آپ کا سالانہ عرس مبارک 5جولائی
2011بروز منگل کو واصفی آستانہ بڈیانہ میں منعقد ہو رہا ہے
محمد یعقوب اویسی ایڈووکیٹ ۔۔۔چیف ایگزیکٹو ادار ہ تاجدار یمن پاکستان
اللہ تعالیٰ کے پیارے محبوب امام الانبیاءسرکار دو عالم حضرت محمدﷺ کا دنیا
سے پردہ فرمانے کے بعد فرمان الٰہی کے مطابق نبوت کا سلسلہ تو ختم ہو گیا
لیکن رشد و ہدایت کا یہ سلسلہ بزرگانِ دین اور اولیاء کرام سے جاری و ساری
ہے اور قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔حکم الٰہی اور آپﷺ کی احادیث مبارکہ کی
روشنی میں دین کے ان پیرو کاروں نے اپنی زبان، عمل اور زہد و تقویٰ سے
ایمان کی جوکرنیں بکھیریں ان سے کروڑوں مسلمان فیضیاب ہو گئے۔ ان بزرگوں
میں سے اصلاح انسانیت کےلئے کسی نے خطابت کا سہارا لیا تو کسی نے شاعری کو
اپنا ذریعہ بنایا جبکہ بعض اولیاءکرام نے اپنے عمل، زہد و تقویٰ اور کشف و
کمالات سے اسلام کی قندیلیں روشن کیں۔ یہ وہ ہستیاں ہیں جن کو دنیا سے رخصت
ہوئے آج سینکڑوں برس ہو چکے ہیں لیکن ان کی درگاہوں سے آج بھی فیوض و برکات
کے سرچشمے جاری و ساری ہیں۔ فرزندانِ اسلام ان کی درگاہوں پر حاضری کےلئے
میلوں کا سفر طے کرتے ہیں۔ اور ان کی چوکھٹ پر سلامی کےلئے گھنٹوں قطاروں
میں کھڑے رہتے ہیں۔ اجمیر میں خواجہ غریب نواز حضرت معین الدین چشتیؒ ہوں
یا سیون میں حضرت سرکار شہباز قلندرؒ، پاک پتن میں حضرت بابا فرید شکر گنجؒ
ہوں یا گجرات کانواں والی بابا جی فضل الٰہی سرکارؒ لاہور میںحضرت داتا
صاحبؒ یا سیالکوٹ حضرت امام علی الحق سرکار ؒ سب کا ایک ہی درس ایک خدا ایک
رسول۔ خدا کے ان بندوں نے اپنا جان و مال اور زندگیاں اپنے پروردگار کی راہ
میں وقف کر رکھی تھیں۔ انہیں اولیاءکرام سے فیضیاب اور ان سے گہری محبت
رکھنے والی ایک ہستی کی درگاہ شہر اقبال کے مشرق میں پسرور روڈ پر تقریباً
بارہ(۲۱)کلو میٹر کے فاصلے پر قصبہ بڈیانہ میں موجود ہے۔ اس مزار میں دفن
بزرگ ہستی کا نامِ نامی تو سلطان الشعراءالحاج پیر محمد واصف بڈیانوی ہے
جبکہ یہ درویش صفت انسان گردو نواح اپنے مریدین اور عقیدتمندوں میں واصف
بڈیانوی کے نام سے مشہور ہوئے۔ واصف بڈیانوی جنوری1942کو ایند پور موڑی
تحصیل نور پور ضلع نکڑھ بھارت میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد بزرگوار بابا جی
شیر محمد قادری قلندری چشتی صابری اپنے وقت کے کامل بزرگ تھے۔ انہوں نے ان
کا پیدائشی نام محمد بشیر رکھا۔ قیام پاکستان کے بعد بابا جی اپنے اہل خانہ
سمیت بھارت سے ہجرت کر کے مختلف منازل کو طے کرتے ہوئے بلآخر قصبہ بڈیانہ
میں آئے اور مستقل سکونت اختیار کی۔ شاید کہ بڈیانہ ہی کو ایک مرد قلندر ،صوفی
منش، عاشقِ رسول اور محافظ ناموسِ صحابہ و اہلبیت کی آخری آرام گاہ بننے کا
شرف حاصل ہونا تھا ۔
حضرت پیر واصف بڈیانوی بچپن ہی سے حالات کی ستم ظریفی کی نظر رہے۔ اسی لیے
کسی سکول یا مدرسے سے کوئی تعلیم حاصل نہ کر سکے۔ تاہم والد صاحب نے اپنے
زیر سایہ گھریلو اور دینی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رکھا۔ بڈیانہ میں
آمد کے بعد کھلے آسمان تلے جب ذاتی چھت کی فکر سے آزاد ہوئے تو والدہ
محترمہ پہلے بیمار ہوئیں اور کچھ عرصہ علالت کے بعد جہانِ فانی سے کوچ کر
