دسمبر2004 میں ایشیامیں زلزلہ اورسونامی تباہی کے موقع
پرمنموہن سنگھ نے اس آفت سے نمٹنے کیلئے دوسرے ممالک کی امدادقبول کرنے کی
بجائے خودہی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کااعلان کرتے ہوئے بھارت کی بڑھتی
ہوئی معاشی قوت کے بارے میں ایک اہم سیاسی بیان تھااوریہی نہیں بلکہ منموہن
سنگھ نے 2005 ءکے سمندری طوفان کے بعدامریکااور 2008 ءمیں سچوان کے زلزلے
کے بعدچین کوامدادکی پیشکش کرکے قومی فخراورخودکفالت کااظہارکیا تھا جو
امداد فراہم کرنے والے بڑے ممالک کیلئے ایک واضح پیغام بھی تھا۔ مودی نے
پالیسی تبدیل کرنے کے دباؤکے باوجود2018میں کیرالہ میں سیلاب کے دوران بھی
بیرونی امداد قبول کرنے سے انکارکیالیکن مودی جنہوں نے خودانحصاربھارت کے
نعرے کے ذریعے قوم پرستی کی مستقل مہم چلائی اب ان کابھرم بیچ بازار
ایساپھوٹاکہ ان کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گے اور وہ اچانک پالیسی بدلنے
پرمجبورہو گئے ہیں۔
انڈیامیں ایک ماں چندراکلاسنگھ کی دل دہلادینے والی وہ تصویرجس میں وہ اپنے
29 سالہ نوجوان بیٹے ونیت سنگھ کی لاش جوایمبولنس کی عدم دستیابی کی
بناءایک عام رکشہ میں اس کے قدموں میں پڑی ہوئی ہے،جب عالمی میڈیامیں وائرل
ہوئی توسارے مغرب میں وہ بھارتی سفاتکارجودن رات بھارت کی معاشی ترقی کے
افسانے بیان کیاکرتے تھے۔میڈیاسے منہ چھپاتے نظرآئے۔ یہ تصویرریاست اتر
پردیش کے شہروراناسی کی تھی جو انڈیا میں تیزی سے پھیلتے ہوئے وائرس
اورمکمل ناکامی کے دہانے پرکھڑے صحت کے نظام کے درمیان پھنسے شہریوں کی
تکلیف کی صرف ایک مثال ہے جبکہ ایسی ہزاروں تصاویرمودی اوراس کے
زرخریدمیڈیاکابری طرح تعاقب کررہی ہیں۔بدقسمتی تویہ ہے کہ وراناسی شہرجہاں
یہ تصویرکھینچی گئی ہے وہ وزیراعظم مودی کاانتخابی حلقہ ہے۔
عالمی میڈیانے بھارت میں سڑک پربغیرآکسیجن تڑپتے اوربے بسی میں مرتے
انسانوں کودکھایاجہاں ان افرادکی تدفین کرنے والابھی کوئی نہیں، پالتو کتوں
کوانسانی لاشوں کی آخری رسومات کیلئے استعمال کیاجارہاہے،کوروناکی دوسری
لہرنے پورے ملک کولپیٹ میں لے لیا جس کے بعد مودی نے40کے قریب ممالک کی
جانب سے امدادکی پیشکش قبول کرلی ۔ بھارتی سفارتکاروں نے آکسیجن پلانٹس
اوردوائیوں ودیگرسامان کیلئے غیر ملکی حکومتوں سے مددکیلئے جھولی
پھیلائی۔بھارت کے اعلیٰ ترین سفارتکارہرش وردھن شرینگلہ نے انتہائی شرمناک
یوٹرن کی توجیح پیش کرتے ہوئے حکومتی فیصلے کی سوشل میڈیاپرتعریف کی۔انہوں
