وزیر اعظم چونکہ اپنی ہر تقریر میں ہندوستان کی قدیم
دیومالائی کہانیوں کا حوالہ دیتے رہتے ہیں اس لیے کیوں نہ ان سے انہیں
استعاروں میں بات کی جائے۔مہابھارت میں پانڈو چوسر کی بازی اسی طرح ہار گئے
جیسے بی جے پی مغربی بنگال کا انتخاب ہار گئی ۔کمل کی بھلائی اسی میں ہے کہ
کھلے دل سے ہار کو تسلیم کرکے کھیل ختم کردے لیکن اس نے اسے دل پر لے
لیاہے۔ مہا بھارت کا یدھشٹر جب سب ہار گیا تو دروپدی کو داوں پرلگادیا۔ یہ
کام اگر دریودھن کرتا تو کہا جاتا کہ کورو تو آخر کورو ہیں ۔ ان سے کیا
توقع کی جائے ؟ لیکن یہ یدھشٹر کا کارنامہ تھا اور وہ آخری بازی بھی ہار
گیا ۔ اس جیت کے بعد کورو کو سوچنا چاہیے تھا کہ دروپدی کوئی غیر نہیں ہے
اور اگر غیر بھی ہو تب بھی وہ بے قصور کسی بدسلوکی مستحق نہیں ہے لیکن
سوچنے سمجھنے کا شعبہ آج کل کی مانند اس وقت بھی معطل تھا ۔ اقتدار کے نشے
دھت سوچ کا رخ اکثر غلط سمت میں ہوتا ہے۔ قومی ذرائع ابلاغ میں اس مشاہدہ
کیا جاسکتا ہے ۔
مہابھارت میں کورو نے اپنے چچا زاد بھائیوں کی اہلیہ یعنی اپنی بھابی کی
سرِ عام تذلیل کا فیصلہ کیا ۔ یہ پر مپرا آج بھی جاری ہے ؟ جن کو یقین نہ
آتا وہ ’دیدی او دیدی ‘ والی سُپر ڈُپر ہٹ ویڈیو دیکھ کر اپنی آنکھوں کو
ٹھنڈا کرسکتے ہیں ۔ مہابھارت کے کورو نے اپنی جیت کا جشن منانے کی خاطر
دروپدی کے وستر ہرن کا فیصلہ کیا۔ دربار میں جب یہ اعلان کیا گیا تو وہاں
گرو درونا چاریہ جیسے گیانی لوگ موجود تھے۔ وہ کورو اور پانڈو دونوں کے
استاد تھے لیکن اقتدار پر فائز شاگرد ان کی خاموش حمایت کا اولین حقدار
ٹھہرا ۔ صدیوں پرانی پر مپرا کے درشن ایوان صدر اور عدالتِ عظمیٰ میں ہوتے
رہتے ہیں ۔ مہابھارت کی دروپدی پر جب مصیبت آئی تو اس بیچاری کو اسے
یدھشٹر اور اس کے بھائیوں سے تو کوئی توقع نہیں تھی اس لیے کہ وہ خود اسے
ہار چکے تھے ۔ اس لیے مشکل کی اس گھڑی میں شری کرشنا کو یاد کیا اور انہوں
نے مداخلت کرکے لاج رکھ لی۔ آگے چل کر مہابھارت کی جنگ میں جیت دلانے کے
لیے بھی شری کرشن نے بہت بڑا کردار ادا کیا اور میدان جنگ کی وعظ و نصیحت
کو گیتا کی شکل میں مرتب کرکے مقدس کتاب کا درجہ دیا گیا ۔
مودی جی کی تقریر لکھنے والے وقتاً فوقتاً ان کی تقاریر میں گیتا کے اشلوک
شامل کردیتے ہیں اور وہ اس گیان بانٹتے رہتے ہیں لیکن بنگال میں فی الحال
مہابلی مودی کا پالہ کسی ابلہ ناری سے نہیں بلکہ ایک مہابلہ دیدی سے پڑا ہے
جو ان کی ہر چال کو بساط سمیت الٹ دیتی ہیں ۔ مہابھارت کا میدان کوروکشیتر
ہریانہ میں ہے اور یہ دیولوک کی داستان ہے لیکن بنگال کو بھدرلوک کہا جاتا
ہے۔ بھدرلوک کے معنیٰ مہذب سماج ہوتا ہے۔ مودی جی یہ بھول گئے بنگال کے
تہذیب یافتہ معاشرے میں کسی خاتون کی سرِ عام توہین برداشت نہیں کی جاتی ۔
اپنی اس بھول کی انہیں بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑی ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی
ہے کہ ہندوستان کے مشرقی صوبوں میں وشنو یا شیوا کے بجائے شکتی کی پوجا کی
جاتی ہے اور اتفاق سے شکتی کی علامت مرد نہیں بلکہ عورت ہے ۔ وہاں رام
