کورونا کی وبا اور وزیر اعظم کا عالمی اقتصادی فورم میں خطاب

ملک عرصۂ دراز سے کورونا کی دوسری لہر کے لپیٹ میں ہے لیکن وزیر اعظم چونکہ انتخابات سے ابھی فارغ ہوئے ہیں اس لیے بہ دلِ ناخواستہ اس کی جانب متوجہ ہوئے ہیں ۔ وزیر اعظم کو مختلف ماہرین پھر سے لاک ڈاون لگانے کا مشورہ دے رہے ہیں مگر لیکن وہ تذبذب میں مبتلا ہیں کیونکہ انہیں سرمایہ داروں کے مفادات کا بھی خیال رکھنا ہے اور عوام کے غم و غصے سے بھی بچنا ہے ۔ ماہرین کے درمیان کورونا کی دوسری لہر کے عوامل سے متعلق تفصیل میں اختلاف ہے لیکن سب اتفاق کرتے ہیں کہ اس کی بنیادی وجہ عوام کی لاپرواہی ہے۔ لوگ جب اپنے اس دشمن سے پوری طرح غافل ہوگئے تو وہ اپنے شکار پر ٹوٹ پڑا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ بے فکری کہاں سے آئی ؟ اس کا منبع و مرجع کہاں ہے؟ جس نے پوری قوم کو ایک بیجا خود اعتمادی کا شکار کرکے کورونا کا ترنوالہ بنادیا۔ بے شک اس میں ذرائع ابلاغ کا بڑا حصہ ہے مگر میڈیا کے ذریعہ رائے عامہ کو ہموار کرلینا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ۔ اس لیے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ وہ عظیم ہستی کون سی ہے جس نے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ یہ کارنامہ انجام دے دیا کہ لوگ جانتے بوجھتے آگ کے دریا میں کود گئے ؟ اس سوال کا جواب پانے کے لیے ایک تقریر کو یاد کیجیے۔

28 جنوری 2021 کو عالمی اقتصادی فورم (داؤس) میں بین لاقوامی اجلاس کا انعقاد ہوا اور وز یر اعظم نریندر مودی نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ اس میں خطاب کیا ۔ وزیر اعظم کی تقریر میں وہ جرثومہ موجود تھا جس نے پوری قوم کو کورونا کی بابت غفلت کا بیج بویا ۔ اس کے بعد ویکسین کو برآمد کرکے اس فصل کی آبیاری کی گئی۔ انتخابی مہم میں زور و شور سے حصہ لے کر فصل کو کاٹا گیا اور اب ایک زہریلے اناج نے پوری قوم کو بیمار کردیا۔ وزیر اعظم نے مذکورہ تقریر میں سینہ ٹھونک کر اعلان کیا تھا کہ ’تمام تر خدشات کے درمیان آج میں آپ سبھی کے سامنے 1.3 بلین سے زائد ہندوستانیوں کی جانب سے دنیا کے لئے یقین، اثبات اور امید کا پیغام لے کر آیا ہوں‘۔ کسے خبر تھی ۳ ماہ کے اندر یہ یقین بے یقینی میں بدل جائے گا ۔ چہار جانب بے ثباتی کا دور دورہ ہوگا اور امید کے چراغ جلتی چتاوں میں تبدیل ہوجائیں گے ۔

مودی جی نے کہا تھا ’ جب کورونا آیا، تو بھارت کے سامنے بھیکممشکلات نہیں تھیں۔ گذشتہ برس فروری۔مارچ۔اپریل میں دنیا کے متعدد نامور ماہرین اور بڑے بڑے اداروں نے پیشن گوئی کی تھی کہ پوری دنیا میں کورونا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک بھارت ہوگا‘ وزیر اعظم نے جس پیشن گوئی کا انکار کردیا تھا آج وہ حقیقت بن کر رونما ہوگئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا ’لوگ کہہ رہے تھے بھارت میں کورونا کی سونامی آئے گی‘۔ آج وہ خود تسلیم کررہے ہیں کہ ملک میں کورونا کی سونامی وارد ہوچکی ہے ۔ کورونا ہمارا امتحان لے رہا ہے ۔ یہ بات درست ہے لیکن چونکہ وزیر اعظم نے اس امتحان کی کوئی تیاری نہیں کی اس لیے وہ ناکام ہوچکے ہیں۔ وزیر اعظم نے دراصل اپنے بلند بانگ دعووں میں جلدی کردی اور اس کی قیمت قوم کے غریب لوگوں کو چکانی پڑی ۔ ان لوگوں نے جنھوں نے اچھے دنوں کی امید میں مودی جی کے سر اقتدار کا تاج رکھا تھا۔ وہ جو گھر میں گھس کر مارنے پر بغلیں بجا رہے تھے لیکن کورونا نے گھر میں گھس کر ماردیا۔ ہر ہر مودی گھر گھر مودی کے چکر میں گھر گھرکے اندر کورونا پہنچ چکا ہے۔

