ماہِ رمضان المبارک میں اسرائیلیوں نے فلسطینیوں کوچین و
سکون سے رہنے نہ دیا ۔اسرائیلی کے مقبوضہ مشرقی یروشلم میں شیخ جراح کے پاس
بسے فلسطینیوں کو وہاں سے بے دخل کرنے کی کوششوں کے خلاف گذشتہ دوہفتہ سے
مظاہروں اور جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور تاحال جاری ہے۔ ان جھڑپوں
میں متعدد فلسطینی ہلاک اورایک ہزار سے زائدفلسطینی زخمی بتائے جاتے ہیں۔
غزہ کے علاقے میں سرگرم اسلامی گروپ حماس نے پیر کے روز مسجد اقصیٰ کے
احاطے میں موجود اسرائیلی فورسز کو وہاں سے نکل جانے کیلئے کہا تھا تاہم جب
اسرائیلی فورسز کو اسرائیلی حکومت نے وہاں سے ہٹنے سے منع کردیا تو حماس نے
جواباً اسرائیل پر کئی راکٹ داغے۔ اسرائیل نے ان راکٹوں کو فضا میں ہی تباہ
کرنے کا دعویٰ کیا ہے تاہم اسرائیل نے اس کے جواب میں غزہ پر فضائی حملے
کئے جس میں اب تک 22افراد بشمول بچے ہلاک ہونے کی تصدیق ہوچکی ہے۔جیسا کہ
اوپر بتایا گیا ہیکہ مشرقی یروشلم میں شیخ جرح علاقے کی گلیوں میں گذشتہ دو
ہفتے سے فلسطینیوں اور یہودی آباد کاروں کے درمیان لگاتار کشیدگی جاری ہے
جس کا پس منظر یہودی آبادکاروں کی جانب سے فلسطینی خاندانوں کے خلاف دائر
کیا گیا مقدمہ ہے جو ایک طویل عرصے سے جاری ہے اور اس کی وجہ سے فلسطینیوں
کو اپنے ہی گھروں سے بے دخل ہونے کا خطرہ ہے۔
یروشلم شہر کے مشرقی حصے، جس پر اسرائیل نے سنہ 1967 میں ہونے والی ’چھ
روزہ جنگ‘ میں قبضہ کیا تھا، کے پڑوس میں یہودی آباد کاروں نے فلسطینیوں پر
ایسے نعرے لگائے ’اردن واپس جاؤ‘ جس کا فلسطینیوں نے ان نعروں کے ساتھ جواب
دیا: ’نسل پرست‘ اور ’مافیا‘۔گذشتہ ہفتے کے دوران اس علاقے میں تعینات
پولیس نے فلسطینی نوجوانوں کو گرفتار کیا اور بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے
آبی توپوں اور مائع گیس کا استعمال کیا۔قریب دوہفتے سے اس محلے کے رہائشیوں
اور کارکنوں کی زیرقیادت، اسرائیلی آباد کاری تنظیموں کی جانب سے فلسطینی
باشندوں کے گھر خالی کرنے کے احکامات کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔اس علاقے
کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ ان گھروں میں 1950 کی دہائی سے رہ رہے ہیں،
جبکہ یہودی آباد کار یہ دعوی کرتے ہیں کہ انھوں نے یہودیوں کی دو انجمنوں
سے یہ زمینیں قانونی طور پر خریدی ہیں۔شیخ جرہ محلہ دمشق دروازے کے قریب
پرانے یروشلم کی دیواروں کے بالکل باہر واقع ہے۔اس علاقے میں ہوٹلوں،
ریستوراں اور قونصل خانے کے علاوہ فلسطینیوں کے بہت سے مکانات اور رہائشی
عمارتیں بھی شامل ہیں۔مشرقی یروشلم 1967 میں اسرائیل کے قبضہ کرنے سے قبل
اردن کے ساتھ ملحق تھا اور اس کو عالمی برادری کے ذریعہ تسلیم نہیں کیا گیا
تھا۔ اردن نے 1948 میں بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کی رہائش کے لیے شیخ جرح
کے پڑوس میں رہائش گاہ بنائی تھی اور لیز کے معاہدے اس بات کو ثابت کرتے
ہیں۔فرانسیسی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہودی آباد کاروں نے اسرائیلی عدالتی
فیصلوں کی بنیاد پر محلے کے گھروں پر قبضہ کر لیا اور یہ دعویٰ کیا کہ وہاں
رہنے والے یہودی خاندان 1948 کی جنگ کے دوران فرار ہو گئے تھے۔جبکہاردن کی
وزارت برائے امور خارجہ کے ذریعہ شائع شدہ دستاویزات کے مطابق یہ دستاویزات
ان 28 خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں جو شیخ جرح کے پڑوس میں 1948 کی جنگ کی
