آزادی کشمیر کا ہیرو اشرف خان صحرائی!

آل پارٹیز حریت کانفرنس اورآزادی کشمیر کی ایک اور توانا آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔ ایک ایسا انسان چلا گیاجس نے اپنی آدھی سے زیادہ زندگی کشمیرکی آزادی ،حق خود ارادیت کے لیے وقف کی ۔وہ لاکھوں کشمیریوں کے دل کی آوازبنارہا۔جب دنیا چھوڑی تو جیل سے جنازہ نکلا۔اس نے اپنی زندگی کے خوبصورت دنوں اور ٹھنڈی راتوں کو کشمیریوں اور ان کی آزادی کے لیے قربان کیا ،بلکہ اپنے اہل وعیال کو پس پشت ڈال کرجیلوں میں بڑی کٹھن اور صبر آزما صعبوتیں برداشت کیں۔ انہوں نے بڑھاپے میں جوان بیٹے کی جدائی کا صدمہ بھی برداشت کیا۔ان کا جوان بیٹا جنید صحرائی معاشیات دان بننا چاہتاتھا۔ وادی کشمیر کے ہزاروں ہونہار سپوت جنید صحرائی کی طرح بھارت کے ظلم و جبر کے خلاف کھڑے ہوئے ۔ کیرئیر کی جگہ بندوق کو مستقبل بنا یااور پھر کسی دن اپنی آزادی کے لیے لڑتے ہوئے شہید ہوگیے۔جنید صحرائی کوبھی گزشتہ سال سری نگر میں حذب المجاہدین کی کمانڈ کرتے ہوئے بھارتی فورسز نے شہید کردیا تھا۔ وہ باہمت و بلند حوصلہ انسان اپنی آخری سانس تک بھارت کی قید و بند کے آگے ڈٹا رہا۔وہ ڈرنے اور ٹوٹنے کا قائل نہیں تھا۔ وہ اپنی جگہ کھڑا ایک بات کرتا رہا کہ کشمیر بنے گا پاکستان۔ وہ کشمیر کو پاکستان میں ضم کرنے کے متحرک حامی تھے۔ تب ہی وہ ہر فورم پر اقوام متحدہ ، ریڈ کراس اور ہیومن رائٹس واچ اور ان جیسی کئی عالمی تنظیموں کے سامنے ببانگ دہل کشمیر یوں کے حقوق غصب کرنے ،ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کی حقیقت بیان کرنے سے کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔ وہ صحیح معنوں میں کشمیر دھرتی کا بیٹا تھا۔ ایک ایسا بیٹا جس نے تادم مرگ دشمن کشمیر کو ناکوں چنے چبوائے اور خون کے آنسو رلائے۔ آج وہ صحرائی صحرا میں کھو گیاہے۔

جموں و کشمیر کی کوٹ بھلوال جیل میں کشمیر کی معروف شخصیت اشرف خان صحرائی کی وفات کی تصدیق ہونے کے بعد کشمیر بھر میں سوگ کا سماں ہے۔ اشرف خان صحرائی حریت رہنماسید علی گیلانی کے دست وبازو تھے۔ ان کا سیاسی کیرئیر نصف صدی پر محیط تھا۔وہ گزشتہ ایک سال سے بھار ت کے بدنام زمانہ قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت پولیس تحویل میں تھے۔بھارت نے 1989 سے لیکر اب تک ہزاروں کشمیریوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کی آڑ میں تشدد و ریاستی جبر کا نشانہ بنایا ہے۔ دنیا یہ بات جانتی ہے کہ کشمیریوں کی آزادی کی مسلح جد جہد کا نقطہ آغاز اس خطے کی آزادی اور پاکستان میں ضم ہونے کے مواقع تلاش کرنا ہے۔کشمیریوں کے حقوق کا وہ واحد راستہ جس میں فریقین کے باہمی رضا ورغبت کا احترام کرتے ہوئے کسی نتیجہ کی طرف بڑھا جاسکتاہے، اس سے بھارت ہمیشہ راہ فرار اختیار کرتا رہاہے۔اقوام متحدہ کی کئی قرارد ادیں اس بات پر مہر ثبت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ کشمیر بارے بھارت کی نیت میں کھوٹ ہے۔ بھارت بلک سیفٹی ایکٹ کو لاگو کرکے نظام عدل کو ثبوتاژ کرنے کے ساتھ ساتھ اس قانون کا استعمال اپنے ناپسندیدہ لوگوں پر کرتا آرہاہے۔ جس کی وجہ سے انسانی حقوق کے عالمی احترام کی تعریف کی نفی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی بھارتی ریاستی جبر کا بھیانک چہرہ آرٹیکل 370 اور35 اے کے خاتمے کے بعد سامنے آیا۔ جس کے بعد پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک جو کشمیر کی آزادی کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے حیران و پریشان ہوگئے۔ اشرف خان صحرائی نے اپنے چھ دہائیوں پر محیط سیاسی کیرئیر میں تقریباََ سولہ سال بھارتی جیلوں میں گزارے۔ اشرف خان صحرائی کے بعد حریت کی جنگ کی شمع بجھے گی نہیں بلکہ اور روشن ہوگی۔ کیوں کہ آزادی کی جس روشنی کو بھارت اپنے اوچھے ہتھکنڈوں سے چھپانا چاہتا ہے وہ اپنا راستہ خود بنالے گی۔

