سادگی اور آسودگی

 دین فطرت اِسلا م کے نام پرپاکستان کاظہور معبودِبر حق کاایک زندہ وتابندہ معجزہ ہے ۔ہمارے باپ دادا نے کلمہ شہادت کی پرجوش ـ"صداؤں" اور محمدعلی جناح ؒ کی آبرومندانہ "وفاؤں" کی گھنی" چھاؤں" میں برطانوی سامراج کوللکارتے اورپچھاڑتے ہوئے آزاد مملکت کاخواب شرمندہ تعبیرکیا ۔آزادی ایک بیش قیمت نعمت ہے جو پلیٹ میں پیش نہیں کی گئی بلکہ اس کیلئے ہمارے بڑوں نے شہادت کے جام نوش کئے ہیں۔قیام پاکستان کی تحریک مسلمانوں کے لہو سے" گرم" اوراس کی تاریخ خون سے" رقم" کی گئی ہے۔ماضی میں بھی پاکستان کے ساتھ بیوفائی اورغداری کرنیوالے کردار تاریخ کے کوڑادان میں دفن ہوگئے اورآج جوبھی اورجس حیثیت میں بھی پاکستان کونوچ رہے ہیں وہ حقیقت میں قدرت کے غضب کوآواز دے رہے ہیں۔تاریخ ٹیپوسلطان ؒ کویادرکھتی ہے جبکہ میرصادق اورمیرجعفر کے نام نفرت سے پکارے جاتے ہیں اورکوئی اپنے بچے کانام ان غداروں کے نام پرنہیں رکھتا، قلم قبیلے کے ہردلعزیز برادرم راناشہزاد اقبال کوبھی اہلیان چنیوٹ" ٹیپو "کے نام سے پکارتے ہیں،راقم نے اپنے ہوش میں کسی کانام میر جعفر اورمیرصادق نہیں سنا۔صالحین اورہیروز کے نام پربچوں کانام رکھناہماری شاندار روایات کاحصہ ہے۔ مسلمانوں میں بادشاہت کی شروعات کے بعدکی تاریخ کے مطالعہ کریں توکفار سے زیادہ امیرسعدتین کوپیک سے قابل نفرت کرداروں سمیت نا م نہاد مسلمان غداروں اورمنافقین نے اسلام اوراہل اسلام کوزیادہ نقصان پہنچایا ۔یہ ملعون غدارکفار کے ساتھ سازباز کرتے ہوئے اقتدار کی ہوس میں اسلامی اقدار کوروندتے ، مسلم حکمرانوں کی حکومت پر گرفت کمزور اوربیگناہ مسلمانوں کاناحق خون بہاتے رہے ۔جولوگ اپنی صفوں میں سے غداروں کا بروقت صفایانہیں کرتے انہیں قیمتی جانوں کے ضیاع سمیت شدیدنقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں غداروں کیلئے معمولی" مہلت" بھی ریاست کیلئے انتہائی" مہلک" بن جاتی ہے۔غداروں کی صحبت میں بیٹھنے والے بھی غدار بن جاتے اورغدرمچاتے ہیں ۔جس طرح پیاروں کی حفاظت کیلئے ہرسیاہ ناگ کاپھن بروقت کچلنا ضروری ہے ورنہ اس کے بچوں کی صورت میں مزید ناگ سراٹھاسکتے ہیں،اس طرح پاک سرزمین سے ناپاک کرداروں اورغداروں کاصفایا بھی از بس ضروری ہے۔کوئی ریاست بیرونی دشمنوں کے ساتھ ساتھ اندرونی غداروں کے معاملے میں کسی مصلحت یانرمی کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔

1947ء میں پاک سرزمین کے عشق میں آگ ،خون اور"اشک "کے دریا پارکرنے جبکہ قیام پاکستان سے اب تک اس کی حفاظت کیلئے سردھڑ کی بازی لگانیوالے جانباز محافظ" قابل رشک "ہیں۔قیام پاکستان کی طویل اورکٹھن جدوجہد کے دوران ہمارے باپ دادا کے قلوب واذہان میں صرف ایک آزاداسلامی ریاست کاتصور تھا ،اُس وقت قائدؒ کے سواکوئی قائدنہیں تھا آج ہمارے ملک میں سیاسی نظریات سے عاری سیاستدانوں کاسیلاب ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی قوم کی قیادت کے معیار پرپورانہیں اترتا۔تحریک پاکستان کے کارکنان جمہوریت اور صحافت کے مفہوم سے نابلد تھے لہٰذاء آزادی صحافت نہیں آزادی ریاست مقدم ہے۔آزادی صحافت کے نام پرآزادی ریاست پرکاری ضرب لگانیوالے مٹھی بھر شرپسندشیطان کے پیروکار ہیں۔صحافت کاوجود ریاست کے دم سے ہے ،ریاست کی سا لمیت صحافت کی محتاج نہیں۔ہرفرد ،طبقہ اورشعبہ ایک مقررہ حدمیں اچھا لگتا ہے۔ راقم کے نزدیک 24/7صحافت نے ہماری ریاست کوکمزور اورسیاستدانوں سمیت ہم وطنوں کوآپس میں الجھانے اورانہیں ایک دوسرے کادشمن بنانے کے سواکچھ نہیں کیا،کوئی چینل مسلسل" شور" سے ہم وطنوں کو"باشعور" نہیں بناسکتا۔پی ٹی وی اپنے آغاز سے نوے کی دہائی تک محض ایک چینل نہیں بلکہ ہر خاندان کاایک ممبربلکہ مادرعلمی تھا،اس دورمیں" سادگی" اور"آسودگی" تھی۔ شام چھ سے رات بارہ بجے تک پی ٹی وی کا سنہری دورآج بھی ہماری یادوں میں نقش ہے ،پی ٹی وی اپنے ابتدائی دورمیں بے حیائی سے دوراورسچائی کے نزدیک تر تھا لیکن اب وہ بھی نظریاتی چینل نہیں رہا بلکہ مالیاتی چینل بن گیا ہے۔ قادروکارساز اﷲ رب العزت کے احکامات اوراس کی قدرت کے مناظر میں جابجااوقات کی پابندی اورتوازن کادرس ملتا ہے،بندوں کیلئے معبود برحق کی عبادات افضل ہیں لیکن پورادن اورپوری رات عبادت کیلئے مخصوص نہیں بلکہ دین کے معاملے میں بھی اعتدال کاحکم دیا گیا ہے لہٰذاء دنیا کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی ۔دن کام جبکہ رات آرام کیلئے ہے،دنیا بھر میں دن رات نشریات نے انسانیت اور ناظرین کی شخصیت کاحشر نشر کردیا۔ہمارے ہاں زیادہ تر"اینکرپرسن "اندرسے "اینگر پرسن" ہیں لہٰذاء ان کا متفقہ ایجنڈا معاشرے میں نفرت ،تشدد،تعصب اورسیاسی انتہاپسندی عام کرنا ہے۔انہیں لگتا ہے ملک وقوم کی تقدیر کے فیصلے ان کے رحم وکرم پر ہیں اورریاست کابوجھ انہوں نے اٹھایاہوا ہے۔معمولی شہرت ملنے کے بعد ہر"بونا" خودکو"عالم چنا "اور"لوہے کاچنا "سمجھنا شروع ہوجاتا ہے،پھر وہ بھی گرجتا ہے برسنا جس کے بس میں نہیں۔یہ "کوڈو"ریاستی اداروں کے ساتھ دشمنی کاتاثر دے کراپناقدبڑا نہیں کرسکتے کیونکہ یہ ناقد نہیں حاسد ہیں۔پروفیشنل پاک فوج اورشہرہ آفاق آئی آیس آئی کے حاسدین کے سرخیل "حاسد" کی طرف سے اپنے بیرونی آقاؤں کے آشیرباد پر پچھلے دنوں جس انداز سے ہرزہ سرائی کی گئی ،پاکستانیوں نے اس کی پراگندہ سوچ سمیت اسے مسترد اورمعذرت کرنے پرمجبورکردیالیکن میرے نزدیک محض معافی سے ہرغلطی اورگناہ کی تلافی نہیں ہوسکتی ۔ جو پاکستان اور افواج پاکستان کے ساتھ محبت کادم بھرتے ہیں انہوں نے اس منافق اورفاسق کوڈو کامعافی نامہ مستردکردیاہے۔میں سمجھتاہوں جہاں کسی بااثر مجرم کوسزانہیں دی جاتی وہاں مجرمانہ سرگرمیوں کابندٹوٹ جاتا ہے۔واصف علی واصف ؒ نے کہا تھا ،"بادشاہ کا گناہ،گناہوں کابادشاہ ہے" ،اس طرح کسی عام آدمی کے مقابلے میں ایک باخبر اوربااثر شخص کواس کی فتنہ انگیزی اورشرانگیزی کی کئی گنازیادہ سخت سزا دی جائے ۔خواجہ عقیل احمدبٹ سے دشمن داروں کوتو پابندسلاسل کردیاجاتا ہے جبکہ ملک دشمن عناصر پرکوئی ہاتھ نہیں ڈالتا ،شراب فروش پولیس کی گرفت میں آجاتے ہیں جواچھی بات ہے لیکن ضمیرفروش سینہ تان کر دندناتے پھرتے ہیں۔بدسے بدنام برا کے مصداق خواجہ عقیل احمدبٹ کیلئے تحریک انصاف کے پاس بھی" انصاف" نہیں جبکہ اعلانیہ ریاست دشمن بیانیہ کااظہارکرنیوالے چنددن زندانوں میں قیام کے بعد پھر سے ایوانوں میں جابیٹھتے ہیں۔کپتان نے طوطاچشمی کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنے دیرینہ سیاسی رفیق گوگی بٹ کی طرف سے آنکھیں موندلی ہیں۔کچھ افراد کوخواجہ عقیل احمدبٹ کی رہائی کے سلسلہ میں میری تحریر بلکہ تحریک پرتعجب ہوگا کیونکہ انہوں نے محض گوگی بٹ کے بارے میں سنی سنائی باتوں اورافواہوں پرکان دھرے ہیں جبکہ میں اس خواجہ عقیل احمدبٹ کوجانتا ہوں جس کاباطن صاف اوردامن بے داغ ہے۔ضمیر کے قیدی خواجہ عقیل احمدبٹ ماضی میں دشمن داری کی بنیادپر اپنے خلاف درج ہونیوالے متعدد مقدمات میں باعزت بری ہوتے رہے ہیں،اس بار بھی ایساہی ہوگا۔