وجہ سے بے گھر ہو گئے تھے۔ترک ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ محلے
کے رہائشی محمد الصباغ بتاتے ہیں کہ رہائشیوں کی مشکلات سنہ 1972 میں اس
وقت شروع ہوئیں جب سیفارڈک یہودیوں کی کمیٹی اور اسرائیل کی کنیسیٹ کمیٹی
(اشکنازی یہودیوں کے لیے بنائی گئی کمیٹی) نے دعوی کیا تھا کہ وہ اس علاقے
کے مالک ہیں جس پر 1885 میں مکانات بنائے گئے تھے۔اسرایلی فوج اور پولیس
کیلئے نہتے فلسطینیوں کی مسکراہٹ انہیں خوف کا احساس دے رہی ہے۔ مقبوضہ بیت
المقدس میں گرفتاری کے وقت مسکرانے والی فلسطینی لڑکی مریم کی ایک ویڈیو
وائرل ہوئی ہے جس میں یہ بہادر فلسطینی لڑکی ہتھیاروں سے لیس اسرائیلی ظالم
فوج کے سامنے مسکراہٹ سے انہیں خوفزدہ کردی ہے۔ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم
حماس اور اسرائیل کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف حملوں کے بعد دنیا کے مختلف
ممالک کی جانب فریقین سے پُر امن رہنے کی اپلیں آنا شروع ہوگئیں ہیں۔
امریکہ ، یورپی یونین اور برطانیہ نے فریقین پر زور دیا ہیکہ وہ جتنی جلد
ممکن ہوسکے کشیدگی کو کم کریں۔ واضح رہے کہ بیت المقدس میں اسرائیلی پولیس
سے جھڑپوں میں پیر کے روز تین سو سے زائد فلسطینیوں کے زخمی ہونے کے بعد
غزہ سے اسرائیلی علاقے میں حماس نے متعدد راکٹ داغے ۔ جس کے بعد پیر کی شب
اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی میں فضائی حملے کئے گئے۔ ان ہی حملوں میں
۹بچوں سمیت 22فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں۔
سعودی عرب کی جانب سے مذمت
سعودی عرب نے اسرائیلی فورسز کی جانب سے مسجد الاقصیٰ پر حملوں کی مذمت کی
ہے ۔ سعودی وزارت خارجہ نے اسرائیلی فورسز کی جانب مسجداقصیٰ میں فلسطینیوں
پر کئے جانے والے حملوں کی مذمت کی ہے۔ اور عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ
ان کارروائیوں پر اسرائیل کا احتساب کرے اور بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف
ورزی پر مبنی کسی بھی کارروائی کے فوری خاتمے کا کہے۔واضح رہے کہ اسرائیلی
ظالم پولیس نے مسجد اقصیٰ کے اندر آنسو گیس کی شیلنگ کی اور دستی بم پھینکے
جبکہ تین فلسطینی گولیاں لگنے کی وجہ سے اپنی ایک آنکھ کھو بیٹھے جس کے
بارے میں عینی شاہدین کا کہنا ہیکہ یہ گولیاں سیدھا ان کے سر پر مارنے
کیلئے فائر کی گئی تھیں۔
اسرائیل دہشت گرد ریاست ۔ ترک صدر اردغان
ترک صدر رجب طیب اردغان نے فلسطینی نوجوانوں پر مسجد اقصیٰ میں ربڑ کی
گولیاں فائر کرنے ، گرینیڈ سے حملوں اور تشدد پر اسرائیل کو دہشت گرد ریاست
قرار دیا ہے۔ انہو ں نے ایک تقریب سے خطاب کے موقع پر تمام مسلم ممالک اور
عالمی برادری سے اسرائیل کے حوالے سے موثر اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
صدر ترک اردغان نے کہا کہ ظالم ، دہشت گرد ریاست اسرائیل بے رحمی اور غیر
اخلاقی طور پر بیت المقدس میں مسلمانوں پر حملہ آور ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ
ترکی نے اقوام متحدہ ، اسلامی تعاون تنظیم(او آئی سی) اور تمام متعلقہ
عالمی اداروں کو فوری کارروائی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ضروری اقدامات
اٹھائیں ۔
پاکستان سے سعودی عرب کی تلخیاں ختم ، نئے دور کاآغاز
ماہِ رمضان المبارک ’لیلۃ القدر‘ میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اپنی
