کربلا اور حسینؓ (آٹھویں قسط)
(shabbir Ibne Adil, Karachi)
تحریر: شبیر ابن عادل حضور اکرم ﷺ نے جب اس دنیا سے ظاہری طور پر پردہ فرمایا تو سیدنا حسین ؓ صرف سات سال کے تھے۔ صرف چھ ماہ بعد ہی ان کی عظیم والدہ ماجدہ سیدنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بھی انتقال ہوگیا۔ لیکن اس کم عمری میں بھی بہت کچھ سیکھ لیا تھا اور اسلام کی بنیادی تعلیمات، قوت ادراک میں ترقی، فہم و شعور کا فروغ، حافظہ میں تیزی اور مستقبل میں عظیم ذمہ داریوں کے لئے انہیں لڑکپن ہی میں تربیت دے دی گئی تھی۔ چونکہ سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا اپنے عظیم والد محترم ﷺ سے پوری طرح تربیت یافتہ تھیں، اس لئے انہوں نے جہاں ممکن ہوا، اپنے بچے کی تعلیم و تربیت پر اور اس کے اخلاق سنوارنا، تعلق باللہ پیدا کرنے پر بھرپور توجہ دی۔ سیدہ فاطمۃ الزہرا ؓ کا یہ طریقہ تھا کہ جب اپنے فرزندوں میں کوئی لغزش پاتیں تو فوری طور پر انہیں متنبہ کرتیں۔
ایک دفعہ حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کسی بات پر آپس میں جھگڑ پڑے اور لڑتے جھگڑتے اپنی والدہ کے پاس پہنچے۔ ایک نے کہا کہ وہ مجھ سے لڑے ہیں، دوسرا بولا کہ اس نے مجھے بارے ہے، سیدہ فاطمہ ؓ نے اپنے دونوں شہزادوں کی بات سنی، پھر فرمایا کہ میں نہیں جانتی کہ کس نے مارا ہے اور کس نے مار کھائی ہے، میرے نزدیک تم دونوں مجرم ہو، تم دونوں نے آئین خدا اور قانون نبوی ﷺ سے روگردانی کی ہے، میرے بچو! اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حکم دیا تھا کہ (مفہوم کچھ یوں ہے) زمین میں لڑائی جھگڑے نہ کرو۔ اور تم لڑتے بھڑتے ہو، جاؤ جاکر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگو اور اپنے گناہ بخشواؤ۔ دونوں صاحبزادے اپنی والدہ کی بات سنتے ہی بارگاہِ ایزدی میں حاضر ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے توبہ کی اور آئندہ آپس میں صلح صفائی سے رہنے کا اقرار کیا۔
حضور اکرم ﷺ نے اپنی آل اولاد کے لئے صدقہ اور خیرات ممنوع قرار دیا تھا۔ ایک بار صدقے کی کچھ کھجوریں نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں لائی گئیں۔ اس وقت سیدنا حسن ؓ بھی اپنے ناناؐ کے ساتھ بیٹھے تھے۔ انہوں نے فوراً ایک کھجور لے کر منہ میں ڈالی اور چبانے لگے، آپؐ نے دیکھا تو ان کے منہ میں انگلی ڈال کر فرمایا کہ اگل دو، اگل دو اور یہ کہ کیا تجھے معلوم نہیں کہ خاندان نبوت میں صدقے کا مال کھاناجائز نہیں ؟ چنانچہ وہ کھچجور ان کے منہ سے باہر نکال دی گئی۔ اس کے بعد حضرت حسین ؓ نے زندگی بھر کسی مشکوک شے کو ہاتھ نہیں لگایا۔ وہ خود رسول اللہ ﷺ کے نواسے تھے اور ان کی بیٹی کے بیٹے تھے۔ اس مثالی تربیت کے نتیجے میں سیدنا حسن ؓ اور سیدنا حسین ؓ قیامت تک ایک مثال بن گے۔ بہادری اور شجاعت کے علاوہ تعلق باللہ، علم، فضل، زہد، تقویٰ، اخلاق اور مخلو ق خدا کے کام آنے کی۔ (جاری ہے)
.......
|