اشرف خان صحرائی نے جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے کشمیر کی سیاسی انتخابی عہدوں پر کام کرتے ہوئے موجودہ وبائی صورتحال میں بھارتی جیلوں میں قید کشمیریوں کی صحت کے لیے فک مند رہتے تھے۔ ان کے مطالبات اس وقت زور پکڑ نے لگے جب بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے کشمیریوں کی گرفتاریاں عمل میں لانی شروع کیں۔ اس حوالے سے جیلوں میں قید ہزاروں کشمیریوں کی صحت و سلامتی کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے رہتے تھے۔ اشرف خان صحرائی کا انتقال بھی کورونا کے باعث ہوا جس کے بعد ان کے اس بیانیے کو تقویت ملتی ہے کہ کوروناکے پھلاؤ کے بعد بھارتی جیلوں میں کشمیری قیدیوں کو صحت کی مناسب سہولت نہیں د ی جارہی۔اس دوران کئی علیحدگی پسند کشمیری رہنماؤں کو جیل میں ڈالا گیا اور بہت سے کشمیری اب تک بھارت کی جیلوں میں بند ہیں۔کشمیری میڈیا کی رپورٹ کے اعدادوشمار کے مطابق جموں کشمیر کی 13 جیلوں میں اس وقت طار ہزار پانچ سو پچاس افراد قید ہیں۔ ان میں اکثر علیحدگی پسند یا عسکریت پسندسے تعلق رکھنے والے افراد ہیں جنہیں بھارتی پولیس نے بغیر جرم ثابت ہوئے جیلوں کو بھرنے کے لیے قید میں رکھا ہوا ہے۔ جموں و کشمیرکی کوٹ بھلوال جیل میں جہاں اشرف خان صحرائی قید تھے، 884کشمیری قید ہیں۔سرینگر کی سینٹرل جیل میں 612 قیدی ہیں۔اس کے علاوہ قریباََ تین ہزار قیدی جموں، اْدھمپور، کٹھوعہ، بھدرواہ، کشتواڑ، راجوری، بارہمولہ، کپوارہ، اننت ناگ اور پلوامہ کی ضلعی جیلوں میں قید ہیں۔

کورونا کی وجہ سے جموں و کشمیر کی ایک درجن سے زائد جیلوں میں پانچ ہزار قیدیوں کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ کورونا کے پھیلاؤ کے سبب بڑھتے مریضوں کے پیش نظر جیلوں میں جگہ کی تنگی کی وجہ سے کشمیری قیدیوں کو مناسب سہولیات فراہم نہیں کی جارہی ۔ اشرف خان صحرائی کی وفات پر پاکستان سمیت دنیابھر میں موجود کشمیر کا دردرکھنے والے مسلمانوں نے گہرے دکھ اور غم کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان صاحب جمعہ کے روز سعودیہ عرب کے دورے پر جارہے ہیں ۔ دورہ پر روانہ ہونے سے پہلے انہوں نے حریت رہنمااشرف خان صحرائی کی بھارتی جیل میں انتقال کو عالمی برادری کے ضمیر پر دھبہ قراردیا ۔ عمران خان صاحب خود کو کشمیرکا سفیر کہتے رہے ہیں، اب وقت ہے کہ حقیقی سفارت کا حق اداکرتے ہوئے سعودی حکمرانوں کو بھارتی جبر کی کھلی تصویر دکھائیں اور او آئی سی کے دم توڑتے کردار کو از سر نو زندہ کریں۔


 

Muhammad Ansar Usmani
About the Author: Muhammad Ansar Usmani Read More Articles by Muhammad Ansar Usmani: 32 Articles with 21393 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.