شریک حیات خاتون اول بشریٰ بی بی کے ہمراہ عمرہ کی سعادت حاصل کرچکے ہیں ۔
اس موقع پر وزیر اعظم اور انکی اہلیہ نے حجر اسود کا بوسہ بھی لیا اور پھر
وزیر اعظم کیلئے خصوصی طور پر خانہ کعبہ کے دروازے کھول دیئے گئے تھے جہاں
انہوں نے اپنی اہلیہ محترمہ کے ہمراہ نوافل ادا کئے۔عمرہ کی سعادت حاصل
کرنے اور کعبہ اﷲ شریف کے اندر حاضر ہونے کے بعد دوسرے روز وزیر اعظم نے
سرور کونین رحمۃ اللعالمین صلی اﷲ و سلم کے دربار اقدس میں حاضری دی اور
مسجد نبوی صلی اﷲ علیہ و سلم میں ہی افطار کیا۔ وزیر اعظم عمران خان سعودی
ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کی دعوت پر سعودی عرب کے سہ روزے پر جمعہ کی
شب جدہ ایئر پورٹ پہنچے، جہاں انکا استقبال سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن
سلمان نے کیا۔وزیر اعظم کے ہمراہ انکی شریک حیات کے علاوہ پاکستانی وزراء و
دیگر اعلیٰ سطحی وفد بھی موجود تھا۔ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی ولیعہد
شہزادہ محمد سلمان اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے درمیان قصر السلام
جدہ کے ایوان شاہی میں مذاکرات ہوئے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس موقع پر پاکستان
اور سعودی عرب کے درمیان دوطرفہ تعلقات کے استحکام کے موضوع پر بات چیت
ہوئی۔ سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان اور وزیر اعظم عمران خان کے
درمیان مذاکرات کے بعد دونوں ملکوں نے اعلیٰ رابطہ کونسل سمیت تین معاہدوں
اور دو مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کئے ہیں۔سعودی ولیعہد محمد بن سلمان اور
وزیر اعظم عمران خان نے سعودی پاکستانی اعلیٰ رابطہ کونسل کے قیام کے
معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔ پاکستانی وزیر اعظم اور سعودی ولیعہد کی موجودگی
میں دونوں ممالک کے درمیان دو معاہدوں اور دو مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط
ہوئے جس میں سزایافتگان کے سلسلے میں تعاون کا معاہدہ اور انسداد جرائم کے
سلسلے میں تعاون کا معاہدہ شامل ہے۔ان دونوں معاہدوں پر سعودی عرب کی جانب
سے وزیر داخلہ شہزادہ عبدالعزیز اور پاکستان کی جانب سے وزیر داخلہ شیخ
رشید احمد نے دستخط کئے۔ انسداد منشیات کے سلسلے میں مفاہمتی یادداشت پر
مملکت کی جانب سے وزیر داخلہ شہزادہ عبدالعزیز اور پاکستان کی جانب سے وزیر
خارجہ شاہ محمود قریشی نے دستخط کئے ہیں۔توانائی ، بنیادی ڈھانچے،
ٹرانسپورٹ، پانی اور مواصلات کے شعبوں میں منصوبوں کی فنڈنک کیلئے مفاہمتی
یادداشت پر سعودی عرب کی جانب سے وزیر سیاحت و سربراہ سعودی ترقیاتی فنڈ
احمد الخطیب اور پاکستان کی جانب سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دستخط
کئے۔ وزیر اعظم کی آمد سے قبل ہی پاکستانی فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید
باجوہ سعودی عرب پہنچ چکے تھے۔ مذاکرات کے موقع وزیر اعظم کے ہمراہ وزیر
خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی، وزیر داخلہ شیخ رشید احمد، سکیریٹری خارجہ
سہیل محمود، وزیر اعظم کے معاون خاص برائے ماحولیات امین اسلم اور مملکت
میں متعین پاکستانی سفیر بلال اکبر بھی شریک ہوئے۔سعودی عرب کی جانب سے
وزیر داخلہ شہزادہ عبدالعزیز بن سعود، نائب وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان
، وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان، وزیر مملکت و رکن کابینہ و مشیر قومی
سلامتی ڈاکٹر مساعد العیبان، وزیر تجارت و قائم مقام وزیر اطلاعات ماجد
القصبی اور پاکستان میں متعین سعودی سفیر نواف المالکی شریک تھے۔ وزیر اعظم
نے عازمین کو جدید ترین سہولیات کی فراہمی پر سعودی بادشاہ شاہ سلمان بن
عبدالعزیز کو خراج تحسین پیش کیا اور امام کعبہ سے بھی ملاقات کی اور انہیں
پاکستانی آنے کی دعوت دی۔
مذاکرات کے دوران پاکستان اور سعودی عرب کے گہرے تعلقات تعاون کا دائرہ
وسیع کرنے کی اہمیت، تعاون بڑھانے اور مختلف شعبوں میں دو طرفہ یکجہتی کو
فروغ دینے پر زور دیا گیا جبکہ دونوں ملکوں کی دلچسپی کے علاقائی و بین
الاقوامی امور و مسائل پر امن و استحکام کے فروغ کے حوالے سے نکتہ ہائے نظر
کا تبادلہ کیا گیا ہے۔ عمران خان نے اسلامی اتحاد کے استحکام کے سلسلے میں
شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے قائدانہ کردار پر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔وزیر
اعظم پاکستان نے امت مسلمہ کو درپیش مسائل کے حل میں سعودی عرب کے مثبت
کردار اورعلاقائی امن و سلامتی کی خاطر اس کی کوششوں پر پسندیدگی کا اظہار
کیا۔ فریقین نے سعودی ویژن 2030 کے تناظر اور پاکستان کی ترقیاتی ترجیحات
کے تناظر میں مہیا امکانات اور سرمایہ کاری کے شعبے دریافت کرنے کے لیے
دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی و اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانے کے طور
طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔ دونوں ملکوں کے مضبوط عسکری اورسیکیورٹی تعلقات
پر اطمینان کا اظہار اور مشترکہ اہداف کے حصول کے لیے تعاون بڑھانے پر
اتفاق کیا گیا۔ پاکستان اور سعودی عرب نے انتہا پسندی و تشدد کا مقابلہ
کرنے، فرقہ واریت کو مسترد کرنے اورعالمی امن و سلامتی کے حصول کے لیے
انتھک جدوجہد کی خاطر پوری مسلم دنیا کو مل کر کوششیں کرنے کی ضرورت پر زور
دیا۔اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ دہشت گردی کے فتنے کے انسداد کے لیے مشترکہ
جدوجہد جاری رکھنا ہوگی۔ دہشت گردی کا کسی مذہب، نسل اور نہ ہی کسی رنگ سے
کوئی تعلق ہے۔ ہر طرح کی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا۔
دہشت گردی کسی بھی شکل میں ہو اور کوئی بھی کررہا ہو۔فریقین نے فلسطینی
عوام کے تمام جائز حقوق کی مکمل حمایت کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ
’فلسطینی عوام کو خصوصاً حق خود ارادیت، 1967 سے ماقبل کی سرحدوں میں
خودمختار ریاست قائم کرنے اور مشرقی القدس کو اس کا دارالحکومت بنانے کا حق
ہے۔ عرب امن فارمولے اور اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں میں یہ حقوق تسلیم
کیے ہیں‘۔ پاکستان اور سعودی عرب نے شام اور لیبیا کے بحرانوں کے سیاسی حل
اور اس سلسلے میں اقوام متحدہ اور اس کے ایلچیوں کی کوششوں کی حمایت کا بھی
اظہار کیا۔پاکستان اور سعودی عرب نے حوثیوں کی دہشت گردانہ سرگرمیوں خصوصاً
سعودی عرب کی سول تنصیبات اور شہریوں پر ڈرونز اور بیلسٹک میزائل حملوں کے
حوالے سے مذمت کی۔ انرجی سپلائی کے استحکام اور تیل برآمدات کی سیکیورٹی کو
خطرات لاحق کرنے پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ وزیراعظم پاکستان نے یمنی
