جب میانمار(برما)سے یہ خبریں آئیں کہ انٹرنیٹ کاگراف
گرتاجارہاہے،منتخب حکومت کاتختہ الٹ کراس کی سربراہ آنگ سانگ سوچی کو
حراست میں لیا جاچکاہے،فوجی دستے سڑکوں پرگشت کررہے ہیں۔آنگ سانگ سوچی
کبھی جمہوریت کی جاں بازسپاہی کادرجہ رکھتی تھیں۔اس حیثیت میں مغرب ان
کابہت احترام کرتاتھا۔اب سوال یہ ہے کہ میانمارمیں جوکچھ ہوااس کے حوالے سے
عالمی برادری کاردِّعمل کیاہوناچاہیے۔ ایک عشرہ پہلے تک آنگ سانگ سوچی
چمکتا ہواستارہ تھیں۔آج وہ بہت بدل چکی ہیں۔اب انہیں ایک ایسی سیاستدان کے
طورپر دیکھاجاتا ہے،جوفوجی اقتدارکی محافظ کے طورپر سامنے آئی ہے۔آنگ
سانگ سوچی نے میانمارکی فوج کے ظالمانہ وغیرمنطقی اقدامات کابھی دفاع کیاہے
اور بعض معاملات میں توانہوں نے فوج کے ہاتھوں قتلِ عام اورنسلی تطہیرتک
کودرست قرار دیتے ہوئے اُس کے خلاف جانے سے صاف گریزکیاہے ۔ کیادنیابھرکی
جمہوریتوں کوآنگ سانگ سوچی کی رہائی کامطالبہ کرناچاہیے یا اُن کی طرف سے
کچھ مدت سے فوج کے بہیمانہ اقدامات کی حمایت اور تنقید سے گریزکی
بنیادپرعالمی برادری کوخاموش رہنا چاہیے؟
میانمارکی فوج نے منتخب حکومت کاتختہ الٹنے کے بعدایک سال کیلئےہنگامی حالت
کااعلان کیا۔آنگ سانگ سوچی کودرآمدشدہ غیرقانونی واکی ٹاکی رکھنے کے جرم
میں دوسال قیدکاحکم سنایاگیاہے۔کئی دوسری حکومتی شخصیات کوبھی
گرفتارکیاجاچکا ہے۔ گزشتہ برس کے انتخابات اوراُن کے نتیجے میں حکومت کے
قیام کے بعدسے اب تک فوج اورسیاستدانوں کے درمیان تنازع چل رہاتھا۔انتخابات
میں آنگ سانگ سوچی کی نیشنل لیگ فارڈیموکریسی نے شاندار کارکردگی کامظاہرہ
کیاتھااورفوج کی حمایت یافتہ پارٹی کامعاملہ مایوس کن رہاتھا۔فوج نے ایک
ماہ قبل اقتدارپرقبضہ کرلیا۔
مغرب کومیانمارمیں فوجی اقتدارسے نمٹتے ہوئے58سال ہوچکے ہیں۔میانمارکی فوج
نے1962ءمیں اقتدارپرقبضہ کیاتھا۔تب سے اب تک یہ ملک بیشتروقت فوج کے ہاتھ
میں رہاہے۔1989ءتک یہ ملک برماکہلاتاتھا۔فوجی حکومت نے اس کانام تبدیل کرکے
میانماررکھا۔تب ملک کی جنگِ آزادی کے ہیروجنرل آنگ سانگ کی بیٹی آنگ
سانگ سوچی جمہوریت کیلئےچلائی جانے والی تحریک کی قیادت کی پاداش میں
گھرمیں نظربند تھی۔برمامیں جمہوریت کیلئےچلائی جانے والی تحریک نے
دنیابھرمیں انسانی حقوق کے علم برداروں کی توجہ اپنی طرف منعطف کرلی۔
آنگ سانگ سوچی نے کم وبیش15سال تک ینگون(سابق رنگون)میں نظربندی
بھگتی۔پھر1991ء میں انہیں امن کانوبل انعام دیاگیا، جس کے بعد انہیں عالمی
سطح پرغیرمعمولی شہرت ملی۔اُن کے عزم کی بلندی اورجمہوریت کے حوالے سے
سنجیدگی نے انہیں دنیابھرکے امن پسندعوام کی نظرمیں بہت بڑارتبہ بخشا۔
آمرانہ اقتدارکے باعث میانمارکواقتصادی پابندیوں کابھی سامناکرناپڑا۔ان
پابندیوں نے میانمارکی فوج کے اقتدارکوکمزورکیا۔2010ء میں فوج نے آنگ سانگ
سوچی سے سمجھوتہ کیا۔اس کابنیادی سبب یہ تھاکہ عالمی اقتصادی پابندیوں کے
باعث اقتدارپراُس کی گرفت کمزورپڑچکی تھی۔اس وقت کے امریکی صدراوبامااِس
پراتنے خوش ہوئے کہ دوبارمیانمارگئے۔انہوں نے آنگ سانگ سوچی سے اُسی
گھرمیں ملاقات کی جس میں انہیں 15سال تک نظربندی
