سوات میں طالبان فیم پختونوں کی طرف سے بچیوں کوجدید
دنیاوی تعلیم سے دور رکھنے والی سوچ و فکر کی وجہ سے پسماندہ علاقوں میں
ناخواندگی کی شرح میں کوئی اضافہ نہیں ہو سکا ۔مذہبی نظریات کے حامل گروپوں
نے ہمیشہ ہی بچیوں کی تعلیم میں رکاوٹ پیدا کی ،جبکہ جدید علوم و ٹیکنالوجی
کے دور میں اس کے بغیر قوموں کی برادری میں ان کے شانہ بشانہ چلنا ممکن
نہیں ۔مغربی ممالک اب بھی جدید ٹیکنالوجی اور علوم میں اس قدر آگے جا رہے
ہیں کہ ہم جس کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔مغرب میں آنے والی جدید ٹیکنالوجی
تقریباً 10سال بعد ہمارے ملک میں آتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہم ترقی کے اس مقام
تک نہیں پہنچ پائے جہاں مغربی اقوام پہنچ چکی ہیں ۔بلاشبہ امریکہ سمیت تمام
بڑی طاقتیں فروغ تعلیم کے لیے پسماندہ ممالک کی ہر ممکن امداد بھی کرتی ہیں
۔سوات اور گردونواح میں تعلیم کے خلاف بننے والے ماحول کا توڑ نکالنے کے
لیے سوات ہی کی ملالہ یوسف زئی نام کی ایک لڑکی کوفروغ تعلیم کے مشن کے تحت
آگے لایا گیا ۔اس نے سوات میں بچیوں کی تعلیم کے لیے راہ ہموار کی ۔لیکن
بعد ازاں ملالہ یوسف زئی اپنے والد کی سرپرستی میں طے شدہ پلان کے مطابق
بیرون ملک چلی گئیں ۔ ملالہ کو امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک نے سپورٹ کیا
۔کسی مغربی ملک کی شہریت حاصل کرنے کے اصل مقاصد کے تحت مذہبی گروپ کی طرف
سے فائرنگ کے نتیجے میں زخمی ہونے کی بنیاد پر وہ بیرون ملک چلی گئیں ۔انہیں
امن کا نوبل ایوارڈ بھی ملا ۔بعد ازاں ملالہ کے وزیر اعظم بننے اور بلاول
بھٹو سے شادی جیسی خبروں نے بھی سیاست میں گرماگرمی پیدا کی ۔اکثر لوگوں کا
خیال تھا کہ امریکہ اپنے مقاصد کو وسعت دینے کیلئے ملالہ اور بلاول زرداری
کی شادی کروا دے گا ۔یوں بلاول زرداری کے وزیر اعظم بننے کی صورت میں ملالہ
ملک کی خاتون اوّل بننے کا اعزاز بھی حاصل کر لیں گی اور امریکی مفادات کے
لیے کام کرنے کا سلسلہ مزید وسعت پا جائے گا ۔گو کہ یہ سبھی باتیں
پروپیگنڈے تک محدود رہیں ۔ادھر گذشتہ دنوں ایک غیر ملکی جریدے کو انٹرویو
دیتے ہوئے ملالہ یوسف زئی نے ’’نکاح‘‘جیسے اہم ترین بنیادی حکم کے خلاف بات
کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ لوگوں کو شادی کیوں کرنا پڑتی
ہے؟ اگر آپ زندگی میں ایک شخص کو چاہتے ہیں تو آپ کو شادی کے کاغذات پر
دستخط کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ آخر کیوں یہ صرف ایک پارٹنرشپ نہیں ہوسکتی؟۔
یوں تو ملالہ کی شخصیت ایسی نہیں کہ اس کے خیالات و نظریات کو اہمیت دی
جائے ۔لیکن بات چونکہ اسلامی تعلیمات کی نفی کی ہے اس لیے تما م مقتدر
حلقوں میں اس کے انٹرویو پر شدید ردعمل آ رہا ہے ۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ
ملالہ کے انٹرویو کو سیاق سباق سے ہٹ کر مخصوص جملوں کو اجاگر کرکے اس کی
ساکھ کو نقصان پہنچانے کی سازش کی جا رہی ہے ۔ملالہ کی بات کو سمجھنے کے
لیے یقیناً اس کے انٹرویو سے مکمل آگاہی ضروری ہے ۔تاہم جو سامنے لایا گیا
ہے وہ قابل مذمت ہے ۔
اسلام نکاح کے بغیرکسی بھی مردوعورت کے تعلقات کو معیوب سمجھتا ہے ۔ایسا
تعلق سراسر ناجائز بلکہ ’’زنا ‘‘ کے زمرے میں آتا ہے ۔اس لیے ملالہ ہو یا
کوئی اور ،اسے اس قسم کی گفتگو اور خیالات سے گریز کرنا چاہئے ۔ہمیں بولنے
سے پہلے سوچنا چایئے کہ ہم شائر اسلام کے خلاف تو نہیں بول رہے ۔منہ سے
نکلی بات کو پر لگ جاتے ہیں ۔اور اس پر ایک لمبی بحث چھڑ جاتی ہے ۔
ملالہ نے بچیوں کی تعلیم کی بنیاد پر ایک مشن کا آغاز کیا تھا ۔وہ اپنے اس
مقصد کو پانے میں کامیاب ہوئی یا نہیں ،لیکن ایک بات سچ ہے کہ اس نے فروغ
تعلیم کو بنیاد بنا کر منصوبے کے تحت غیر ملکی شہریت حاصل کرلی ۔اس کے بعد
یہ اپنے غیرملکی آقاؤں کی منشا ء کے مطابق اس قسم کے انٹرویو دے کر مسلم
اُمہ کی دل آزاری کا سبب بن رہی ہیں ۔خودملالہ کے لیے اسلامی تعلیمات سے
آگاہی ضروری ہے ۔اور انہیں چاہئے کہ وہ ایسی گفتگو سے اجتناب برتیں ۔جو
اسلامی فرائض و حقوق سے متصادم ہو۔اس قسم کی گفتگوسے ناپختہ ذہنوں میں طرح
طرح کے سوالات ذہن میں آتے ہیں ۔اﷲ تعالیٰ نے تکمیل کائنات کے لیے جو نظام
وضع کیا ہے ۔انہیں کی بنیاد پر تمام معاشرتی سسٹم چلتا ہے ۔ انسانی معاشرے
کی اکائی خاندان ہے، جس کی بنیاد شادی کا بندھن ہے۔ نکاح کی دستاویزات کے
پیچھے ہر معاشرے کی تاریخ ہے، اس کی بنیاد پر خواتین ریاستی اداروں سے اپنے
حقوق طلب کرپا تی ہیں۔بچوں کو ان کے حقوق حاصل ہوتے ہیں ۔ مذہب اور قانون
مرد پر بچوں کی ذمے داری ڈالتا ہے۔طلاق کی صورت عورت کو کہیں نان نفقہ اور
کہیں اثاثوں کی تقسیم سے حصہ ملتا ہے۔ یہی معاملہ وراثت کا ہے۔ ایک پورا
سماجی ڈھانچہ ہے جو شادی کے ذریعے وجود میں آنے والی خاندانی اکائی کی
بنیاد پر کھڑا ہے۔ملالہ کو اپنے غیر ملکی آقاؤں کی خوشنودی اور ’’میرا جسم
،میری مرضی ‘‘والی سوچ سے باہر نکل کر سوچنا ہوگا ۔کسی مسلمان عورت کے منہ
سے اس قسم کی باتیں زیب نہیں دیتی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی آئندہ
نسلوں کو اسلامی تعلیمات سے ہر ممکن آگاہی فراہم کریں ،اس کے برعکس ہم لوگ
مغربی ایجنڈے کو پروان چڑھانے کے لیے دین اسلام سے متصادم باتوں کا پرچار
کرنے میں لگے ہیں ۔ملالہ کوئی چاہئے کہ وہ اپنے انٹرویو کی وضاحت کریں
۔کیونکہ نکاح کے ہٹ کر صرف مردوعورت میں ’’پارنٹر شپ ‘‘معاشرتی بگاڑ کے سوا
کچھ نہیں ۔اس لیے ’’نکاح ‘‘کے بغیر تعلقات جیسے خیالات و جذبات کی کوئی
اہمیت نہیں ۔ہمیں نوجوان نسل کی اسلامی تعلیمات کے مطابق تعلیم و تربیت پر
دھیان دینا ہوگا ۔
|