وزیر اعظم کے مطابق وہ جو ’ کسی نے 800۔700 ملین ہندوستانیوں کے کورونا سے متاثر ہونے کی بات کہی ‘ تھی وہ سچ ہوچکی ہے مگر ان اعدادو شمار کو بی جے پی ریاستی سرکاریں چھپا رہی ہیں اس کے باوجود تادمِ تحریر(25؍ اپریل)17 ملین کو تو تسلیم کیا جاچکا ہے ۔ کورونا سے مہلوکین کی تعداد دو لاکھ بتائی جارہی ہے بعید نہیں کہ وہ 2 ملین سے تجاوز کرچکی ہو جس کا اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا اور بڑے طمطراق سے وزیر اعظم نے اس کی تردید کی تھی اس لیے کہ کئی صوبوں میں سے زیادہ لوگوں کے ہلاک ہونے کا خوف ظاہر کیا جارہا ہے۔یہ کوئی خیالی اندیشہ نہیں ہے ۔ اس کی ہیبت ناک مثالیں مودی اور شاہ گجرات سے آرہی ہیں۔ 12؍ اپریل کو جبکہ حالات اس قدر سنگین بھی نہیں ہوئے تھے اسی وقت سے دھوکہ دھڑی کا کھیل شروع کردیا گیا۔ احمد آباد کے اندر حکومت نے اعلان کیا کہ کل 20 لوگ کوویڈ سے ہلاک ہوگئے جبکہ صرف 17 گھنٹوں کے اندر ایک کوویڈ اسپتال سے سندیش اخبار کے نامہ نگار 63لاشوں کی گنتی کی۔ اب اگر وہ پورے 24گھنٹے میں سبھی اسپتالوں سے اعدادو شمار جمع کیے جاتے تو وہ کتنے ہوتے؟

امبانی کے جام نگر میں گرو بوبند اسپتال سے اپریل 10اور 11 کو 100 لاشوں کو جاتے دیکھا گیا جبکہ سرکار کے مطابق کوئی موت ہی نہیں ہوئی ۔ سورت سے انہیں تاریخوں میں 22 موت یومیہ کا سرکاری عدد تھا جبکہ شہر میں ایک دن کے اندر 700 لوگوں کے آخری رسومات کی گنجائش ہے اور وہاں پر آگے ٹھنڈی ہی نہیں ہوئی یہاں تک کہ بھٹی کی مسلسل گرمی سے لوہے کی سلاخ تک مڑ گئی۔ بدقسمتی سے اس فریب کاری کا شکار وہ گجراتی ہوئے جنھوں نے دو مرتبہ قومی انتخاب میں بی جے پی صد فیصد نشستوں پر کامیابی سے نوازہ تھا۔ کورونا کی وبا کے دوران بھی میونسپل انتخابات میں کمل کھلایا تھا۔ ان مثالوں سے دولاکھ اموات کی حقیقت ازخود سامنے آجاتی ہے۔ اس پر گجرات ہائی کورٹ نے ازخود نوٹس لے کر سرکار سےوضاحت طلب کی کہ ہر روز 8تا 10 روپورٹس آرہی ہیں اور ایسے قابلِ اعتماد اخبارات بے بنیاد باتیں نہیں لکھ سکتے ۔ اس کے باوجو وزیر اعظم نے دعویٰ کردیا تھا کہ ’ہم نے کووِڈکے لئے مخصوص طبی بنیادی ڈھانچہ تیار کرکے انسانی وسائل کو کورونا سے لڑنے کے لئے تربیت فراہم کی، جانچ اور پتہ لگانے کے لئے ٹکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا‘۔ کیا یہی وہ ڈھانچہ ہے جس کی قلعی موقر اخبارا ت نے کھول کر رکھ دی۔

