اسرائیل و امریکہ : جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

اسرائیل نہ صرف سفارتی وحربی معاملات میں امریکہ کا محتاج ہے بلکہ اس کی معیشت بھی امریکہ کے زیر بار ہے۔ حالیہ برسوں میں امریکہ نے اسرائیل کو چار ارب ڈالر کی فوجی امداد دی ہے اور مزید آٹھ ارب ڈالر کے قرضوں کی یقین دہانی بھی کرائی ہےلیکن اس بار تو دوران جنگ بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کو ساڑھے 73 کروڑ ڈالر مالیت کے ہتھیار فروخت کرنے کی منظوری دے دی لیکن سابق صدارتی امیدوار برنی سینڈر نے اسرائیل کو 73 اسلحے کی فروخت روکنے کے لیے امریکی سینیٹ میں قرارداد پیش کردی ۔سینڈر کاکہنا تھا کہ ’’ایسے وقت میں کہ جب امریکہ کے بنائے گئے بم غزہ میں تباہی پھیلا رہے ہیں اور بچوں اور عورتوں کو قتل کررہے ہیں، ہم کانگریس کی بحث کے بغیر آسانی سے اسلحہ کی ایک اور بڑی فروخت کی اجازت نہیں دے سکتے‘‘۔اس قرار داد کو الیگزینڈریا اوکیسیو کورٹیز، مارک پوکین اور رشیدہ طلیب کی حمایت بھی حاصل ہوگئی۔

اس پیش رفت نے ظاہر ہے آنکھ موند کر اسرائیل کی حمایت کرنے والی سفید فام انتہا پسند سرمایہ داروں کی جماعت ریپبلکن کو فکر مند کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سینیٹ میں تقریباً سارے ریپبلکن اراکین نے صدر بائیڈن پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیلی دفاع کے حق کی "دو ٹوک" حمایت کریں اور ایران کے ساتھ جوہری پروگرام سے متعلق عائد معاشی پابندیوں میں راحت پر ہونے والے گفت و شنید کو "فی الفور" ختم کریں۔ری پبلکنز کا دعویٰ ہے کہ ایران اسرائیل کے خلاف حماس کی دہشت گرد سرگرمیوں میں "مدد" کر رہا ہے۔صدر بائیڈن کے نام 44 ریپبلکن سینیٹرز نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ "چند روز سے غزہ کے فلسطینی دہشت گردوں نے، جنہیں ایران فنڈنگ کرتا ہے، اسرائیل پر راکٹ حملوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔"

یہ سینیٹرز امریکہ کے قریب ترین اتحادی اسرائیل کے خلاف نام نہاد دہشت گرد سرگرمیوں میں ایران کی مدد کو بتا اہمیت دیتے ہیں ۔ یہ عجیب منطق ہے کہ وہ خود تو اپنے حلیف کی کھل کر مدد کرنے کی وکالت کرتے ہیں مگر چاہتے ہیں کہ مخالفت کی مدد نہیں کی جائے۔ ان بیچاروں کو اپنے دوغلے پن کا بھی احساس نہیں ہے۔ ریپبلکنز کو ایران ہرجگہ اسی طرح دکھائی دیتا ہے جیسے بی جے پی کے بھکتوں کو جا بہ جا پاکستان نظر آتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ نام نہاد دور اندیش ڈونلڈ ٹرمپ کو بائیڈن کی اسرائیلی حمایت میں کمی سے اسرائیل پر نئے حملوں کا امکان بھی نظرآ نے لگتاہے۔ٹرمپ کو فی الحال حماس کے راکٹ حملوں کی فکر تو ستا رہی ہے مگر اس سے کہیں زیادہ تباہ کن اسرائیلی بمباری سے کوئی تشویش نہیں ہے حالانکہ اصل مسئلہ تو وہ میزائل حملے ہیں ۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ رائے عامہ میں اپنی ساکھ بچانے کی خاطر امریکی صدور اسرائیل پر تنقید کرنے کے معاملے بڑا احتیاط کرتے ہیں ۔جو بائیڈن کے بارے میں کہا جارہا ہےکہ انہوں نے بڑی ہمت جٹا کر دنیا بھر میں اہلِ مذہب کے لیے اہمیت کے حامل یروشلم کے بارے میں یاہو سے کہا کہ اسے جائے امن ہونا چاہیے۔ سوال یہ ہے اسرائیل جیسے دہشت گرد کا ناجائز دارالخلافہ امن کا گہوارہ کیوں کر ہوسکتا ہے؟ اس معمولی سے بیان نےسابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کو یہ بیان دینے کا موقع عطا کردیا کہ امریکی خارجہ پالیسی "کمزور" ہے۔ جو دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور دنیا کے لیے خطرات میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ ایک نازک موقع پر پومپیو کے اس بیان نے نہ صرف ریپبلکن پارٹی کو پوری طرح بے نقاب کردیا بلکہ ٹرمپ کی مسلمان دوستی کا دامن بھی تار تار کردیا ۔ یہ سب ہوجانے کے بعد ٹرمپ کو مسلمانوں کا ہمدرد سمجھنے والے حکمرانوں اور ان کا ڈھول بجانے والے زر خرید قلمکاروں کو گریبان میں جھانک کر دیکھ لینا چاہیےا س لیے کہ ایسے مواقع سامانِ عبرت فراہم کرتے ہیں اور جو لوگ انہیں گنوا دیتے ہیں انہیں اس بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ اسرائیل جیسے دہشت گرد کے حامی پومپیو کا یہ ماتم علامہ اقبال کے ضرب ا لمثل شعر کی یاد دلاتا ہے (ترمیم میں معذرت کے ساتھ، اس میں ’فتح ‘محمود عباس کی پی ایل او کا مخفف اور بینجمن اسرائیلی وزیر اعظم ہیں ) ؎
فتح کے آہوں سے ٹوٹا نہ بینجمن کا طِلسم
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد

