29جون 2011ءکی دوپہر بارہ
بجے آسمان علم و آگہی کا وہ منور اور روشن آفتاب جسے دنیا مولانا محمد
اسماعیل فیض ؒ کے نام سے یاد کرتی تھی ہمیشہ کے لیے لاہور کی سر زمین پر
غروب ہو گیا(انا للہ وانا الیہ راجعون)۔مولانا محمد اسماعیل فیض ؒ جیسا
بلند پایہ عالم دین، صاحب علم و بصیرت ، صاحب عمل اور متقی انسان 1966ءکو
جہانیاں ضلع خانیوال کے ایک دینی گھرانے کے فرد حافظ محمد فیض بخش کے آنگن
میں مثل ماہتاب و آفتاب طلوع ہوا تھا ، حفظ قرآن پاک اور ابتدائی دینی علوم
جامعہ رحمانیہ جہانیاں سے مکمل کر لینے کے بعد 1988ءمیں جامعہ قاسم العلوم
ملتان سے دورہ حدیث کیا ، مولانا کے مشہور اساتذہ کرام میں شعبہ حفظ کے
قاری نورمحمد ، شیخ الحدیث مولانا یاسین صابر صاحب مد ظلہ اور مولانا منیر
احمد منور قابل ذکر ہیں ۔بے پناہ خدادا د صلاحیتوں ، ریاضتوں ، محنتوں اور
مشقتوں کی بدولت علم دین کی بے کراں وسعتوں کو طے کرتے ہوئے جلد ہی وطن
عزیز کے مذہبی حلقوں میں آپ کا نام نامی مثل خورشید بن کر ابھرا ۔ مولانا
مرحوم ؒ1992ءمیں بزرگ عالم دین ، یادگار اسلاف مولانا محب النبی مد ظلہ
العالی کی دعوت پر ملک کی ممتاز دینی درس گاہ جامعہ مدنیہ رسول پارک لاہور
میں صدر مدرس اور ناظم تعلیمات کی حیثیت سے جلوہ فگن ہوئے اور یہ انیس سال
انہوں نے مسلسل دین ِ اسلام کی ترقی ، ترویج اور اشاعت کے لیے صرف کر دیے ۔
مولانا محب النبی مد ظلہ العالی انہیں بہت عزیز رکھتے اور جامعہ کے انتظام
و انصرام میں ان کی رائے کو خاص اہمیت دیتے ۔در حقیقت یہیں سے مولانا مرحومؒ
نے ملک گیر شہرت حاصل کی اور ملک بھر سے تشنگان ِ علم دین آپ کی جانب
کھینچے چلے آتے ،پھر جب زمانے نے کروٹ لی تو جلد ان کا نام قومی افق پر
نمودار ہونے لگا اور آپ کے علم و حکمت کا ڈنکا چہار سو بجنے لگا ۔راقم
السطور کی ان سے پہلی ملاقات آٹھ نو سال پیشتر ہوئی تھی ،ازاں بعد یوں ہوا
کہ مولانا مرحومؒ سے یہ پیار اور چاہ کا رشتہ اور بھی مضبوط ہوتا گیا،
مولانا سے جب کبھی ملنے جامعہ مدنیہ جانا ہوتا تو میں انہیں ہمیشہ ہنستے
مسکراتے ہو ئے پاتا ، ان سے جو بھی ملنے کے لیے جاتا انہی کا ہو کر رہ جاتا،
وہ اپنے چاہنے والوں سے مل کر بے پایاں محبت ، مسرت اور خوشی کا اظہار کر
تے ۔ وہ بہت زیادہ مہمان نواز بھی تھے ،طلباءکے ہاں انہیں ایک شفیق استاذ
کی نظر سے دیکھا جاتا تھا ،ان کے رگ و پے میں دین محمدیﷺ کا درد کوٹ کوٹ کر
بھرا ہوا تھا ، عالم اسلام کی زبوں حالی ، پسماندگی اور غلامی انہیں خون کے
آنسو رلاتی تھی ، دنیا بھر کی اسلامک حریت پسند تحریکو ں سے آپ کو ایک
والہانہ لگاﺅ تھا ،وہ پورے عالم کے مسلمانوں کی کسمپرسی دیکھتے تو تڑ پ تڑپ
سے جاتے تھے ، ان کا مطالعہ بے حد وسیع اور ان کی دینی و دنیاوی معلومات
ایک اتھاہ سمندر کی طرح تھیں۔وہ اپنے ہم عصروں سے مختلف اندازِ فکر رکھتے
تھے ، ان کا زاویہ نگاہ بہت اعلیٰ پائے کا تھا جسے سمجھنا ، پرکھنا اور
جانچنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ۔ عالم اسلام کا در د ناک زوال ، استعماری
طاقتوں کا مسلم ممالک میں کشت و خون ، مسلم امہ کی بے بسی اور ان پر یہود
وہنود کی چڑھائی ، مسلم لیڈرز اور حکمرانوں کا کھوکھلا پن ان کے اس انداز
فکر کی بنیادی اکائی تھی ۔میں جب بھی ان سے ملا انہیں اسی فکر میں ڈوبے
دیکھا کہ مسلمان کیا تھے اور اب کیا ہو گئے؟ وہ مسلمانوں کی اصلاح اور عظمت
گم گشتہ کی بحالی کے لیے ہر دم فکر مند اور سر گرم عمل رہتے ، وہ کہتے کہ
اب مسلم قوم کی مائیں خالد بن ولیدؓ ، محمد بن قاسم اور شیر میسور جیسے
بیٹے کیوں نہیں جنم دیتیں؟میرے پاس مولانا مرحوم کے ان سوالوں کا کوئی جوا