نے ڈھٹائی سے لکھا”ہم نے امداددی ہے،ہماری مددکی جارہی ہے،اس سے پتا لگتا
ہے کہ کس طرح آزاددنیاایک دوسرے کے ساتھ مل کرکام کرتی ہے”۔جس پرایک
غیرملکی تجزیہ نگارنے یہ کہہ کرہوا نکال دی کہ”یہ کوئی مودی کی خارجہ
پالیسی کی کامیابی نہیں بلکہ کوروناکی وجہ سے بگڑتی صورتحال میں محاسبہ
کالمحہ ہے۔مودی کی قوم پرست حکومت کے7برس بعدان کا اہم ترین خود انحصاربھار
ت کامصنوعی ایجنڈاکوڑے دان میں پڑا نظرآتا ہے۔سابق امریکی صدرڈونلڈٹرمپ کے
دورسے بھارت کوچارملکی اتحادمیں چین سے مقابلے کیلئے ہندبحرالکاہل خطے کی
حکمت عملی میں اہم ملک تصور کیا جارہاتھا،اب اس کی بھی قلعی کھل گئی
ہے۔بھارت کومزید شرمندگی سے بچنے کیلئے اس کردار کو اداکرنے کیلئے خودفریبی
اورجھوٹ کی بجائے مزیدمحنت کرنی ہوگی”۔
ایک اورمغربی سیاسی تجزیہ نگارکے مطابق” اس دوران کوروناکی دوسری لہرمیں
چین نے بھارت کے پڑوسی ممالک میں اپنی سرگرمیاں دگنی کردی ہیں،جس سے چین کے
جنوبی ایشیائی ممالک سے تعلقات مزیدمضبوط ہوگئے ہیں۔جس کامقابلہ کرنابھارت
کیلئے آسان نہیں ہوگا۔ممکن ہے چند مہینوں میں دہلی میں معمول کی صورتحال
لوٹ آئے لیکن وباسے نمٹنے کے دوران نااہلی کے مظاہرہ نے نئی دہلی کو اسلام
آباداوربیجنگ سے مذاکرات میں کمزورکردیا ہے۔اس سے بھی زیادہ نقصان بھارت کی
عالمی ساکھ کوپہنچاہے۔پہلے ہی مودی کی آمرانہ حکومت کی وجہ سے بھارت
کوعالمی سطح پر تنقید کاسامناہے۔یہ حکومت کابہت بڑامسئلہ ہے۔امریکااور مغرب
نے اپنے مفادات کیلئے بھارت کوعالمی سطح پراہم اداروں کی نمائندگی کیلئے
منتخب توکروایالیکن کسی کویہ معلوم نہیں تھاکچھ وقت بعد بھارت کی سڑکوں پر
مرتے مریضوں اورجلتی لاشوں کی تصاویرمودی کی پالیسیوں کابھانڈہ پھوڑکررکھ
دیں گی، لیکن اب بھارت کوسفارتی قداورجغرافیائی اہمیت دوبارہ بحال کرنے میں
مہینے نہیں بلکہ کئی برس درکار ہوں گےجس کیلئے بھارتی وزیرخارجہ ایس جے
شنکرکی مسلسل کوششیں بری طرح ناکام دکھائی دے رہی ہیں”۔
مارچ میں جب بھارت میں کوروناکی دوسری لہرشروع ہوچکی تھی توجے شنکرکی وزارت
پاپ اسٹارریحانہ اورماحولیاتی تبدیلی کی کارکن گریٹا کے خلاف سرکاری بیانات
دینے اور سوشل میڈیامہم چلانے میں مصروف تھی۔گزشتہ مہینے بھارت میں
کورونابحران کے عروج پرجے شنکردنیابھرکے دارالحکومتوں میں موجودبھارتی
سفیروں کے ساتھ عالمی میڈیامیں نام نہادیکطرفہ بیانیے کے مقابلے کیلئے
اجلاس کررہے تھے،جس سے مودی حکومت کی کوروناکی دوسری لہرکے دوران نااہلی
