بیگم نسیم ولی خان۔

تحریر۔پیر فاروق بہاوالحق شاہ۔
محترمہ نسیم ولی خان کو عوامی نیشنل پارٹی کے حلقوں میں مور بی بی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔پارٹی کے نوجوانوں کی جانب سے دیا گیا یہ نام در اصل پارٹی کارکنوں کی ان کے ساتھ محبت و عقیدت کے رشتے کا اظہار تھا۔وہ ایک روایتی پختون گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔اور پختونوں کی تمام روایات مثلاً جرات، بہادری،اور غیرت کے اوصاف سے متصف تھی۔وہ صنف کے اعتبار سے تو خاتون تھیں لیکن اوصاف کے اعتبار سے کء مرد ان کے سامنے پانی بھرتے نظر آتے تھے۔محترمہ نسیم ولی خان پاکستان کی صف اول کی سیاست میں متحرک ہونے کے باوجود اپنی روایات سے جڑی ہوئی تھیں۔وہ اپنی نوعیت کی واحد خاتون تھیں جو سیاست بھی کرتی تھی اور اپنی معاشرتی اقدار کی محافظ بھی تھیں۔وہ باچا خان کی بہو اور خان عبدالولی خان کی اہلیہ تھیں لیکن طبیعت میں ایسی انکساری کے ملنے والا حیران رہ جاتا۔وہ اپنے کارکنوں کو اپنی اولاد کی طرح چاہتیں اور ان کی ضروریات و عزت نفس کا خیال رکھتیں۔وہ مجمعے سے مخاطب ہوتی تو ان کی الفاظ کی گھن گرج سے ہزاروں کا مجمع دم بخود ہو کر رہ جاتا۔مذاکرات کی میز پر آتیں تو اپنے دلائل سے مدمقابل کو خاموش رہنے پر مجبور کر دیتیں۔اگرچہ وہ ایک سیاسی خاندان سے تعلق رکھتی تھی لیکن اس کے باوجود وہ سرتاپا ایک گھریلو خاتون بھی تھیں۔تاہم جب ان کے شوہر کو پابند سلاسل کیا گیا تو وہ اپنے کچن سے نکلیں اور پورے ملک میں ایک ہلچل سی برپا کردی۔کہا جاتا ہے کہ جب خان عبدالولی خان کو سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پابندِ سلاسل کیا تو وہ اپنے سسر باچاخان کے پاس آئیں اور ان سے کہا کہ عبدالولی خان کو رہا کرانے کی کوی سبیل نکالیں جواب میں خان عبدالغفار خان نے کہا ہاں کہ وہ میرا بیٹا ہے وہ جیلوں میں رہنے کے لئے پیدا ہوا ہے البتہ اگر تم اپنے شوہر کو نکالنا چاہتی ہو تو خود کوشش کرلو۔اپنے سسر کے یہ الفاظ سن کر اس باہمت پرعزم اور دلیر خاتون نے اس شخصیت کو للکارنے کا فیصلہ کیا جو اپنی مقبولیت کے نصف النہار پر تھا۔ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا طوطی بول رہا تھا۔بھٹو مخالف سیاستدان ایک مایوسی کی زندگی بسر کر رہے تھے اور تمام اپوزیشن سیاست دان یا تو گھروں میں مقید تھے یا پھر پابند سلاسل تھے اس گہرے سکوت کے عالم میں محترمہ نسیم ولی خان نے علم بغاوت بلند کیا۔انہوں نے تن تنہا کابل کا سفر کیا۔جناب اجمل خٹک سے ملاقات کی۔ان سے سیاسی امور پر رہنمائی لی۔اور پھر بھٹو حکومت سے آکر ٹکرا گئیں۔اپوزیشن اتحاد کے جلسوں میں جب محترمہ نسیم ولی خان نے خطاب کرنا شروع کیا تو بھٹو مرحوم نے یہ پھبتی کس دی کہ سارے مولوی ایک عورت کے پیچھے چل پڑے ہیں۔اس کا جواب محترمہ نسیم ولی خان اپنی سیاسی حکمت عملی سے کچھ اس طرح دیا کہ بھٹو کی مضبوط کرسی ڈگمگا گء۔محترمہ نسیم ولی خان سر سے لے کر پاؤں تک ایک جمہوریت پسند خاتون تھیں۔جنرل ضیاء الحق نے جب مارشل لاء نافذ کیا تو جو آواز سب سے پہلے اس کے خلاف بلند ہوئی وہ محترمہ نسیم ولی خان کی آواز تھی۔انہوں نے اپنی زندگی میں بے شمار نشیب و فراز دیکھے۔اپنے سسر کی جدوجہد دیکھیں۔والد کی سیاسی حکمت عملی دیکھی۔اپنے شوہر کا عروج دیکھا،پھر ان کو پس دیوار زنداں دیکھا،خودکش حملے دیکھے،اپنے پیاروں کے جنازے اپنے ہاتھوں سے اٹھائے،ولی باغ پر دہشتگردوں کے حملوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا،اپنے جوان بیٹے کو اپنے ہاتھوں سے کفن دیا،لوگوں کی بے وفائیاں دیکھیں،احسان فراموشی دیکھی لیکن ان کا وقار اپنی جگہ پر قائم رہا،وہ صبر و استقامت کا پہاڑ بن کر کھڑی رہی ہیں۔کہنے والے کہتے ہیں کہ محترمہ نسیم ولی خان تو اسی دن فوت ہو گئی تھی جس دن ان کا جوان بیٹا سنگین ولی خان سپرد خاک ہوا تھا۔لیکن اس کے باوجود وہ نا صرف زندہ رہیں بلکہ اپنے خاندان کے وقار اور اس کی شان میں اضافے کا سبب بھی بنتی رہیں۔
