جیسے کہ ہم نے پچھلے کالم قسط دوم میں ثابت کیا گیا تھا
کہ ملالہ کو خود سوات کی بچیاں اور خواتین پسند نہیں کرتیں ۔اگر کوئی ملالہ
کی کہانی کی مزید حقیقت تک پہنچنا چاہتاہے تو اُسے سوات کے ایک محقق جناب
ڈاکٹر سلطان روم کے مضمون’’المیہ سوات اور ایوارڈز‘‘ قسط اول؍دوم جو اخبار
آزادی سوات میں ۲۷؍۲۸؍ اگست ۱۰۱۲ء شائع ہوئے تھے پڑھ سکتا ہے۔ ان مضمونوں
پر مختلف لکھاریوں کے تجزیے اخبارات میں شائع ہوئے تھے جن پرڈاکٹر سلطان
روم صاحب نے تبصرہ کیا تھا جو بنام’’سپاہ ملالہ اورمبالغے مغالطتے‘‘
جوآزادی اخبار میں ہی گیارہ قسطوں میں شائع ہوئے تھے میں مزید روشنی پڑتی
ہے۔ اس ناپسندیدگی کی ایک فطری وجہ عالمی شاطروں کی ملالہ پر انعامات کی
بارش بھی ہے۔ کیونکہ لوگ جانتے ہیں عالمی شاطر انعامات کی بارش اسی پر کرتے
ہیں جو اسلام کے خلاف بولتا ہے۔ جیسے ملالہ کی اسلام کے خلاف ڈائریاں
اورسلمان رُشدی قماقش کے لوگوں کی اسلام کے خلاف کتابیں۔ ویسے بھی سوات کے
سارے لوگ جانتے ہیں کہ ملالہ نے بچیوں کی تعلیم کی لیے کچھ بھی تو نہیں کیا؟
بلکہ جب طالبان سوات پر غالب تھے اور بچیوں کے سرکاری اسکول بارود سے اُڑا
جا رہے تھے تو پہلے تو ملالہ سوات کے دوسرے پرائیویٹ اسکولوں کی طرح اپنے
باپ کے پرائیویٹ اسکول میں آرام سے پڑھ رہی تھی۔ صبح اسکول جاتی تھی دوپہر
کو واپس آ جاتی تھی ۔جب ذرہ خوف زدہ ہوئی تو اپنے باپ کے ساتھ محفوظ جگہ
ایبٹ آباد چلی گئی۔ سوات میں امن کے بعد واپس آئی تھی۔ اس کے بعد اس پر نام
نہاد حملہ کا ڈرامہ رچایا گیا۔ اخبارات نے سرخیاں لگائیں کہ ملالہ یوسفزئی
قاتلانہ حملے میں ۲ ساتھی طالبات سمیت شدید زخمی ہوئی۔ ایک گولی ملالہ کے
سر اور دوسری گردن میں لگی حوالہ’’ روزنامہ خیبر پشاو راشاعت ۹؍ اکتوبر
۲۰۱۲ء ‘‘ پہلے سیدو شریف ہسپتال پھر ہیلی کاپٹر کے ذریعے سی ایم ایچ پشاور
میں منتقل کیا گیا۔ ملالہ کے بیرون ملک علاج ہی سے جان بچائی جا سکتی ہے۔
میڈیکل بورڈ رزنامہ’’ کا اعلان۔حوالہ چانداشاعت ۱۰؍ اکتوبر ۲۰۱۲ء‘‘اور بعد
میں اسپیشل ایئرایمبولنس کے ذریعے لندن منتقل کیا گیا۔ سر اور گردن میں
گولی لگنے والی ملالہ لندن کے ہسپتال سے بغیر علاج صرف جادو کے زور سے ایک
دم صحت یاب ہو گئی۔ پھر گیم کے عالمی کرداروں نے اس پر انعامات کی پربارش
شروع کر دی۔ یہ انعامات بی بی سی آردوکے بلاگ پر پوسٹ کی گئی ڈائریوں، جن
میں فوج،طالبان اوراسلام کے خلاف زہرپھیلایا گیا تھا دیے گئے اب اس خلائی
مخلوق(ملالہ) پر دل تھام کر انعامات کی بارش کو سنیے۔ پاکستان میں سب سے
پہلے یوسف رضا گیلانی نے ۲۰۱۱ء پاکستان کا ’’قومی ایوارڈبرائے امن ایوارڈ’’
دیا۔پھر نیشنل عوامی پارٹی کی صوبائی حکومت نے بھی نقدانعام دیا۔ بی بی سی
بلاگ پر پوسٹ کی گئی ڈائریوں کے بعد نیویارک ٹائمز کے رپورٹر نے ملالہ پر
ایک خصوصی فلم بنائی۔ جس کی خوب تشہیر کی گئی ۔پاکستان کے اُردو؍ پشتو
چینلوں نے ملالہ کے انٹرویوز کیے ۔برطانیہ میں ملالہ(خلائی مخلوق) کی حفاظت
کی ذمہ داری مختلف عیسائی اداروں نے سنبھال لی۔ جنہیں(malalainc) کانام دیا
گیا۔ تشہیر کی ذمہ داری’’ ایڈلمان‘‘ نے سنبھال لی۔ ۲۰۱۲ء میں پاکستان کا