کاپتا لگتاہے۔کچھ عرصہ قبل جے شنکر حکومت کی ویکسین دوستی پروگرام کے سب سے
پرجوش حامی تھے جس کے تحت نئی دہلی نے59ممالک کوبھارت کی تیارکردہ ویکسین”
آسٹرازینیکا”کی تقریبا6/66ملین خوراکیں فراہم کیں، ویکسین کے باکس پرمودی
کی نمایاں تصاویرلگائی گئی تھی۔یہ ویکسین تجارتی معاہدے، دوطرفہ گرانٹ
اورغریب ممالک کیلئے عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اسکیم کے تحت فراہم کی گئی
تھیں۔ دریں اثنابھارت میں ویکسی نیشن کاعمل انتہائی مایوس کن رہاہے،
دنیامیں سب سے زیادہ ویکسین بنانے والاملک ہونے کے باوجودبھارت کی
محض2فیصدآبادی کو ویکسین لگائی جا سکی ہے،کوروناکی دوسری لہرکے بے قابوہونے
کی یہی سب سے بڑی وجہ تھی۔ذاتی شان وشوکت کیلئے دنیابھرمیں ویکسین بانٹنے
کے بعد مودی نے بھارت کی16 سالہ پالیسی کو شرمناک حدتک تبدیل کردیاہے،
مکافات عمل تویہ ہے کہ وہی بھارت جس نے چین،روس اورامریکاسے امدادقبول کرنے
سے انکارکردیاتھا اب وہ امریکاسے ویکسین کی دوکروڑ خوراکوں کی خیرات
کامنتظرہے بلکہ بھارت نے توچین سے انتہائی کشیدہ تعلقات کے باوجودامدادکو
قبول کرلیاہے۔
بھارتی وزیراعظم کیلئے سب سے زیادہ توہین آمیزبات تویہ ہے کہ پاکستان کی
جانب سے طبی سامان اورایمبولنسز کی فراہمی کی پیشکش کوردکرنا بھی مشکل
ہوگیا۔ صورتحال اس قدرافسوسناک ہے کہ بھارت کوبھوٹان جیسی چھوٹی ریاست سے
یومیہ 88ہزارپاؤنڈآکسیجن درآمدکرناپڑرہی ہے۔ زیادہ تربھارتی تسلیم کرتے ہیں
کہ ان کاملک گزشتہ سال معاشی بحران کا شدید شکاررہا،اسی لیے بیرونی
امدادقبول کرناپسندیا ناپسند سے زیادہ مجبوری بن گیاتھالیکن وہ اس
پرکیاکہیں گے کہ وباکے بدترین دورمیں بھی نئی دہلی میں2/ارب ڈالرکی مالیت
سے سرکاری دفاترکی تعمیرکاکام بلا روک ٹوک جاری ہے اور اس میں مودی کیلئے
رہائش گاہ کی تعمیر بھی شامل ہے۔مودی نے کئی عالمی دوروں کے ذریعے بھارت
کاقومی وقاربڑھانے پرفخرکیا۔ان کے قوم پرست حامی سمجھتے ہیں کہ بھارت
امریکااورچین کی طرح ایک عالمی طاقت بن چکاہے،یہ تاثراندورنی سیاسی فائدے
کے ساتھ جڑاہے،ہندوتوایاہندوقوم پرستی کے نظریہ نے ہی ان کی بالادستی
کوممکن بنایاتھالیکن اب اس صورتحال میں مودی کے حامیوں کاعالمی طاقت کاخواب
بری طرح بکھرچکا ہے۔
مودی کے حامیوں کوایک بارپھرتیسری دنیا کے ملک کاشہری ہونے کی حقیقت
کاسامنا کرنا پڑرہاہے جوبیرونی امدادکے بغیرچل نہیں سکتے، چونکہ وباکی وجہ
سے معیشت کوشدیدنقصان پہنچاہے،یہی وجہ ہے کہ مودی اب اپنے حامیوں کے سامنے