گئیں۔ والدہ کی جدائی نے ان کے دل و دماغ پر گہرے نقوش چھوڑے کیونکہ خدمتِ
والدہ سے دلی سکون حاصل کرنا حضرت پیر واصف بڈیانوی کا روز مرہ کا معمول
تھا۔کیونکہ خدمت والدہ نے امام العاشقین حضرت سیدنا خواجہ اویس قرنی رضی
اللہ عنہ کو بارگاہ رسالت میں مقبول بنایا۔ خدمتِ والدہ میں کمال کی بنیاد
پر حضرت پیر واصف بڈیانوی بھی فیضان اویسیہ کے حامل تھے۔ والد صاحب نے گاہے
بگاہے دلجوئی کرنے کے ساتھ ساتھ بہن بھائیوں کی ذمہ داری بھی ان پرڈال دی
اور وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے صبر و حوصلے کی تلقین کرنے کے علاوہ خدا
اور رسولِ خدا سے عشق و محبت علم معرفت و تصوف اور روحانی فیوض و برکات کے
بارے میں تعلیم دیتے رہے۔ کچھ عرصے کے بعد حضرت بابا جی شیر محمد قادری
قلندری چشتی صابری نے اپنے صاحبزادے حضرت واصف بڈیانوی کو چاروں سلسلوں میں
خلافتیں عطا کر دیں اور خود زندگی کی قید و بند سے آزاد ہو کر سفر آخرت کو
روانہ ہو گئے۔ انہیں بڈیانہ شریف قبرستان میں دفن کیا گیا۔ تنگئی حالات بے
یارو مددگار مسکینی اور یتیمی کے اس عالم میں غم و فکر اور دکھوں نے واصف
بڈیانویؒ کے اندر ہی اندر ایک آتشی الاﺅ کی صورت اختیار کر لی۔جو عشق مجازی
سے ہوتی ہوئی عشق حقیقی تک پہنچ گئی۔
اپنے آپ سے محو گفتگو گم سم الگ تھلگ بیٹھے رہنا۔ جب لوگوں نے یہ صورت حال
دیکھی تو وہمی کہنا شروع کر دیالیکن دنیا کی باتیں اور طعنے تو عاشق کو لذت
قلبی سے آشنا کرتے ہیں ۔جبکہ اس سے عشق میں مزید نکھار پیدا ہوتا ہے ۔ پھر
جب اندر کا چھپا درد زبان پر آیا تو لفظ شعروں کی صورت میں ڈھلنے شروع ہو
گئے۔ شعراکٹھے کرنے کا خیال آیا تو آپ نے لکھنا شروع کر دیا۔ جس سے شعر
اکٹھے کرنے کا سلسلہ چل نکلا اور پھر وہمی تخلص پر تقریباً پینتیس(۵۳)
کتابیں لکھیں اور چھپوا کر مارکیٹ میں پیش کیں۔ جس سے ان کی بہت حوصلہ
افزائی ہوئی۔ بعد میں دوستوں کے مشورے سے تخلص تبدیل کرنے کےلئے استخارہ
کیا اور اشارہ ملنے پر تخلص واصف رکھا۔ اس کے بعد ہر آنے والا دن واصف
بڈیانویؒ کےلئے نئی نئی شہرتوں اور خوشیوں کا پیغام لے کر آیا۔ کئی بزرگ
اور صاحب مزار ہستیوں کی نثر اور نظم میں کتابیں لکھیں اور کئی بزرگ ہستیوں
نے بھی دستاریں عطا کیں۔حضرت پیر واصف بڈیانوی رحمة اللہ علیہ کی شاعری
عشقِ رسول ﷺ سے لبریز ،شان صحابہ و آل رسول سے سرشار ،فیضان ولایت کی عکاس
ہے ۔شعر کا اسلوب سادہ مگر علم و حکمت سے لبالب ہوتا ۔ یقینا شعر ہر شاعر
کے دل کی عکاسی اور جذبات کی ترجمانی کرتا ہے ۔حضرت پیر واصف بڈیانوی رحمة
اللہ علیہ کی شاعری کو بھی ایسے ہی ایک دردِ دل اور صاحب سوز فرد کی شاعری
کا اعزاز حاصل ہے ۔آپ نے اپنی شاعری کے لئے اپنی مادری زبان پنجابی کو
اظہار کا ذریعہ بنایا ۔مگر پنجابی زبان میں بھی ایسے ایسے باکمال الفاظ اور
کافیہ و ردیف لائے کہ پڑھنے والاوجد میں آئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آپ نے حضرت
امام علی الحقؒ سیالکوٹ اور حضرت داتا علی ہجویریؒ لاہور ان دونوں درگاہوں
پرہر جمعرات مسلسل تقریباً بائیس سال تک حاضری دی۔ اور ان آرام فرما ہستیوں
سے فیوض و برکات حاصل کیں۔ یہ انہیں اولیاءکرام کی کرامت ہے کہ واصف
