مرگ انبوہ جسے انگریزی میں ہالوکاسٹ کہا جاتا ہے دراصل
دوسری جنگ عظیم کے دوران میں جرمنی کے چانسلر ہٹلر کی نازی افواج کے ہاتھوں
مبینہ قتلِ عام کا شکار ہونے والے یہودیوں سے منسوب ہے۔
ہٹلر نہایت غریب لڑکا جو ایک کوریئیر کمپنی میں ملازم تھا۔یہودی کے ظلم کی
انتہا نے اسکو ظالم جابر بنا دیا۔جیسا کے آج یہودی زبردستی فلسطین میں گھس
گئے اور فلسطینیوں کا قتل عام کرکے انکی جائدادیں ہڑپ کرکے ایک ناجائز
ریاست اسرائیل کو فروغ دے رہا ہے۔ظلم تو ظلم ہے بڑھ جاتا ہے تو مٹ جاتا ہے
یہی قدرت کا قانون ہے۔۔۔ اب چلیں اصل ٹاپق کی طرف۔۔۔
۔ہٹلر کی ذاتی زندگی۔ایڈولف ہٹلر 20 اپريل 1889ء كو آسٹريا كے ايك غريب
گھرانے ميں پيدا ہوا۔ اس کی تعليم نہايت كم تھی۔ آسٹريا كے دارالحكومت
ويانا كے كالج آف فائن آرٹس ميں محض اس لیے داخلہ نہ مل سكا كہ وہ ان كے
مطلوبہ معيار پر نہيں اترتا تھا۔ 1913ء ميں ہٹلر جرمنی چلا آيا جہاں پہلی
جنگ عظيم ميں جرمنی کی طرف سے ايك عام سپاہی کی حيثيت سے لڑا اور فوج ميں
اس لیے ترقی حاصل نہ كر سكا كہ افسران كے نزديك اس ميں قائدانہ صلاحيتوں كی
كمی تھی۔ 1919ء ميں ہٹلر جرمنی کی وركرز پارٹی كا ركن بنا جو 1920ء ميں
نيشنل سوشلسٹ جرمن وركرز پارٹی (نازی) كہلائی۔ 1921ء ميں وہ پارٹی كا
چيئرمين منتخب ہوا۔ 1930ء ميں منعقد ہونے والے انتخابات ميں نازی پارٹی
جرمنی کی دوسری بڑی پارٹی بن گئی۔
۔
1933ء کے انتخابات میں نازی پارٹی اکثریت حاصل نہ کر سکی مگر سب سے بڑی
پارٹی کی حیثیت سے صدر نے ہٹلر کو حکومت بنانے کی دعوت دی اور ہٹلر ملك کے
سب سے اعلیٰ عہدے چانسلر تک پہنچ گيا۔ چانسلر بننے كے بعد ہٹلر نے جو سب سے
پہلا كام كيا وہ نازی پارٹی كا فروغ تھا۔
دوسری جنگ عظیم کے آخری ایام میں 30 اپریل 1945ء کو ہٹلر نے برلن میں اپنی
زیرزمین پناہ گاہ میں اپنی نئی نویلی دلہن ایوان براؤن کے ساتھ خودکشی
کرلی۔
ہٹلر پر یہودیوں کے قتل عام کا الزام جھوٹ اور سچ۔
ذہن میں سوال پیدا ہو گا کہ ہٹلر یہودیوں کے خلاف کیوں تھا؟ واقعی اتنے
یہودی مارے گئے تھے؟ ان سوالوں کے جوابات مندرجہ ذیل تحریر میں پڑھ سکتے
ہیں۔
وجوہات
ہٹلر اور اسکے پارٹی نے پہلی جنگ عظیم میں ناکامی کی بنیادی وجہ یہودیوں پر
ڈال دی جو بلکل سچ تھی جس کی وجہ سے جرمنی جنگ ہار گیا اور ورسییل کے
معاہدے میں ذلیل ہونا پڑا۔
ہٹلر کے پارٹی نے لوگوں کو باور کرایا کہ اصلی جرمن آرین نسل ہے اور وہ
یہودیوں سے برتر اور بہتر ہے۔ یہ اسلیئے کہا کیونکے یہودی نہ صرف امیر ترین
بلکے ملک اعلی ترین وعہدے پر تھے۔
ہٹلر نے کبھی بھی یہودیوں کو قتل کرنے کا نہیں کہا بلکہ ان یہودیوں کی
منافقانہ رویے کو دیکھ کر ان کو جرمنی کی سوسائٹی سے الگ کرنے کے کا کہا
تھا۔ یعنی یہ لوگ ہمارے ملک میں اونچے عہدے پر فائز ہوکر ایک قسم کی حفیہ
لوٹ مار میں مصروف ہے۔ یعنی جرمنی کے کرپٹ سیاست دان ان یہودیوں کے ساتھ
ملے ہوئے تھے کیونکے یہودیوں کے پاس بہت پیسہ تھا اسکی مثال ہمارے آج کے
سیاست دان ہے۔جرمنی میں یہودیوں کی کل آبادی صرف 1٪ تھی لیکن انہوں نے
بینکوں ، اخباروں اور میڈیا پر کنٹرول کیا تھا نیز یہودی خاص طور پر جنگ