یاکرشن کی جگہ درگا ہے۔ درگا کے معنیٰ ناقابلِ تسخیر کے ہوتے ہیں۔ اس لیے
جب بی جے پی نے بنگال میں رام کی بات کی تو ٹی ایم سی درگا کو لے آئی۔
بنگال کی درگا مشکل کے وقت میں دروپدی کی طرح کسی کے آگےگہار نہیں لگاتی
کیونکہ اس کو تحفظ ، طاقت، تباہی اور جنگ کی دیوی مانا جاتا ہے۔ وہ ازخود
شیطانی قوتوں کا سر قلم کرکے امن و خوشحالی بحال کردیتی ہے۔ حالیہ انتخابی
نتائج نے اس دیومالائی داستان کو زندہ کردیا ۔
بنگالی تہذیب و تمدن کے ماہرین کی رائے ہے کہ وہاں زندگی ’پیدائش سے موت تک
‘اقتدار کی سیاست سے منسلک ہوتی ہے۔ روزی روزگار سے لے کر سماجی تحفظ تک ہر
شئے کا دارومدار پاور پولیٹیکس پر ہوتا ہے اس لیے ہرکوئی برسرِ اقتدار
جماعت سے جڑنا چاہتا ہے۔ بی جے پی نے جب اقتدار میں آنے کا جعلی تاثر دیا
تو انتخاب سے قبل ٹی ایم سی کے 50؍ رہنما فریب کھاکر بی جے پی میں شامل
ہوگئے جن میں 34؍ارکان اسمبلی تھے ۔ سوئے اتفاق سے اپنی پارٹی چھوڑ کر بی
جے پی میں شمولیت اختیار کرنے والے صرف 13؍ ارکان اسمبلی ٹکٹ ملا یعنی ۲۱؍
تو بیچارے پہلے ہی نہ گھر کے رہے اور نہ گھاٹ کے۔ محرومین ٹکٹ نے سوچا ہوگا
کہ اپنی سرکار بن جائے گی تو کسی سرکاری ادارے کی چیرمین شپ وغیرہ کا جگاڑ
لگا لیں گے لیکن جب وہ خواب بھی چکنا چور ہوگیا توان بیچاروں جو حالت ہوئی
اس کا بیان سابق رکن اسمبلی سونالی گوہا نے ممتا بنرجی کو لکھے اپنے خط میں
کردیا۔ انہوں نے لکھا جس طرح مچھلی پانی کے بنا نہیں رہ سکتی اسی طرح آپ
کے بغیر نہیں رہ پاوں گی ۔ سونالی کا شمار ایک زمانے میں ممتا بنرجی کی
چہیتے لوگوں میں ہوا کرتا تھا لیکن اس نے انتخاب سے قبل پینترا بدل کر
پارٹی سے غداری کردی ۔ اس بے وفائی کی بی جے پی نے قدر دانی نہیں کی اور
انہیں ٹکٹ تک نہیں دیا گیا۔ یعنی کہاں تو اسمبلی کی رکنیت اور کہاں انتخاب
لڑنے سے بھی محرومی ۔ اس توہین کو سونالی نے کسی طرح نتائج کے آنے تک تو
برداشت کرلیا لیکن پھر پیمانۂ صبر چھلک ہی گیا۔
’جل بن مچھلی ‘ کی مانند تڑپنے والی گوہا اکیلی نہیں ہیں ۔ سرلا مرمو جو ٹی
ایم سی کا ٹکٹ پانے کے باوجود بی جے پی میں چلی گئی تھیں لیکن اب واپس آنا
چاہتی ہیں۔ سابق فٹ بال کھلاڑی دیپندو وشواس نے بھی خط لکھ کر گھر واپسی کی
خواہش کا اظہار کیا ہے۔ وہ تو اچھا ہوا سوروو گنگولی نے بیماری کا بہانہ
بناکرکنی کاٹ لی ورنہ دیدی اسے جینے نہیں دیتی اور مودی اس کو مرنے نہیں
دیتا ۔ بیٹھے بٹھائے بی سی سی آئی کی سربراہی سے ہاتھ دھونا پڑتا۔ سیاست
میں وفاداری کی تبدیلی کے پیچھے پہلی وجہ سیاسی ملائی کا حصول اور دوسری
بدعنوانی کی سزا کا خوف ہوتا ہے۔ بی جے پی کے الیکشن ہارتے ہی ملائی میں
کیڑے پڑ گئے اور بعد میں جس طرح ممتا نے مزاحمت کی اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ
بی جے پی کے لیے بنگال میں اپنی من مانی کرنا آسان نہیں ہے۔ اس لیے اب گھر
واپسی کا ماحول بن گیا ہے۔ ایسے میں بی جے پی نائب صدر مکل رائے کے واپسی
کی چہ میگوئیاں شروع ہوئیں تو بی جے پی میں کھلبلی مچ گئی۔
مکل رائے کے بی جے پی سے دلچسپی کی کمی کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں۔ ان میں سب