بڈیانویؒ نے کسی تعلیمی درسگاہ سے تعلیم حاصل کیے بغیر ڈھائی سو سے زائد
کتابوں کے مصنف ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ جب صحافت میں قدم رکھا تو اس میں
بھی بے پناہ کامیابی حاصل ہوئی۔ ایک وقت میں آپ کئی بڑے اخباروں کی
نمائندگی کرتے رہے ہیں۔ یہ کسی صحافی کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔ حلقہ احباب
سخن و بزم واصف( بڈیانہ) پاکستان (رجسٹرڈ) کی بنیاد رکھی اور اسے ادبی
تنظیموں میں اعلیٰ مقام دلانے میں شب و روز محنت کی۔ آج اس بزم کی شاخیں
مختلف شہروں میں قائم ہو چکی ہیں۔ جہاں ان کے سینکڑوں شاگرد اپنی اپنی بساط
کے مطابق ادبی میدان میں سرگرم عمل ہیں۔ ان کی ادبی کاوشوں کا ثبوت ملک کے
مختلف شہروں میں چھپنے والے ادبی جریدوں سے بخوبی ملتا ہے۔ آپ نے دینی،
علمی، ادبی، قلمی،اصلاحی، فلاحی اور سماجی ہر محاذ پر جہادکر کے جو خدمات
سرانجام دی ہیں انہیں تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ بڈیانہ کی سر زمین
جہاں اکثر ڈھول ڈھمکے اور اسلام کے منافی محفلیں سجتی تھیں۔ یہاں آباد
لوگوں کے دلوں میں دین کی محبت پیدا کی۔ اور سرزمین بڈیانہ پر اتنے بڑے
عظیم الشان دینی، ادبی پروگرام منعقد کیے۔ جن میں ملک کے کونے کونے سے
قراءحضرات، جید علماءکرام، ممتاز شعراءکرام اور معروف نعت خواں حضرات شرکت
کرتے۔
بڈیانہ میں انہوں نے کئی مسجدیں آباد کیں۔ اور نعتیہ محفل کی بنیاد رکھی۔
آج یہاں عاشقانِ رسولﷺ آپ کی محبت میں اکثر محفلیں سجاتے نظر آتے ہیں۔ گو
اس وقت بڈیانہ ٹربائن سازی کے کام میں ملک بھر میں مشہور ہے لیکن کافی عرصے
سے بڈیانہ واصف بڈیانویؒ کے نام سے منسوب نظر آتا ہے۔ آپ نے اپنی تمام تر
مصروفیات کے باوجود اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو بھی بڑے احسن طریقے سے
نبھایا ہے۔ آپ اکثر کہتے تھے کہ میںنے اپنے خاندان کے کسی فرد کو بھی اپنے
شوق پر قربان نہیں کیا اور نہ ہی اپنی خدمات کا صلہ کبھی حکومتی مراعات کے
بارے میں سوچا ہے۔آپ اس قدر قد آور اور بلند مرتبہ شخصیت ہونے کے باوجود
نہایت عجز و انکساری میں رہتے۔ نہایت سادہ طبع اور خوش اخلاق طبیعت کے مالک
تھے۔ انہی اوصاف کی بناءپر آپ نے کئی غیر مسلم خاندانوں کو کلمہ حق کا درس
دیا اور انہیں دائرہ اسلام میں داخل کیا۔ آستانے پر آنے والے چھوٹے بڑے،
امیر غریب کی ایک جیسی خاطر مدارت کرتے۔ ہر آنے والے سے اس قدر پیار ، محبت
اور شفقت سے پیش آتے کہ وہ ان کی شخصیت کا ہمیشہ کےلئے گرویدہ ہو جاتا۔ آپ
ایک محبت رکھنے والے سچے عاشق رسولﷺ تھے۔ اپنے مریدین کو ہمیشہ نماز پڑھنے
کی تلقین کے علاوہ نہایت دیانتداری سے صاف ستھرا کاروبار کرنے کی ہدایت
فرماتے تاکہ صحیح معنوں میں رزق حلال نصیب ہو سکے۔ حسد ،غیبت، چغل خوری، بد
اخلاقی اور ہمسایوں کی دل آزاری جیسی برائیوں سے منع فرماتے۔ آپ کی اولاد
میں دو بیٹیاں بخیرو عافیت اپنے گھروں میں گھریلو زندگی گزار رہی ہیں۔ بڑے
بیٹے صائم واصف کاروباری صورت حال کے پیش نظر اٹلی میں مقیم ہیں۔ سب سے
چھوٹے بیٹے ظہیر واصف کاروبار سے منسلک ہیں۔ جبکہ صاحبزادہ ظہور واصف کو آپ
نے اپنے زیر سایہ تصوف اور علم معرفت کی تعلیم و تربیت کے علاوہ رب تعالیٰ
