عیسانی کی روانی اور مکافات عمل

کہتے ہیں اکڑ تب تک ہی رہتی ہے جب تک پکڑ نہیں ہوتی پکڑ میں آتے ہی ساری اکڑ ہوا ہو جاتی ہے ،غرور تکبر اور بڑائی صرف اور صرف مالک ارض و سماء کو روا باقی سب فناہوجانے والے انسان ,مگر افسوس کوئی اس دائمی حقیقت کو سمجھنے کو تیار ہی نہیں ،ایک دن بندہ یہاں وزیر اعظم ,شہنشاہ معظم اور خود ساختہ امیر المومنین ہوتا ہے اگلے دن بکتر بند گاڑ ی میں اٹک قلعے کی سلاخیں پکڑے حسر ت و یاس کی تصویر بن کر کھڑا ہوتا ہے ،کھڑے کھڑے لوگوں کو ہتھکڑیاں پہنا دینے والے جب جہاز کی سیٹ کے ساتھ اپنے ہاتھ بندھے دیکھتے ہیں تو دل میں بجائے توبہ کے انتقام کا جذبہ پالتے ہیں ،ایک سے ایک بڑھ کر ،کس کی بات کریں اک ذرا سا اختیار ملنے پر محکمہ مال کا پٹواری پولیس کانسٹیبل بلدیہ کا خاکروب بلکہ جلسے جلوس کے باہر کھڑا ڈنڈا پکڑے رضا کار تک اچھے بھلے شریف آدمی کی دھوتی بیچ چوراہے اتار کر رکھ دیتا ہے اور اوپر سے اکڑ اور یہ اکڑ اکثر پکڑ نہ آ جانے تک جاری رہتی ہے،کہتے ہیں کسی گاؤں میں پٹواریوں کا ڈیرہ تھا جہاں دو چار دیہاتوں کے پٹواری بیٹھ کر اپنا روز مرہ کا کام کرتے تھے کھلی جگہ تھی آس پاس کسی زمیندار کا جانوروں کا باڑہ تھا جہاں بھینس کا بچہ یعنی کٹا بہت شور کرتا ،کئی بار کسان کو بلا کر سمجھایا گیا کہ بھائی اس کٹے کا کچھ کرو اس کی کرخت آواز سے ہمارے کام کا بہت حرج ہوتا ہے مگر کسان بے چارہ کیا سمجھاتا کیوں کہ انسان کے بچے کو تو سمجھایا جا سکتا ہے مگر جانور کو کسیے سمجھایا جاے،یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا ایک دن جب سب پٹواری کھانا کھا رہے تھے کہ اچانک کٹے نے بھاں بھاں کرنا شروع کر دی ،کھانا کھاتے کھاتے اچانک سنئیر پٹواری بولا،اچا ساہ وی نہ کڈیاں جے دو مرلہ وی تینڈے نا ں ہوندی(اونچا سانس بھی نہ لیتے اگر دو مرلہ زمین بھی تمارے نام ہوتی)یہ ہے ہمارا اصلی محکمہ مال،جن کے پاس انگریز دور کی شاندار ترین پیمائش کے ذریعے زمین کے ایک ایک انچ کا مکمل حساب کتاب موجود ہے کون سا مرلہ اور کون سا مکان کس کی ملکیت ہے کس گاؤں کے کتنے مالک ہیں کس گاؤں میں کتنی زمین شاملات ہے کتنی گذارہ ہے کتنی مفید اسلام ہے کتنی عام لوگوں کے لیے کتنی پانی کے لیے مختص ہے کتنی سرکار کی زمین ہے سب کچھ ریکارڈ میں موجود ہے مگر عملی صورتحال کیا ہے آپ اگر با رسوخ ہیں کھلا پیسہ اورچند درجن مششٹنڈے افورڈ کر سکتے ہیں تو پھر ستے خیراں ہیں کوئی مسٗلہ ہی نہیں کسی بھی عام آدمی کا لگا(ویران) سا پلاٹ دیکھیں اور دھونس جماتے ہوئے اس پر جا کر قبضہ کرلیں ،عام آدمی رجسٹری اور کاغذات اٹھائے تھانے بھاگتا جاے گا وہاں سے شاہی فرمان جاری ہو گا محکمہ مال کا مسئلہ ہے ادھر رجوع کریں وہاں جائیں وہاں سے جواب ملے گا ہمارا کام یہ بتانا ہے کہ زمین کس کی ہے زمین آپ ہی کی ہے اب اگر زمین چاہیئے تو عدالت جائیں اور عدالت میں کیا ہوتا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ،اب اگر آپ بھی با اثر ہیں اور چار پیسے ہیں تو بالکل اسی طریقے سے قبضہ چھڑا لیں گے ، جیسے قبضہ مافیا نے قبضہ کیا ورنہ ساری زندگی کے چکر اور آخر میں سکون قبر میں،پولیس کو بھی خریدا جا سکتا ہے اس کام کے لیے اور اکثر پولیس اہلکار اچھی رقم کے عوض پوری ایمانداری سے قبضہ چھڑوا بھی دیتے ہیں مگر اس کے لیے آپ کا صاحب حیثیت ہونا ضروری ہے بصورت دیگر قبضہ مافیا کا منت ترلہ یا انہیں کچھ دے دلا کر گلو خلاصی حاصل کی جا