بیگم نسیم ولی خان کی زندگی پر ایک نظر: بیگم نسیم ولی خان صوبے کی پہلی خاتون تھیں جو جنرل نشست پر منتخب ہوئیں۔ وہ جنوری 1936 میں مردان پارہوتی میں پیدا ہوئیں اور خان عبدالولی خان کی دوسری اہلیہ تھیں۔بیگم نسیم ولی خان نے 1975ء میں پاکستان کی سیاست میں قدم رکھا جب رہبر تحریک خان عبدالولی خان کو اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے نہ صرف گرفتار کیا گیا بلکہ ان کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی بھی لگائی گئی۔انہوں نے ایسے وقت میں پارٹی کا کنٹرول سنبھالا جب ذوالفقارعلی بھٹو کے بنائے ہوئے حیدرآباد ٹریبونل کیس نیشنل عوامی پارٹی کی پہلی اور دوسری صف کی قیادت جیل میں تھی انہیں خیبر پختون خوا کی پہلی منتخب رکن پارلیمنٹ کا اعزاز بھی حاصل ہے۔1977 میں چارسدہ اور مردان کے قومی اسمبلی (این اے 4 اور این اے 8) کے حلقوں پر بیک وقت رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔تاہم انہوں نے قومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف نہیں اٹھایا کیونکہ اس وقت قومی اتحاد کی تحریک زوروں پر تھی اور مارشل لاء نافذ کیا گیا تھا۔1986 میں اے این پی کی بنیاد رکھی گئی تو خان عبدالولی خان مرکزی صدر جبکہ افضل خان لالا صوبائی صدر منتخب ہوئے۔ 1994ء میں وہ پہلی بار عوامی نیشنل پارٹی خیبر پختون خوا کی صدر منتخب ہوئیں، 1998ء میں ایک بار پھر صوبائی صدر منتخب کردی گئیں۔پارلیمانی انتخابات میں پہلی بار انہوں نے 1988ء میں چارسدہ پی ایف 13 سے، 1990ء میں بھی پی ایف 13 اور 1993ء میں پی ایف 15 سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئیں۔1997ء میں پی ایف 15 چارسدہ سے خیبر پختون خوا اسمبلی (اس وقت کی سرحد اسمبلی) کی رکن منتخب ہوئیں۔وہ چار مرتبہ عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی پارلیمانی لیڈر بھی رہی ہیں۔بیگم نسیم ولی خان 1990ء اور 1997ء کے دوران صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی رہیں۔
زندگی کا ابتدائی دور۔ عوامی نیشنل پارٹی کے بانی صدر اور رہبرتحریک خان عبدالولی خان کی بیوہ بیگم نسیم ولی خان24جنوری 1936 کو خدائی خدمتگار تحریک کے اہم رکن اور سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا امیرحیدر خان ہوتی کے دادا امیرمحمد خان ہوتی کے ہاں مردان پارہوتی میں پیدا ہوئیں۔ وہ خان عبدالولی خان کی دوسری اہلیہ تھیں اور انکی شادی 1954 میں ہوئی تھی۔نسیم ولی خان نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہاں پر خواتین کی تعلیم کا رجحان نہ ہونے کے برابر تھا۔اس کے باوجود انہوں نے مخلوط تعلیمی نظام سے اپنا سلسلہ تعلیم شروع کیا اور بعد ازاں مردان کے سیکنڈری اسکول میں داخلہ لیا، تاہم 8 ویں جماعت کے بعد ان کے گھر والے ان کے تعلیمی سلسلے کو آگے بڑھانے کے حامی نہ تھے، جس کی کئی وجوہات تھیں۔ امیرمحمد خان باچا خان کے سچے پیرو کار تھے اور وہ ان کی تعلیم کے حامی تھے۔

