عالمی ذرائع ابلاغ میں کمبھ میلے پر بڑے زور و شور سے
تنقید ہورہی ہے لیکن اس معاملے ہندوستان کا ہم پیالہ ہم نوالہ اسرائیل بھی
پیچھے نہیں ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اقتدارمیں رہنے کے لیے مودی کی طرح
یاہو بھی مذہبی انتہاپسندوں کا محتاج ہے اور دونوں کو ان کی ناز برداری
کرنی پڑتی ہے۔ مودی جی کے لیے جس طرح کمبھ میلے کو روکنا ممکن نہیں تھا اسی
طرح صفد شہر کے سالانہ اجتماع کو منسوخ کرنا بھی یاہو کے بس میں نہیں تھا ۔
گذشتہ برس (2020ء مںر) اسرائینو حکام نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے سبب اس
مذہبی تقریب کے انعقاد کو روک دیا تھا لیکن اس سال چونکہ بڑے پیمانے پر
ٹیکہ کاری ہوچکی ہے اس لیے اجازت دے دی گئی حالانکہ ٹیکہ لگ جانا کورونا کے
خلاف صد فیصد تحفظ نہیں ہے۔ اس کے باوجود احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہر حال
30 ؍ اپریل کی صبح ہزاروں یہودیسالانہ مذہبی تقریب کے لیےجبل الجرمق پر
حاخام شمعون بار یوحائی کی قبر پر جمع ہوگئے ۔
وبا کے بعد گویا یہ اسرائیلکا سب سے بڑا اجتماع تھا۔ منتظمیننے ملک کے طول
و ارض سے تقریباً 30 ہزار افراد کو لانے کے لےگ 650 سے زیادہ بسوں کا
اہتمام کیا تھا حالانکہ مقامی اخبارات کے مطابق ایک لاکھ لوگ جمع ہوگئے تھے
۔اس بیچ وہاں وہاں تقریب کے دوران بھگدڑ کے نتجےک مںا کم از کم 44 افراد
لقمۂ اجل بن گئے اور 150 کے قریب شدید زخمی ہو گئے۔ اگر یہ حادثہ نہ ہوتا
بناذمنس نیتنیاہواس پر ٹویٹ کرکے اسے "ایک بڑی آفت" نہیں قرار دیتے تو کسی
کو اس کا پتہ بھی نہیں چلتا ۔ جن لوگوں کو اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ تیرتھ
سنگھ راوت کے بیان مضحکہ خیز لگتے ہیں انہیں اسرائیل وزیر صحت کا بیان دیکھ
لینا چاہیے تاکہ مشابہت واضح ہوجائے ۔ اسرائیل کے وزیر صحت یعقوب
لٹزمانانتہائی قدامت پسند یونائیٹڈ تورہ یہودی پارٹی کے سربراہ ہيں۔ انہوں
پچھلے سال کورونا کی وبا پر کہا تھا کہ دنیا اپنے خاتمے کی طرف گامزن ہے
اور جلد "مسیحا" زمین پر اتر کریہودیوں کی حالت زار کو بدل دے گا۔
اسرائیل کے وزیر صحت نے کورونا کے معاملے میں احتیاط یا علاج کے بجائے ایک
انٹرویو ميں کہا تھا، "ہم دعا اور امید کر رہے ہیں کہ مسیحا فسح تہوار کے
موقع پر پہنچے گا، جو ہماری نجات کا وقت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مسیحا آئے
گااور جس طرح خدا ہمیں مصر سے نکال لایا تھا اسی طرح ہم کو باہر لے آئے گا۔
بہت جلد ہم آزادی کے ساتھ نکلیں گے اور مسیحا ہميں دنیا کیديگر تمام
پریشانیوں سے نجات دلائے گا‘‘۔ ویسے نیتن یاہو نے اپنے وزیر صحت کے بیانات
کو مسترد کرکے دو ہفتوں کا لاک ڈاون لگا دیا ۔اس دوران یاہو وزیر صحت کے
انتہا پسند حامیوں نے لاک ڈاون کی سب سے زیادہ مخالفت کی ۔ الٹرا آرتھوڈوکس
سخت گیر، قدامت پسند، شدت پسندوں نے حکومتی ہدایات پر عمل کرنے سے انکار
کردیااور وباکے پھیلاو سبب بن گئے ۔ان کی آبادی والے علاقوں میں ہر تیسرے
شخص میں کورونا کی تشخیص ہوئی اور مجموعی طور بھی اسرائیل کے زیادہ تر
کورونا کیسز ان ہی علاقوں سے سامنے آئے جہاں پر ان تنگ نظر یہودیوں کی
آبادی زیادہ ہے۔ کمبھ میں مہا منڈلیشور کی طرح اسرائیل کےسابق ربی اعظم
علیاہو بخشی کی بھی کورونا سے موت ہوئی ۔
