مغربی بنگال: تم ڈال ڈال ،ہم پات پات

مغربی بنگال کے نتائج نے آر ایس ایس کا دماغ ماوف کردیا ہے۔ اس کے معمر رہنماوں نے تین دنوں تک غوروخوض کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ وزیر اعظم مودی کے انتخابی میدان میں اترنے سے بی جے پی کا نقصان ہوا ہے اس لیے انہیں صوبائی انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لینا چاہیے ۔ سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم نے توبہار کی انتخابی مہم کو بڑے جوش و خروش کے ساتھ چلایا تھا اور وہاں این ڈی اے اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی نیز بی جے پی کے ارکان اسمبلی کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگیا ۔ اس لیے سنگھ پریوار نے ان نتائج کا جائزہ لینا ضروری نہیں سمجھا ۔ مغربی بنگال میں جب پٹخنی کھائی تو اس کا ٹھیکرا وزیر اعظم پر پھوڑ کر انہیں صوبائی انتخاب سے الگ رہنے کا مشورہ دے دیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سنگھ کے خیال میں مسلمان یوگی سے زیادہ مودی کے خلاف ہیں اس لیے اگر یوگی کی قیادت میں اترپردیش کا انتخاب لڑا جائے تو مسلمانوں کی ناراضی کم ہوگی ۔ اس طرح احمقوں کی جنت میں ر ہنے والے سنگھ کے مشورے کا مودی کیا کریں گے یہ کوئی نہیں جانتا لیکن اس پر عمل کرنے والوں کا کیا حشر ہوگا یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ سنگھ کو وزیر اعظم کے شبیہ کی فکر ہے لیکن وہ بھول گیا ہے کہ اترپردیش سے مودی رکن پارلیمان ہیں۔ وہاں پر بی جے پی کی شکست ان کی شبیہ برباد کردے گی ۔

مغربی بنگال میں فی الحال ’تم ڈال ڈال ہم پات پات ‘ کا سیاسی کھیل چل رہا ہے اور اس کھیل میں ہر بار کمل گھات لگا کر حملہ کرتاہے مگر پتوں سے مات کھاکر بکھر جاتا ہے۔ ویسے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پتوں کی عمر پھول سے طویل اور افادیت زیادہ ہوتی ہے۔ پتے نہ کھلتے ہیں اور نہ مرجھاتے ہیں کمل کا معاملہ یہ ہے کہ میڈیا کی مدد سے کھلتا ہے اور وہیں پر مرجھا جاتا ہے۔ ایک طرف جہاں مرکز سی بی آئی کے ذریعہ صوبائی حکومت کے وزراء کو ناردا بدعنوانی کے بہانے گھیرنے کی کوشش کررہی ہے دوسری طرف ممتا نے بھی بی جے پی والوں کو پولس کے ذریعہ گھیرا بندی ہورہی ہے۔ اس سلسلے میں 29 مئی 2021 کو بدھان نگر میں ترنمول کانگریس کے رہنما برنا باتی بنرجی نے بی جے پی کے صوبائی دلیپ گھوش کو اسمبلی انتخابات کے بعد ہونے والے تشدد کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ایف آئی آر درج کرائی۔ انتخابی نتائج کے بعد ریاست کے اندر ہونے والےتشدد میں 20 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ ترنمول رہنما کے مطابق دلیپ گھوش نے انتخابی مہم کے دوران اور بعدمیں اشتعال انگیز بیانات دیئے تھے ۔

اس کے علاوہ مغربی بنگال میں بی جے پی کے صدر دلیپ گھوش کے خلاف مدنی ہور ضلع کے کتوالی تھانے میں ترنمول کانگریس کی سربراہ اور وزیراعلیٰ ممتا بنرجی کے خلاف تین ایف آئی آر درج کرائی تھیں۔ممتا بنرجی نے اس معاملے کو آگے بڑھا کر ان کو شکست دینے والے حزب اختلاف کے رہنما شبھندو ادھیکاری اور ان کے بھائی سومیندو کے خلاف 29؍مئی کو زبردستی گودام کھلوا کر ایک لاکھ کی ترپال مرکزی فورس کی مدد سے چوری کرنے کا الزام لگوا کر ایف آئی آر درج کروادی ہے۔ کانٹھی میونسپل کارپوریشن میں انتظامی بورڈ کے رکن رتن دیپ منا نے مقامی پولس تھانے میں یکم جون راحت کے آلات چرانے کا الزام لگایا ہے۔ سومیندو ادھیکاری ماضی میں میونسپل کارپوریشن کے سربراہ تھے۔ یہ معاملہ اسی دن درج ہوا جب شبھندو ادھیکاری کے ایک قریبی کے خلاف ایک فرد کو نوکری کا لالچ دے کر دولاکھ روپیہ اینٹھنے کا الزام لگایا تھا ۔