گھر والوں کی مخالفت کے باوجود بیگم نسیم نے تعلیمی سلسلہ جاری رکھا اور میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے میٹرک کے امتحان کا علم گھر والوں کو اخبار میں نتیجے آنے پر ہوا۔ میٹرک کے امتحان کی ان کو اس لیئے اجازت نہیں ملتی کیوں کہ امتحان بوائز اسکول میں دینا تھا۔ ولی خان سے شادی کے بعد انہوں نے پشاور یونی ورسٹی کے ہومی اکنامکس کالج میں داخلہ لیا۔اور اپنا تعلیمی سلسلہ مکمل کیا۔انکی تعلیم کی تکمیل میں خان عبدالولی خان کا بھی بھرپور کردار رہا

زاتی خصائل۔ محترمہ نسیم ولی خان ایک ثابت قدم، مردم شناس اور اصول و قواعد کی پابند خاتون تھیں۔وہ بے مثال سیاسی بصیرت کی حامل تھیں اور تنظیمی نظم وضبط کو ہمیشہ مقدم رکھتی تھیں۔اپنی دبنگ طبیعت کے باعث پارٹی معاملات میں ہمیشہ ہمیشہ اپنی رٹ کو بحال رکھتیں اور سیاسی سرگرمیوں میں بھرپور متحرک رہتی تھیں۔وہ بنیادی طور پر ایک سنجیدہ طبع خاتون تھیں، اس لیے اکثر کارکنان ان کی شخصیت سے خائف رہتے تھے۔ تاہم وہ جب بھی بات کرتیں اس میں دوسروں کے لیے حلم اور شفقت کا عنصر نمایاں ہوتا تھا۔: سیاست کا وہ ماحول جہاں ہر طرف مرد ہی نظر آتے تھے، بیگم نسیم ولی خان نے اپنی ہمت اور جدوجہد سے اپنا ایک الگ مقام بنایا، جو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔ ان کی سیاست بے شک ایک صوبے تک محدود رہی تاہم انہوں نے خواتین کے سیاست میں آنے کیلئے ایک نئی راہ متعین کی۔
محترمہ نسیم ولی خان بہت شفیق، انتہائی پیار کرنے والی لیڈر تھیں۔ وہ اپنے کارکنوں کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی یاد رکھتی تھیں۔

