خواب تو صرف لڑکوں کے ہوتے ہیں ۔

اس تصویر میں دو لڑکیاں ہیں دونوں ہی بہت کم عمر ہیں ۔ایک دلہن کے لباس میں ملبوس ہے جبکہ دوسری اسکول کے کپڑوں میں ہے ۔پہلی تصویر میں صاف ظاہر ہے کہ بہت سی لڑکیوں کی کم عمری میں زبردستی شادی کردی جاتی ہے ۔ دوسری لڑکی جو اسکول کے کپڑوں میں ملبوس ہے اس کو زنجیروں نے جکڑا ہوا ہے جس سے بظاہر ہورہا ہے کہ اول تو لڑکیوں کو تعلیم حاصل نہیں کرنے دیا جاتا اور اگر لڑکیوں کو پڑھایا بھی جاتا ہے تو ان کی شادی کے بعد ان کے خواب ادھورے رہ جاتے ہیں ۔تعلیم ان کے رشتوں میں رکاوٹ بن جاتی ہے زیاده پڑھی لکھی لڑکی کو پرانی سوچ والے لوگ اچھا نہیں سمجھتے ۔اور یہ کہہ کر رشتے سے انکار کردیتے ہیں کہ لڑکی کی عمر زیادہ ہے ۔پاکستان کو آزاد ہوئے 74 سال گزر گئے لیکن آج بھی ہمارے ذہن میں وہی بوسیدہ پرانے خیالات رچے بسے ہوئے ہیں کہ لڑکیوں کو پڑھنا نہیں چاہیے۔لڑکی اپنے ملک کے لیے کچھ نہیں کر سکتی لڑکی کمزور ہوتی ہے ۔ ہمارے معاشرے میں لوگوں نے لڑکی کو یہ کہا کہ لڑکی کمزور ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ تم طاقتور کیسے بن سکتی ہو۔ایک پڑھی لکھی لڑکی اپنے لیے آواز اٹھا سکتی ہے اپنے ملک کی ترقی میں حصہ ڈال سکتی ہیں۔ اس ملک کی عورت پڑھی لکھی ہوگی اس ملک کے نوجوان بھی پڑھے لکھے ہوں گے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہمیں لڑکیوں کو تعلیم دینی چاہیے اور اپنے پرانے خیالات کو ذہن سے نکالنا چاہیے لڑکیوں پر اعتماد کرنا چاہیے انہیں اعلی تعلیم دینی چاہیے ۔

پہلی تصویر جس پر اب تفصیل سے بات کرتے ہیں شادی کے کپڑے اور پاؤں پر مہندی لگائے بیٹھی ہےاس کی عمر 14 یہ 13 سال ہوگی ۔11 سے سے 22 سال کی عمر جو کہ انسان کی زندگی کا سب سے بہترین عرصہ ہوتا ہے اس میں انسان کی سوچ پختہ ہونے لگتی ہے یہ سنہری دور جس میں انسان اپنے خوابوں کی تکمیل کی جانب گامزن ہوتا ہے۔ بہت سی لڑکیاں جن کی آنکھوں میں ہزاروں لاکھوں خواب ہوتے ہیں کہ انہیں پڑھ لکھ کر کچھ کرنا ہے لیکن ان کے والدین ان کی کم عمری میں شادی کردیتے ہیں ۔ان کے خوابوں کو ایک قبر میں دفنا دیا جاتا ہے اور وہ خواب صرف خواب ہی رہ جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی سوچ کے مطابق لڑکیوں کو پڑھنا نہیں چاہیے انہیں آگے جا کے گھر داری کرنی ہے انہیں بچے ہی پالنے ہیں تو انہیں پڑھ لکھ کر کیا کرنا ہے ایسی گھٹیا سوچ رکھنے والے نہیں جانتے کہ جس طرح لڑکوں کے خواب ہوتے ہیں اسی طرح لڑکیوں کے خواب بھی ہوتے ہیں جنہیں وہ ایسے باتیں کہہ کر ان کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں ۔تعلیم ہر انسان کے لیے ضروری ہے لڑکا لڑکی سب کے لیے ۔حدیث نبوی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرض ہے ۔علم کے ذریعے انسان کے اندر شعور آتا ہے ۔
دوسری تصویر کے بارے میں تفصیل سے بات کرتے ہیں جس میں لڑکی نے یہ اسکول کا یونيفارم پہنا ہوا ہے ۔جس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ اسکول کے طالب علم ہے یعنی بہت سے لوگ لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے اور بہت جدوجہد کے بمشکل گریجویشن کرتی ہیں اس کے باوجود بھی لڑکیاں اپنے لیے کچھ نہیں کر سکتی جیسے تصویر میں ظاہر ہو رہا ہے کہ زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے یعنی عورت پڑھ لکھ کر بھی خود کو بند ہوا محسوس کرتی ہے یعنی والدین لڑکیوں کا شوق دیکھتے ہوے اپنی بچیوں کو پڑھا دیتے ہیں اور پھر انکی شادی کر دیتے ہیں اور سسرال جا کر وه لڑکی جس نے پوری زندگی پڑھا لکھا ایک خواب دیکھا کہ وه پڑھ لکھ کر کچھ بنے گی ملک کا نام روشن کرے گی ۔اس کے یہ خوب کبھی پورے نہیں ہو پاتے كيونكہ سسرال جا کر لڑکیوں کو نوکری کرنے یا پڑھنے نہیں دیا جاتا ۔اور وه ایک ان پڑھ لڑکی کی طرح زندگی گزارنی پڑتی ہے ۔گھر کا کام کرنے کے بعد فارغ بیٹھنا پڑتا ہے اسےآزادی بھی نہیں دی جاتی بہت سے لوگ اپنی بچیوں کو اس وجہ سے اعلی تعلیم حاصل نہیں کرنے دیتے کیونکہ اعلی تعلیم لڑکیوں کے رشتوں میں ایک رکاوٹ بن جاتی ہے

لڑکی کا پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے تاکہ وه ملک کو پڑھے لکھے نوجوان دے سکے ۔ایک پڑھی لکھی اور ان پڑھ میں بہت فرق ہوتا ہے پڑھی لکھی لڑکی میں شعور ہوتا ہے ہمّت ہوتی ہے ظلم کے خلاف آواز اوٹھانے کی جرات ہوتی ہے جبکے ان پڑھ نہ تو اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کرسکتی ہے نہ ہی اپنے حق کے لیے بول سکتی ہے اسے پاوون کی جوتی سمجھا جاتا ہے ۔اگر وه کچھ کہنے کی ہمت کرتی ہے تو اسے یہ کہ کر چپ کروا دیا جاتا ہے کے گوار چپ کرو جاہل تمھیں کچھ پتہ نہیں ہے ۔یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو نہ تو عورت کو پڑھانا چاھتے ہیں نہ ہی ترقی کرتے دیکھ سکتے ہیں اپنی مرضی سے ان پڑھ کو لاتے ہیں پھر اسے ان پڑھ ہونے کا طعنہ بھی دیتے ہیں ۔تعلیم ہر لڑکی کے لیے بہت ضروری ہے جیسے نماز روزہ فرض ہے اسی طرح تعلیم کا حصول بھی ہمارے لیے ضروری ہے ۔

 

Shazia Hameed
About the Author: Shazia Hameed Read More Articles by Shazia Hameed: 23 Articles with 28166 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.