا مقصد کچھ اور نہیں صرف اور صرف پاکستان میں آزادانہ منصفانہ اور غیر جانب دارانہ انتخابات کا قیام عمل میں لانا ہے مگر افسوس میری زندگی میں اور اس سے پہلے بھی کوئی ایسا انتخاب نہیں ملتا جسکے انعقاد کے بعد دھاندلی کا شور سنائی نا دیا گیا ہواس کی وجہ کا تفصیلی بیان کچھ کڑوا ہے لہذا صرف ایک جملہ کہ اگر سابقہ چیف الیکشن کمشنرز اور اُن کی ٹیم کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہوتا اوروہ چشم پوشی سےکام نا لیتے اورصرف اپنی ڈیوٹی دے کر اپنی تنخواہ اور آسائشوں کے مزئے لے کر ڈنگ ٹپائو پالیسی پر عمل کرکے کے پیسہ ہضم تماشہ ختم کو مقصد نا رکھتے تو آج اسلامی جہوریہ پاکستان جہاں ہے سے بہتر حالات میں ہوتا اور شائیدعوام کو ایک ہی ایسا نظام میسر آجاتا کہ جس پر وہ مکمل اعتماد کر سکتےلیکن آج تک ایسا ممکن نہیں ہو سکااور اب نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ ملک پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے حامیوں کوایک بار پھراس آزاد ادارے کو ڈکٹیشن دینے کےلئے آمنے سامنےآ کھڑے ہیں اور جھگڑ اس بات پہ رہے ہیں کہ قانون کون لائے گا الغرض یہ معاملہ کچھ دنوں میں بند کمرے میں کچھ لو کچھ دو اور ملکی وسیع مفاد میں حال ہو جائے گا اور اصلاحات کے نام پر اس ادارے کی آزادی کیسے ختم کی جاسکتی کا مسودا تیار ہو جائے گا اور عوام کو پتہ بھی نہیں چلے گا جبکہ خود ہی اصلاحات کر کے خود ہی شور مچانا کی پالیسی کچھ پُڑانی ہےاور ایسے ہی وقت مزید چلنے کا اندیشہ ہے اور اگر ایسا نا ہوا تو سیاسی جماعتوں کی اپسی چپقلش کی باتوں سے اس ادارے کے کار میں روکاوٹ بنتی چلی جائے گئی یہ بات درست ہے کہ ترقی کے ساتھ نظام میں اصلاح کا موقع موجود ہوتا ہے لیکن ترقی کا ہونا ضروری ہےکسی کے شکستہ تجربے کو اپناناعقل مندی نہیں این ایے 249 کے حالیہ انتخابات کے نتائج کے بعد تین تنظیمات اپنے آپ کو کامیاب قرار دے رہی ہیں جبکہ دوبارہ اختیار الیکشن کمیشنکے پاس ہے لیکن حکومتی وزیر موصوف نے جس جلد بازی سے اپنے پیٹ پر ہاتھ پھرنے کی کوشیش کی اور آور سیز پاکستانیوں کے نام پر ای ووٹنگ مشین پر میڈ ان پاکستان کا ٹھپا لگا کر ملک کومالی نقصان پہنچانے کی ٹھانی ہے اوراپوزیشن کو دھاندلی کی نہیں داستان سنانے کا موقع فراہم کیاجارہا ہے عوام تو بعد میں افسوس ہی کر سکتی ہے لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان کا خاموش رہنا اس کی اپنی آزادی پر ایک سوال ہے کہ جس ادارے کا مقصد صرف غیر جانبدارانہ الیکشن کروانا ہے وہ اس کے لئے کوئی ایسا نظام نہیں سوچ سکتی جس کو قانون بناوانے کی درخواست اسمبلی میں کی جاسکے اور اگر واقع ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان فیصلہ کرنے سے قاصر ہے تو مفت مشورے کے لئے پوری قوم ہر وقت دستیاب ہو سکتی ہے الغرض یہاں یہ بات اضافی تحریر کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کا ائین عوام الناس کومعلومات فراہم کرنے کا حکم دیتی ہے اور ای سی پی کو چاہیے کہ وہ تمام نمائندوں اور امیدواروں کی معلومات اور اپنے اصول قوائد وضوابط عوام الناس تک پہنچانے کو مقدم سمجھےاور عوام سے اپنی دوری کو ختم کر دے نا کہ عوام سے پردہ پوشی اور دوری اختیار کی جائے اگر آپ حلقہ کی عوام کو تمام امیدواروں کی معلومات تک رسائی دیں گے تو ہو سکتا ہے کہ عوام بھی آپ کوامیدواروں کے درست حقائق سے اگاہی فراہم کردیں قانون تو موجود ہے لیکن اس کو استعمال صرف سیاسی افراد ہی کرتے ہیں اور اگر کبھی کوئی حلقے کا سرپھرا ای سی پی میں چلا جائے چیف صاحب سے ملنا ناممکن نظر آتا ہے اور موصوف کی ٹیم ووٹر کو کچھ بتانا مناسب نہیں سمجھتی یہاں ووٹ کوعزت دو کا نعرہ لگانے والی سیاسی پاڑٹی سے کہنا مناسب سمجھتا ہوں کہ کیا ہی بہترہوتا کہ ووٹ کی بجائے ووٹر کوعزت دینے کی بات کی جاتی جس کے خون نے یہ ملک سینچا اور جس کے دم کی وجہ سے یہ نظام چل رہا ہےلیکن اس وقت صرف الیکشن کمیشن آف پاکستان سے یہی درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ کوئی سنے یا نا سُنے کم از کم آپ ہی ووٹر کو عزت کا نعرہ اپنا لیں کیوںکہ اگر ووٹر ہو گا تو ووٹ ہو گا اور اگر ووٹ ہو گا تو انتخابات ہوسکیں گے اور آزادانہ اور منصفانہ انتخابات تبھی ممکن ہیں جب ووٹر کا آپ کا اعتماد ہو گااور یہی وجہ ہے کہ ابھی تک ہمارے جنرل الیکشن کا ٹرن آوٹ 60فی صد سے زیادہ نا ہوسکاانشااللہ اگلی تحریر میں ایک مکمل نظام وضاحت سے بیان کروں گا جس پر عمل کر کے بچت بھی ہوگی (جاری )
 

M.Qasim Saleem
About the Author: M.Qasim Saleem Read More Articles by M.Qasim Saleem : 9 Articles with 5191 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.