عظیم اول کے بعد سیاسی طور پر بہت مضبوط اور متحرک ہوئے۔ ایڈولف ہٹلر
کمیونزم کے خلاف بھی تھے کیونکہ کمیونزم کے بانی کارل مارک یہودی تھے۔ بہت
سے یہودی جرمنی کے کمیونسٹ پارٹی کا حصہ تھے۔ پہلی جنگ عظیم میں یہودیوں کے
منافقت کے بعد ، جو جرمنی کی شکست کا سبب بنا، جرمن یہودیوں سے زیادہ نفرت
کرنے لگے۔ ہٹلر نے جرمنی سے کمیونزم کو مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش کی
دوسرے لفظوں میں یہودیوں کی زیر قیادت پارٹی کو حتم کرنے کی کوشش کی۔ ہٹلر
کی حکومت آنے کے بعد انھوں نے یہودیوں کو الگ کرنا شروع کردیا زیادہ یہودی
امریکہ چلے گئے تھے لیکن جنگ کے نتیجے میں ان میں سے بہت سارے جرمنی میں
پھنس گئے تھے۔ برطانوی سامراج نے پہلے ہی وعدہ کیا تھا کہ وہ یہودیوں کی
اپنی زمین واپس حاصل کرنے میں مدد کریں گے۔ پہلی جنگ عظیم میں برطانوی
سامراج نے ابن سعود کی مدد کرکے عرب پر اقتدار حاصل کرنے میں کامیابی حاصل
کی جو خلیفہ کے خلاف تھے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد پھر اسرائیل کی شکل میں
اقتدار پر قابض ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ جرمنوں نے یہودیوں کے منافقانہ رویے
کی تعریف یوں کی ہے 'یہودیوں کا جرمن فوج کے پیٹ پیچھے سے چھرا گھونپنا' یہ
تعریف جرمنی میں اسلیئے مشہور تھی کیونکہ یہودی جرمنی میں اکثریتی اعلی
درجے کے عہدوں پر فائز تھے اور جب فوج لڑ رہی تھی تو جرمن لوگوں کا خیال
تھا کہ یہودیوں نے ہی جرمنی کو امریکہ برطانیہ فرانس کے ساتھ ایک بے عزت
اور زلیل معاہدے کرنے پر مجبور کیا تھا اور جب شکست خوردہ ارمی واپس آئی تو
بہت سارے جوان بے گھر ہو گئے، جرمنی میں غربت سب سے اوپر درجے پر چلی۔ گی
کیونکہ برطانیہ امریکہ اور فرانس کے ساتھ معاہدہ کی صورت میں بھاری رقم ادا
کی گئی ، معیشت کریش ہوگئی ، نوکری نہ ملنے کی وجہ سے جرائم کی شرح میں
اضافہ ہو رہا تھا یعنی پورا جرمنی بہت بری حالت میں تھا۔ لیکن یہودی اب بھی
اعلی درجے پر فائز تھے اور یہودیوں کی آبادی زیادہ سے زیادہ دولت مند ہو
رہی تھی۔
یہ بات واضح ہے کہ یہودیوں کی ہلاکت میں تیزی تب آئی جب جرمنی نے جنگ ہارنی
شروع کی تو یہ خیال کیا جارہا تھا کہ یہودیوں نے انگریزوں کو بہت ساری خفیہ
معلومات لیک کردی ہیں جس کی وجہ سے وہ دوبارہ جنگ ہارنے پر مجبور ہوئے اور
اسکے جرمنی کے پاس کافی ثبوت تھے۔
واضح رہے کہ دوسری جنگ عظیم کو مکمل جنگ بھی کہا جاتا ہے جس کا مطلب کہ ایک
ایسا جنگ جن میں سویلین بھی شامل ہو یعنی لوگوں کے گھروں شہروں پر بم
برسائے گئے۔ لہذا نہ صرف یہودی بلکہ یہاں تک کہ مسلمان ، عیسائی وغیرہ
وغیرہ اور بھی بہت بڑی تعداد میں عام اور معصوم لوگ بشمول یہودی مارے گئے۔
لیکن یہودیوں نے یہ سارے اموت آپنے ساتھ جوڑ دیے۔ یہ کام پورے منظام انداز
کے ساتھ برطانیہ اور امریکہ نے مل کر کیا تکہ قتل و غارتگری کا سارا بوجھ
یا ملبہ جرمنی پر ڈالہ جائے اور دنیا کی ہمایت ہمدردی حاصل کر کے اسرائیل
کی بنیاد رکھی جائے۔ لیکن حقیقت میں یہودیوں کی منافقانہ کردار ہی کی وجہ
سے جرمنی کو دونوں جنگوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