پومپیو تو خیر ٹرمپ کے ساتھ رخصت ہوگئے لیکن موجودہ وزیر خارجہ نے اپنے نائب ہیڈی امر کو فوری طور اسرائیلی اور فلسطینی رہنماؤں سے ملاقاتیں کرکے تشدد کے خاتمے کا کام سونپا ۔ اس سے قبل امریکہ تشدد کا خاتمہ کرنے کے بجائے اپنے مخالف کو دہشت گرد قرار دے کر ان پر تشدد کرنے کو فرض عین سمجھتا تھا۔ انٹنی بلنکن نے آگے بڑھنے سے قبل تمام فریقوں کو تشدد ختم کرنے، اورکشیدگی کم کرکے امن قائم کرنے کی تلقین کی ۔اس تما م کے اندر اسرائیل چھپا ہوا ہے ۔ اسرائیل کے دفاع کا حق والا پرانا راگ الاپنے کے بعد انہوں نے اس بار یہ خوشگوار اضافہ بھی کیا کہ فلسطینیوں کو حق ہے کہ وہ تحفظ اور سلامتی کے ساتھ زندگی گزاریں۔ انہوں نے اس بار اسرائیل کے علاوہ مغربی کنارے اور غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر بھی گہری تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ دل دہلانے والی تصاویر آرہی ہیں اورعام شہریوں کی جانوں کا زیاں ایک المیہ ہے ۔ ویسے یہ نہایت کمزور موقف ہے لیکن ماضی میں امریکہ کے ذریعہ سامنے آنے والے بیانات سے اس کا موازنہ ایک مثبت تبدیلی کا اشارہ کرتا ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کانگریس میں ڈیموکریٹس کے اہم نمائندے بھی اسرائیل کے ’دفاع کا حق ‘ والے احمقانہ موقف کی حمایت کرتے ہیں لیکن بعض ارکان نے اسرائیلی حملوں کو آڑے ہاتھوں بھی لیا ہے۔اس کی ایک مثال کے ریاست وسکونسن سے ایوانِ نمائندگان کے رکن مارک پوکن ہیں ۔ انہوں نے حماس کے راکٹوں کی مذمت کرتے ہوئے اسرائیلی تشدد بشمول غیر قانونی بے دخلی، مظاہرین پر حملوں اور فلسطینی بچوں کے قتل کو نظر انداز کرنے پر تنقید کرنے کے بعد امریکہ کو اس تشدد کی مالی معاونت سے باز رہنے کی تلقین بھی کی ہے ۔نیویارک میں اسرائیل کے ایک بڑےحامی کو شکست دینے والے ڈیموکریٹ رکنِ کانگریس جمال باؤمین نے حماس کے راکٹ حملوں کی مذمت کے ساتھ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی بے دخلی اور حماس کے زیرِ انتظام غزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں پر بھی تنقید کی ۔جمال باؤمین نے کہا کہ "نسلوں سے ان گھروں میں بسنے والے خاندانوں کو وہاں سے بے دخل کرنا امن کا اقدام نہیں ہے۔عبادت کے دوران طاقت کا مظاہرہ امن کا اقدام نہیں۔ مقدس مقامات کو تباہ کرنا امن کا اقدام نہیں۔ حماس کے راکٹ حملے امن کا اقدام نہیں۔ اسرائیلی حکومت کے فضائی حملے بھی امن کا اقدام نہیں۔" رکن کانگریس مریم نیومین نے لکھا کہ فلسطینی خاندانوں کو الشیخ جراح میں رہنے کا حق ہے۔ ہم اس حق کی حمایت کرتے ہیں‘‘