سیاسی جدوجہد۔ ابتدا میں تعلیم کی طرح سیاست میں بھی آنے پر ان کی مخالفت کی گئی۔ خاندان کے مردوں کی طرح کئی خواتین بھی ان کی سیاست میں آنے کی حامی نہ تھی،مگر یہاں بھی انہوں نے اپنا لوہا منوایا۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی ہمت اور بہادری کو دیکھتے ہوئے پختون اسٹوڈنٹ فیڈریشن نے انہیں مور بی بی کا خطاب دیا۔وہ برصغیر کی پہلی منتخب خاتون تھیں۔ وہ 1977 میں 2 سیٹوں پر جیتی تھیں، جب چارسدہ پشاور ضلع کا حصہ تھا اور صوابی مرداں ضلع کا حصہ تھا۔ انہوں نے دو الیکشن براہ راست جیتے۔
1993 میں جب حکومت بننے جا رہی تھی تو اے این پی کی صوبائی اسمبلی کے 23 ممبران تھے، اور مسلم لیگ کے 15 ممبران کامیاب ہوئے تھے۔ جس پر نواز شریف نے انہیں دعوت دیتے ہوئے کہا کہ میں نے ابھی تک کسی خاتون کو وزیراعلیٰ نہیں دیکھا ہے، ہم نے خاتون وزیراعظم تو دیکھ لیں ا اب خاتون وزیراعلیٰ بھی ہونی چاہیں۔ اس موقع پر نواز شریف نے بیگم نسیم ولی خان کو مخاطب کیا اور کہا کہ آپ ہی ہماری وزیراعلیٰ ہونگی۔میاں نواز شریف کی اس پیشکش پر بیگم نسیم ولی نے کہا کہ میری سیاست کرسی کیلئے نہیں ہے، عوام کی خدمت کیلئے ہے، وزارت اعلیٰ کا عہدہ آپ کو مبارک ہو۔ بیگم نسیم ولی خان کے اس جواب کے بعد پیر صابر شاہ کو وزیراعلیٰ بنایا گیا۔ آنکی اسی سیاسی جدوجہد، سیاسی خدمات اور مضبوط اعصاب کی بدولت انہیں آئرن لیڈی کا خطاب ملا۔ وہ ایک ایسے وقت میں میدان سیاست میں نکلیں جب نہ صرف ان کے خاندان میں بلکہ پورے سیاسی افق پر کسی خاتون کا کوء کردار نہ تھا۔ ایک دلچسپ روایت کے مطابق ان کے بارے میں اکثر اس وقت کے وزیراعظم اور پیپلزپارٹی کے بانی سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کہا کرتے تھے کہ کاش میں نے ولی خان صاحب کی جگہ بیگم نسیم ولی خان کو گرفتار کیا ہوتا۔ اس دور میں عوامی جہدوجہد اور سیاسی تحریک کو عروج تک پہنچانے میں بیگم نسیم ولی کا کردار سب سے نمایاں ہے، جو کبھی فراموش نہیں ہوگا۔وہ قوت فیصلہ سے مالامال شخصیت تھیں اور فیصلے کرنے میں اپنا جواب نہیں رکھتی تھی۔ وہ سیاسی فہم و فراست میں اپنا ثانی رکھتی تھیں جب کوئی سیاسی معاملہ ہوتا تھا تو منٹوں میں اس کا حل تلاش کرلیا کرتی تھیں، فیصلہ کرنے میں کوئی دیر نہیں لگاتی تھیں۔ وہ کھری زبان اور صاف دل رکھتی تھیں اور جھوٹ، منافقت،دغابازی سے شدید نفرت تھی۔ جو لوگ جھوٹ بولتے تھے یا کچھ غلط کرتے تھے وہ انہیں طریقے سے سمجھاتی تھیں اور بار بار نصیحت کرتی تھیں، وہ جھوٹے لوگوں کو نہ تو پسند کرتی تھیں اور نہ ہی حوصلہ افزائی کرتیں۔۔ وہ لوگوں کو سچ اور حق بات کہنے کی جانب راغب کرتی تھیں۔

محترمہ نسیم ولی خان کا اصل سیاسی امتحان اس وقت شروع ہوا جب 1974میں چارسدہ سے تعلق رکھنے والے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھی حیات محمد خان شیرپاؤ کی بم دھماکے میں موت ہو گئی۔ذوالفقار بھٹو کو شک تھا کہ اس واقعے کے پیچھے نیشنل عوامی پارٹی اور ولی خان کا ہاتھ ہے۔واقعے کے ردعمل میں انہوں نے این اے پی کو کالعدم قرار دے کر اس کی اعلیٰ قیادت کی گرفتاری کا حکم دیا، جس میں ولی خان بھی شامل تھے۔ولی خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف‘حیدرآباد ٹریبیونل’کے تحت مقدمے کا آغاز ہوا تو ولی خان نے اس مقدمے کو بے بنیاد اور اپنے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے اپنے دفاع سے انکار کر دیا۔اگلے سال 1975 میں انہی حالات کے تناظر میں بیگم نسیم ولی خان نے سیاست میں قدم رکھا۔ اس وقت کی نیشنل عوامی پارٹی(موجودہ عوامی نیشنل پارٹی) کی اعلی قیادت کی غیر موجودگی میں نسیم ولی خان نے انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہوئے پارٹی کارکنان اور عوام کا اعتماد بحال کیا اور باچا خان کے ماننے والوں اور ولی باغ کی سیاست میں ایک نئی روح پھونک دی۔