اسرائیل کی خوشنما شبیہ سے مرعوب دانشور اگر وہاں کے داخلی خلفشار کو غور
سے دیکھیں تو ان کی رائے بدل جائے گی ۔ مثلاً دنیا کے کسی ملک کی بابت اگر
پتہ چلے کہ وہاں سیاسی عدم استحکام کا یہ عالم ہے ہر چند ماہ بعد سرکار
گرجاتی ہے تو ا سے ایک ناکام ریاست قرار دے دیا جائے گا لیکن اگر یہ بتایا
جائے کہ وہ اسرائیل ہے جہاں پچھلے دو سالوں میں چار مرتبہ انتخابات کرنے کی
نوبت آگئی تو کہا جائے گا اسرائیل تو دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور
مہذب ترین ملک ہے ۔ وہاں جمہوریت کا شجر پھل پھول رہا ہے اور جہاں جمہوریت
کی کھیتی لہلہاتی ہو وہ جنت نشان خطۂ ارض ہے۔ اس کے بعد اگر یہ انکشاف ہو
کہ کیہ ملک میں پے درپے برپا ہونے والے سیاسی بحران کی بنیادی وجہ ملک کے
سربراہ پر بدعنوانی کے الزامات ہیں اور وہ خود کوجیل جانے سے بچانے کے لیے
پوری قوم کو مصیبت میں ڈال دیتا ہے تو کہا جائے گا کہ وہ بدبخت حکمراں کبھی
بھی الیکشن نہیں جیت سکتا ، لیکن پھر یہ بتایا جائے کہ وہ عظیم ہستی بن
یامن نیتن یاہو ہیں تو لہجہ بدل جائے گا اس لیے کہ یاہو تو دنیا سب سے
زیادہ بااثر سیاسی رہنما ہے۔
یاہو کے بائیڈن سے مودی تک سب سےبہت خوشگوار تعلقات ہیں ۔ مصرو سوڈان کے
بعد اب اس نے خلیجی ممالک سے بھی دوستی کرلی ہے۔ امن کا وہ نام نہاد
پیغامبر ساری دنیا کے لیے بہترین نمونہ بنا ہوا ہے ۔ ذرائع ابلاغ کا یہ
کہنا ہے کہ اس سےقابل سیاستداں چراغ لے کر ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملے گا۔ کسی
قوم کے بارے میں اگریہ اطلاع دی جائے کہ دوسالوں میں چار مرتبہ انتخاب کرنے
کا موقع ملنے کے باوجود وہ ایک مستحکم حکومت کے قیام میں ناکام ہوجائے تو
اس کی بابت یہ رائے قائم کی جائے گی کہ اس سے زیادہ اڈیل اوراحمق قوم اس
زمین کی پیٹھ پر دوسری نہیں ہوسکتی لیکن پھر یہ بتایا جائے کہ ایسا کرنے
والے یہودی ہیں تب منظر بدل جائے گا ۔ لوگ کہیں گے یہودی خواتین تو پیدائش
سے قبل اپنے بچوں کو نوبل انعام یافتہ بنانے کا منصوبہ بنالیتی ہیں ۔
دنیاکے سارے دانشور جس قوم میں پیدا ہوتے ہوں، اس سے بھلا یہ توقع کیسے کی
جاسکتی ہے کہ وہ یکے بعد دیگرے چار مرتبہ معلق پارلیمان کا انتخاب کرے ۔
اسرائیل کے بارے میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہودیوں کے افتراق و انتشار
کا یہ عالم ہےکہ اپنی 72 سالہ تاریخ میں ایک مرتبہ بھی انہوں نے کسی ایک
پارٹی کو غالب کثرت تو دور معمولی اکثریت سے بھی نہیں نوازہ ۔ اس حماقت کو
آزادیٔ فکر و نظر کی چادر تلے نہیں چھپایا جاسکتا ہے ۔ اہل مغرب اور ان سے
مرعوب دانشوروں سےاگر یہ پوچھا جائے کہ انتخاب سے قبل ایک دوسرے کے خون کی
پیاسی جماعتیں اقتدار میں حصے دار ی اور عیش و عشرت کی خاطر شیر و شکر کیوں
ہوجاتی ہیں؟ تو اسے عظیم تر قومی مفاد میں ایثار و قربانی کا نام دے کر
سراہا جائے گا لیکن وہ اتحاد دیر پا کیوں نہیں ہوتا اور معمولی باتوں پر
کیوں پارہ پارہ ہوجاتا ہے تو اس حریت عمل کا خوشنما نام دیا جائے گا ۔ اس
رویہ کو ذہنی غلامی یا مرعوبیت کی انتہا نہ کہا جائے تو کیا نام دیا جائے؟
سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ سوال ان لوگوں سے ہے جو دن رات اسرائیل کے نام سے
مسلمانوں کو عار دلاتے رہتے ہیں ۔