ایک اورایوارڈ’’ستارہ شجاعت‘‘ دیا گیا۔۲۰۱۲ء کو اقوام متحدہ کے جنرل
سیکرٹری بان کی مون نے ’’ملالہ ڈے‘‘ منانے کا اعلان کیا۔ جسے ہر سال منانے
کا بھی اعلان کیا گیا۔۲۰۱۲ء میں ہی امریکی عالمی جریدے ’’فارن پالیسی
میگزین‘‘نے ملالہ کو ۱۰۰ گلوبل تھنکر میں شامل کیا۔ اسی سال سماجی انصاف کے’’
مدر ٹریسا ایوارڈ‘‘ دیا گیا۔ اسی سال ٹائم میگزین میں ملالہ کو ’’پرسن آف
دی ایئر‘‘ قرار دیا۔ اسی سال عالمی ادارے یونسکو نے لڑکیوں کی تعلیم کے
لیے’’ملالہ فنڈ‘‘ قائم کیا۔ اس فنڈ میں مشہور امریکی اداکارہ انجلینا جولی
نے ۲؍ لاکھ ڈالر کی رقم جمع کرائی۔ ۲۰۱۳ء میں اٹلی نے ملالہ کو اعزازی
شہریت سے نوازا۔ اسی سال فرانس نے ملالہ کو ’’سائمن ایوارڈ‘‘ سے نوازا۔
برطانوی اساتذہ کی یونین نے’’ فریڈاور اپنے ایوراڈ‘‘ سے نوازا ۔اسی سال
ملالہ کو نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا گیا ۔ملالہ کا نام ۱۵۰؍ سے زائد
نامزدگان میں سرے فہرست تھامگر کامیابی نہ ہوئی۔ ۲۰۱۳ء میں اوپیک نے ملالہ
کو ایوارڈ دیا۔ مئی ۲۰۱۳ء میں امریکا میں ’’امید عکس‘‘ ایوراڈ سے نوازا
گیا۔۲۰۱۳ء میں برطانیہ میں ملالہ کے پوٹریٹ کی نمائش کی گئی۔ ۲۰۱۳ء میں
یونیورسٹی آف ایڈن برگ نے ایم اے کی اعزازی ڈگری دی۔ ۱۲؍ جولائی کو ملالہ
کو اقوام متحدہ کی یوتھ اسمبلی میں خطاب کا منفرد اعزاز حاصل ہوا۔ گورڈن
براؤن اور بان کی مون نے اپنا ہیرو اور چمیپئن قرار دیا۔ جولائی ۲۰۱۳ء میں
ملالہ کو برطانوی اخبار کی جانب سے’’پرائیڈ آف بریٹین‘‘ ایوارڈ ملا ۔ملالہ
نے ایک استقبالیہ جس کی میزبانی ملکہ برطانیہ کوئین الزبتھ اور اس کے شوہر
شہزادہ فلپ نے کی شرکت کی اپریل ۲۰۱۳ء میں ٹائم میگزین نے سرورق پر ملالہ
کی تصویرشائع کی جس میں دنیا کی۱۰۰؍ با اثر افراد میں شامل کیا۔۲۰۱۳ء میں
ہالینڈ کی تنظیم گڈز رائٹس فاؤنڈیشن کی جانب سے ملالہ کو ’’انٹرنیشل
چالڈرنز پیس پرائز‘‘ دیا گیا۔ ۲۰۱۳ء میں ایمنسٹی انٹر نیشنل نے ملالہ کو
’’ضمیر کی سفیر‘‘ برائے ۲۰۱۳ء کاایوراڈ دیا۔کلنٹن فاؤنڈیشن کے تحت مالہ کو
’’ کلنٹن گلوبل سٹیزن ایوراڈ‘‘ دیا گیا۔۲۰۱۳ء میں ہاورڈ یونیورسٹی نے ’’
پیٹر گومز ہیومیٹرین ایوارڈ‘‘ دیا گیا۔ ۲۰۱۳ء میں ملالہ سے یورپ کی سب سے
بڑی لائبریری’’ لائبریری آف برمنگھم‘‘کا افتتاح کروایا گیا۔ ۲۰۱۳ء میں
اوباما نے اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ ملالہ سے ملاقات کی۔ ۲۰۱۳ء میں کنیڈا
نے ملالہ کو اعزازی شریت دی۔ ۲۰۱۳ء میں امریکی جریدے گلیمر میگزین نے ملالہ
کو ’’گلیمر خاتون‘‘ کے ایوراڈ سے نوازا۔۲۰۱۳ء میں یورپ کے سب سے بڑے
ایوارڈ’’آندرے سخاروف‘‘ سے نوازا گیا اور یورپی پارلیمنٹ سے بھی خطاب کیا۔
ان ایوارڈ کی بارش کو دیکھ کر میں حیران ہو گیا۔ بلکہ میرا یقین پکا ہو گیا
جو اﷲ کی کتاب نے پہلے ہی فرمادیا ہے کہ’’ مسلمانوں یہود و نصارا ہر گز
تمہارے دوست نہیں ہو سکتے جب تک تم ان جیسے نہ ہو جاؤ‘‘ یا اﷲ کیاملالہ اور
اس کا لالچی باپ ضیا الدین یوسف زئی ان جیسے ہو گئے ہیں ؟یا یہ مسلمانوں کے
خلاف گہری سازش ہے ؟باقی آیندہ ان شاء اﷲ۔
|