تی ہے ،ایسا دنیا میں کہیں نہیں اتنی لاقانونیت اتنی دو نمبر اتنی بے حسی آپ کو کہیں بھی نظر نہیں آئے گی کہ ایک شخص ساری زندگی روپیہ روپیہ جوڑ کر پانچ دس مرلے کا پلاٹ خریدتا ہے اور کوئی دس نمبریا جب چاہتا ہے اس پر اپنا قبضہ کر لیتا ہے اور قانون چونکہ اندھا ہے اور آج تک الشفا جیسے معیاری ہسپتال ہونے کے باوجوداس قانون کی نظر نہیں بن سکی لہٰذا فورا آپ کو اگلا اسٹیشن دکھا دیا جاتاہے لیکن یہی محکمہ مال اور قانون اگر آپ سے لینے پر آئے تو نہ آؤ دیکھتا ہے نہ تاؤ اور صرف صاحب کا حکم ہے اور آن واحد میں آپ کی وہ پراپرٹی جو دہائیوں سے آپ کے پاس ہے اور جس پر آپ کے باپ داد ا نے تعمیر کی ایک منٹ میں سیل کر کے راہ چلتے بنتے ہیں ،انہیں نہ کسی عدالت کا ڈر ہوتا ہے نہ کسی اور محکمے کا یوں لگ رہا ہوتا ہے کہ یہ ڈی سی یا اے سی اس وقت مجاہد اول ہے جس نے سرکاری زمین کے نام پر کسی بھی بلڈنگ یا زمین کو اپنا بنا کر ہی چھوڑنا ہے اور جب کوئی قسمت کا مار اعدالت کا رخ کر لے تو اول تو تاریخ ہی نہیں نکلتی اور اگر تاریخ آ جائے تو صاحب بہادر پیش ہی نہیں ہوتے ،معاملہ پھر انہیں کہ پاس پہنچ جاتا ہے اور بات کچھ لو اور کچھ دو پر آ جاتی ہے یہاں پر کسی غریب کے پلاٹ پر قبضہ کرنے والا سرکای زمین پر قابض اور کسی عام شخص کی ذاتی زمین پر قبضہ کرنے والا سرکاری اہلکار ایک ہی صف میں محمود و ایاز کی طرح برابر ہو جاتے ہیں ،ایسا ہی یہاں چند ماہ قبل سرکاری زمین واگزار کرانے کے نام پر اودھم مچا یا گیا سرکاری زمین تو سرکا ر کو ملی یا نہیں مگر صاحب بہادر نے کروڑوں کی دیہاڑیا ں لگائیں اور محض دو تین سال میں ارب پتی بن کر نکلے ،اکڑ ایسی کہ ایک ایک خبر پر پورا اخبار بند کر دیا ،کسی کی دکان چھوڑی نہ مکان جس کی بات مزاج شاہاں پہ ناگوار گذری اسے عبرت کا نشاں بنا دیا گیا،لوگ اپنی دکانوں اور پلازوں کے کاغذات اٹھائے دہائیاں دیتے رہے کہ جناب زمین اصلی یا نقلی ہمیں کیا معلوم ہم نے تو خریدی اور خریدتے وقت آپ ہی کے سرکاری اہلکاروں نے ہزاروں لاکھوں روپے ٹیکس نہ صرف سرکاری خزانے میں جمع کروایا بلکہ اپنی جیبیں بھی ہمارے پیسوں سے بھریں ،اگر زمین غلط تھی تو ہمارے نام منتقل کیوں کی گئی گورنمنٹ کو بھی چونا کیوں لگایا گیا مگر کسی کی ایک نہ سنی گئی اور وہی مرد مجاہد جاگ ذرا کا راگ الا پ کر مخصوص علاقوں میں مخصوص لوگوں پر چڑھائی کی گئی ،یوں تو موصوف کا سابقہ ریکارڈ بھی ایس پی شکار پور کے حولاے سے شاندار تھا آگے بھی اس میں کمی کوتاہی نہ ہونے دی گئی اور اب حال ہی میں جناب کے نام کی رنگ روڈ راولپنڈی منصوبے میں بازگشت سنائی دینے لگی ہے اور آخری خبریں آنے تک موجود عہدے سے ہٹا بھی دیئے گئے ہیں ،سرکاری عہدہ آپ کے پاس امانت ہوتی ہے جب آپ اس پر براجمان ہوتے ہیں تو آپ فقط اسسٹنٹ کمشنر یا ڈپٹی کمشنر یا کمشنر ہوتے ہیں ذاتی نا جھگڑے اس وقت آپ کو زیب نہیں دیتے کہ آپ کی حیثیت عوام پر والدین جیسی ہوتی ہے جس میں سارے آپ کے لیے برابر ہوتے ہیں مگر یہاں ذاتی انا پسند نا پسند اور سیاسی حیثیت کو مقدم رکھا جاتا ہے جس کا نتیجہ آخر میں رسوائی کے سوا کچھ نہیں نکلتا کیوں کہ کہتے ہیں کہ اکڑ تب تک ہی رہتی ہے جب تک پکڑ نہیں ہوتی پکڑ میں آتے ہی ساری اکڑ ہوا ہو جاتی ہے ،غرور تکبر اور بڑائی صرف اور صرف مالک ارض و سماء کو روا باقی سب فناہوجانے والے انسان ,مگر افسوس کوئی اس دائمی حقیقت کو سمجھنے کو تیار ہی نہیں ،،،،اﷲ ہم سب پر رحم کرے