یہودیوں کی قتل عام کی جھوٹ کا پتہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے "امریکہ،
برطانوی اور حاص کر یہودی تاریخ دانوں کا ماننا ہے کہ 60 لاکھ سے زیادہ
یہودی جرمنی کے ہاتھوں مارے گئے۔ بعض جگہوں پر یہ تعداد ایک کروڑ سے زیادہ
بتایی جاتی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جرمنی کی کل آبادی میں 1٪
یہودی تھے ، تو فرض کیجئے کے total یہودی 10 ملین تھے، اس کا مطلب یہ ہے کہ
100٪ میں سے 10 ملین یہودی، اگر ہم اسے 100٪ کے اعداد و شمار میں تبدیل
کریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت جرمنی کی کل آبادی کی 100 کروڑ بنتی
ہیں، جبکہ ابھی بھی پوری یورپ کی آبادی 100 کروڑ سے کم ہے ، لہذا یہ ایک
مکمل جھوٹ تھا حقیقت میں ہم پہلے ہی بتاچکے ہیں کہ یہ ایک مکمل جنگ تھی جن
میں عام لوگوں کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا گیا۔ لیکن یہودیوں نے تمام اعداد
و شمار کو اپنے ساتھ مربوط کردیا۔
(آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ جرمن قوم پہلی جنگ عظیم کے
یہودیوں اور امریکہ کی مکاریوں سے ہارنے بعد لوگ کیوں ان کے حلاف نہ ہووے؟
جواب: - پہلے لوگ اس منافقت کے بارے میں کھل کر نہیں جانتے تھے اور جنگ کے
فوراً بعد لوگوں کو بہت سے گروہوں میں تقسیم ہوے ان میں کوئی اتحاد نہیں
تھا جیسے ہمارے ملک پاکستان۔ ہماری پوری قوم کو معلوم ہے کہ صرف 1٪ لوگ
ہماری تباہی ، لوٹ مار ، بدعنوانی ، جرائم اور ہمیں فروخت کرنے میں مصروف
ہے اور اپنی دولت کمانے اور بڑھنے میں مصروف ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ ہمارے
نام پر قرض لیتے ہیں ہم جانتے ہیں کہ وہ ہمارے وسائل چوری کررہے ہیں لیکن
پھر بھی ہم کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ ہم حقیقی قائد اور ایک حقیقی سچی سیاسی
جماعت کے تحت متحد نہیں ہیں۔ جرمنی کے معاملے میں بھی ایسی ہی تھا۔ مگر
ہٹلر کے پارٹی نے جرمن کو متحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا)
دوسرا سوال آپ کے ذہن میں یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ یہودی خاص طور پر انگریزوں
کے ساتھ کیوں تھے؟
وجوہات کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر برطانیہ اور امریکہ جیت جاتے ہیں تو ہم
اپنا وطن دوبارہ اسرائیل کو حاصل کر سکیں گے اور اس وقت اسرائیل کی سرزمین
برطانوی انتظامیہ کے ماتحت تھی اور برطانیہ میں بھی یہودی اعلی عہدے پر
فائز تھے یہی حال امریکہ میں بھی تھا ، انگریز حاص کر برطانیہ اور امریکہ
سرمایہ دارانہ ذہنیت کے حامل لوگ تھے اور یہی ذہنیت یہودیوں کی بھی ہے
اسلیئے وہ ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے تھے پاکستان کے سیاستدان کا کردار بھی
انہی یہودیوں اور سرمایہ دارانہ ذہنیت کے انگریزوں کی طرح ہے تو ان سب میں
کوئی فرق نہیں۔ اسرائیل کی سر زمین سرمایہ داری نظام کے لیئے بہت ضروری تھا
اس کی وجہ اسرائیل کے کنارے سمندری بندرگاہوں کے ساتھ ان کے قریبی ممالک پر
نظر رکھنے کے لئے ایک چوکیدار کی حیثیت سے رکھنا ہے۔ اور دوسری طرف اگر