مغربی بنگال کے سابق چیف سکریٹری الاپن کو پی ایم مودی کی میٹنگ میں تاخیر سے پہنچنے یا غیر حاضر رہنےکو وزیر اعظم کی توہین قرار دے کر فی الفور دہلی طلب کرلیا گیا ۔ وزیر اعظم بھول گئے کہ الاپن نہ بندھوا مزدور ہیں اور نہ یوگی یا روپانی جو ایک اشارے پر دوڑے چلے آئیں۔ کسی سرکاری افسر کو اس کی اور ریاستی حکومت کی مرضی کے خلاف مرکز نہیں بلایاجاسکتا ۔ ماضی میں تین افسران کو بھیجنے سے دیدی انکار کرچکی ہیں اس کے باوجود اگر شاہ جی کو اپنی بے عزتی کروانے کا شوق ہو تو کوئی کیا کرسکتا ہے؟ مثل مشہور ہے جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کی طرف بھاگتا ہے اور دہلی سرکار کو جب رسوائی کی طلب ہوتی ہے تو بنگال کی طرف بھاگتی ہے۔ مرکزی حکومت نے اس ناعاقبت اندیش فیصلے سے سیاسی مخالفین کے علاوہ نوکر شاہوں کو بھی ناراض کردیا ۔

بدقسمتی سے ملک میں فی الحال بیچارے آئی اے ایس افسروں کی حالت بندھوا مزدور سے بھی بدتر ہوچکی ہے۔ اس لیے وہ سبکدوش ہونے سے قبل سرکار کے خلاف زبان کھولنے کی جرأت نہیں کرپاتے اوراگر کوئی کرے تو اسے پریشان کرکے بھگا دیا جاتا ہے ۔ الاپن بندوپادھیائے چیف سکریٹری کی ذمہ داریوں کے علاوہ ڈیزاسٹر مِنیجمنٹ یعنی کورونا کی تباہ کاری کاشعبہ بھی دیکھ رہے تھے اور اس بابت مغربی بنگال کی حالت اچھی نہیں ہے۔ وہاں کی صوبائی حکومت مرکزی سرپرستی سے بھی محروم ہے ایسے میں 31مئی کو ان کے ریٹائرمنٹ کی تاریخ آگئی۔ ممتا بنرجی نے عوامی فلاح و بہبود کے پیش نظر ان کی خاطر تین ماہ کی توسیع طلب کی ۔ مرکزی حکومت نے ریاست کی ضرورت کے سبب اس تجویز کو منظور کرلیا ۔ اب ممتا کا غصہ الاپن پر اتارتے ہوئے بلا سوچے سمجھے انہیں راتوں رات دہلی بلانے کا تغلقی فرمان جاری کردیا گیا۔ ان کے انکار کو نظر انداز کرکے اپنی عزت بچانے کے بجائے وجہ بتاؤ نوٹس دے کر اپنی رسوائی میں اضافہ کیا گیا۔سابق آئی اے ایس افسران نے مودی حکومت کے فیصلے کو حیرت انگیز، پریشان کن اور شرائط و ضوابط کی خلاف ورزی قرار دے کر تنقید کانشانہ بنایا۔

انڈین ایکسپریس سے گفتگو کے دوران سابق داخلہ سکریٹری جی کے پلئی نے کہا کہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے جب ایک سکریٹری سطح کے افسر کو سبکدوشی سے ایک دن پہلے مرکز میں تعینات کرنے کا حکم دیا گیا ہو۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا کہ اتنے سینئر افسر کو اگلی صبح 10 بجے سے پہلے دہلی کے دفتر میں حاضر ہونے کے لیے کہا گیا ہو۔ پلئی کو سرکاری افسران کی عزت نفس کا خیال ہے اس لیے وہ انہیں حیرت ہے لیکن سنگھ کی چاپلوس تہذیب میں یہ عام بات ہے۔ سول سروس کے افسران کو عام طور پر منتقل ہونے کے لیے کم از کم 6 دن کا وقت دیا جاتا ہےجو معقول ہے لیکن جن کی عقل ماری گئی ہو وہ اس کا لحاظ کیسے کرسکتے ہیں؟ جی کے پلئی نے اپنے طویل مدت کار میں کسی کو محض میٹنگ میں غیر حاضر رہنے کے سبب نوٹس پاتے نہیں دیکھا لیکن وہ نہیں جانتے مودی ہے تو (کچھ بھی حماقت) ممکن ہے۔

