برادرم واجد علی یاسینی نے کہا "ریڈیو پاکستان نے آپ کو
پانچ سال پہلے پروفیسر مانا ہے جبکہ جی بی حکومت نے اس سال تسلیم کیا"۔
یقینا ایسا ہی ہے۔
2010سے ریڈیو پاکستان سے وابستگی ہے۔کبھی پروفیسر آن لائن کا سلسلہ چل رہا
ہوتا ہے۔کھبی محرم، ربیع الاول اور رمضان المبارک کی خصوصی ٹرانسمینشز میں
حصہ لینے کا موقع مل رہا ہوتا ہے۔
کبھی تمام مسالک کے اہل علم و قلم کیساتھ مختلف علمی و فکری موضوعات پر
سیمنارز میں گفتگو کی سعادت حاصل ہورہی ہے۔
ریڈیو پاکستان گلگت کے ڈایریکٹرز و دیگر تمام عملہ کا مجھ ناچیز کے ساتھ
انتہائی برادرانہ رویہ ہوتا ہے۔
پروڈیوسر ڈاکٹرشیردل
پروڈیوسر خورشید
پروڈیوسر واجد علی
پروڈیوسر اسماعیل
نے ہمیشہ مختلف علمی، سماجی اور دینی موضوعات پر راقم کو خصوصی سپیس دیا
ہے۔میرا بھی معمول یہی ہے کہ مجوزہ عنوان پر باقاعدہ ریسرچ کرکے تحریری
سکرپٹ تیار کرکے پہنچ جاتا ہوں۔اس کا مجھے بھی علمی طور پر بڑا فایدہ ہوتا
ہے اور میرا سامع بھی مستفید ہوتا ہے اور اچھا فیڈبیک بھی ملتا ہے۔
کئی دفعہ کالج سے اپنے طلبہ کو بھی سیمینارز میں لے گیا۔اور کئی ایک اسلامک
اسکالرز و علماء کو بھی ریڈیو تک لے جانے کا سبب بنا۔
پانچ مئی 2021 کو مذہبی ہم آہنگی پر ایک سیمنار منعقد ہوا اور علمی مذاکرہ
چلتا رہا۔
شرکاء مذاکرہ میں
١۔ڈاکٹر انصار مدنی (اہل تشیع)
٢۔ امیرجان حقانی (اہل سنت)
٣۔الواعظ نیک عالم شاہ (اسماعیلی)
شریک تھے۔برادرم اسرالدین اسرار نے میزبانی کے فرائض انجام دیے۔
اس سیمنار کے نگران اعلی خلیل احمد چنہ(اسٹیشن ڈایریکٹر) جبکہ پروڈیوسر
واجد علی یاسینی تھے۔
مذاکرہ میں مذہبی ہم آہنگی کی مشروعیت، اہمیت اور تقاضوں پر مفصل گفتگو
ہوئی۔
یہ مذاکرہ 9 مٸی کو 4:05 بجے شام ریڈیو پاکستان اسلام آباد سے نشر ہوا۔
ریڈیو پاکستان گلگت کے دوستوں کا رویہ بہت اچھا لگتا ہے۔احمر بصرا صاحب بھی
اہل علم کے بڑے قدردان ہیں۔
علمی و نشریاتی اداروں کی یہ روش ہونی چاہیے۔ اقراباپروری کی بجائے اہل علم
و قلم کو بلاتفریق قوم و مذہب مدعو کیا جائے تاکہ ایک بہتر سماج کی تشکیل
میں اہل علم اپنا کردار ادا کریں۔
احباب کیا کہتے ہیں؟
|