وزیر اعظم نے ’ کورونا کے خلاف لڑائی کو ایک عوامی تحریک میں تبدیل ‘ کرنے پر فخر جتانے کے بعد کہا تھا ’آج بھارت دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جو اپنے زیادہ سے زیادہ شہریوں کی زندگی بچانے میں کامیاب رہا ہے اور جہاں آج کورونا سے متاثر لوگوں کی تعدادتیزی سے گھٹ رہی ہے‘۔ اب یہ بات الٹ گئی ہے۔ ہندوستان ہر روز ایک نیا ریکارڈ قائم کررہا ہے۔ وزیر اعظم کی ایک بیماری خود ستائی بھی ہے ۔ اس کے تحت انہوں نے کہا تھا ’کورونا شروع ہونے کے وقت ماسک، پی پی ای کٹ، ٹیسٹ کٹ ہم باہر سے منگاتے تھے۔ آج ہم نہ صرف اپنی گھریلو ضرورتیں پوری کر رہے ہیں بلکہ انہیں دیگر ممالک بھیج کر وہاں کے شہریوں کی خدمت بھی کر رہے ہیں۔ پوری دنیا صحت مند رکھنے کے لیے ہندوستان نے 150 سے زائد ممالک کو ضروری ادویہ بھی ارسال کیں‘۔ آج حالت یہ ہے جو دوائی باہر بھیجی گئی تھی اس کی ملک کے اندر شدید قلت ہے۔ کالا بازاری کا بول بالا ہے اور ہر کوئی پوچھ رہا ہے اپنا ہاتھ جلاکر دوسروں کی مدد کرنا کون سی دانشمندی کا کام تھا ؟

ویکسین کی بابت وزیر اعظم نے کہا تھا ’ ابھی تو محض دو میڈ اِن انڈیا کورونا ٹیکے دنیا میں آئے ہیں، آنے والے وقت میں کئی اور ٹیکے بھارت سے بن کر آنے والے ہیں‘۔ اس کی حقیقت یہ ہے ٹیکے ہندوستان میں بنتے ضرور تھے مگر اس میں استعمال ہونے والے اہم اجزا ءامریکہ سے برآمد کیے جاتے تھے۔ جو بائیڈن کی انتظامیہ نے امریکہ فرسٹ کا نعرہ لگا کراب اس کی فراہمی روک دی ہے اس لیے ان دو ٹیکوں کی پیداوار بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ پہلے خود کفالت کے زعم میں بیرونِ ممالک کمپنیوں کوپیشگی آرڈر تک نہیں کیا گیا اور راہل و منموہن نے اس کا مشورہ دیا تو تمسخر اڑایا گیا ۔ اب جبکہ ان سے رابطہ کیا جارہا ہے تو معذرت کررہے ہیں۔ ان لوگوں کی صنعت میں امریکہ وغیرہ نے قبل از وقت سرمایہ کاری اور معاہدہ کررکھا ہے۔ حکومت ہند نے اپنی کمپنیوں میں بھی پیسہ نہیں لگایا ۔ وزیر اعظم نے اُس وقت آئندہ چند مہینوں میں تقریباً 300 ملین کی ٹیکہ کاری کے ہدف کا اعلان کیا تھا جو ابھی تک پر 140ملین پربھی نہیں پہنچا اور آگے اس کی رفتار بڑھنے کے بجائے کم ہونے کا امکان ہے۔

وزیر اعظم نے اس بیچ بنگال فتح کرنے پر اپنی ساری توانائی صرف کرنے کے علاوہ 12مارچ کو ’آزادی کے امرت مہوتسو‘ یعنی 75؍ ویں سالگرہ کا جشن منانے کی بھی تیاری شروع کردی تھی ۔ اس موقع پر احمد آباد میں تقریر کرتے ہوئے مودی جی نے کہا تھا ’آج دانڈی یاترا کی سال گرہ کے موقع پر ہم باپو کے اس کرم استھل پر تاریخ بنتے ہوئے بھی دیکھ رہے ہیں اور تاریخ کا حصہ بھی بن رہے ہیں۔ آج آزادی کے امرت مہوتسو کا آغاز ہو رہا ہے، اس کا پہلا دن ہے۔ امرت مہوتسو 15 اگست 2022 سے 75 ہفتے قبل، آج سے شروع ہو رہا ہے، جو 15 اگست 2023 تک جاری رہے گا‘۔انہوں نے امرت مہوتسو کی پانچ بنیادٰیں جدوجہد، صورتحال ،حصولیابی ، عمل اور عزائم کا ذکر کیا تھا لیکن درمیان کورونا کی تباہ کاری نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ اقتدار کے نشے میںمست وزیر اعظم بھول گئے کہ کورونا کے یومیہ معاملات جو یکم فروری کو 8 ہزار سے کچھ زیادہ تھے اب 3 گنا بڑھ کر 25 ہزار یومیہ پر پہنچ گئے ہیں۔ انہیں آزادی کا جشن منانے کے بجائے کورونا سے مقابلے کی بابت فکر مند ہونا چاہیے لیکن جسکا مطمح نظر اس جشن کی آڑ میں ریاستی اور قومی انتخاب جیتنا ہو وہ بھلا کورونا پر کیسے توجہ دے سکتا ہے؟ وہ اسی خمار میں جھوم رہے تھے کہ ہندوستان بغیر ویکسین کے کورونا مکت (سے پاک) ہوچکا ہے۔ وزیر اعظم اور ان کے ہمنواوں کی خوش فہمی کی بہت بڑی قیمت قوم چکا رہی ہے۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1218386 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.