کربلا اور حسینؓ (نویں قسط)

کربلا اور حسینؓ
(نویں قسط)
تحریر: شبیر ابن عادل

حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی تربیت کے معیار کا اندازہ تو کیجئے کہ پیدائش کے بعد ان کے نانا محترم حضور اکرم ﷺ نے اپنا لعاب دہن انہیں چٹایا۔ امام الانبیاء کا لعاب دہن کا ادارک تو کیجئے کہ علم کے شہر کا کتنا علم جنت کے نوجوانوں کے سردار میں کتنا منتقل ہوا ہوگا۔ پھر ان کے والد محترم حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ، جنہیں حضور ؐ نے علم کے شہرکا دروازہ یا باب العلم قرار دیا اور ان کی والدہ بنت رسول ؐ (حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہ کی تربیت۔ اس کے نتیجے میں سیدنا حسین ؓ بچپن ہی سے بہت ذہین اور بے پناہ عقل مند اور علم کی دولت سے مالامال تھے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے وقت سیدنا حسین ؓ کی عمر مبارک صرف سات برس تھی۔

ایک دفعہ سیدنا حسین ؓ اپنے نانا جان ﷺ کے پاس تشریف فرما تھے، علمی محفل جمی ہوئی تھی، اسی دوران حضور ؐنے ان سے دریافت کیا کہ فرزند عزیز! یہ بتاؤ کہ مرتبے میں ہم بڑے ہیں کہ تم؟ حضرت حسین ؓ تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے بعدبولے کہ نانا جان، گستاخی معاف، رتبے میں تو ہم ہی بڑے ہیں۔ ان کا یہ جواب سن کر محفل میں موجود ہر شخص حیران اور ششدر رہ گیا۔ حضور ؐ نے دریافت کیا کہ وہ کیسے ؟؟ حضرت حسین ؓ نے عرض کیا کہ ذرا غور تو فرمائیے کہ جیسے میرے والد علی رضی اللہ عنہ ہیں، جن کی شان میں آپ ؐ نے فرمایا کہ أَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِ لَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُّوْسٰی (تمہاری میرے نزدیک وہی حیثیت ہے، جو حضرت موسیٰ ؑ کے نزدیک حضرت ہارونؑ کی تھی) (صحیح البخاری، المغازی، باب غزوہ تبوک، حدیث نمبر 4416)۔ اور ان کے متعلق آپؐ نے فرمایا تھا کہ "یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ أَوقَالَ یُحِبُّہُ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ " (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2975)۔ کیا ایسے باپ آپ ؐ کے بھی تھے؟ اور جیسی ہماری والدہ محترمہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا ہیں، جن کو آپؐ نے "سیدۃ نساء أھل الجنۃ " (صحیح البخاری، حدیث نمبر3624) کا خطاب دے رکھا ہے اور جن کی نسبت آپؐ کا فرمان ہے کہ " فَاطِمَۃُ بِضْعَۃُ مِنِّی " (صحیح البخاری، حدیث نمبر3714)۔

کیا ویسی ماں آپؐ کی بھی تھیں؟ اورجیسے ہمارے نانا خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ ہیں، کیا ویسے آپؐ کے نانا بھی تھے؟
تمام حاضرین ایک کم سن بچے سے اتنے برجستہ، معقول، مدلل اور عقل مندی سے بھرپور جواب سن کر حیران رہ گئے اور ہمارے حضور ؐ بھی ان کے اس جو اب سے بہت خوش ہوئے۔

سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ میں ایک دفعہ کسی بات پر رنجش ہوگئی اور دونوں نے کچھ مدت کے لئے علیحدگی اختیار کرلی کسی نے حضرت حسین ؓ کو حضرت حسن ؓ کا یہ پیغام پہنچایا کہ اگر میرا چھوٹا بھائی میرے پاس معذرت کرنے آجائے تو میں فوراً صلح کرلوں گا۔ حضرت حسین ؓ نے فرمایا کہ بھائی جان سے کہہ دو کہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہونے اور معافی مانگنے کو ہر وقت تیار ہوں، لیکن میں نے نبی اکرم ﷺ سے سنا ہے کہ جو شخص روٹھے ہوئے کو منانے جائے اور معافی مانگنے میں سبقت کرے وہ معافی دینے والے سے پہلے جنت میں جائے گا۔ اور میں یہ پسند نہیں کرتا کہ اپنے بڑے بھائی سے پہلے جنت میں داخل ہوں، اس لئے بہتر یہی ہے کہ آپ اپنا مرتبہ بڑھانے اور مجھ سے پہلے جنت میں جانے کے لئے خود میرے پاس تشریف لے آئیں اور میری دل جوئی فرمائیں۔ حضرت حسن ؓ نے یہ پیغام سنا تو بہت ہنسے اور فوراً حضرت حسین ؓ کے پاس جاکر ان کی دلداری کرنے لگے۔ (تہذیب تاریخ دمشق: 129/7)

ایک دفعہ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم (اپنی کمسنی کے دور میں) نماز سے قبل مسجد میں کھیل رہے تھے۔ ایک بوڑھا دیہاتی، جسے عرب میں اعرابی کہا جاتا تھا، آیا اور وضو کرنے بیٹھ گیا۔ وہ ابھی وضو کرنے کے مسنون طریقے سے واقف نہ تھا۔ دونوں صاحبزادوں نے دیکھا کہ وہ بے چارہ غلط وضو کررہا ہے، کبھی پاؤں پر پانی ڈالتا ہے اور کبھی چہرے پر چھینٹے مارتا ہے، تو انہوں نے اس کا مذاق اڑانے کے بجائے یہ کیا کہ اس کے قریب بیٹھ گئے، ایک نے دوسرے سے کہا کہ بھائی میں وضو کررہا ہوں، اگر کہیں غلطی ہوجائے تو بتا دینا۔ یہ کہہ کر اس نے وضو شروع کیا اور جان بوجھ کر وہی غلطی کی، جو اس بوڑھے اعرابی نے کی تھی۔ دوسرے نے روکا اور آگاہ کیا کہ یوں نہیں یوں کرنا چاہئے، محترم اباجان اسی طریقے سے وضوکرتے ہیں، بوڑھے نے یہ دیکھا تو اپنی غلطی درست کرلی۔ اور صحیح طریقے سے وضو مکمل کرلیا اور اس کو یہ خیال تک نہ آیا کہ یہ بچے مجھے تعلیم دے رہے ہیں۔ (البدایۃ والنھایۃ: 208/8)

ایک مجلس میں سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ وعظ فرما رہے تھے اور سیدنا حسین ؓ بھی وہیں تشریف رکھتے تھے، اس وقت حضرت حسین ؓ کی عمر آٹھ نو برس کے لگ بھگ ہوگی، ایک سائل نے باب العلم حضرت علی ؓ سے دریافت کیا کہ یہ تو بتائیے کہ شریعت کے مطابق زیادہ عقل مند کون ہے؟ حضرت حسین ؓ نے اپنے والد محترم کی جانب دیکھا اور عرض کیا کہ اگر بے ادبی نہ ہو اور آپ اجازت دیں تو اس کا جواب میں دے
دوں؟ سیدنا علی ؓ نے مسکرا کر اجازت مرحمت فرما دی۔

سیدنا حسین ؓ نے کہا کہ میرے نانا جان ﷺ کی حدیث ہے کہ سب سے بڑا عقل مندوہ ہے جو اپنی زبان کو قابو میں رکھے، اور ذکر الٰہی اور اچھی بات کے سوا زبان کا استعمال نہ کرے۔حضرت حسین ؓ کے اس مدلل اور دانشمندانہ جواب سے سائل اور تمام حاضرین حیران رہ گئے کہ اتنے چھوٹے سے بچے کے منہ سے اتنا دلنشین جواب۔ سیدنا علی ؓ نے اپنے بیٹے کو گلے لگا کہ ان کا منہ چوم لیا۔ (جاری ہے)
============


shabbir Ibne Adil
About the Author: shabbir Ibne Adil Read More Articles by shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 128520 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.