صبح چھ بجے میں نے بستر چھوڑ دیا۔ مجھے علم تھا کہ جہاز
اس وقت فن لینڈ کے جزیرہ آلینڈ میں لنگر انداز ہو گا۔ جلدی سے تیار ہو کر
عرشے پر آیا تو دیکھا کہ جہاز کنارے پر لگا ہے۔ مگر عر شے پر بہت کم لوگ
نظر آئے۔ رات بھرجاگنے اور نشے میں مدہوش ہونے کی وجہ سے اکثریت کمروں میں
محوِ خواب تھی۔ جہاز پر سوار ہونے اور اُترنے کے لیے یہی عرشہ تھا مگر اس
وقت یہ راستہ بند تھا۔ عملے سے پوچھا تو انہوں نے کہا۔ ’’باہر جانے کے لیے
زیادہ وقت نہیں ہے۔ آدھے گھنٹے بعد جہاز روانہ ہو جائے گا۔‘‘
میں نے کہا۔ ’’میں پھر بھی باہر جانا چاہوں گا۔‘‘
اس نے بتایا ۔’’پھر آپ لفٹ کے ذریعے نیچے فلور نمبر دو پر جائیں۔ وہاں سے
باہر جانے کا راستہ بنایا گیا ہے۔ مگر یاد رکھیے گا کہ آدھے گھنٹے کے اندر
واپس آنا ہے۔‘‘
فلور نمبر دوپر جہاز سے باہر جانے کے لیے عارضی راہداری بنی تھی جس میں سے
گزر کر میں باہر نکلا تو یہ ویران سی جیٹی تھی۔ کوئی اور مسافر وہاں
موجودنہیں تھا۔ البتہ عملے کے چند فرد کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ اکلوتے مسافر
کو جہاز سے بر آمد ہوتا دیکھ کر وہ میری طرف متوجہ ہو گئے۔ میں نے ان سے
پوچھا۔ ’’یہاں قریب میں کوئی دُکان وغیرہ ہے؟‘‘
دراصل میں فن لینڈ کی یادگار کے طور پرکوئی چھوٹی موٹی شے خریدنا چاہتا
تھا۔ ان میں سے ایک نے کہا ’’سر دُکانیں کافی آگے ہیں۔ آپ کے پاس اتنا وقت
نہیں ہے کیونکہ تھوڑی دیر میں جہاز کے لنگر کھول دیے جائیں گے۔‘‘
میں نے پوچھا۔’’کتنا وقت ہے؟‘‘
تقریباً پندرہ منٹ۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’ٹھیک ہے۔ فن لینڈ کی سیاحت کے لیے یہ کافی ہے۔‘‘
یہ اپریل ۲۰۱۹ کی بات ہے جب میں اسکینڈے نیوین ممالک ڈنمارک، سویڈن اور
ناروے کے دورے پر تھا ۔ سویڈن میں میرے ایک دوست نے بحری جہاز کا ٹکٹ خرید
کر مجھے اس خطے کے چوتھے ملک فِن لینڈ کے سفر پر روانہ کر دیا ۔ اس پر تعیش
بحری جہاز میں پوری رات سفر کرنے کے بعد ہم اس جزیرے پر لنگر انداز تھے ۔
اگلے پندرہ منٹ میں،میں نے اسکینڈے نیو یا کے چوتھے ملک فن لینڈ کی سیر و
سیاحت مکمل کی۔ جیٹی کے سامنے ڈھلوانوں پر بنے مکانات، دور سے نظر آتی چند
گاڑیاں، اُڑتے ہوئے پرندے اور فن لینڈ کے چند باشندے دیکھے۔ سر زمینِ فن
لینڈ پر چند منٹ چہل قدمی کی۔ اس کی فضاؤں میں لمبے لمبے سانس لیے۔ یوں فن
لینڈ کا’’ بھرپور ‘‘سیاحتی دورہ اختتام پذیر ہوا اور میں جہاز میں واپس
آگیا۔ اب میں اپنے پروفائل میں درج کر سکتا تھا کہ میں فن لینڈ بھی جا چکا
ہوں ۔بلکہ فوجی بھائیوں کی طرح برسوں اس کے قصے بھی سنا سکتا ہوں۔ میرے
آبائی علاقے کے کئی بزرگ فوج میں ملازمت کر چکے ہیں۔ دورانِ ملازمت وہ جہاں
جہاں رہے، خاص طور پر اگر کہیں بیرونِ ملک چند ماہ گزارے ہیں توتادمِ مرگ
اس کے قصے مزے مزے لے لے کرسناتے رہتے ہیں۔میں یہ قصے سنتے سنتے بڑا ہوا
ہوں۔ شاید میری سفر نامہ نگاری کے پسِ پردہ عوامل میں یہ قصے بھی ہوں۔ جب
شعور آیا تو یہ بات بھی سمجھ آئی کہ یہ قصّے بیان کرنے والے محض اچھے قصّہ
گو تھے۔
یہ فنِ لینڈ کا جزیرہ آلینڈ (Aland) تھا جہاں اس وقت ہم لنگر انداز تھے۔ اس
جزیرہ نما خود مختار ریاست کی پندرہ منٹ کی سیر و سیاحت کے بعد مجھے حق
حاصل ہو گیا ہے کہ اس پر مختصر روشنی ڈال کر اپنے تاریخی علم کا رُعب ڈال