اور حبیب خداﷺ سے عشق محبت اور دینی فیوض و برکات کے بارے میں آگاہی دی ۔
حضرت پیر واصف بڈیانوی رحمة اللہ علیہ محافلِ میلاد سے خاص شغف رکھتے تھے
۔مسلکِ اہلسنت پر سختی سے کاربند تھے ۔اصلاحِ احوال کےلئے کسی پر جبر نہ
کرتے بلکہ محبت و شفقت سے اصلاح فرماتے ۔ڈیرے پر دن رات لنگر جاری رہتا
۔لیکن خود حالت فقر کو پسند فرماتے ۔کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”الفقر
فخری“۔فقر میرا فخر ہے۔
حضرت واصف بڈیانویؒ نے اپنے وصال سے قبل صاحبزادہ ظہور واصف بڈیانوی کو
اپنے دستِ مبارک سے دستار عطا کی۔ اور آستانہ عالیہ واصفی بڈیانہ شریف کا
گدی نشین مقرر کیا۔ الحمد للہ صاحبزادہ صاحب اپنی ذمہ داریاں بڑے احسن
طریقے سے نبھا رہے ہیں۔ ہر وقت عبادت و ریاضت اور ڈیرے پر آنے والے پریشان
حال لوگوں کی دلجوئی میں مصروف رہتے ہیں۔اس طرح اپنی دینی و دنیا وی ذمہ
داریوں سے سبکدوش ہر کر پیر طریقت، رہبر شریعت سلطان الشعرءالحاج محمد واصف
بڈیانویؒ 5جولائی2000ءکو دنیا سے پردہ فرکر گئے ۔ لیکن ان کی درگاہ سے
روحانیت اور فیوض و برکات کا سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ ان کے مریدین
اور عقیدت مندوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ جو صاحبزادہ پیر طہور واصف
بڈیانوی کی زیر نگرانی اکثر دینی اور روحانی محفلیں سجانے میں مصروف رہتے
ہیں۔ حضرت پیر واصف بڈیانوی کے یوم وصال 5جولائی کو سالانہ عرس مبارک نہایت
عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔ عقیدت مند دربار واصف پر چادریں چڑھاتے
ہیں عرس کی تقریبات دن اور رات کو جاری رہتی ہیں۔ جن میں ملک کے طول و عرض
سے قاری، علماءکرام، شعرا کرام، نعت خواں اور قوال حضرات بڑھ چڑھ کر شرکت
کرتے ہیں۔ تقریبات کے ساتھ ساتھ لنگر کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ اختتام پر
عالم اسلام اور دین اسلام کی سر بلندی کےلئے دعائے خیر کی جاتی ہے۔
ہر سال کی طرح اس سال بھی سلطان الشعراءالحاج پیر محمد واصف بڈیانویؒ کا
سالانہ عرس مبارک مورخہ5جولائی بروز منگل نہایت عقیدت و احترام اورتزک و
احتشام سے منایا جا رہا ہے۔ جس میں ملک کے طول و عرض سے مریدین اور عقیدت
مند جوق در جوق شرکت کریں گے۔ 5جولائی کی صبح طلوع ہوتے ہی عقیدت مند
چادریں لے کر آستانہ پر آنا شروع ہوں گے اور علیحدہ علیحدہ دربار شریف پر
چادر پوشی کا شرف حاصل کریں گے۔ یہ سلسلہ نماز ظہر تک جاری رہے گا۔ جبکہ
بعد از نماز ظہر تا عصر قرآن خوانی اور ختم شریف ہو گا۔ جبکہ بعد از نماز
عشاءکل پاکستان محفل نعت کا انعقاد ہو گا۔ جس میں ملک پاکستان کے انٹرنیشنل
شہرت یافتہ نعت خواں، علماءکرام اور قرا حضرات شرکت کریں گے۔ جس میں علامہ
حافظ مشتاق احمد سلطانی گوجرانوالہ اور علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی
سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال خصوصی خطاب فرمائیں گے۔ عرس کی تمام
تقریبات زیر صدارت جانشین سلطان الشعراءصاحبزادہ پیر محمد ظہور واصف
بڈیانوی ہوں گی۔ عرس مبارک شرعی حدود و قیود کی پاسداری میں یقینا روحانیت
کے فروغ ،تعلیمات محبت کے احیاءاور مشنِ واصف کی ترویج کا بڑا ذریعہ بنتا
ہے ۔ |