’انہوں نے اس وقت سیاسی میدان میں قدم رکھا جس وقت نیشنل عوامی پارٹی کی قیادت مختلف مقدمات کے تحت جیلوں میں تھی۔‘جن حالات میں نسیم ولی خان نے پارٹی سنبھالی،کسی بھی پشتون خاتون کے لیے مایوسی کی اس فضا میں پارٹی کی باگ ڈور سنبھالنا، کارکنان اور عوام کا اعتماد بحال کرنا اور ان کی نمائندگی کرنا کوی آسان کام نہ تھا۔تاہم نسیم ولی خان نے یہ کارنامہ سرانجام دے ڈالا۔اور اپنی جماعت میں ایک نئی روح پھونک دی۔

گھریلو زندگی: نسیم ولی خان اپنی بھرپورسیاسی سرگرمیوں کے باوجود گھر کو بھی مکمل وقت دیا کرتی تھیں۔ کھانے پینے کے معاملے وہ ایک روایتی خاتون تھیں۔وہ سادہ کھانا پسند کرتی تھیں۔ جیسے ساگ، سبزی، سالن، وہ مٹن کی بھی شوقین تھیں، مگر زیادہ تر اپنے گھر کی، اگاء ہوء سبزیاں کھاتی تھیں۔ گھر میں ان کے سب سے قریب ان کی ایک بیٹی غلالئی تھی، مگر سنگین ولی خان سے انہیں زیادہ لگاؤ تھا۔ سنگین ولی خان کے 2008 میں انتقال نے انہیں شدید صدمہ پہنچایا اور وہ بیمار رہنے لگیں۔ سیاست سے تو وہ 3 سال قبل ہی دور ہوگئی تھیں، تاہم بیٹے کی جدائی نے انہیں غم لگا دیا اور دن بدن ان کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ انہیں گھومنے پھرنے کا بھی بہت شوق تھا اور وہ مرحوم ولی خان کے ہمراہ یورپ، کابل، لندن وغیرہ بھی گئیں۔ جب کہ سوات کے علاقے مدین میں بھی ان کا گھر ہے۔ جہاں وہ اکثر قیام کیا کرتی تھیں۔

شوہر کی جدائی: خان عبدالولی خان کے انتقال کے بعد ان کی مصروفیات کافی عرصے محدود رہی۔ شوہر کی جدائی نے انہیں بس گھر تک محدود کردیا تھا، جہاں وہ اخبار پڑھتی یا ٹی وی پر حالات حاضرہ کے پروگرامز دیکھتی تھیں۔ سیاست سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ مرحومہ بیگم نسیم ولی پہلے کی سیاست اور اب کی سیاست میں بہت فرق رکھتی تھیں۔ ان کے نزدیک پہلے کی سیاست اور سیاست کرنے والے نظریاتی اور مخلص لوگ ہوا کرتے تھے۔موجودہ سیاست پر مرحومہ کا نقطہ نظر یہ تھا کہ آج کل کی سیاست کاروبار سے زیادہ نہیں، آج کل کے سیاست دانوں نے اسے کاروبار سے باندھا ہوا ہے۔ جہاں سب کو اپنی پڑی ہے۔ آج کل نظریاتی لوگ کم نہیں بلکہ ختم ہوگئے ہیں۔ تاہم سوشل میڈیا پر لوگوں کے اظہار خیال کو پسند کرتی تھیں، ان کا ماننا تھا کہ سوشل میڈیا ایسے لوگوں کی جگہ ہے، جو اپنی آواز یا اپنے مسائل میڈیا اور دنیا کے سامنے لانا چاہتے ہیں۔ یہ ایسے لوگوں کیلئے بہترین ذریعہ ہے جس سے انہیں میڈیا تک رسائی مل سکتی ہے۔

وہ ایسی شخصیت تھیں کہ پاکستان کیا دنیا بھر میں کوئی ان کا ثانی نہیں۔

خلاصہ کلام۔
محترمہ نسیم ولی خان مٹتی روایات کو زندہ رکھنے والی خاتون تھیں۔وہ آیک بہادر،وفاشعار،جفاکش اور زندہ دل لیڈر تھیں۔وہ کارکنوں کے دلوں میں زندہ تھیں۔انکی یاد کبھی فراموش نہیں کی جا سکے گی۔
 

Muhammad Saleem
About the Author: Muhammad Saleem Read More Articles by Muhammad Saleem: 8 Articles with 7078 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.