وسکونسن اور باومین نے تو خیر ایک غیر ضروری توازن قائم رکھنے کی سعی کی مگر خاتون رکن کانگریس الیگزینڈریا اوکاسیو کارٹیز اور ان کی دو ڈیموکریٹ ہمنواوں راشدہ طلیب اور الہان عمر نے اس تنازع میں دونوں فریقین کو موردِ الزام ٹھہرانے کے بجائے صرف اسرائیلی جارحیت کو نشانہ بنایا ہے ۔ اوکاسیو کورٹیز نے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی فوج کے ذریعہ پرتشدد طریقوں سے فلسطینی عوام کے حقوق کی پامالی کو روکنے میں قائدانہ کردار ادا کرے۔پہلی مسلم رکن کانگریس راشدہ طلیب کے والدین کسی زمانے میں فلسطینی پناہ گزین کی حیثیت سے امریکہ آئے تھے۔انتخاب سے قبل راشدہ طلیب نے کہاتھا کہ ’یہ وہ لمحہ تھا جس میں میں نے سوچا کہ میں رِنگ سے باہر رہوں یا رِنگ میں اتر کر لڑائی لڑوں۔ میں اپنے حلقے مشی گن کے باشندوں کو احساس دلانا چاہتی ہوں کہ کوئی ہے جو ان کی لڑائی لڑ سکتا ہے ‘۔ حالیہ تصادم کے دوران راشدہ نے امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن سے سوال کیا کہ امریکہ، فلسطینیوں کے خلاف ہونے والے نسل پرستانہ تشدد کی کب مذمت کرے گا؟ کیا آپ کی پالیسی بھی فلسطینیوں کے حقوق سلب کرنے والوں کی حمایت پر مبنی ہے؟ امریکہ کب تک نیتن یاہو کی نسل پرست حکومت اور نسل پرست ریاست کی حمایت کرتا رہے گا؟ ان چبھتے ہوئے سوالات کے ذریعہ راشدہ نے اپنےفلسطینی ہونے کا حق ادا کردیا ، ان کے اس جرأتمندانہ بیان پر جگر مرادآبادی کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
میری زباں پہ شکوۂ اہل ستم نہیں
مجھ کو جگا دیا یہی احسان کم نہیں

ر اشدہ طلیب کی ہمنوا الہان عمر کا خاندان صومالیہ سے نقل مکانی کر کے کینیا میں تارکین وطن کے کیمپ سے ہوتا ہوا امریکی ریاست منی سوٹا پہنچا تھا۔یہی وجہ ہے کہ وہ فلسطینیوں کا درد محسوس کرتی ہیں ۔ الہان عمرکو نہ صرف پہلی مسلمان رکن کانگریس بلکہ اولین صومالی امریکن قانون ساز بننے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ انہوں نے بھی اسرائیل پر تنقید کرتے ہوئے غزہ کے راکٹ کی مذمت کو ضروری نہیں سمجھا۔ یہ تبدیلی صرف مسلمانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ڈیموکریٹک رکن کانگریس مریم نیومین نے لکھا کہ فلسطینی خاندانوں کو الشیخ جراح میں رہنے کا حق ہے۔ ہم ان کے اس حق کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ ایک خوش آئند تبدیلی ہے کہ امریکی ڈیموکریٹس کی ایک بڑی تعداد نے بائیڈن انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بیت المقدس اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر اسرائیل کے ذریعہ کیے جانے والے تشدد کو روکنے کی خاطر موثر اقدامات کرے۔

امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی کی خاتون رکنِ کانگریس کوری بش نے کہا ہے کہ اسرائیل کے فلسطینی اراضی پر قبضے کی خاطر امریکی پیسہ استعمال کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔وہ امریکی امداد کو فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز تسلط کے لیے استعمال کرنے کی مخالف ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر برنی سینڈرز (جو صدارتی امیدوار بھی تھے) نے اپنے ملک کی انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ بیت المقدس میں فلسطینی خاندانوں کے خلاف اسرائیلی حکومت کےحلیف انتہا پسند گروپوں کی کارروائیوں کو روکیں۔انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی حملوں کو زبردستی روکیں اور انہیں فلسیطنی خاندانوں کو بے گھر کرنے سے باز رکھیں۔ ان کے علاوہ بھی متعدد ڈیموکریٹک سیاست دانوں نے یروشلم اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی بابت من مانیاسرائیلی دھاندلی کی مذمت کی۔ اسرائیل کی مخالفت کرنے والوں میں انڈیانا پولس کے آنڈرے کارسن اورمشی گن کی ڈیبی ڈنگل شامل ہیں۔امریکہ میں رائے عامہ کی یہ تبدیلی صرف سیاستدانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ایک معروف محقق عرب امریکن انسٹی ٹیوٹ کے صدر جیمز زاگبی کے مطابق انہوں نے پچھلے 40 سالوں میں کبھی بھی اس بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت نہیں دیکھی۔ ویسے اسرائیل نواز امریکہ کے ایوان پارلیمان کے ارکان کے صدائے احتجاج پر اسرائیل کی حالت اس شعر کی مانند ہوگئی ہے؎
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری )
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449156 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.