اسرائیل کے انتخابی نتائج پر نظر ڈالیں تو ایک دلچسپ صورتحال نظر آتی ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دوسروں کو لڑا کر اپنا کام نکالنے والے آپس میں بری
طرح دست و گریباں ہیں ۔ سن 2019 کے بعد سے ہونے والے اب تک کےتمام عام
انتخابات میں کسی کو بھی واضح برتری نہ ملنا اسرائیلی سیاست میں گہری تقسیم
کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسرائیل کے ایوان پارلیمان میں اکثریت کے لیے 61
نشستیں درکار ہیں اور وہاں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرنے والی لیکوڈ کے پاس
فی الحال صرف 30 نشستیں نیز دوسرے نمبر کی روشن مستقبل پارٹی محض 16پراٹکی
ہوئی ہے۔ اسرائیل میں یاہو کے سیاسی اتحاد کے پاس 52 تو دوسرے کے پاس 59
نشستیں ہیں ۔ اس کے باوجود امیت شاہ کی طرح نیتن یاہو کو پھر سے جوڑ توڑ
کرکے حکومت سازی کا یقین ہے ۔ اس کو صدر مملکت نے حکومت بنانے کی دعوت دی
ہے اور ارکان پارلیمان کے ساتھ سودے بازی میں مصروف ہے
عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ اگر برسرِ اقتدار جماعت اکثریت حاصل کرنے میں
ناکام ہوجائے تو اقتدار کے دعویٰ سے دستبردار ہوجاتا ہے۔ یاہو کی جماعت
لیکوڈ کوسب سے زیادہ ۳۰ نشستوں پر کامیابی تو حاصل ہوئی ہے لیکن یہ تعداد
پچھلی مرتبہ سے ۵کم ہے ۔ اس کے پاس اتحادیوں سمیت کل52 نشستیں ہیں ۔ یعنی
حریف اتحاد کے مقابلے وہ بری طرح پسپا ہوگیا ہے۔ اس کی امیدیں اب دائیں
بازو کی جماعت یمینا سے وابستہ ہو گئی ہیں ۔ وہ سات نشستوں پر کامیاب ہوئی
ہے۔ تیسرے نمبر کی یمینا کے سربراہ نفتالی بینیٹ 2006 میں نتین یاہو کے چیف
آف سٹاف تھے اور 2008 تک اسی عہدے پر فائز رہے۔ سیاست میں آنے سے قبل
اسرائیلی آبادکاری تنظیم کے سربراہ کی حیثیت سے شہرت پانے والے نفتالی نتین
یاہو کی حکومت میں مختلف سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔اس لیے انہیں ساتھ
کرلینا یاہو کے لیے آسان ہے مگر پھر بھی ۶۱ کا جادوئی عدد دو کے فاصلے پر
رہ جاتا ہے۔اس انتشار نے چار نشستوں پر کامیاب ہونے والی متحدہ عرب پارٹی
کو کنگ میکر بنا دیا ہےاور یاہو سمیت سبھی سیاسی جماعتیں اس سے مدد کی گہار
لگا رہی ہیں ۔
حرمیں شریفین کی طرح مسجد اقصیٰ میں ماہ رمضان کے اندر نماز جمعہمیں ہزار
وں مصلیان شرکت کرتےہںں اور اس دوران اسرائیل کی جانب سے مختلف پابندیاں
عائد کی جاتی ہیں ۔ امسال پہلے جمعہ کومغربی کنارہ کے ان 10 ہزار افراد کو
مسجد اقصیٰ میں داخلہ کی اجازت دی گئی ہے جنہیں کورونا وائرس کا ٹیکہ دیا
جاچکا ہے۔ اس طرح کی زیادتی ہر سال ہوتی ہے مگر اس سال کشیدگی کم کرنے کی
خاطر اسرائیل نے باب العامود کھولنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے باوجود قابض صہو
نی فوج اور پولس کی فول پروف سیکیورٹی میںیہودی شرپسندوں کی مسجد اقصیٰ میں
داخل ہوکر اس کی بے حرمتی کا سلسلہ جاری ہے۔ ۲۶ ؍ اپریل کو ۷۶ اور اس کے
بعد ۲۸ ؍ اپریل کو 134 یہودی آبادکار مسجد اقصیٰ مںا داخل ہوئے۔ یہودی
شرپسندوں کی طرف سے قبلہ اول کی بے حرمتی ایک ایسے وقت مںک کی جاری ہے جب
فوج نے فلسطیقص روزہ داروں کی قبلہ اول مںی عبادت پر قدغنوں میں اضافہ
کردیا ہے۔ اس کے باوجود ماہِ رمضان میں خاص طور بڑے پیمانے پر اہل ایمان
مسجد اقصیٰ میں جمع ہوکر نمازِ جمعہ ادا کرتے ہیں اور جمعتہ الوداع کا منظر
تو قابلِ دید ہوجاتا ہے۔ |