سکوں۔ ویسے بھی اس ریاست کی تاریخی، جغرافیائی اور قانونی حیثیت انتہائی
دلچسپ اور بین الاقوامی تنازعات کو حل کرنے کے لحاظ سے مثالی ہے۔
آلینڈ فنِ لینڈ کا خود مختار صوبہ ہے۔ یہ بحر بالٹک میں فن لینڈ اور سویڈن
کے درمیان خلیج بوتھینیا کے جنوبی سرے پر واقع ہے۔ اس ریاست کی کل آبادی
انتیس ہزار ہے۔ آلینڈ 6500 جزائر پر مشتمل ہے۔ اس میں سے صرف ساٹھ جزائر
آباد ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فن لینڈ کا حصہ ہونے کے باوجود آلینڈ میں
ٹیکس کا اپنا نظام ہے، الگ ڈاک ٹکٹ ہیں، اپنا جھنڈا ہے اور سرکاری زبان
سویڈش ہے۔ یہ انتہائی خوبصورت اور وسائل سے مالا مال ریاست ہے۔ مختلف جزائر
کو ملانے کے لیے پلوں، سڑکوں اور کشتیوں کے ذرائع موجود ہیں۔ کشتی رانی،
ماہی گیری، سمندری مہم جوئی، گولف ، سائیکلنگ اور دیگر تفریحات کے لیے
آلینڈ بہترین جگہ ہے۔ اس لیے بڑی تعداد میں سیاح یہاں کا رُخ کرتے
ہیں۔صدیوں تک سویڈن اور فن لینڈ کے درمیان جزائر آلینڈ کی ملکیت کا تنازعہ
رہا۔ یہ جزائر دونوں ملکوں کے درمیان واقع ہیں اور دونوں کے لیے کئی لحاظ
سے اہمیت کے حامل ہیں۔ مگر یہاں کے آبائی باشندے دونوں ملکوں سے نالاں تھے
اور وہ آزاد و خود مختارہنا چاہتے تھے۔ گویا تین فریق تین مختلف مطالبات کر
رہے تھے۔ بالآخر ۱۹۳۰ء میں یہ معاملہ لیگ آف نیشنز (League of Nations) میں
لے جایا گیا۔ اُس دور کے سب سے بڑے بین الاقوامی ادارے لیگ آف نیشنز کے چند
بڑے اور اچھے فیصلوں میں سے ایک جزائر آلینڈ کے تنازعے کا حل تھا۔ اس حل کی
رو سے ان جزائر کے باشندوں کو مکمل آزادی تو نہیں ملی مگر انہیں اپنی مرضی
کی تہذیب، تمدن، اپنا ٹیکس نظام، اپنا جھنڈا اور اپنا نظام حیات اپنانے کی
مکمل آزادی مل گئی۔ سرکاری طور پر فن لینڈ کا حصہ ہونے کے باوجود انہوں نے
اپنی سرکاری زبان سویڈش رکھی۔ یوں فن لینڈ اور سویڈن دونوں نے اس خطے پر
اپنا حقِ ملکیت تقریباً واپس لے کر اُنہیں آزادی دے دی اور یہ مسئلہ بخیرو
خوبی حل ہو گیاجسے اب نوّے برس ہو گئے ہیں۔
عصرِ حاضر کے سُلگتے ہوئے ’مسئلہ کشمیر‘ اور بیسویں صدی کے آغاز میں حل ہو
جانے والے مسئلہ آلینڈ میں گہری مماثلت ہے۔ بلکہ مسئلہ کشمیر کئی لحاظ سے
زیادہ اہم اور گھمبیر ہے۔ جس طرح کشمیر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان
واقع ہے اس طرح آلینڈ،فن لینڈ اور سویڈن کے درمیان واقع ہے۔ دونوں میں فرق
یہ ہے کہ کشمیری پچھلی ڈیڑھ صدی میں لاکھوں جانوں کی قربانی دے چکے ہیں۔
دوسرا فرق آبادی کا ہے۔ آلینڈ کی کل آبادی صرف تیس ہزار ہے۔ شاید اسی وجہ
سے انہیں الگ ملک بنانے کی اجازت نہیں ملی جب کہ کشمیر کے دونوں حصوں کی
مشترکہ آبادی ڈیڑھ کروڑ سے متجاوز ہے جو دُنیا کے درجنوں ملکوں سے زیادہ
ہے۔ کشمیریوں کی طویل جدوجہد آزادی، ان کا جغرافیائی محلّ وقوع، ان کی
آبادی ، جدا مذہب اور الگ تہذیب و تمدن کے پیش نظر انہیں بھارت سے بہر صورت
آزادی ملنی چاہئے۔ آلینڈ چونکہ یورپ میں تھا اس لیے یہ مسئلہ سو برس قبل
بغیر کسی قباحت حل کر لیا گیا ۔جب کہ کشمیر بد قسمتی سے اس خطے میں واقع ہے
جہاں مسائل کو حل
نہیں کیا جاتا بلکہ ان کے ساتھ سیاست کی جاتی ہے۔
( یہ مضمون مصنف کے زیرِ طبع سفرنامہ’ ملکوں ملکوں دیکھاچاند‘ سے ماخوذ ہے
۔)
|