سے بڑی وجہ تو بی جے پی کی ریاستی انتخاب میں ناکامی ہے اور دوسرے شھبندو
ادھیکاری کی ممتا بنرجی پر فتح ہے ۔ ممتا کو شکست دینے کے نتیجے میں ان کا
سیاسی قد کافی بڑھ گیا اور انہیں حزب اختلاف کے رہنما کا عہدہ دے دیا گیا۔
اب پارٹی کے اندر مکل رائے کی حالت وہی ہوگئی جو کسی زمانے میں ممتا کے
ساتھ ٹی ایم سی میں تھی بلکہ اس سے بدتر اس لیے کیونکہ اب تو اقتدار بھی
نہیں ہے۔ اس وقت ٹی ایم سی میں ادھیکاری ان سے جونیر تھے مگر اب آگے نکل
چکے ہیں ۔ اس بار کرشن نگر سے بی جے پی نے مکل رائے کو ٹکٹ دیا اور وہ
کامیاب بھی ہوئے لیکن ان کے بیٹے شبھرانشو رائے کی بیج پور سے شکست نے ان
کی مقبولیت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ8؍ مئی کو حلف
برداری کے بعد بی جے پی کی میٹنگ میں مکل رائے نے شرکت نہیں کی بلکہ ٹی ایم
سی والوں کے ساتھ وقت گزارنےکو ترجیح دی ۔ یہ ہوا کے رخ کی تبدیلی کا اشارہ
تھا۔
اس کے بعد مکل کے بیٹے شبھرانشو رائے نے اپنے فیس بک پیج پر لکھ دیا کہ
عوام کے ذریعہ منتخب حکومت پر تنقید کرنے کے بجائے خود احتسابی ہونی چاہیے
۔ اس کے بعد تو ان قیاس آرائیوں کا طوفان آگیا کہ اب باپ بیٹے واپسی کے
لیے پرتول رہے ہیں ۔ اس فیس بک پوسٹ کے بعد یہ مکل رائے کی اہلیہ کرشنا
رائے کو کورونا کے سبب اسپتال میں داخل کرنا پڑا ۔ اس موقع پر ممتا بنرجی
کے بھتیجے اور سیاسی وارث ابھیشیک بنرجی ان کی عیادت کے لیے دواخانہ پہنچ
گئے۔ اس ملاقات کے بارے میں ابھیشیک نے کہا کہ آنٹی کو میں بچپن سے جانتا
ہوں ۔ سیاسی اختلاف کے باوجود ہمارے خاندانی تعلقات قائم رہے ہیں اسی لیے
وہ ملاقات کی غرض سے آئے تھے۔ شبھرانشو رائے نے بھی ابھیشیک کے علاوہ ممتا
بنرجی کا بھی اس کے والدین کی صحت سے متعلق فکرمند ی کے لیے شکریہ ادا کیا۔
سیاست داں چونکہ بنا مطلب عیادت تو دور تعزیت بھی نہیں کرتے اس لیے شکوک و
شبہات بڑھتے گئے ۔
اس پریشانی کو دہلی میں بھی محسوس کیا گیا اور وزیر اعظم نے دہلی سے فون پر
مکل رائے سے ۱۰ منٹ طویل عیادت کی ۔ اپنی اہلیہ سے قبل خود مکل رائے بھی
بیمار ہوئے تھے لیکن وزیر اعظم نے ان کی عیادت کرنے کی زحمت نہیں کی تھی ۔
ابھیشیک بنرجی کی ملاقات کے بعد انہیں اس کا اچانک خیال آگیا۔ یہ تو
ناممکن ہے کہ اس فون پر کوئی سیاسی بات نہ ہوئی ہو لیکن اس کا انکار ضرور
کیا گیا جو چور کی داڑھی میں تنکہ جیسا ہے۔ مکل رائے کے علاوہ ٹی ایم سی سے
بی جے پی میں آنے والے ایک اہم رہنما راجیب بنرجی ہیں جو ہوڑا سے الیکشن
ہار گئے۔ انتخابی نتیجے کے بعد انہوں نے بڑی کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے
لکھا تھا کہ مبارک ہو ، بنگال کے محبت کرنے والے لوگوں نے اپنی پسند کے
رہنما اور پارٹی کا انتخاب کرلیا ہے۔ یہ انداز بیان پنچھی کے پنجرے سے اڑنے
کا اشارہ کرتا ہے۔ویسے بی جے پی کے ترجمان شامک بھٹا چاریہ ان خبروں کی
تردید کی ہے لیکن اگر یہ گھر واپسی کا سلسلہ شروع ہوگیا مغربی بنگال میں بی
جے پی کا بلبلہ پھوٹ جائے گا اوراس کا سُپڑا صاف ہوجائے گا ۔
|