اگرریاست کوراہ راست پررکھنا ہے تومیڈیاکی نشریات کے اوقات مقررکرناہوں گے جبکہ اہل سیاست ا وراہل صحافت کیلئے ضابطہ اخلاق بناناہوگا ۔سوشل میڈیا سمیت ٹی وی میڈیا کی "بھرمار" نے جہاں ناظرین کو"بیمار" کردیا ہے وہاں معاشرے میں مجرمانہ سرگرمیاں بھی بڑھ گئی ہیں۔ مہذب معاشروں میں ہرکسی پرضابطہ اخلاق کااطلاق ہوتا ہے،مختلف پارٹیوں سے وابستہ دوچار پارلیمنٹرین یاسیاستدانوں کوٹاک شوزمیں مدعو اوران کے درمیان تصادم کی راہ ہموارکرناصحافت نہیں بلکہ ریاست کے ساتھ عداوت ہے،جاویدچوہدری چاہتا توفردوس عاشق اعوان کاپیپلزپارٹی کے پارلیمنٹرین پرہاتھ نہ اٹھتا ۔ریاست کو درپیش خطرات کامقابلہ کرنے کیلئے افواج اورسکیورٹی فورسز کے جانباز سردھڑ کی بازی لگاتے ہیں،جمہوریت اورمیڈیا کے بغیر ریاست کی صحت پرکوئی اثر نہیں پڑتا لیکن افواج کے بغیر گھات میں بیٹھادشمن حملے میں دیرنہیں کرتا ۔ شہری بار بار اپناہمسایہ بدل سکتے ہیں لیکن کوئی ریاست اپنا پڑوسی تبدیل نہیں کرسکتی ۔بھارت سے دشمن کے ہوتے ہوئے پاکستان کی سا لمیت کیلئے ایک منظم،مستعد، پروفیشنل اورطاقتورفوج ناگزیر ہے۔جس طرح پاک کامتضاد ناپاک ہے اس طرح ہماری پاک سرزمین اورپاک فوج کے حاسد اور دشمن بھی ناپاک اورنجس ہیں ۔بابا جی اشفاق احمدخان فرماتے ہیں ،"تنقید کیلئے علم کاہوناضروری ہے جبکہ نکتہ چینی کیلئے جہالت کاہوناکافی ہے"۔کسی دانا کاکہنا ہے ،"گفتگو کیجئے احتیاط کے ساتھ کیونکہ لوگ مربھی جاتے ہیں الفاظ کے ساتھ"،لہٰذاء سیاست اورصحافت کے پلیٹ فارم سے جو بھی ریاست اورریاستی اداروں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے احتیاط کادامن چھوڑ دے اسے اس کے حال پرنہیں چھوڑاجاسکتا،جس کی زبان اس کے قابومیں نہیں اس کیلئے زندان بہترین مقام ہے ۔کوئی کیچڑ میں اترے بغیر ریاستی اداروں پرکیچڑ نہیں اچھال سکتا ۔جس کو"گھٹی "میں شہدکی بجائے کیچڑدیا گیا ہواس کے اندر سے زندگی بھر کیچڑنکلتا رہتا ہے،صحافت کے پلیٹ فارم سے دفاعی اداروں کیخلاف منفی پروپیگنڈا کرنیوالے چند بونوں کاوجود ریاست کیلئے بوجھ ہے،یہ حاسد ہمارے ملک میں فتورپیدانہیں کرسکتے ۔ پاکستان کے عوام کو افواج پاکستان اوراپنے سرفروش محافظوں پربھرپوراعتماداوران سے والہانہ محبت ہے لہٰذاء ان کے ہوتے ہوئے ریاست کی سا لمیت اورریاستی اداروں کی عزت پرآنچ نہیں آسکتی ۔

 

Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 140 Articles with 90375 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.