بحران ختم کرانے کے لیے سعودی اقدام کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ’ اس کی
بدولت نہ صرف یہ کہ یمن میں امن و استحکام بحال ہوگا بلکہ پورے خطے اور اس
کی اقوام کی ترقی و خوشحالی کی راہ پیدا ہوگی‘۔ وزیراعظم نے جی 20 کے اجلاس
کا میابی سے منظم کرنے اور اقتصادی، ترقیاتی، ماحولیاتی و صحت و توانائی
سمیت تمام شعبوں میں مثبت فیصلوں کے اجرا میں کامیابی پر سعودی حکومت کو
مبارکباد پیش کی۔ عمران خان نے کورونا وبا سے جنم لینے والے چیلنجوں کے
باوجود 1441ھ کا حج موسم منظم کرنے پر سعودی عرب کو خراج تحسین پیش کیا اور
کہا کہ ’سعودی حکومت حرمین شریفین کے عمرہ، حج زائرین کی خدمت کے لیے جو
کچھ کررہی ہیں وہ قابل تعریف ہے‘۔
سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تجارتی معاملات کے سلسلہ میں گذشتہ برسوں
میں جو پہل ہوئی ہے اس حوالے سے سعودی وزیر سرمایہ کاری خالد الفالح نے
بتایا کہ گذشتہ تین برسوں کے دوران سعودی عرب اور پاکستان نے 33ارب ریال کا
تجارتی لین دین کیا ہے۔ ان میں سے 9ارب ریال کا کاروبار 2020کے دوران ہوا
حالانکہ یہ دنیا بھر میں کورونا وبا کے اثرات والا سال تھا۔ پاکستان اور
سعودی عرب نے معدنیات، تیل، پٹرول کیمیکل ، کھالوں، ملبوسات، غلہ جات، گوشت
اور اسے بنی اشیا کا کاروبار کیا ہے۔وزیر موصوف نے پاکستان سعودی اعلی
رابطہ کونسل کے قیام سے متعلق کہا کہ اس کی بدولت دونوں برادر ملکوں کے
تعلقات مزید گہرے ہونگے۔ تجارتی معاملات مضبوط ہونگے اور اقتصادی شرح نمو
کے وسیع افق کھلیں گے۔ رابطہ کونسل کی بدولت پاکستان اور سعودی عرب کے
درمیان اقتصادی و تجارتی تعلقات مضبوط ہونگے۔
افغانستان میں ماہ صیام میں بھی بم دھماکے
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک سکنڈری اسکول کے باہر ہونے والے
دھماکوں میں 60سے زائد افراد ہلاک ہوگئے ہیں جن میں زیادہ تر لڑکیاں شامل
ہیں۔ اس دھماکے کی ذمہ داری ابھی تک کسی نے نہیں قبول کی ہے جبکہ افغان
حکومت نے اس حملے کا الزام طالبان عسکریت پسندوں پر عائد کیا ہے لیکن
طالبان نے اس میں ملوث ہونے سے انکار کردیا ہے۔ ہفتہ کے روز کئے گئے اس
دھماکے کی وجوہات سامنے نہیں آئی ہے۔ بتایا جاتا ہیکہ مغربی کابل کے جس
محلے میں دھماکے ہوئے ہیں ان میں ہزارہ اقلیتی طبقہ کے زیادہ تر افراد آباد
ہیں۔ جو منگولیا اور وسطی ایشیائی نسل کے ہیں اور زیادہ تر شیعہ مسلمان
ہیں۔
دھماکہ اس وقت کیا گیا جب طلبہ اسکول کی عمارت سے باہر نکل رہے تھے۔بتایا
جاتا ہے کہ گذشتہ برسوں میں دولت اسلامیہ نے یہاں کئی حملوں کی ذمہ داری
قبول کی تھی۔ اس دھماکے کے بعد افغانستان میں یورپی یونین کے مشن نے اپنے
ایک پیغام میں کہا ہیکہ یہ خوفناک حملہ دہشت گردی ہے۔اس سے بنیادی طور پر
اسکول میں پڑھنے والی لڑکیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور اس طرح یہ حملہ
افغانستان کے مستقبل پر کیا گیا ہے۔ وزارت تسلیم کے مطابق اس اسکول میں
لڑکے اور لڑکیاں دونوں پڑھتے ہیں ۔ تدریسی عمل تین شفٹوں میں جاری رکھا
جاتا ہے جبکہ دوسری شفت میں طالبات پڑھتی ہیں اور حملے میں ہلاک اور زخمی
ہونے والوں میں اکثر طالبات شامل ہیں۔جو کوئی بھی یہ خوفناک حملہ کئے ہیں
وہ انسانیت اور اسلام کے دشمن ہیں کیونکہ یہ حملہ ایک وقت کیا گیا ہے جب
مسلمان ماہ صیام کے آخر دہے میں پہنچ چکے تھے اور کئی معصوم عید کی تیاریوں
میں تھے۔
***
|