جرمنی جنگ عظیم جیت جاتا تو اسرائیل اور سرمایہ دارانہ نظام کا خواب چکنا
چور ہو جاتا اور سرمایہ دارانہ نظام جو آج دنیا پر راج اور ظلم کر رہا ہے
اسکی جگہ ہٹلر کی نازی پارٹی کا راج ہوتا جو ایک سرمایہ دارانہ نظام کے
خلاف تھی اور شاید آج امریکہ کی شکل میں جو ظلم وبربریت دنیا میں حصوص
مسلمانوں پر نہ ہوتی نہ اسرائیل ہوتا اور نہ فلسطین پر ظلم تو یہی ایک بڑی
وجہ تھی کہ یہودیوں کا کردار منافقانہ تھا تکہ کیسی صورت میں جرمنی یہ جنگ
ہار جائے۔
کچھ مزید تحقیق
تجدید پسندان مرگ انبوہ یا ہالوکاسٹ محققین کا ایک گروہ ہے جو اس بات پر شک
کا اظہار کرتے ہیں کہ مرگ انبوہ میں ساٹھ لاکھ سے زیادہ یہودی قتل ہوئے
تھے۔ کچھ لوگ مرگ انبوہ کو سرے سے کہانی سمجھتے ہیں مگر زیادہ لوگ یہ
سمجھتے ہیں کہ مرگ انبوہ پر نئے سرے سے تحقیق ہونا چاہئیے کہ اس میں مرنے
والوں کی اصل تعداد کیا تھی۔ ان کے خیال میں یہ ساٹھ لاکھ سے بہت کم تھی
اور اتنی بڑی تعداد کا ذکر پہلی دفعہ مرگ انبوہ کے کئی سال بعد سامنے آیا
جس کا مقصد اسرائیل کے وجود کو بہانہ مہیا کرنا تھا۔ یہ خود کو ترمیم پسند
(revisionists) کہلاتے ہیں مگر یہودی اور مرگ انبوہ پر مکمل یقین رکھنے
والے ان کو منکرینِ مرگ انبوہ (Holocaust deniers) کہتے ہیں۔
سب سے پہلے نازی جرمنی کے لوگوں نے ہی اس بات کی مخالفت کی کہ انہوں نے
یہودیوں کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا تھا۔ اس کے بعد ہیری المر بارنز
(Harry Elmer Barnes) نے جو ایک امریکی مصنف تھے، مرگ انبوہ کو جنگ کے
پروپیگنڈہ مہم کا حصہ قرار دیا جس کا مقصد امریکا کی جنگ میں شمولیت کا
جواز پیدا کرنا تھا۔ اس کے بعد اس سلسلے کی پہلی نمایاں کتاب ڈیوڈ ہگان نے
آلمانی (جرمن) زبان میں لکھی جس کا نام 'ٹھونسی گئی جنگ' (Der Erzwungene
Krieg) تھا جو 1961ء میں چھپی۔ 1969ء میں اس نے ایک اور کتاب بنام 'ساٹھ
لاکھ کا افسانہ' (The Myth of the Six Mill) انگریزی میں لکھی۔ جو لاس
اینجلس سے چھپی۔ یہ کتابیں یورپ میں ضبط کر لی گئیں۔
1964ء میں ایک مشہور فرانسیسی مؤرخ پال ریسینئے (Paul Rassinier) نے ایک
کتاب لکھی جس کا نام 'یورپی یہودیوں کا ڈراما' (The Drama of the European
Jews) تھا۔ پال ریسینئے خود ایک یہودی تھے اور کیمپ میں قید رہے تھے اور
انہوں نے اپنی آنکھوں سے کافی کچھ دیکھا تھا اس لیے وہ مرگ انبوہ کے افسانے
(بقول پال ریسینئے کے ) کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔[3] اسی طرح آرتھر بٹز (
Arthur Butz) نے 1976ء میں ایک کتاب بنام 'بیسویں صدی کا افسانہ' ( The
Hoax of the Twentieth Century) لکھی۔ اور 1977ء میں ڈیوڈ ارونگ نے اپنی
مشہور کتاب 'ہٹلر کی جنگ' (Hitler's War) لکھی جس میں مرگ انبوہ میں ساٹھ
لاکھ کی تعداد سے انکار کیا گیا۔ 1979ء میں ایک فرانسیسی پروفیسر رابرٹ
فوغیسوں (Robert Faurisson) نے، جن کا تعلق فرانس کی جامعہ لیوں
(Université de Lyon) کے ادبیات کے شعبہ سے تھا، فرانس کے سب سے مشہور
اخبار لو موند (Le Monde) کو ایک خط لکھا جس میں اس بات کا صریحاً انکار
کیا گیا کہ یہودیوں کو قتل کرنے والے گیس چیمبروں کا کوئی وجود بھی تھا۔
|