کاسامناکرناپڑاتھا۔اوبامانے آنگ سانگ سوچی کوجمہوریت کی نمایاں علامت
قراردیا۔میانمارمیں فوجی اقتدارکاخاتمہ اوبامااوردنیابھرمیں انسانی حقوق کے
علم برداروں کی بڑی کامیابی کے طور پردیکھااوردکھایاگیا۔
میانمارمیں آنگ سانگ سوچی کی حکومت کے خاتمے سے دنیابھرمیں جمہوریت پسندوں
کودھچکالگاکیونکہ اُنہوں نے میانمارمیں جمہوریت کی خاطرطویل جدوجہد کی
تھی۔آنگ سانگ سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے 2015ءکے عام انتخابات
میں شاندارکامیابی حاصل کی۔ تب تک ملک میں وہی آئین نافذتھاجوفوج نے نافذ
کیاتھا۔اس آئین کے تحت فوج کوغیرمعمولی اختیارات حاصل تھے۔پارلیمان میں
فوج کو25فیصد نشستوں کی ضمانت بھی دی گئی تھی۔وزارتوں میں بھی فوج کاحصہ
متعین تھا۔وزارتِ دفاع اوروزارتِ داخلہ کوآئینی طورپرفوج کے ہاتھ میں رکھا
گیاتھا۔آنگ سانگ سوچی سربراہِ حکومت توبن گئیں تاہم آئین کی رُو سے وہ
صدر نہیں بن سکتیں کیونکہ ان کے بچے برطانوی شہریت کے حامل تھے۔
فوج نے بیشتراختیارات اپنے ہاتھ میں رکھے تھے یہی سبب ہے کہ جب فوج نے
بنگلادیش کی سرحد سے ملحق علاقے میں روہنگیا نسل کے مسلمانوں کوانتہائی
سفاکی سے نشانہ بنایاتب آنگ سانگ سوچی نے خاموش رہنا مناسب جانا۔اندرونی
ذرائع بتاتے ہیں کہ ایساکرنے کابنیادی مقصداپنے اقتدارکوبچاناتھا۔اب یہ بات
کھل کرسامنے آچکی ہے کہ آنگ سانگ سوچی نے مسلمانوں کے قتلِ عام پرخاموش رہ
کرجمہوریت کوکیا بچایا،اپنی ساکھ بھی داؤپرلگادی۔ دنیابھر میں یہ مطالبہ
بھی کیاگیاکہ نوبل امن انعام واپس لیا جائے۔
میانمارمیں عوام سڑکوں پرنکل آئے ہیں۔احتجاج کادائرہ وسعت
اختیارکرتاجارہاہے۔ینگون اوردیگربڑے شہروں میں بڑے پیمانے پر ریلیاں نکالی
جا رہی ہیں۔ایسے میں سوال یہ پیداہوتاہے کہ جمہوریت کوبچانے کے نام پرجوکچھ
کیاگیااس کی وقعت کیاتھی۔آنگ سانگ سوچی نے جوکچھ کیاوہ بھی دنیاکے سامنے ہے
اوراب عوام جوکچھ بھی کررہے ہیں وہ بھی اظہرمن الشمس ہے۔میانمارمیں جمہوریت
اگربحال ہوسکتی ہے توصرف اس وقت جب عوام اپنے حصے کاکام کرتے رہیں۔ان میں
پایاجانے والاجوش ماندپڑگیاتو بات بن نہ پائے گی۔میانمارمیں جمہوریت ایک
مدت کے بعدبحال ہوئی تھی،مگراسے بچانے پرخاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی۔ آنگ
سانگ سوچی کاکردارزیادہ تعمیری اورقابلِ رشک نہیں رہا۔انہیں جہاں ڈٹ جانا
چاہیے تھاوہاں انہوں نے پسپائی اختیارکی اوریہی ان کی غلطی تھی تاہم ہم
ابھی تک ان کی نسلی منافرت کاوہ واقعہ بھی نہیں بھول سکے جب انہوں نے ایک
عالمی ادارے کے ذرائع ابلاغ میں کام کرنے والی خاتون کوانٹرویودینے سے محض
اس لئے انکارکردیاکہ وہ مسلمان تھی۔ ان کے دور اقتدارمیں جب بھی ان سے
روہنگیاکے مسلمانوں کے قتل عام پرسوال کیاگیاتوانہوں نے اس کوجواب دینے کی
بجائے سوال کرنے والے کومحض اس لئے ڈانٹ دیاکہ یہ ان کے ملک کااندرونی
معاملہ ہے جبکہ دنیابھرکے میڈیانے اس سفاکی پران کی خاموشی پرانتہائی
مایوسی کااظہارکیا۔یہی وجہ ہے کہ آج دنیابھرکے دانشورمیانمارکی فوجی حکومت
کی تومخالفت کررہے ہیں لیکن آنگ سانگ سوچی سے کسی نے ہمدردی کااظہارنہیں
کیا۔
|