بھارت نواز کشمیریوں کو مودی کے جھانسے میں لانے کی کوشش

شہریت قانون، بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر اور کشمیر دشمن اقدامات کو مودی حکومت بڑی کامیابی کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ اب بھارت کے متعصب اور انتہا پسند وزیر اعظم نریندر مودی کی دعوت پر 24جون کو بھارت نواز کشمیریوں کانئی دہلی میں منعقدہ اجلاس عالمی سطح پر تحریک آزادی کو نام نہاد بھارتی آئین اور جمہوریت کی فرضی بحالی کے نام پر گمراہ کرنے کی ایک کوشش کی صورت میں گو کہ فلاپ ہو گیا۔مگر عالمی سطح پر بھی مودی کی کشمیر کانفرنس کے اثرات ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے۔بھارت کے ساتھ بات چیت کے لئے پاکستان کی چند شرائط دسامنے آئیں جن میں کشمیر میں جغرافیائی تبدیلیوں کو بند کرنا،کشمیری قیدیوں کی رہائی، کشمیر میں مواصلاتی اور دیگر ناکہ بندی کا خاتمہ، مکمل ریاست کی بحالی، کشمیر میں فوج کی تعداد میں کمی شامل تھے۔16جون2021کو مودی کی کانفرنس سے پہلے امریکی نائب وزیرخارجہ برائے جنوبی و وسط ایشیا ڈین تھامپسن نے امریکی کانگریس کو بتایا ،’’ امریکہ نے مودی حکومت سے کہا ہے کہ وہ جلد از جلد کشمیر میں امن بحال کرے، اس سلسلے میں بھارت نوازوں کی رہائی، 4جی سروس کی بحالی کی گئی ہے۔اب انتخابی اقدامات اٹھانے ہیں ‘‘۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے کشمیریوں سے رائے شماری کا وعدہ کیا، پی وی نرسمہا راؤ نے اندرونی خود مخاتاری کا وعدہ کیا مگر یہ سب بعد میں مکر گئے۔ آج بھارت نواز کشمیری رائے شماری کے بجائے ریاست کا درجہ بحال کرنے کی لرائی لڑ رہے ہیں۔بھارت نواز سیاستدان جنھیں ریاست کا خصوصی درجہ ختم کرتے ہوئے جیل میں ڈال دیا گیا، ایک بار پھر کرسی اور اقتدار کی دوڑ میں شامل ہو گئے۔ بھارت اب چاہتا ہے کہ پہلے حد بندی کرے، پھر الیکشن ، بعد میں ریاست کا درجہ بحال کرنے پر بات ہو۔ مگر سب سے پہلے اور سب کے بعد ایک ہی مسلہ ہے، وہ ہے رائے شماری۔ مودی حکومت جو کشمیریوں کی شہری آزادی سلب کرنے اور مسلم کش اقدامات پر یقین رکھتی ہے، کے ساتھ سابق کٹھ پتلی وزرائے اعلیٰ فاروق عبد اﷲ، عمر عبد اﷲ، محبوبہ مفتی، غلام نبی آزادسمیت14سیاستدانوں کی میٹنگ دنیا کو مزید دھوکہ دینے کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔مودی اور ان کے ساتھی بھارت نواز کشمیریوں کی فاروق عبداﷲ کی رہائش گاہ ’’گپکار‘‘ پر منعقدہ اجلاس اور گپکار اتحاد کو ’’گپکار گینگ‘‘ ، ملک دشمن اور سیاسی اچھوت قرار دے چکے ہیں۔ جن سنگھی مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری حد بندی مشق کی تیزی چاہتے ہیں تاکہ مزید ایک ڈرامہ سیریل شروع کیا جائے اور جعلی منتخب حکومت کے قیام کیلئے فرضی انتخابات کرائے جائیں۔ یہ لوگ کشمیر کی ترقی کے راستے کو تقویت بخشنے کے بجائے اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ ۔ 14 بھارت نواز سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ساڑھے تین گھنٹے طویل ملاقات کے بعدٹویٹر پر سلسلہ وار ٹویٹس میں مودی نے اس بات چیت کو ایک ترقی یافتہ اور ترقی پسند جموں و کشمیر کی طرف جاری کوششوں میں سے ایک اہم قدم قرار دیا۔ اس کا مقصد زمینی سطح پر ترقی کو مزید تقویت دینے کے بجائے بھاجپا کے ایجنڈے کو ہی تقویت دی گئی۔مودی کی ترجیح مقبوضہ جموں و کشمیر میں نچلی سطح کی جمہوریت کے استحکام کے نام پر آزادی پسندی کی سوچ کو کچلنا ہے۔ حد بندی کی تیز رفتار ی ایک بہانا ہے۔بھارت کشمیری سیاستدانوں کے ساتھ میٹنگ کو ہندوستانی جمہوریت کی سب سے بڑی طاقت قراردے رہا کہ لوگ ایک میز پر بیٹھ سکتے ہیں اور اپنے خیالات کا تبادلہ کرسکتے ہیں۔کشمیریوں کو پیغام دیا جا رہا کہ ان کی قیادت دہلی کی خوشنودی سے ہی مسلط ہو گی۔ الیکشن بھی دہلی کی مرضی کے مطابق ہوں گے۔ بھارت کے آئین کے تحت ہی اجلاس ہوں گے۔ بھارتی حکمران چاہتے ہیں کہ دنیا کشمیریوں کے ساتھ کئے گئے ان کے وعدوں کو یاد نہ کرے۔ جب بھی عالمی دباؤ پڑے، تو بھارتی حکمران کشمیری سیاستدانوں کی شان میں کسی ضیافت کا اہتمام کرتے ہیں اور دنیا سے کہا جاتا ہے کہ کشمیری اپنے لوگ ہیں، ان کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ دنیا کو بتایا جاتا ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی مسلہ ہے۔ اسے ہم خود ہی حل کریں گے۔ پاکستان کا اس میں کوئی کردار نہیں۔ یہ بھارت نواز سیاستدان ہمیشہ سے ہی چہرے بدل بدل کر بھارت کو بیساکھیاں فراہم کرتے ہیں۔ بھارت ان کے ہی کندھوں پر بندوق رکھ کر کشمیریوں کو نشانہ بناتا ہے۔ یہی لوگ بھارت کے خاکوں میں رنگ بھرتے ہیں۔ جب ضرورت پڑے تو پاکستان کو بھی گمراہ کر لیا جاتا ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں عمر عبدالل، محبوبی مفتی ، یوسف تاریگامی جیسے لوگ اسلام آباد کے طواف کرتے رہے۔ مشرف حکومت ان کے جھانسے میں آ کر انہیں حریت کانفرنس کے متبادل کے طور پر قبول کرنے کی تیاری کر رہی تھی۔

نریندر مودی اینڈ کمپنی ایک بار پھر بھارت نوازوں کو کشمیریوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہے۔ انہیں بھی اقتدار چاہیئے۔ دہلی انہیں اقتدار میں حصہ دینے کو تیار ہے۔ سب کچھ کشمیر اور کشمیریوں کی قیمت پر ہو رہا ہے۔ان لوگوں کو عوام، خاص طور پر نوجوانوں کی قیادت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔مودی کی سرکاری رہائش گاہ پر اجلاس منعقد کرنے کا مقصد یہ پروپگنڈہ کرنا تھا کہ کشمیری گھر کے لوگ ہیں۔ اصل توجہ نام نہاد بھارتی جمہوری عمل کو مستحکم کرنے پرہے۔وہ ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ کونسل انتخابات کی طرح اسمبلی انتخابات کا انعقادچاہتے ہیں جس پر زیادہ تر شرکاء نے رضامندی کا اظہار کیا۔ معاشرے کے تمام طبقات کے لئے حفاظت اور سلامتی کی فضا کو یقینی بنائے جانے کی ضرورت کا نعرہ لگایا جا رہا ہے۔ ــ’’دلی کی دْوری نیز' دل کی دْوری‘‘(دہلی سے دوری کے ساتھ ساتھ فاصلے) کو ختم کرنا یہی ہے کہ وہ پھر سے بھارت کے ڈرامہ الیکشن میں حصہ لیں تا کہ بھارت دنیا کو بتا سکے کہ یہی انتخابات ان کی آزادی ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں کچھ بھی نہیں، بھارت دنیا کو پھر سے دھوکہ دینے کے لئے نیا سٹیج تیار کر رہا ہے۔ اس کے کردار بھی یہی عبداﷲ اور ان کے اپوزیشن ہمنوا ہیں۔