معاشی ترقی کوپیش کرنے سے گریزکررہے ہیں۔ مودی نے نام نہادخارجہ پالیسی کے
ذریعے بھارت کیلئے جوفخر،وقاراور عالمی احترام کی عمارت تعمیر کی تھی،وبانے
اس کوملیامیٹ کردیا ہے ۔وبائی امراض نے بھارت کوکئی اورطریقوں سے بھی نقصان
پہنچایا۔کواڈکے رکن ملک آسٹریلیانے اپنے شہریوں کے بھارت سے وطن واپسی
پرپابندی لگادی ہے اورخلاف ورزی کی صورت میں5برس قیدکی سزاتجویزکی ہے۔مارچ
میں کواڈکے سربراہی اجلا س میں طے پایاتھاکہ گروپ2022ء تک ہندبحرالکاہل کے
خطے میں کوروناویکسین کی ایک ارب خوارکیں تقسیم کرے گا۔اس ویکسین کیلئے
سرمایہ امریکااورجاپان کوفراہم کرناتھا ، جبکہ ویکسین کی تیاری بھارت میں
ہوناتھی اورویکسین کی تقسیم آسٹریلیاکوکرناتھی۔اس اقدام کامقصدگروپ کے
سیکورٹی مرکزہونے کے تاثرکو دورکرنااورچین کے مقابلے میں اپنی ساکھ
کوبہتربناناتھا۔
بھارت کی جانب سے وباسے متاثرہ اپنے شہریوں کوویکسین کی فراہمی میں مشکلات
کے بعدکواڈکی جانب سے مقررہ وقت پرایک ارب ویکسین کی خوارکوں کی تقسیم
کاامکان ختم ہو چکا جس کے نتیجے میں کواڈمیں نئی دہلی کی ساکھ کوشدیدنقصان
پہنچاہے۔اگروباکے نتیجے میں بھارت لڑکھڑاجاتاہے توکواڈکاامریکی خواب کبھی
حقیقت نہیں بن سکے گا۔بیجنگ پہلے ہی بھارت کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے
کیلئے آگے بڑھ رہاہے تاکہ جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات
کومزیدمستحکم کرسکے۔ گزشتہ مہینے چینی وزیرخارجہ نے افغانستان،
بنگلادیش،نیپال،پاکستان اورسری لنکاکے اہم منصبوں کے ساتھ کوروناکے حوالے
سے تعاون کیلئے اجلاس کیا،جس میں بھارت موجودنہیں تھا۔اگرچہ
افغانستان،بنگلادیش، نیپال اورسری لنکاکوبھارت کی جانب سے کچھ ویکسین فراہم
کی گئی ہے،لیکن اس سے زیادہ کی توقع کی جا رہی تھی۔نئی دہلی کی جانب سے
اپنے کمرشل وعدے پورے نہ ہونے کے بعدیہ ممالک ویکسین کی فراہمی کیلئے بیجنگ
کی جانب دیکھ رہے ہیں۔
ایشیاکی دوبڑی طاقتوں کے درمیان پرکشش اوربااعتمادہونے کی دوڑلگی ہے،جس میں
چین نے بھارت کوپہلے سے کہیں زیاد پیچھے چھوڑدیا ہے۔ چین پہلے ہی متنازع
سرحدپر بھارت پردباؤڈال چکاہے۔لداخ میں کشیدگی میں کمی کے باوجودچین نے
گزشتہ موسم گرمامیں بھارت کے زیرقبضہ علاقوں سے فوجیں واپس بلانے سے
انکارکردیاہے۔جس کے بعد دونوں فریقوں کے درمیان مذاکرات کے آخری دورمیں
بھارت کی ان علاقوں پرچینی قبضے کے حوالے سے بات چیت کی کوشش ناکام
ہوگئی۔اب متنازع سرحدکے قریب مستقل عسکری انفراسٹرکچرتعمیرکرکے چینی فوجوں