ب نہ ہوتا اور یوں وہ مجھے لاجواب سا کر کے رکھ دیتے تھے ۔یہی وجہ تھی کہ
پاکستان میں حضرت امیر عزیمت مولانا حق نواز جھنگوی شہید جیسی الو العزم
ہستیوں اور انقلابی شخصیات ؒ سے ان کا تعلق دیرینہ اور قریبی نوعیت کاتھا ،
حضرت امیر عزیمت ؒ جب کبھی ملتان کے گردو نواح میں تنظیمی دوروں پر تشریف
لاتے تو ان کا قیام مولانا مرحوم کے دولت کدے پر ہوتا ، مولانا محمد
اسماعیل فیض فخریہ انداز میں ہر ایک کو بتاتے کہ شہادت سے فقط پانچ روز قبل
امیر عزیمت ؒنے میرے ہاں قیام کیا اور جس صابن سے انہوں نے غسل فرمایا تھا
وہ میرے پاس آج بھی محفوظ ہے ، میرا سر اس لیے بھی فخر سے بلند رہتا ہے کہ
مولانا شہید کو میں نے اپنے ہاتھوں سے غسل دیا اور انہیں لحد میں اتارا ؒ ۔مولا
نا اسماعیل فیض ؒ صاحب تقریبا ہر جمعة المبارک کو نماز جمعہ کے بعد اپنے
قابل فخر شاگرد اٹک کے نوجوان عالم دین مولانا خلیل سرفرازی کے ہمراہ
مولانا عبد الجبار سلفی حنفی کے ہاں جامعہ مسجد ختم نبوت ملتان روڈ لاہور
میں تشریف لاتے تو قاری غلام مرتضیٰ ،قاری دلدار احمد صدیقی ودیگر لاتعداد
احباب ان کے لیے چشم براہ ہوتے ، پھر یہ محفل خوب سجتی اور آہستہ آہستہ
عروج پر جا پہنچتی ،مولانا مرحوم کو اس محفل میں ”نقیب محفل “کی سی اہمیت
حاصل ہوتی ، ان کالہجہ شہد سے بھی زیادہ میٹھا تھا، ان کے مزاج میں مزاح کا
عنصر غالب رہتا،ان میں بلند درجے کی سادگی پائی جاتی تھی اور وہ ہمیشہ تکبر،
تفاخر، شہرت اور انا کی تسکین سے دور رہتے۔مولانا حقیقی معنوں میں سر تا پا
عشق رسالتﷺؓ میں ڈوبے ہوئے ایک مردِ درویش اور مرد ِ قلندر تھے۔ مولانا عبد
الجبار سلفی ، قاری غلام مرتضیٰ ، مولانا خلیل سرفرازی سچ ہی تو کہتے ہیں
کہ وہ ایک نظریاتی اور انقلابی نوعیت کے عالم دین تھے اور حضرات اسلاف سے
محبت کا یہ عالم کہ ان کا تذکرہ ہائے وفا چھڑتے ہی آبدیدہ ہو جاتے ۔ مولانا
سلفی کا کہنا تھا کہ مجھے انہوں نے ہی تحریر پر یہ کہہ کر مائل کیا تھا کہ
تقریر یں کرنے والے تو بہت ہیں آپ بس تحریر پر توجہ دیں اور قلم کے ذریعے
سے پیغام حق ہر ایک تک پہنچانے کی سعی کریں ۔ مجھے اب بھی یاد پڑتا ہے کہ
جب شہید اسلام مولانا علی شیر حیدریؒ کی شہادت کی خبرمیں نے مولانا کو فون
پر دی تھی تو شدت غم سے وہ بہت روئے تھے ، وہ اس بات پر بہت دل گرفتہ رہتے
کہ جو دھرتی اسلام کے نفاذ کی خاطر قیام عمل میں لائی گئی تھی اسی پر سب سے
زیادہ علمائے کرام اور دینی کارکنوں کا خون بہا یا گیا اور یہ سر زمین حق
پرستوںپر تنگ کر دی گئی ۔ مولانامحمد اسماعیل فیض ؒ آج ہمارے درمیان موجود
نہیں مگر ان کی دین اسلام کے لیے بے پایاں تڑپ ، محبت، بے لوث اور مخلصانہ
خدمات و مساعی جمیلہ کو بہت دیر تک یاد رکھا جائے گا ۔آپ کی وفات حسر ت
آیات پر قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن ، اپوزیشن لیڈر مولانا عبد الغفور
حیدری ، اہل سنت والجماعت کے مرکزی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر خادم حسین ڈھلوں
ودیگر ممتاز شخصیات نے گہرے دکھ اور غم کا اظہار کرتے ہوئے ان کی دینی وملی
خدمات کو سراہا اور انہیں خوبصورت الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ۔ 29جون کی
رات گیارہ بجے آپ کی نماز جنازہ مولانا محب النبی صاحب کی اقتداءمیں ادا
ءکی گئی اور آپ کو ہزاروں چاہنے والوں نے جدائی کے غم میں آنسوﺅں کے ایک
سمندر کو عبور کرتے ہوئے لحد میں اتارا اور یوں یہ چراغ آخرِ شب بجھتے ہی
محفل دوستاں کو اجالے سونپ کر اندھیروں کی ظلمتوں سے خلاصی دے گیا۔
ہمیں خبر ہے ہمیں ہیں چراغ آخر شب
ہمارے بعد محفل میں اندھیرا نہیں اجالا ہے
|