بھارتی قیادت اودہلی کے مرکزی دھارے میں شامل جماعتوں کے مابین 5 اگست 2019 کے بعد پہلا رابطہ اسی طرز پر استوار ہوا ہے۔ آرٹیکل 370 کے تحت جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو کالعدم قرار دینا ، جموں و کشمیر اور لداخ کو کالونی کے بطور مرکزی علاقوں میں تقسیم کرناجیسے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ریاست کے چار سابق وزرائے اعلیٰ، جنہوں نے مودی کے ساتھ مباحثوں میں حصہ لیا، میں چار دہائیوں سے زیادہ اقتدار میں رہنی والی نیشنل کانفرنس کے فاروق عبداﷲ، عمر عبداﷲ، کانگریس کے غلام نبی آزاد اور پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی شامل تھے۔چار سابق نائب وزرائے اعلیٰ بھی اس میں شریک تھے۔ کانگریس کے تارا چند، پیپلز کانفرنس کے رہنما مظفر حسین بیگ اور بی جے پی کے نرمل سنگھ اور کوویندر گپتا،کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(سی پی آئی) کے رہنما محمد یوسف تاریگامی، جموں و کشمیر آپ پارٹی (جے کے اے پی) کے سربراہ الطاف بخاری، پیپلز کانفرنس کے سجادغنی لون، جے کے کانگریس کے سربراہ جی اے میر، بی جے پی کے رویندر رائنا اور پینتھرس پارٹی کے رہنما بھیم سنگھ بھی وفد کا حصہ تھے۔بھارتی مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ اس پر خوش ہیں کہ بھارتی پارلیمنٹ میں وعدے کے مطابق جموں و کشمیر میں حد بندی مشق اور پرامن انتخابات کا انعقاد اہم سنگ میل ہو گا۔شاہ نے ایک ٹویٹ میں کہا، ''ہم جموں و کشمیر کی ہمہ جہت ترقی کو یقینی بنانے کے لئے پرعزم ہیں، جموں و کشمیر کے مستقبل پر تبادلہ خیال کیا گیا اور پارلیمنٹ میں وعدے کے مطابق، ریاست کی بحالی کے سلسلے میں حد بندی مشق اور پرامن انتخابات اہم سنگ میل ہیں۔''وہ کہتے ہیں کہ میٹنگ انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ شاہ نے ٹویٹ میں کہا، ''ہر ایک نے جمہوریت اور آئین سے وابستگی کا اظہار کیا، جموں وکشمیر میں جمہوری عمل کو مستحکم کرنے پر زور دیا گیا‘‘۔

محبوبہ مفتی نے کشمیر پربات چیت کرنے اور اس میں پاکستان کو بھی شامل کرنے پر زور دیا۔ یہ ان کا سیاسی سٹنٹ ہے۔ جیسے شیخ محمد عبداﷲ ہاتھ میں سبز رومال اور پاکستانی نمک سے کشمیریوں کو جھانسہ دیتے رہے ، اسی طرح محبوبہ مفتہ بھی سبز رنگ کا دوپٹہ اور فیرن پہن کر عوام کو چکر دی رہی ہیں۔ بھارتی آئین کا آرٹیکل 370اور35اے کی بحالی کی صورت میں ریاست کی بحالی اور خود مختاری کی باتیں عوام کو کیسے ہضم ہو سکتی ہیں۔ یہ سب آزادی پسند عوام کا مقصد نہیں۔ نہ ہی ان کی منزل ہے۔ نیشنل کانفرنس کا اندرونی خود مختاری کا نعرہ بھی ہوا میں ہو چکا ہے۔ حریت کانفرنس اور جہاد کونسل کو گو کہ بھارت نوازوں کو یہ باور کرانا ہے کہ بھارت کا کوئی بھروسہ نہیں۔ اسے کشمیریوں پر اعتماد نہیں۔ بھارت کی نظر میں ہر کشمیری مشکوک اور غدار ہے۔ تب ہی سابق ریاستی حکمران بھی جیلوں کی ہوا کھا چکے ہین جیسے شیخ محمد عبداﷲ نے کھائی تھی۔ اس لئے کم از کم مشترکہ پروگرام کے تحت کشمیریوں کو نئی نسلوں کی آزادی اور بھارت کی گلامی سے نجات کے لئے رابطے استوار کرنا ہیں۔ اگر اب بھی بھارت کو کندھا دینے اور کرسی کے لئے عوام کا سودا کیا گیا تو حالات بے قابو ہو جائیں گے۔ جیسے افغانستان مین طالبان نے منظم جدوجہد کی۔ وہ جھکے نہیں۔ پوری دنیا ان کے آگے ڈھیر ہو گئی۔ اسی طرح کشمیری بھی مایوسی کو چھوڑ کر منظم جدوجہد کریں تو بھارت کے قبضے سے جان چھڑا سکتے ہیں۔ قوموں کے عزم اور استقلال اور مستقل مزاجی کو کو ئی جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی بھی شکست نہیں دے سکتی۔ مودی کا جھانسہ اکھنڈ بھارت کے لئے ہے۔ اگر بھارت نواز نہ سنبھلے تو نئی نسل ان کی ایمان فروشی اور غداری کو تاریخ کا بدترین اور سیاہ دھبہ قرار دے گی۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 487564 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More