کو مستقل طورپرتعینات کردیاگیاہے۔اگربھارت کی جانب سے کبھی اپنی طاقت کا
مظاہرہ کیاجاناتھاتواس کی سب سے زیادہ ضرورت ابھی تھی لیکن کورونا کی دوسری
لہرنے صورتحال کوبالکل الٹ دیا۔اسی طرح ان حالات کانئی دہلی کے اسلام آباد
سے بیک چینل مذاکرات پربھی اثرپڑاہے اور پاکستان کوہرصورت بھارت کی
کمزورپوزیشن کافائدہ اٹھانے کواللہ کی غیبی امدادسمجھناہوگا۔بھارت ان
مذاکرات کوترک بھی نہیں کرسکتا کیونکہ بھارت،چین اورپاکستان سے بیک وقت
مقابلے کی طاقت نہ ہونے کی وجہ سے اسلام آبادسے مذاکرا ت پرمجبورہوا ہے۔
وباسے ملک اورمعیشت کوپہنچنے والے نقصان نے بھارت کیلئے خطرات میں بہت
اضافہ کردیاہے،جس سے پاکستان کومذاکرات میں غیرمتوقع فائدہ اٹھانے کیلئے
اپنی خارجہ پالیسیوں پرفوری نظرثانی کرناہوگا۔اگرچہ بھارت اب بھی بیجنگ
اوراسلام آباد کے ساتھ مذاکرات میں کسی نقصان سے بچنے کیلئے مغرب
اورامریکاکو استعمال کرنے کی بھرپورکوشش کرسکتاہے لیکن مودی کیلئے بھارت کی
عالمی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کاازالہ کرناآسان نہیں ہوگا۔مودی کی
متعصبانہ پالیسیوں کی بنا پرلبرل جمہوریت کی حیثیت سے بھارت کی ساکھ پہلے
ہی ختم ہوچکی ہے اورحالات سے نمٹنے کیلئے ملک کی صلاحیت جوترقی پذیر ملکوں
کیلئے ایک مثال تھی،اب وہ بھی خواب بن کررہ گئی ہے لیکن کوروناکی دوسری
لہرسے نمٹنے میں ناکامی اورپیسے وصول کرلینے کے باوجودایشیائی اورافریقی
ممالک کوویکسین فراہم نہیں کرپانا، ایسا نقصان ہے جس کی تلافی بالکل ممکن
نہیں۔
بھارتی فی الحال مودی کی نااہلی سے آنے والی انسانیت سوزتباہی سے نمٹ رہے
ہیں۔ جہاں ان سے ایک عالمی طاقت بننے کاجھوٹ بولاگیاتھا۔ وباکی اس لہرسے
مودی کے سیاسی مستقبل کوبڑادھچکالگاہے اوربھارتی عوام کامودی پرسے یقین اٹھ
گیاہے۔مودی کے ماتحت وزیرخارجہ جے شنکر جوبڑے فخرسے کئی گیندیں بیک وقت
ہوامیں اچھالنے کی ڈینگیں مارتے تھے اوردعویٰ کرتے تھے کہ کوئی بھی
گیندزمین پرنہیں گرے گی لیکن اب تمام گیندیں فرش پرپڑی منہ چڑارہی ہیں
اوران گیندوں کودوبارہ اٹھاکر کام شروع کرنے کیلئے بھیک اورگداگری کاپیالہ
بھی برسوں تک کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکے گا۔اس بحران سے نکلنے کیلئے ضروری
ہے کہ بھارتی عوام مودی کا اصلی متعصبانہ چہرہ دیکھتے ہوئے ان کی جاہلانہ
اورمتعصبانہ پالیسیوں کابھرپورطریقے سے محاسبہ کریں تاکہ مزیدتباہی کے
ممکنہ طوفان سے بچاجاسکے۔
|