سرکاری افسران کے درمیان شمال اور جنوب کی لابی الگ الگ انداز میں کام کرتی ہے مثلاً ایک چائے پیتی ہے اور دوسری کافی پینے والے کہلاتے ہیں لیکن الاپن کے ساتھ ناانصافی پر دونوں متفق ہیں۔ سابق کابینہ سکریٹری بی کے چترویدی کو اندیشہ ہے کہ ایسے فیصلوں سے سول سروسز کے افسران میں عدم اعتماد پیدا ہوگا۔ وہ اس کے لیے مودی جی کے مشیروں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں حالانکہ صلاح کاروں کا انتخاب وزیر اعظم خود کرتا ہے ۔ان کے مشوروں کو ماننا یا مسترد کرنے کا اختیار بھی وزیر اعظم کے پاس ہوتا ہے۔ وزیر اعظم اگر ایک نشست میں غیر حاضر رہنے والے افسر کو سزا دے سکتا ہے تو غلط مشورہ دے کر اس کی رسوائی کروانے والے افسر کی سرزنش کیوں نہیں کرتا؟ ویسے ذہین سرکاری افسر اپنے آقا پسندو ناپسند سے واقف ہوجاتا ہے۔ وہ گوناگوں وجوہات کی بناء پر وہی مشورہ دیتاہے جو اس کے آقا کے من کی بات ہوتی ہے۔

نفسِ مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے چترویدی کہتے ہیں کہ اگر وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کی درخواست پر حکومت ہند نے الاپن بندوپادھیائے کی خدمات کو تین مہینوں کے لیے بڑھا یا تو اس کا یہ مطلب ہے کہ مغربی بنگال کے عوام کو ان کی خدمات درکار ہیں۔ اس سنگین صورتحال میں عوام کی ضرورت کو پسِ پشت ڈال کر اپنی انا کو مطمئن کرنےکی خاطر الاپن کومنتقل کرنا اور نوٹس دے کر دباو ڈالنا غیرمناسب ہے۔ کسی صوبے میں اگر کوئی افسر اہم ذمہ داری اداکررہا ہوتو اس کو بغیر کسی پوسٹنگ کے مرکز میں بلا لینا ستیانند مشرا کی سمجھ سے بالاتر ہے ۔ اس فیصلے کو اگر عدالت میں چیلنج کردیا جائے تو وہ چاروں خانے چت ہوجائے گا۔ الاپن کے خلاف ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ کے تحت نوٹس جاری کیا گیا ہے حالانکہ ان پر جس میٹنگ میں غیر حاضر رہنے کا الزام ہے اسے مذکورہ ایکٹ کے تحت بلایا ہی نہیں گیا تھا۔ اس لیے یہ احمقانہ فیصلہ عدالت میں ٹائیں ٹائیں فش ہوجائے گا ۔

مرکزی حکومت کی توہین کے لیے یہی کیا کم تھا کہ الاپن بندوپادھیائے دہلی جانے کے بجائے چپ چاپ سبکدوش ہوجاتے لیکن ایسا بھی نہیں ہوا۔ ممتا بنرجی نے سبکدوشی کے بعد انہیں اپنا مشیر خاص مقرر کرکے اول تو مرکزی حکومت کے زخموں پر نمک پاشی کی مگرساتھ ہی مغربی بنگال کے لوگوں کا دل جیت لیا ۔ سیاست کے کھیل میں صرف اپنے آپ کو ہیرو یا ہیروئن ثابت کرنا کافی نہیں ہوتا بلکہ اپنے حریف کو ولن بنانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ الاپن بندو پادھیائے کے معاملے نے بنگالی عوام کو یہ پیغام دیا کہ وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی ان کی خیر خواہ ہے۔ وہ ان کے فلاح بہبود کی خاطر ایک اہم افسر کے مدت کار میں توسیع کرتی ہیں ۔ اس کے برخلاف مرکزی حکومت ان کے مفاد ات کو پامال کرکے افسر کو بلاوجہ دہلی طلب کرلیتی ہے۔ وزیر اعلیٰ اس ناپاک منصوبے کو خاک میں ملادیتی ہیں۔ اس طرح مرکزی حکومت اور وہاں اقتدار پر فائز بی جے پی کی عوامی شبیہ بری طرح متاثر کردی گئی ہے۔ مرکز کے خلاف اپنی جارحانہ حکمت عملی سے ممتا بنرجی نے رابندر ناتھ ٹیگور کا بھیس بدلنے والے وزیر اعظم کو آسارام باپو کا ہم پلہ بناکر رکھ دیا اور سنگھ کا بھی دماغ ماوف کردیا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ ایسے اوٹ پٹانگ مشورے دینے لگا جن کو وزیر اعظم سیدھے کچرے کی ٹوکری کی نذر کردیں گے۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1227448 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.